Home » وانمباڑی کے پہلے گریجویٹ اور نظام حیدرآباد کے خاص سیکریٹری "امین جنگ بہادر” کی زندگی کا مختصر خاکہ اور 1927ء میں ان کا سفرِ وانمباڑی

وانمباڑی کے پہلے گریجویٹ اور نظام حیدرآباد کے خاص سیکریٹری "امین جنگ بہادر” کی زندگی کا مختصر خاکہ اور 1927ء میں ان کا سفرِ وانمباڑی

by زبان خلق
0 comment

احسان احمد کے (وانمباڑی، تملناڈو)

 

سر  امین جنگ بہادر کا اصل نام خطیب احمد حسین تھا ۔ آپ وانمباڑی کے مشہور و معروف خطیب خاندان کے ایک فرزندِ جلیل تھے۔ آپ کے والد کا نام خطیب محمد قاسم صاحب تھا جو ایک مشہور تاجر تھےآپکا شجرہ نسب یوں ملتا ہے :خطیب احمد حسین صاحب ابن خطیب حاجی محمد قاسم صاحب ابن خطیب قادر حسین صاحب ابن شیخ حیدر صاحب ابن شیخ احمد فقیہ صاحب۔شیخ احمد فیقہ صاحب کا تعلق بیجاپور سے تھا جنہیں نوابینِ آرکاٹ کے دور میں وانمباڑی میں خطابت کے منصب پر فائز کیا گیا اسی لئے ان کے خاندان کا نام خطیب پڑگیا۔

آپ کےچار بھائی تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : خطیب قادر بادشاہ صاحب بادشاہؔ ، خطیب عبدالکریم صاحب ، خطیب محمد عبداللہ صاحب اور خطیب محمد عبداللطیف صاحب ۔ آپ بھائیوں میں دوسرے تھے۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی خطیب قادر بادشاہ صاحب ایک مشہور شاعر تھے۔ جن کو وانمباڑی کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے۔

 

آپکی پیدائش وانمباڑی میں 11 اگست 1863 ء کو ہوئی۔ اردو، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم وانمباڑی میں حاصل کی۔ مدراس کے چرچ آف اسکاٹ لینڈ مشن انسٹی ٹیوشن سے میٹرک کیا۔ ملر کالج (موجودہ مدراس کرسچن کالج ) میں داخلہ لیا اور 1885ء میں بی ۔ اے کی ڈگری نمایاں کامیابی کے ساتھ حاصل کی۔ یونیورسٹی کے تمام امیدواروں میں آپ دوسرے نمبر پر رہے۔ اس طرح سے آپ وانمباڑی کے پہلے گریجویٹ بنے۔ 1888ء میں پریسی ڈینسی کالج سے آپ نے بی۔ ایل۔ کی ڈگری حاصل کی اور مدراس میں اس وقت کے مشہور و معروف بیرسٹر یارڈلی مارٹن کی نگرانی میں وکالت کے ابتدائی مراحل طے کئے۔ اسی دوران آپ مدراس یونیورسٹی میں اردو ، فارسی اور عربی کے ممتحن کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1890ء میں مدراس یونیورسٹی سے آپ نے ایم۔ اے۔ کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا ۔ آپ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے مدراس یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال مدراس ہائی کورٹ میں وکالت بھی شروع کردی۔1891ء میں  آپ ضلع چتور کے  ڈپٹی کلکٹر اور ڈپٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر مقرر کئے گئے ۔ لیکن تھوڑی ہی مدت بعد آپ نے ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کی اور دوبارہ وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

1893ء میں آپ ایک مقدمے کے سلسلہ میں حیدرآباد کے نظام کی ہائی کورٹ میں حاضر ہوئے۔ آپ کی خدمات سے متاثر ہوکر آپکو نظام حکومت میں آصف جاہ ششم میر محبوب علی خان کا معاون پیشی سیکرٹری مقرر کر دیا گیا ۔ 1896ء میں جب سرور جنگ پیشی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو سر امین جنگ کو پیشی سیکرٹری مقرر کر دیاگیا۔  نظام ششم کو سر امین جنگ پر پورا بھروسہ تھا۔انہوں نے نظام کی بھر پور خدمت کی۔ 1905ء میں نظام کے چیف سکریٹری منتخب کئے گئے۔ 1911ء میں جب میر محبوب علی خان کا انتقال ہوا تو سر امین جنگ نے استعفیٰ دے دیا لیکن آصف جاہ ہفتم نواب میر عثمان علی خان نے انہیں خدمت میں رہنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے نظام ہفتم کا بھی مکمل بھروسہ اور اعتماد جیت لیا۔ 1917ء میں آپ کو "نواب امین جنگ بہادر” کے خطاب سے نوازا گیا۔

دو بار مدراس ایکزیکیوٹیو کونسل کی رکنیت کا آفر آیا تو آپ نے نظام کے حکم سے اسکو قبول نہیں کیا۔انگریزی حکومت کی طرف سے 1911ء میں آپ کو سی۔ ایس۔ آئی (CSI – Companion)اور 1922ء میں کے۔ سی۔ آئی ۔ ای۔ (KCIE – Knight Commander)کے خطابات ملے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو یل۔ یل۔ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔ آپ ترقی کرتے ہوئے 1914ء میں صدر المہام (وزیر اعظم) پیشی کے منصب پر فائز ہوئے۔ سالار جنگ سوم کے ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم کا پورا کام آپکے ذمہ سپرد کردیا گیا۔

1902ء میں نظام ششم کے پیشی سیکریٹری کے طور پر دہلی دربار میں شرکت کی جس میں بادشاہ ایڈورڈ ہفتم (King Edward VII)اور ملکہ الیکزینڈرا (Queen Alexandra)کی بطور شہنشاہ اور مہارانئ ہندوستان کی جانشینی کا جشن منایا گیا۔1911ء میں نظام ہفتم کے چیف سیکریٹری کے طور پر دہلی دربار میں شرکت کی۔ یہ دربار بادشاہ جارج پنجم (King George V)اور ملکہ میری (Queen Mary)کے چند ماہ قبل برطانیہ میں تاجپوشی کی یاد میں منعقد کیا گیا۔جس میں ہندوستان کے ہر گورنر اور تمام شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کو مدعو کیا گیاتھا۔ 1930ء میں لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس (Round Table Conference)میں آپ نے حیدرآباد کے نظام کی نمائندگی کرنے والے وفد کے ایک ممبر کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں مہاتما گاندھی نے بھی شرکت کی تھی۔

آپکے کے بڑے بھائی خطیب قادر بادشاہ صاحب نے 1918ء میں طبع ہوئی اپنی کتاب "گلزاربادشاہ” کے دیباچہ میں اپنے بھائی سر امین جنگ بہادر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی تنخواہ تین ہزار روپئے تھی۔

1935ء میں آپ نے حکومتِ نظام کی خدمت سے سبکدوشی حاصل کی۔ آپ کا انتقال 28 اگست 1950ء کو حیدرآباد میں ہوا۔

انتہا درجہ کے خوش خلق، علم دوست ، شریف النفس اور اپنے آقا کے وفادار و جاں نثار شخصیت کے مالک تھے۔آپ کو کتابوں سے بے حد دلچسپی تھی آپ کی اپنی ایک ذاتی لائبریری بنام "امین منزل لائبریری” پورے حیدرآباد میں مشہور تھی۔ اس میں وہ تمام کتابیں شامل تھیں جو آپ نے اپنے بچپن سے جمع کی تھیں۔ اس لائبریری کا طبع شدہ کیٹالوگ (Catalogue) آج بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ جسے 1941ء میں طبع کیا گیا جو 396 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے آغاز میں سر امین جنگ نے لکھا ہے کہ "اسکول کی کتابیں، کالج کی نصابی کتابیں اور کچھ کتابیں جو انعام کے طور پر حاصل کی گئ تھیں 55 سال پہلے اس لائبریری کا آغاز بنی تھیں۔ یہ کتابیں ‘ہر چیز کے بارے میں کچھ جاننے اور کسی ایک چیز (یعنی فلسفہ اور قانون) کے بارے میں سب کچھ جاننے’ کے لئے جمع کی گئیں”۔ آپ کی وفات کے بعد اس لائبریری کو آپ کے فرزندان نے حیدرآباد کے اردو ہال اسو سی ایشن کو عطیہ کردیا۔

آپ نے دو کتابیں لکھی ہیں جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں طبع ہوئیں۔ پہلی کتاب The Philosophy of Faqirs کا اردو ترجمہ خود سر امین جنگ نے کیا ہے اس کا موضوع تصوف ہے اور دوسری کتاب Notes of Islamکا ترجمہ مولوی علی شبیر صاحب نے کیا ہے جس میں اسلام کی خوبیوں کو بیان کیا گیا ہے۔

 

سر امین جنگ بہادر کا سفر مدراس اور وانمباڑی:

1927ء میں پینتیس سال بعد آپ نے وانمباڑی کا سفر کیا۔ اس سفر کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے فرزند محبوب حسین صاحب کی شادی مدراس کےمشہور رئیس خان بہادر محمد عبدالقدوس بادشاہ صاحب کی صاحبزادی سے طئے پائی جو مدراس لیجسلیٹیو کونسل کے سابق رکن اور شریفِ مدراس تھے۔ بتاریخ 13 جون 1927ء کوسر امین جنگ خاص سرکاری ٹرین میں حیدرآباد سے روانہ ہوئے اور 14 جون کی شام کو مدراس پہونچے۔ اسٹیشن پر احباب کی جانب سے پرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ ٹھاکر باغ واقع پطرس روڈ رائی پیٹھ میں قیام کیا۔ 16 جون کو صبح کے ساڑھے سات بجے آپ کے فرزند کا نکاح عمل میں آیا۔ 17 جون کو نمازِ جمعہ مسجدِ بڑی میٹ میں ادا کی وہاں کے تاجرانِ چرم خصوصاً اہالیان وانمباڑی، آمبور ، پیارم پیٹھ و میل وشارم نے آپ کا پرجوش استقبال کیا۔

اگلے تین دن آپ مدراس ہی میں رہے دورانِ قیامِ مدراس آپ نے متعدد نکاح کی محفلوں میں شرکت کی اور چند انجمنوں  کا دورہ بھی کیا مثلاً انجمن صوفیہ اور مسلم ہائی اسکول۔ اس کے علاوہ مدراس کے عمائدین نے آپ کو چائے نوشی کے لئے مدعو کیا جس میں آپ نے کئی عمائدین سے ملاقاتیں کیں مثلاً نواب سی عبدالحکیم صاحب ، افضل العلماء مولوی محمد عبدالحق صاحب ، خان بہادر قادر نواز خان صاحب (سابق ڈسٹرکٹ کلکٹر) ، خان بہادر الحاج محمد عبدالعزیز بادشاہ صاحب (سابق سفیرِ روم) ،  مولانا عبدالجبار صاحب ، مولوی حاجی خواجہ شاہ ہدایت اللہ علی صاحب ضوؔ چشتی القادری اور خان بہادر حاجی حکیم عبدالعزیز صاحب  وغیرہم۔ اس کے علاوہ مشہور شاعر اسمعیل سیٹھ مغمومؔ صاحب کے گھر تشریف لے جاکر ان کی عیادت بھی کی۔

21 جون کی دوپہر کو اپنی خاص ٹرین سے اپنے وطنِ مالوف وانمباڑی کے لئے روانہ ہوئے۔ وانمباڑی کو پہنچنے سے قبل آمبور کے اسٹیشن میں لوگوں کا ایک جمِ غفیر آپ کے دیدار کے لئے جمع تھا جنھوں نے پھولوں کے ہار سے آپ کا پُر جوش خیر مقدم کیا اور سپاس نامے پیش کئے۔ شام کے ساڑھے چار بجے وانمباڑی کے اسٹیشن پہنچے۔ میونسیپل چیرمین حاجی عبدالرحیم صاحب نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور فوٹو لی گئی۔ وہاں سے بذریعہ کار جلوس کے طور پر شہر کا گشت کیا گیا۔ آپ نے اپنے قدیم مکان واقع گوئندپور (مسلمپور) میں قیام فرمایا۔ یہ مکان بعد میں پلن خلیل الرحمٰن صاحب نے خرید لیا ۔ 21 جون کی شام سے اگلے دن کی شب تک آپ وانمباڑی میں رہے۔ جس میں آپ  نے ذیل میں درج وانمباڑی کے سارے انجمنوں کا دورہ کیا :- انجمن خیر خواہ عام ، مدرسہ نسوان ، مسلم سوسائٹی ، اسلامیہ ہائی اسکول ، اسلامیہ کالج و ہاسٹل اور تاج کلب ۔ مسجد قدیم اور مسجد قلعہ میں نمازیں ادا کیں۔ مسجد قدیم کے قبرستان میں اپنے آبا و اجداد کے قبور کی زیارت کی۔ ڈی حاجی عبداللہ صاحب کے مکان میں ناشتے کی دعوت میں شرکت فرمائی۔ ہر جگہ عمائدین شہر نے آپ کا خوب خیر مقدم کیا ان میں سے چند کے نام حسب ذیل ہیں : چولورم حاجی زین العابدین صاحب (سابق جنرل سکریٹری انجمن خیر خواہ عام) ، ملیالم حاجی عبدالرحیم صاحب (سابق صدر وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی) اور مولوی الحاج ضیاءالدین محمد صاحب (سابق صدر وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی) وغیرہ۔ سارے شہر کو اور خاص کر اداروں کو خوب سجایا گیا تھا ہر جگہ آپ کے خیر مقدم میں نظمیں پڑھی گئیں اور آپ کی خدمت میں سپاس نامے پیش کئے گئے۔ 22 جون کی رات کو میل ٹرین سے مدراس کو روانہ ہوگئے۔ 23 جون کی شام کے پانچ بجے مدراس وکٹوریہ ٹون ہال (نزد مدراس سینٹرل ریلوے اسٹیشن)  میں مسلم اور غیر مسلم عمائدینِ شہرِ مدراس سے خطاب کیا۔ جس میں وی۔ تروملائی پلائی (سابق پریسیڈنٹ مدراس کارپوریشن ) ، ڈاکٹر سی۔ نٹیسن (جسٹس پارٹی کے بانی) ، مولانا یعقوب حسن سیٹھ صاحب (سابق جنرل سکریٹری وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی و رکن مدراس لیجسلیٹیو کاؤنسل)اور عبدالحمید خاں صاحب (سابق رکن مدراس لیجسلیٹیو کاؤنسل) نے بھی خطاب کیا۔ شب کے آٹھ بجے بذریعہ کلکتہ میل نواب صاحب اپنے اہل و عیال کے ساتھ حیدرآباد کے لئے روانہ ہوگئے۔ اگلے دن شام کے پانچ بجے بخیر و عافیت حیدرآباد پہنچ گئے۔

آپ کے اس سفرِ مدراس اور سفرِ وانمباڑی کی تفصیلات کو آپ کے بھتیجے خطیب عبدالرشید صاحب ابن خطیب قادربادشاہ صاحب نے مرتب کرکے ایک کتاب کی شکل میں طبع فرمایا جس کا نام "ارمغان شادی” ہے۔ یہ کتاب 52 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ کے سفر کی تفصیلات کے علاوہ 14 تصویریں ، 18 نظمیں ، 5 سپاس نامے ، ان سپاس ناموں کا جواب اور وانمباڑی کے مشہور اخبار "رہبر "میں آپ کے بارے میں چھپی ہوئی معلومات بھی شامل ہیں۔

اس کتاب میں وانمباڑی کے مشہور شعراء پٹیل عبدالرزاق صاحب افسرؔ ، کشنگری محمود الحسن محمودؔ صاحب ، منشی سید جلال الدین صاحب گھائلؔ ، مولوی الحاج فضل اللہ صاحب ، پٹیل عبدالحمید صاحب اکبرؔ ، ماسا عبدالسبحان صاحب شاہؔ اور مدراس کے منشی محمد انصرالدین صاحب بیخودؔ ، محمد علی صاحب علیؔ ، اسمٰعیل سیٹھ مغمومؔ صاحب ، حکیم سید شاہ محمد صبغۃ اللہ صاحب حسینی القادری نورؔ کے علاوہ حیدرآباد ، نندیال ، شاہ آباد اور بنگلور کے شعراء کی لکھی ہوئی نظمیں بھی شامل ہیں اس میں چند نظمیں آپ کے فرزند کے نکاح کے موقع پر لکھی گئی قطعاتِ تاریخ ہیں اور زیادہ تر نظمیں سر امین جنگ کے خیر مقدم میں لکھی گئیں۔

اس کتاب میں انجمن خیر خواہ عام ، مسلم سوسائٹی ، اسلامیہ کالج ، تاج کلب اور اہالیان شہر مدراس کی جانب سے دئے گئے سپاس نامے شامل ہیں۔ ان سپاس ناموں میں ان اداروں کی تاریخ ، ان کی ملی، ادبی اور علمی خدمات اور گذارشات کے علاوہ وانمباڑی کی تاریخ کا بھی تذکرہ شامل ہے۔ اس کتاب میں میرےبڑے دادا یعنی میرے دادا حیدرالحسن صاحب حیدرؔ کے بڑے بھائی محمود الحسن صاحب محمودؔ کی لکھی ہوئی تین نظمیں بھی شامل ہیں جن میں سے دو نظمیں انہوں نے خود سر امین جنگ اور جمیع احباب کے سامنے پڑھکر سنائی تھیں۔

آخر میں سر امین جنگ کا سفرِ وانمباڑی پر اخبار "رہبر "میں چھپی خبر کا ایک مختصر سا حصہ شامل کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیں جسے اس اخبار کے ایڈیٹر متور عبدالقادر خالصؔ صاحب نے لکھا تھا۔

"21 جون 1927ء وانمباڑی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیگی۔ کیونکہ اس دن وانمباڑی کے ایک مقتدر فرزند کے لئے اس شہر کا ہر ذرہ بے قرار تھا اور اس کی آمد کی ہر گلی چشم براہ ، لاکھوں انسانوں کے مضطرب دل عقیدت مندانہ جوش کے ساتھ جس مبارک ہستی کے استقبال کو تڑپ رہے تھے اس کا نام محبوب خطیب احمد حسین ہے۔ ہماری مسرت کی انتہا نہیں رہتی جب ہماری نگاہیں اس لعل بے بہا سے منور ہوتی ہیں جو تقریباً تیس پینتیس سال تک بدخشان وطن سے جدا رہ کر اپنی ولادت گاہ طرف (گو کہ صرف مختصر قیام کی غرض سے ہی) کوہ وقار بن کر لوٹتا ہے۔ و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر۔ انک علی کل شئی قدیر۔” (ارمغان شادی ، صفحہ 24-25، 1927ء)

 

سر امین جنگ بہادر  کے چند تصاویر بمع تفصیلات

 

سر مضمون  تصویر1- سر امین جنگ بہادر کا تاج کلب وانمباڑی کے ممبران کے ساتھ گروپ فوٹو

بیٹھے ہوئے (نیچے سے پہلا لائن – بائیں سے) : گنڈو محمد ابراہیم صاحب ، نور عبدالشکور صاحب ، وانیکار عبداللہ صاحب ، سید عباس صاحب ، او۔یف۔احمد حسین صاحب ، سید عبدالعلیم صاحب ، مدیکار عبدالشکور صاحب ، ڈکو عبدالعزیز صاحب ، خطیب عبدالوہاب صاحب

بیٹھے ہوئے (نیچے سے دوسرا لائن – بائیں سے) : مولوی پیر قطب الدین احمد صاحب ، ڈکو عبداللہ صاحب ، نئی کار مولانا صاحب ، حاجی عبدالرحیم صاحب ، سر امین جنگ بہادر ، کے۔ عبداللطیف صاحب (سر امین جنگ بہادر کے خاص سکریٹری) ، خطیب محمود حسین صاحب (سر امین جنگ بہادر کے فرزند) ، اے۔ بی۔ عبدالعزیز صاحب ، ڈاکٹر یم۔عبداللہ صاحب ذوقیؔ

کھڑے ہوئے (نیچے سے تیسرا لائن – بائیں سے) : کشنگری محمودالحسن صاحب محمودؔ ، ملیالم عبدالسبحان صاحب ، ٹی۔ ظہیر الدین صاحب (ترچناپلی) ، ویلور عبدالوہاب صاحب ، پی۔ یس۔ عبدالشکور صاحب ، پلسرک عبدالرحمٰن صاحب ، بنگلور عبدالرزاق صاحب ، یس۔ بی۔ عبدالحمید صاحب ، کاکا محمد اسمٰعیل صاحب ، جمبو عبداللطیف صاحب ، پلن عبدالوہاب صاحب ، ملیالم عبدالشکور صاحب ، عطار احمد حسین صاحب ، یس۔ بی۔ عبدالوہاب صاحب

کھڑے ہوئے (نیچے سے چوتھا لائن – بائیں سے) : یس۔ ٹی۔ عبدالقدوس صاحب ، چلمکار عبدالمالک صاحب ، آلتور محمد یحییٰ صاحب ، پیر نجم الدین احمد صاحب ، خطیب عبدالسبحان صاحب ، حافظ محمد ابراہیم صاحب ، بی۔ یس۔ عبدالوہاب صاحب ، جمبو محمد غوث صاحب ، چولورم عبدالقدوس صاحب ، پلیگنڈے عبدالقدوس صاحب

 

 

2- نواب سر امین جنگ بہادر

2- آصف جاہ ششم میر محبوب علی خان اور نواب سر امین جنگ بہادر

2- (بائیں سے) سر امین جنگ بہادر ، راجہ کرشن پرشاد اور ڈاکٹر رابندرناتھ ٹیگور

 

 

 

3-   کتاب "ارمغان شادی” کا سرورق

3- وانمباڑی ریلوے اسٹیشن پر سر امین جنگ بہادر کا خیر مقدم ، ٹرین سے اتررہے ہیں۔ آپکے دائیں جانب حاجی عبدالرحیم صاحب اور بائیں جانب نئی کار مولانا صاحب

3- مجلسِ ضیافت بمکان ڈی حاجی عبداللہ صاحب وانمباڑی

 

4- تاج کلب وانمباڑی میں منعقد ٹی پارٹی میں لیا گیا ایک اور فوٹو

 

 

 

 

 

5- جناب ڈی عبداللہ صاحب وانمباڑی کے مکان میں بعد ضیافت لیا گیا فوٹو

 

 

 

 

 

6- "مسلم سوسائٹی” وانمباڑی میں لیا گیا فوٹو

 

 

 

 

حوالہ جات:

1۔ اسٹار ڈائرکٹری ، مملکت حیدرآباد دکن۔

2۔ جلال عرفان صاحب ، وانمباڑی میں اردو ادب کی ایک صدی ، فروری 2022ء

3۔ خطیب عبدالرشید صاحب ، ارمغان شادی ، 1927ء

-٭-٭-٭تمام شد٭-٭-٭-

You may also like

Leave a Comment