ڈاکٹرجی امتیاز باشاہ
جہاں تک اردو صحافت اور اس کے مسائل کاتعلق ہے وہ بے شمار ہیں اور امکانات نہ ہونے کے برابر ۔ اب وہ دور ختم ہوگیا جب صحافت ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا ، اسے وطن اور قوم کی بھلائی کے لئے استعمال کیا جاتا تھااور اس کو زندگی کا ایک مشن بنا کر نیک مقاصد کے حصول کاکام لیا جاتا تھا۔
کسی بھی شعبے کی ترقی اس سے وابستہ افراد کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور اہلیت کی مرہون منت ہوتی ہے ۔ اس پس منظر میں اردو صحافت اور صحافیوں کی تربیت کے مسئلے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اردو صحافت کو پر کشش بنانے اور نئی نسل کو اس کی طرف متوجہ کرانے میں زمینی صورتحال بڑی مایوس کن ہے۔ وسائل کی کمی اور خود اردو دان طبقے کی بے توجہی ، انگریزی اور علاقائی زبانوں کی صحافت کا معیار ایسے کئی گھمبیر مسائل ہیں جن سے اردو صحافت آجکل بر سر پیکار ہے ۔
جہاں تک اردو دان طبقے کی اردو سے بے توجہی کی بات ہے اردو دان طبقے نے اردو زبان کو عام بول چال کی زبان کی حیثیت سے تو اپنا لیا مگر جب تعلیم کی بات چلی تو اپنے بچوں کو اس سے دور رکھا۔ انگریزی اور علاقائی زبان کو فوقیت دی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اردو زبان ، سمٹ کر صرف بولی بن کر رہ گئی ۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جس کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ آج جن اصحاب نے خود کو صحافت کے پیشے سے وابستہ کر رکھا ہے ان میں اکثریت نے اپنے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی لحاظ سے اس پیشے کو بڑی حد تک وقار بخشا ہے ۔
صحافت حکو مت کی تیسری آنکھ ہوتی ہے اور جمہوریت کا چوتھا ستون ۔ صحافت مقدس پیشہ ہے جوعوام تک سچائی پہنچاتا ہے۔ اس کے لئے اخبار ایک ذریعہ اور ترجمان ہوتا ہے۔
اردو اخبارات کے مسائل دوسری زبانوں کے اخبارات کے مسائل سے بہت مختلف ہیں ۔ ایک طرف وسائل کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف پڑھنے والوں اور وہ بھی خرید کر پڑھنے والوں کی شدید قلت ہے ۔ ایسے میں ، اعتبار، سنجیدگی ، معیار اور وقار کو برقرار رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے بیشتر اخبارات اعلی معیار کے ہونے کے باوجود انگریزی، علاقائی اور دوسری زبانوں کی ہمسری نہیں کر پاتے ہیں۔ آج بھی عوام کے لئے اخبارات بنیادی ضروریات میں سے ایک ہیں ۔ لوگ اخبار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اردو دان طبقے کی بات ہے ان کا یہ معمول بنتا جارہا ہے کہ وہ خود اردو اخبار خرید کر نہیں پڑھتے بلکہ ادھار مانگ کر یا مفت میں پڑھنا چاہتے ہیں۔
اردو صحافیوں کی تربیت کا مسئلہ اردو تعلیم سے بھی جڑا ہے۔ اسلئے آج اردو تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک ہم اردو تعلیم کے معیار کو بہتر نہیں بنائیں گے اس وقت تک اردو صحافت کے معیار کو بلند نہیں کر سکتے۔ یہاں پر میں اس بات کی طرف بھی متوجہ دلانے کی کوشش کروں گا کہ اردو تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے پہلے بنیادی اردوتعلیم کو مستحکم کرناضروری ہے۔آج کل ہماری ریاست ٹمل ناڈو کے ہر اسکول میں ٹمل اور انگریزی زبان میں دل چسپی اوررجحان پیدا کر نے کے لئے نت نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں ۔ حکومت لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے ابتدائی تعلیم پانے والے بچوں کو کہانیوں کی کتابیں مع رنگین تصاویر ، آسان اور سہل زبان میں مہیا کرارہی ہے۔ ایک صفحہ میں تصویر کے ساتھ صرف ایک جملہ ہوتا ہے کہ بچہ با آسانی تصویر دیکھ کر اور نیچے دئے گئے جملوں کو بڑی حد تک شناخت کر لیتا ہے اور ہجے کے ذریعے اس کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مواقع بچوں کو تدریس کے دوران نہیں بلکہ دوپہر کے کھانے کے بعد ڈیڑھ سے دو بجے کا جو درمیانی وقفہ ہوتا ہے اس وقت ایسی کتابیں دی جاتی ہیں ۔ اس کا بھی ایک دل چسپ انداز یہ ہے کہ ہر کلاس میں ایک ‘‘ کلی پندل’’ ہوتا ہے ، اس میں کہانیوں کی کتابوں کو اس سلیقے سے ٹانگا جاتا ہے کہ سر ورق ( ٹائٹل پیج )بچوں کو دور ہی سے دکھائی پڑتا ہے جس سے بچوں کے تجسس میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ جلد از جلد کھانے کے بعد اس کتا ب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
افسوس صد افسوس کے ہمارے یہاں ابتدائی جماعتوں کے بچوں کے لئے اردو کی کوئی معقول کہانی کی کتابیں نہیں ہوتی تاکہ بچوں کی توجہ اور دل چسپی ان کی طرف مبذول ہو ۔ ابتدائی تعلیم ہی سے بچوں میں اردو سے دل چسپی کم اور اور دوسری زبانوں میں زیادہ ہونے لگتی ہے ۔ ہمیں اس کمی کو پوراکرنا چاہییے تاکہ ہماری نئی نسل ابتداء ہی سے اردو کے لذت و حلاوت سے محظوظ ہو اور یہ ننھا پودا جب تناور درخت بنے تو اس میں اردو کے پھول اور پھل لگے۔
تحریری اور تقریری مقابلے ، ڈرامہ ، مکالمہ ، بیت بازی ، شعر و شاعری کا انعقاد ابتدائی جماعتوں ہی سے ہو ، تاکہ اردو زبان کی چاشنی بچوں کے دل میں سرایت کر جائیں، ان میں اردو سے دل چسپی اور لگن پیدا ہو ۔ اگر ہم ابتدائی مدارج میں اس کو ممکن بنادیں تو ہمیں صحافت کی منزلوں کو طے کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ہمیں لوگوں میں اردو سے دل چسپی کو بڑھانے کے لئے نت نئے انداز اپنانا چاہئے۔ ارد و صحافت میں آج تربیت کے لئے نئی جہتوں کی ضرورت ہے۔ یوں تو اسکولوں میں اسمبلی میں اخبار کی سرخیوں کو طلباء پڑھ کر سناتے ہیں ۔ اگر یہی کلاس روم کے اندر ہم طلباء کو بحیثیت خبر رساں بناکر یہ موقع دیں تاکہ ان کے اندر صحافت کی صلاحیت اجاگر ہو تو بہت بہتر ہوگا۔ گاہے بہ گاہے ہم اس تربیت کے لئے صحافیوں کی مدد لے سکتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری زبانوں میں موجود کہانیوں کے ترجمے اردو میں کراکر باقاعدہ تربیت کا آغاز کر سکتے ہیں۔
یہ وہ امکانات ہیں جن پر غور کرنے کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔ پیشہء صحافت صحیح معنوں میں خوابوں اور خواہشوں کی ایک پرورش گاہ ہے۔ صحافی بننے کے عمل کی شروعات سے ہی ایک طالب علم کو یونیورسٹی اور حقیقی ماحول کے درمیان تضاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جب تک ہم اس تضاد کو ختم نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری اردو صحافت کو تراشیدہ ہیرے نہیں مل سکیں گے۔
یہاں ایک اور بات میں کہنے کی جراء ت کروں گا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جو حکومت ہند کی آرگنزائشن ہے وہاں سے بڑوں اور بچوں کے لئے نہایت معیاری ادبی رسالے نہایت سستے داموں میں ہر ماہ شائع ہوتے ہیں،ا ن رسالوں اور جریدوں کے خریدار بنیں اور زیادہ سے زیادہ منگوا کر پڑھنے اور پڑھانے کا چلن عام کریں ۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ گھروں میں بزرگ بچوں کو کتابیں منگوا کر پڑھاتے اور سنا یاکرتے تھے۔ چوں کہ آج کل کمپیوٹر کا دور ہے توایسے میں بچوں کو اردو سے ہم آہنگ کرنے کے لئے آن لائن خریدار بنائیں اور بچوں کو اس سے واقف کرائیں۔
وقت کا تقاضا اور نئے ماحول سے تعلق بنائے رکھنے کے لئے ہم انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ باضابطہ طور پر اردو پڑھانے اور اپنے گھروں ہی سے اردو بیداری کا سلسلہ شروع کریں۔ ہماری نئی نسلوں کو یہ باور کرائیں کہ اردو زبا ن میں جو چاشنی ہے وہ دوسری کسی زبان میں نہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں جو اردو کے اجلاس ہوتے ہیں ان میں ہمارے شہروں کے بزرگ اور اہم ذمہ داران وقتی طور پر شرکت کرتے ہیں پھر چپ سادھ لیتے ہیں ۔ اگر یہ حضرات مستقل طور پر متحد ہو کر اردو کی ترویج و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے تو ہماری زبان و ادب کا تحفظ ہوگا۔ خصوصا مالدار طبقہ اس ضمن میں آگے آئے اور اس نیک مقصد کی تکمیل میں بھر پور تعاون کریں۔
اردو رسالوں کی صورت حال یہ ہے کہ دو ایک اردو کے محسنین اپنے صرفِ خاص سے اردو کے ماہنامے نکال رہے ہیں ۔ اگر اُن محبان اردو کو مستقل فنڈ جاری ہوجائے تو یہ استقلال کے ساتھ اپنے رسالے ہر ماہ اہتمام سے جاری کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ماشاء اللہ لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ مختلف موضوعات پر ادبی و دینی مضامین اورہمارے اسلاف کے کارناموں کو ان سے لکھوا کر کتابی صورتوں میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ہماری اردو تقریبات میں ایسی ٹھوس اسکیمیں بنائی جائیں جن میں اس طرح کے اشاعتی پروگرام پر عمل پیرائی ہو ۔ یہی وقت ہے کہ اردو والے اجتماعی طور پر ٹھوس مطالبات پر پوری ذمہ داری سے گفت و شنید کریں تاکہ اردو زبان کو نئی ضمانت مل سکے۔
یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ اس سنگین دور میں بھی اردو صحافت نے عوام کو سہارا دیا اور دے رہی ہے ۔ موجودہ دور حکومت میں جس طرح سیاسی چالوں نے صحافت پر اپنا دبدبہ کیا ہوا ہے، اس سے صحافت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ صحافت اور صحافیوں کا خمیر دراصل ، ہمت ، دیدہ دلیری ، جواں مردی ، بے باکی ، بلند حوصلہ سے مزین ہونا چاہئے ۔ ان میں صحافتی دیانتداری ہونی چاہئے۔ دور دور تک بھی ان میں خیانت نہیں ہونی چاہئے۔ افسوس کے آج کے موجودہ دور میں چند ایک صحافیوں کو چھوڑ کر تمام پر سیاست کا غلبہ طاری ہے۔ آج کل کی سیاست بھی صحافت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے بلند حوصلگی اور بے باکی کی صفت مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ خوف کا غلبہ طاری ہونے کی وجہ سے صحافی اپنے نیک جذبات اور روشن خیالات کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر ہے ۔ سچائی پر ہی صحافت کی تعمیر ہوتی ہے۔ صحافی دن بھر کے واقعات کو تحریری شکل دے کر خوبصورت آواز میں سجا کر رنگین تصاویر کے ذریعے عوام تک پہنچا کر ذہنی و دلی سکون حاصل کرتا ہے۔
موجودہ دور کے نئی نسل کے صحافیوں کوکٹھن حالات میں سینہ سپر ہو کر اپنی شناخت قائم رکھنی ہوگی۔ اسلاف کے کارناموں کو یاد کرنا ہوگا جنھیں بے باک صحافت کی وجہ سے توپ میں باندھ کر اُڑا دیا گیا تھا ۔ حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد ، محمد علی جوہر ، ظفر علی خان، ڈاکٹر منور حسن کمال نے اردو صحافت کو کمال عروج دیا، یہ صاحب کمال حضرات جو بھی لکھتے اس کو بر صغیر ہند ہی میں نہیں افق پار برطانیہ حکومت میں بھی اس کے اثرات دکھائی پڑتے تھے۔ یہ نامور حضرات اپنی صحافت میں دینی معلومات کو بھی قائم و دائم رکھتے تھے جس کی وجہ سے دنیاوی معلومات کے ساتھ دین سے آگاہی بھی ہمیں مل جاتی تھی۔
بات سمیٹتے ہوئی بس اتنی عرض کر نی ہے کہ اردو صحافت کا سب بڑا مسئلہ ، اردو زبان کی تحفظ اور بقا کا مسئلہ ہے۔ جب تک اردو زبان کی تحفظ اور اس کی ترویج کے لئے مناسب اقدامات نہیں ہونگے تب تک اردو صحافت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ جہاں تک امکانات کی بات ہے، اگر دل میں ٹرپ اور جستجو ہے تو ایک تنکا بھی سمندر پار کرنے کے لئے بہت ہے ۔ امید پر دنیا قائم ہے ، کوشش کرنا ہمارا کام ہے ، زبانی جمع خرچ سے نکل کر کوشش کے میدانوں میں آجائیں تو ہم اور آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔
شکریہ جزاک اللہ خیرا کثیرا