سخنوران ناگپور کے زیر اہتمام عالمی آن لائن مشاعرے میں معروف شاعر مرحوم ظفر کلیم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا.
عالمی مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ محترمہ نسرین سید (کینیڈا) نے کی۔
سخنوران ناگپور کے منتظم اور معروف شاعر جناب شمشاد شاد نے عالمی شہرت یافتہ شاعر، مفکر، صحافی اور محقق مرحوم ظفر کلیم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا.
جناب توفیق انصاری احمد (شکاگو)، جناب شفیق مراد(کینیڈا)، انجینئر سلیم کاوش (سعودی عرب) صاحبان نے مہمانان خصوصی اور جناب وحید القادری، سلیم محی الدین اور مختار تلہری صاحبان مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شامل ہو کر تعزیتی مشاعرے کو وقار بخشا-
ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل (پاکستان) کے بانی اور مشہور گرافکس ایکسپرٹ جناب کامران عثمان نے جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پرومو ویڈیوز اور اشتہارات کے ذریعے پروگرام کو شہرت کی بلندیاں عطا کروانے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی-
ساڑھے چار گھنٹے چلے اس برقی اہتمام کو بڑی تعداد میں ناظرین نے فیس بک اور یو ٹیوب پر براہ راست دیکھا اور خوب محظوظ ہوئے-
————————————————
سخنوران ناگپور، بزم ارباب سخن، شکاگو، اور ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل (پاکستان) کے مشترکہ زیر اہتمام بروز اتوار مورخہ 29 دسمبر 2024 کو بھارتی وقت شب 9.00 بجے بذریعہ زوم شہر ناگپور (انڈیا)سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت کے حامل معروف شاعر مرحوم ظفر کلیم صاحب جو حال میں اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ایک بین اقوامی آن لائن مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا. مشاعرے کی صدارت کینیڈا سے معروف شاعرہ محترمہ نسرین سید نے کی.
تقریب کی شروعات جناب کامران عثمان نے تلاوت قرآن پاک سے کی۔ بعد تلاوت محترمہ شہناز رضوی (کراچی) نے نعت پاک پڑھیں. سخنوران ناگپور کے منتظم اور معروف شاعر جناب شمشاد شاد نے عالمی شہرت یافتہ شاعر، مفکر، صحافی اور محقق مرحوم ظفر کلیم صاحب کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ کی مغفرت کی دعا کی. ارباب سخن شکاگو کے جناب افضال الرحمن نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کی.
اپنے صدارتی خطبے میں محترمہ نسرین سید نے کہا کہ وہ اس انعقاد سے بہت متاثر ہوئیں اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگرام کا انعقاد کرتے رہنے کی تلقین کی تاکہ دنیا بھر کے شعرائے کرم ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنی فکر سے ایک دوسرے کو روشناس کرتے رہیں. محترمہ ممتاز ملک (کینیڈا) نے مشاعرے کی نظامت بہت ہی خوبصورتی سے انجام دی اور کہیں بھی پروگرام کو بوجھل ہونے نہیں دیا. مکمل پروگرام ساڑھے چار گھنٹے چلا- تقریب کو فیس بک پر براہ راست نشر کیا گیا جس میں کافی تعداد میں ناظرین آن لینے جڑ کر لطف اندوز ہوئے- کل ملا کر بہت ہی کامیاب انعقاد ہوا. آخر میں سخنوران ناگپور کے جناب شمشاد شاد نے ہدیہ تشکر پیش کیا-
مشاعرے میں پڑھے گئے کلام کے دو دو اشعار قارئیں کے ادبی ذوق کی نذر پیش کے جاتے ہیں-
نسرین سید (کینیڈا)
آنکھ رہتی ہے جھکی وقتِ تکلم ان کی
ہم بھی اُن کو دمِ گفتار کہاں دیکھتے ہیں
طالبِ جنسِ وفا ہیں جو خریدار یہاں
لاکھ ہو گرمئی بازار، کہاں دیکھتے ہیں
ڈاکٹر توفیق انصاری (شکاگو)
رنگ احساس کا ، کیوں زرد ہے،اب کیا کہئے
درد ، اپنا بھی ، عجب درد ہے،اب کیا کہئے
خوب دیکھا ہے ، تماشے پہ ، تماشہ ، توفیق
پھر ، ہتھیلی پہ ، نئی نرد ہے،اب کیا کہئے
شمشاد شاد(ناگپور،انڈیا)
عالم اسی کے نور سے ہے ضوفشاں جناب
ہے اس کی ذات پاک بڑی مہرباں جناب
اپنی بلندیوں کا اِنہیں تھا گماں جناب
کہلاتے یہ کھنڈر تھے کبھی بستیاں جناب
مختار تلہری (انڈیا)
جب کرتی ہے اچھائی برائی کا نظر فرق
تب کرتےہیں محسوس کہیں قلب وجگرفرق
دشوار بہت ہوتے ہیں پھر زیست کے لمحے
آ جائے مزاجوں میں ذرا سا بھی اگر فرق
افضال الرحمن افسر (شکاگو)
عشق میں جاں کا زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
درد لذت میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
انکی آنکھوں میں ابھر آۓ ہیں آنسوں افسر
تجھ میں یہ زور بیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ڈاکٹر ندیم ابن منشا (ناگپور)
عمرخضری کی دعا دے کے چلا جاتا ہے
کتنی سنگین سزا دے کے چلا جاتا ہے
چارہ گر بن کے جو أتا ہے وہی شخص ندیم
زخم دل مجھ کو نیا دے کے جاتا ہے
پروفیسر سلیم محی الدین (پربھنی)
مری ہر ادا تھی قلندر صفت
بدلتے ہو خود بھی تو منظر صفت
ہمارے زمانے میں ایسا نہ تھا
بزرگوں کے قصے صفت در صفت
سلیم کاوش
وہ جن کو تم میری کمزوریاں سمجھتے ہو
مروتیں وہ مِری ذات کی علامت ہیں
۔۔۔۔۔
تُو گیا ہے تو اَمَاوَس کی سمجھ آئی ہے
ورنہ ہر شَب شَبِ مہتاب ہوا کرتی تھی
ڈاکٹر منیر الزماں منیرؔ (شکاگو)
دل رکھتا ہوں ایسا کوئی خواہش نہیں کرتا
یہ بات الگ ہے کہ نمائش نہیں کرتا
جس چیز پہ حق ہے مرا لے لیتا ہوں بڑھ کر
اس چیز کی خاطر میں گزارش نہیں کرتا
عابد رشید (شکاگو)
وہ جو انداز زمانے سے جدا چاہتا ہے
جلد وہ شخص بھی ہم جیسا ہُوا چاہتا ہے
کیا بھلا ہو کہ وہ ہو جائے ہمارا اِک دن
دیکھنا یہ ہے خُدا کس کا بھلا چاہتا ہے
پروفیسر احمد عبد الحکیم (شکاگو)
سموسہ منہ میں رکھا تھا کہ دورہ پڑ گیا دل کا
گر پایہ نھاری نوش فرماتا تو کیا ہوتا
رقیب روسیاہ نے چھپ کے دکھلائ مجھے خنجر
اگر شمشیر میں اپنی بھی چمکاتا تو کیا ہوتا
نوید جعفری (حیدرآباد)
میں ہوں چراغِ دیر و حرم تیرا پا کے ساتھ
یا تو سنبھا لے یا چلا میں ہوا کے ساتھ
محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اۓ نویدؔ
دیدِ رسولِ پاکؐ تو ہوگی خدا کے ساتھ
محشر فیض آبادی (ممبئی)
مجھ کو یارو جلال آتا ہے
جب بھی کھانے میں بال آتا ہے
چپ میں رہتا ہوں اس لئے محشر
رنڈوے پن کا خیال آتا ہے
جمیل ارشد خان (ناگپور)
یہ سانحہ ہے کہ اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں
منافقت کی حدیں پار کرنے والے لوگ
وجود مٹنا پے جب دونوں صورتوں میں ہی
سو اب کے جانبٍ صحرا مرا بہاؤ ہے دوست
اشتیاق کامل (ناگپور)
احتیاط اپنی جگہ’لیکن نہ سوچا تھا کبھی
وہ محبت بھی کرے گا استخارہ دیکھ کر۔
وہ تو محشر میں اچانک اٹھ گئ چشم کرم
ورنہ میں گھبرا گیا تھا گوشوارہ دیکھ کر
آرکٹیک عبد الرحمن سلیم (شکاگو)
کچھ بتاؤ تو میرے شہر کی فضاء کیسی ہے
دشمنی کیسی ہے یاروں کی وفا کیسی ہے
میں بھی حیراں ہوں کہ اس دور ترقی میں سلیم
سر پہ چھائی ہوئی کالی یہ گھٹا کیسی ہے
ڈاکٹر ثمیر کبیر (ناگپور)
وہ اک گمان یقیں اور اک خیال کہ بس
جو میرا حال ہے ہوجاے تیرا حال کہ بس
ترے بغیر فقط اس گماں پے کاٹی ہے
ابھی جو ہجر ہے، تھا وہ کبھی وصال کہ بس
مہتاب قدر (جدہ)
الٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
اس سے پہلے کہ تم کنارا کرو
اک دفعہ اور استخارا کرو
مشتاق رفیقیؔ اسانغنی (چینئی، تامل ناڈو)
صبح کے بھولے ہوئے شام کو گھر جاتے ہیں
ہم بھی کچھ ایسے ہی جیتے ہوئے مر جاتے ہیں
علم کی پیاس لئے پھرتی ہے ملکوں ملکوں
ہم کمانے کو کہاں لعل و گہر جاتے ہیں
شہناز رضوی، کراچی(پاکستان)
تو باندھ بس اک بار ارادہ دل سادہ
ممکن نہیں پھر راہ بھٹکنا دل سادہ
کس طرح سمیٹوں گی یہی سوچ رہی ہوں
دیکھا نہ گیا تیرا بکھرنا دل سادہ
طاہرہ ردا (شکاگو)
ہم نے تو چلو تھا عشق کیا، ہم پہ تو کوئی اِلزام بھی تھا
کیوں شام ہوۓ ان گلیوں میں پھرتے ہیں دیوانے اور بہت
ہم سادہ لوح ہیں لوگوں کی باتوں میں یونہی آ جاتے ہیں
اِک تم پر ہی موقوف نہیں ہیں لوگ سیانے اور بہت
مظہر قریشی (ناگپور)
زنگ الود روایات سے کیا لینا ہے
ہم کو فرسودہ رسومات سے کیا لینا ہے
یہ ضروری ہے محبت میں وفادار رہیں
چھوڑیے اپ کو اس بات سے کیا لینا ہے
نعیم انصاری (ناگپور)
صلیب و دار ہے لہجہ غزل کا
میاں تلوار ہے لہجہ غزل کا
نظر کس کی لگی ہے اس حسیں کو
بہت بیمار ہے. لہجہ غزل کا
ولی الدین ولی (شکاگو)
میں بھی بوڑھا ہوں رہا ہوں ولی
ہو گیا اس کا احساس کل مجھے
جس شوخ و چنچل کے دیوانے تھے ہم
اس حسینہ نے کہہ دیا انکل مجھے
راز رنگونی (شکاگو)
مرے پاس ہی مرا پیار ہے
دل و جاں سے مجھ پہ نثار ہے
کئی رنگ راز نے دیکھے پر
ٰیہ بسنت رنگ بہار ہے
ممتاز ملک (پیرس)
یوں نہ کاذب بنیں اور مکر و واویلا کیجئے
راکھ ہو جاتے ہیں شعلوں سے نہ کھیلا کیجئے
ان کے دم سے ہے زمانے کے چراغوں میں یہ لو
سچے لوگوں کو نہ منظر سے دھکیلا کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔