جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
حضرت امام حُسینؓ کی شہادت کا سانحہ اسلامی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جو تا قیامت ہر اُس انسان کو جس کے سینے میں کسی کے ذرا سے دکھ درد پر ٹرپ اٹھنے والا دل ہو رلاتا رہے گا۔ آپ پر اور آپ کے اہل و عیال پر جو گذری وہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی پر گذری ہو۔ محض اس لئے کہ آپ نے اپنے اصولوں سے سمجھوتا کرنے اور اپنی فکری آزادی سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا، آپ کے اور آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ بد ترین سلوک کیا گیااور بے دردی سے آپ کو اور آپ کے خاندان کے تمام مردوں کو سوائے ایک خیمے میں رہ جانے والے بیمار کے شہید کردیا گیا۔ اور یہ سب ان بد بختوں نے کیا جو آپ کے نانا کے دین کا دم بھرتے تھے اور اپنی ہر نماز میں ان کے اہل وعیال پر سلامتی کی دعائیں بھیجتے تھے۔ منافقت کی ایسی انتہا دنیا نے کبھی نہیں دیکھی کہ جن کی وجہ سے روم و فارس کی حکومتیں ان کے زیر اقتدار آئیں ان ہی کے اہل بیت کو ان جاہ پرستوں نے بڑی بے رحمی کیساتھ قتل کرڈالا، ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اپنے حلقے میں ایک دوسرے کے سامنے طشت میں رکھ کر اپنے فتح کے نشان کے طور پر پیش کیا،ان کی عورتوں کو ننگے سر بازاروں میں گھمایا اور دربار میں انہیں قیدیوں کی طرح کھڑا کروایا۔اسی پر بس نہ کرتے ہوئے ظلم و بربریت کی اس داستاں کو سختی کے ساتھ دہائیوں تک پھیلنے سے روکا گیا اور عوام کے بیچ میں کئی طرح کے جھوٹ پھیلا کر امام حسینؓ اور اہل بیت کی مظلومیت اور اپنے بد ترین جرم کو گھٹا کر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی اور افسوس یہ کوشش اس سانحہ کے گزرنے کے چودہ سو سال بعد آج بھی جاری ہے۔
سب سے بڑی اور حیرت کی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گذر گیا،مورخوں اور راویوں نے اس پر لاکھوں صفحات سیاہ کردئے لیکن آج تک امت اپنے پیارے رسولؐ کی آل پر ڈھائے گئے اس ظلم و شقاوت پر ایک متفقہ اوراجماعی ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام ہے۔ ایک طبقے میں آل رسولؐ سے محبت اور عقیدت کے نام پر اتنا غلو پایا جاتا ہے کہ وہ اُس دور کے اکثر کلمہ گو اور دانستگی یا نادانستگی میں حالات کو اس موڑ تک لانے والے تمام اشخاص کو مرتد اور قابل عتاب سمجھتا ہے اور ان پر لعن طعن کرنے کو دین سمجھے ہوئے ہے تو ایک دوسرا طبقہ اس واقعے کا سارا الزام حضرت حُسینؓ پر ڈال کر ان کے قاتلین کو حق پر قرار دینے کے لئے روایات کی من گھڑت تاویلات پیش کرتا رہتا ہے۔ تیسراطبقہ اصحاب رسول سے محبت اور عقیدت کا نام لے کر اس سانحہ پر سکوت قائم رکھنے کو احسن سمجھتا ہے، حالانکہ اصحاب رسول نے غلط کو غلط کہنے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیا، سچ کے لئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے، انصاف پر کبھی بھی محبت اور عقیدت کو غالب آنے نہیں دیا۔ آج کل تو اس طبقے میں اپنے نظریے کو لے کر اتنا غلو پیدا ہوگیا ہے کہ وہ پہلے والے طبقے کی طرح جو اہل بیت کو معصوم سمجھتے ہیں یہ اصحاب کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے۔ چوتھا طبقہ ان کا ہے جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہادت حسینؓ کے اصل ذمہ دار کون ہیں اوریہ مذموم واقعہ کیوں پیش آیا اس کے اسباب سے بھی یہ واقف ہیں لیکن اپنی سیاسی مجبوریوں اور وجوہات کے بنا پر بظاہر تو امام حسینؓ کومظلوم شہید مانتے ہیں لیکن عملاً ان کے قاتلین کے طریقے کو افضل سمجھ کر اسی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ کرسی اور عہدے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جانے کو غلط نہیں سمجھتے۔ پانچواں طبقہ ان کا ہے جو اس پورے واقعے کو محبت و عقیدت کی نظر سے نہیں قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ طبقہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود روز اول سے اپنے اصولوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ چاروں طبقوں کی مخالفت جھیلتے ہوئے ہر ایک سے دوسرے کی طرفداری کا طعنہ برداشت کرتے ہوئے یہ طبقہ حق پیش کرنے سے کبھی غافل نہیں رہا۔ شہادت حسینؓ اس طبقے کے نزدیک محض ایک واقعہ نہیں ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر حق اور باطل کو آسانی سے پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا وہ موڑ ہے جہاں سے حریت پسندوں اور سرفروشوں کا قافلہ جاہ پرستوں اور دنیاوی مقاصد کے لئے ظلم و جبر کی حمایت کرنے والوں سے الگ ہو کر نمایاں ہوگیا اور قیامت تک آنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کرگیا۔
شہادت حسینؓ پر امت کے اختلاف نے اسلام کے ایک اہم بنیادی اصول مشاورتی جمہوریت کو اس قدر دھندلادیا کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں یہ امت ایک لمبے عرصے تک یا تو شخصی بادشاہت کے زنجیروں میں جکڑی رہی یا طوائف الملوکی کے صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ ہر طرف عوامی حکومت کا چرچا ہے نام نہاد مسلم ریاستوں میں بٹی یہ امت کہیں شخصی بادشاہت تو کہیں فوجی ڈکٹیٹروں،کہیں باطل نظریاتی شدت پسندوں تو کہیں جمہوریت کے نام پر غاصب سرمایہ داروں کے زیر نگیں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اسے اس بات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں امت کو آج اپنے درمیان موجود چھوٹے بڑے اکثر فلاحی اداروں میں بھی ان ہی حالات کا سامنا ہے۔ قاتلان حسین ؓکے روحانی پیروکار کرسی اور عہدے کے لئے حق اور انصاف کا خون کرنے سے ذرا بھی شرمائے بغیر اپنے گھٹیا افعال کی ایسی خوشنما تعبیریں پیش کرتے ہیں کہ شیطان بھی شرماجائے۔ ریاست و حکومت کے بڑے بڑے شعبوں سے لے کر چھوٹے بڑے تمام فلاحی اداروں میں موروثیت اب ایک تسلیم شدہ قابل تقلید امر ہے، اسی طرح قابل شخصیات کو نظر انداز کرکے اپنے حاشیہ نشینوں کو نوازنا معمول بن گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسا کرنے والوں کی صف اول میں وہ صاحبان علم دانش بڑے جاہ جلال کیساتھ نظر آتے ہیں جن کی زبانیں امام حسینؓ اور ان کے اصولوں کی مدحت میں ہمیشہ رطب السان رہتی ہیں۔
کاش کہ امت شہادت امام حسینؓ کا اصل سبق شرح صدر کے ساتھ پڑھ لے اور اس کے پیغام کو پالے۔ کاش کہ امت قاتلان حسینؓ کو پہچان لے تاکہ ان کی روحانی ذریت کی ریشہ دوانیوں سے ہر قدم پر ہوشیار رہے۔ کاش امت کی آنکھوں پر غلو اور اندھی عقیدت کے پردوں کے بجائے قرآن و سنت کا چشمہ لگ جائے۔ کاش اے کاش!!
1 comment
MASHA ALLAH NIHAYATH HI MALOOMATI MAZMOON JAZZAK ALLAH KHAIR