Home » رمضان المبارک،غم خواری کا مہینہ اور شہرِ وانم باڑی

رمضان المبارک،غم خواری کا مہینہ اور شہرِ وانم باڑی

by زبان خلق
0 comment

جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
ماہِ رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ معتبر مہینہ ہے جس کا تقدس مُسلّم ہے۔ اس مہینے میں جہاں مسلمانوں کے درمیان رجوع الاللہ کا شوق بڑھ جاتا ہے وہیں آپس میں ہمدردی اور غم خواری میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ روزوں کے ساتھ نماز کی پابندی، تراویح کا اہتمام اور اس کے ساتھ ساتھ زکواۃ کی ادائیگی، صدقہ و خیرات کا رجحان اس ماہِ مبارک کی ایسی خصوصیات ہیں جنہیں دیکھ کر سرورِ کائناتؐ کی اس حدیث پر” ماہِ رمضان میں سرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے”، بے اختیار آمنا صدقنا زبان سے نکل جاتا ہے۔
رمضان المبارک کو ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، روزے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں لیکن سب سے بڑا فائدہ اور مطلوب اصحاب شریعت یہی ہے کہ اس سے فاقے کی تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے اورغرباء و مساکین کے ساتھ دل میں ہمدردی اور یگانیت کا جذبہ جاگتا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا،اس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرائض کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے،آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔۔۔ شعب الایمان للبیہقی
اس حدیث میں سب سے زیادہ زور ہمدردی اور غم خواری کے نام پر کھلانے پلانے پردیا گیا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے ذریعے صاحبِ شریعت مسلمانوں میں جذبہءِ اخوت و ہمدردی اور آپسی بھائی چارگی کا فروغ چاہتے ہیں وہیں مسلمانوں میں صبر، نفس کشی اور ہر قسم کی رنجشوں اور تلخیوں کو جھیلنے کا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
معارف الحدیث میں اس حدیث کی شرح کے تحت درج ہے: اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کے تئیں ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: ” اس بابرکت مہینے میں اہلِ ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ” اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحبِ ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔
الحمد اللہ ہمارے شہر وانم باڑی میں رمضان المبارک میں غرباء اور مساکین کی خبر گیری اور ان کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کی روایت بہت پہلے سے موجود ہے اور آج بھی یہاں کی اکثریت اس کی پاسداری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کارخانوں میں سالانہ بونس کے علاوہ ملازمین کو زکواۃ اور ہدیہ کے نام پر معقول رقم دینے اور کام کے حوالے سے ان کے ساتھ نرمی برتنے کا رجحان ہنوز باقی ہے۔ رئیس التجار حضرات کی جانب سے ہزاروں غرباء اور مساکین کو راشن کٹس بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ عام کارباریوں اور چھوٹے دکانداروں میں حتی المقدور اپنے ملازمین کے ساتھ خیرخواہی اور روزہ کے اوقات میں چھوٹ دینے کا مزاج موجود ہے۔ گھروں کی خواتین میں بھی اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں دینے میں فراخی عام سی بات ہے۔ یہ دینی مزاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہر کے عام مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت میں دینداری باقی ہے جس کے لئے بے اختیار اپنے ان دور اندیش بزرگوں کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے شہر میں دینی ادارے، مدرسے اور مکاتب کے جال بچھا کر اس مزاج کو قائم رکھنے میں دامے درمے سخنے بے شمار قربانیاں دیں۔
شہر کی مسجدوں میں گنجی کا جو نظام قائم ہے وہ آج کے دور میں غرباء مساکین اور ان سفید پوش نادار لوگوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں جو ہاتھ پھیلانے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں ان کی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ معتبر لوگوں سے کئی محلوں کے شرفاء کے تعلق سے معلوم ہوا کہ مسجد کی گنجی ہی ان کے دستر خوان پر روزہ افطار کی واحد پکی ہوئی غذا ہوتی ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جب کہ ضروری اجناس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اس گنجی کی اہمیت کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے جس کی آمدنی سے گھر میں ایک وقت کا چولھا جلنا بھی دشوار ہو۔ الحمد اللہ اس نظام کے لئے جہاں حکومت کی جانب سے چاول سستے داموں میں مہیا کیا جاتا ہے وہیں شہر کے دو چار معتبر اور صاحب دل گھرانوں کی جانب سے اجناس بغیر کسی شورشرابے کے مسلسل فراہم ہورہے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ اسی طرح باقاعدہ شہر کی ہر مسجد میں عوام کے لئے افطاری کا انتظام بھی موجود ہے جس کے وسیع دستر خوانوں پر اس محلے کے ساکنین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک سحری کے کھانے کا سوال ہے شہر میں ابھی تک اس کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں بنی ہے۔ کچھ صاحبِ خیرحضرات رمضان کے تمام راتوں میں پیکڈ کھانا مہیا کرارہے ہیں لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ امسال سے نیوٹون کی مسجدِ قبا میں مسجد خدمت کمیٹی کی جانب سے سحری کے کھانے کا انتظام بہت احسن طریقے سے کیا گیا ہے جس سے اس محلے کے کئی افراد فیضیاب ہورہے ہیں۔ لیکن اگر یہ انتظام شہر کی ہر مسجد میں گنجی اور افطاری کے طرز پر ہو جائے تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا۔ شہر کے کئی محلے ایسے ہیں جہاں غربت اس حد تک پیر پسار چکی ہے کہ مہینوں گذر جاتے ہیں ان کے یہاں اچھا کھانا نہیں پکتا۔ ایسے محلوں میں خصوصاً اور شہر کے تمام محلوں میں عموماً اگر رمضان المبارک کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام ہو جائے تو جہاں اس سے کئی گھرانوں کو سحری میں اچھا کھانا کھانے کو ملے گا وہیں کئی غرباء اور سفید پوش حضرات کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوگا۔ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شہر کے کئی محلوں اور مسجدوں میں سحری کا شاندار انتظام رہتا ہے لیکن یہ کسی نظام کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے اتنا فائدہ مند نہیں ہوتا،پھر بھی یہ غنیمت ہے کہ اس سے کئی روزہ داروں کو پیٹ بھر کر سحری کے لئے اچھا کھانا مل جاتا ہے۔ اسی نہج پر اگر رمضان کی تمام راتوں میں شہر کے تمام مساجد میں سحری کا انتظام ہوجائے تواس سے جہاں ایک اچھی روایت قائم ہوگی وہیں دوسرے شہروں کے لئے بھی ایک مثال کے طور پراسے پیش کر سکیں گے۔ ذرا سوچئے حدیث کے ان الفاظ پر جن میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، کیاہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہونا نہیں چاہتے جنہیں بروز محشر ساقیءِ کوثر کے ہاتھوں جامِ کوثر پینا نصیب ہوگا؟ یقیناً ہم سب کی یہی تمنا ہوگی۔ اس کے لئے زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں بس روزہ داروں کے لئے سحری کا انتظام کر کے انہیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر بروزِ محشر سردار انبیاء کے ہاتھوں سے ہم جام کوثر پی کر سیراب ہو سکتے ہیں۔
شہرِ وانم باڑی کے تمام ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ کھلانے پلانے کی سنت کو ماہِ رمضان کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام کر کے زندہ کریں اور جس طرح گنجی اور افطاری کا نظام مساجد کے تحت بحسن و خوبی انجام پارہے ہیں اس کار خیر کو بھی اسی نظام کے ساتھ جوڑ کر شہر کے نادار، غریب اور کئی سفید پوش حضرات کا بھرم رکھتے ہوئے انہیں مساجد میں سحری کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائیں، مساجد کے نظام کو جس طرح آقائے دوجہاں سرورِ کائنات نے مسجدِ نبوی میں قائم کیا تھا اسی طرز پر چلاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسجد صرف عبادتوں کا گھر ہی نہیں ہمدردی اور غم خواری کا محور بھی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں سمجھ کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

You may also like

Leave a Comment