Home » پلی کاٹ کا سفر

پلی کاٹ کا سفر

by زبان خلق
2 comments

احسان احمد کے (وانم باڑی، تملناڈو)

بہت سالوں سے خواہش تھی کہ پلی کاٹ (پلاویرکاڈ) کا سفر کروں۔ دو ہفتے پہلے یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی۔ اس سفر کے ذریعہ میں نے پلی کاٹ کے بارے میں کافی معلومات حاصل کیں اور اس سے پہلے پلی کاٹ پر لکھے گئے مضامین تمل اور انگریزی میں پڑھے تھے جس کے ذریعہ سے جو کچھ بھی معلوم ہوا اسے یہاں قلم بند کررہا ہوں۔

پلی کاٹ مدراس سے60 کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں ساحل پر واقع ہے۔ پلی کاٹ ایک تاریخی شہر ہے جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی بستی ہے۔  پلی کاٹ شہر اور پلی کاٹ جزیرہ کے درمیان ایک جھیل واقع ہے جو ساحل کے ساتھ تقریباً 60 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہےیہ ایشیا کی دوسری سب سے بڑی جھیل ہےجس کا رقبہ 450 مربع کلومیٹر ہے۔تقریباً بیس سال پہلے اس جھیل پر ایک پُل تعمیر کیا گیا جو پلی کاٹ کے شہر اور جزیرہ کو جوڑتا ہے۔

پلی کاٹ میں پائی جانے والی قدیم مساجد اور مسلمانوں کی رہائش گاہوں سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی پوری تاریخ میں پلی کاٹ مسلمانوں سے آباد رہا۔پلی کاٹ کورومنڈل ساحل میں بسنے والی کئی ابتدائی مسلم بستیوں میں سے ایک ہےقدیم تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقریباً ہزار برس پہلے عرب کے حکمرانوں کے ظلم سے ڈرتے ہوئے کئی عرب مسلمان بحری جہازوں میں پلی کاٹ آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ یہاں پر مسلمانوں کے آباد ہونے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ پلی کاٹ ٹیکسٹائل کا مرکز تھا ایسی اشیاء کی پھلتی پھولتی تجارت شاید عرب مسلمان تاجروں کو اس خطے میں لائی اور یہاں سے وہ سمندر پار تجارت کرتے تھے۔ اس علاقے میں ڈچ کی آمد مسلمان تاجروں کے لئے ایک چیلنج بن گئی اور دھیرے دھیرے مسلمانوں کی تجارتی سرگرمیاں کم ہوگئیں۔

پلی کاٹ میں دو قدیم مساجد موجود ہیں۔ پیریا جامع پلی واسل (یعنی بڑی جامع مسجد) 17 ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مسجد آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے لیکن  اس میں کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ داخلی گیٹ پر پہلے جو چبوترہ موجود تھا اسے نکال دیا گیا ہے اور داخلہ کے گیٹ کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا ہےاس کے علاوہ ایک شاندار مینار بھی شامل کیا گیا ہے۔ اگر اس مسجد کی قدیم عمارت کے بارے میں بات کی جائے تو مسجد کے مرکزی حصے کے دروازے پر ایک چھوٹا سا ٹاور موجود ہے جس کی سیڑھیوں پر چڑھ کر موذن اذاں دیا کرتے تھے۔یہ مسجد پتھر سے بنی ہے۔ 16 ستون موجود ہیں۔چھت بھی پتھر کے سلیب سے بنی ہے۔ محراب کو پلاسٹروں سے آراستہ کیا گیا ہےمسجد کے اوپر کوئی گنبد موجود نہیں ہے۔اس مسجد کو ابتدائی اسلامی دراوڑین فنِ تعمیر کی علامت کہا جاسکتا ہے۔

پلی  کاٹ میں ایک اور قدیم مسجد بھی موجود ہے جسے چِنا پلی واسل (چھوٹی مسجد) یا المسجد المشرف کہا جاتا ہے۔ اس کے داخلی دروازے پر موجود عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے 1121 ھجری یعنی 1708 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس مسجد کو تعمیر کرنے والوں کے نام حسب ذیل ہیں: محمد پیر صاحب ، محمد علی نینا صاحب ، محمد پیر فقیر صاحب۔اب اس مسجد کو پوری طرح سے از سر نو تعمیر کردیا گیا ہے۔اس مسجد کی جو دلچسپ خصوصیت ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر ایک پتھر پر سن ڈائل (Sundial)یعنی دھوپ گھڑی موجود ہے جسے 1915ء میں نصب کیا گیا تھا اس پتھر پر جڑی ہوئی کیل یا پترہ کے سائے سے وقت معلوم کیا جاتا ہے۔ اس پتھر پر طلوع آفتاب یعنی 6 سے لیکر غروب آفتاب 6 تک کے اعدادموجود ہیں صرف 12 کی جگہ کیل موجود ہے۔ جس کا سایہ جس عدد پر پڑتا ہے وہ وقت تسلیم کیا جاتا ہے۔اس دھوپ گھڑی میں اردو عبارتیں موجود ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے محمد عبداللہ صاحب نے 1334ھجری میں تیار کیا اور اس کی تصحیح حضرت مولوی حاجی محمود صاحب نے کی تھی یہ دھوپ گھڑی مدراس کے متیال پیٹ سے تعلق رکھنے والے جناب حاجی محمد حسین صاحب بن قادر صاحب کی فرمائش پر ترتیب دی گئی۔عصر کی نماز کے وقت کا تعین کرنے کے لئے قاعدہ اس طرح لکھا گیا ہے کہ عصر اول یعنی عصر شافعیہ اور عصر ثانی یعنی عصر حنفیہ کے لئے مقیاس کے سرے کے سایہ سے وقت لیا جائے۔بڑی جامع مسجد کی طرح چھوٹی مسجد میں بھی اذاں کے لئے ٹاور بنایا گیا ہے۔

دھوپ گھڑی

پلی کاٹ اروی زبان کے لئے بھی بہت مشہور ہے۔ اروی جسے عرب تمل بھی کہا جاتا ہے ایک قدیم زبان ہے جو اس علاقہ میں کافی استعمال میں تھی۔ اس زبان میں تمل کو عربی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔ یہ زبان عربی بولنے والے مسلمانوں نے تیار کی تھی۔مذکورہ بالا دونوں مساجد کے قبرستانوں کے کتبوں میں تفصیلات عربی میں کندہ ہیں۔

پلی کاٹ سے صرف 80 کلومیٹر کے فاصلے پر سری ہری کوٹا واقع ہے جہاں پر ستیش دھون اسپیس سنٹر موجود ہے جو ہندوستان کے دو سیٹلائٹ لانچنگ مراکز میں سے ایک ہے۔

پلی کاٹ میں مسلمانوں کا ایک نو آباد محلہ جمیل آباد کے نام سے موجودہے۔ یہاں پر ایک نئی تعمیر شدہ مسجد بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1970 کی دہائی میں سری ہری کوٹا میں اسپیس سنٹر کا کام شروع ہوا تو یہاں آباد مسلمانوں کو جمیل آباد  کے علاقہ میں منتقل کردیا گیا۔

پلی کاٹ پر ہندو راجاؤں کے علاوہ پرتگلالیوں ، ڈچ اور انگریزوں نے بھی حکومت کی۔ آج سے ہزار سال پہلے یہ ایک بڑا بندرگاہ والا شہر تھا۔ یہاں پر آج بھی چولا دور کے دو ہندو مندر خستہ حالت میں موجود ہیں۔

پرتگالیوں نے وجئے نگر کے حکمرانوں کی مدد سے 1502 میں پلی کاٹ میں ایک تجارتی چوکی قائم کی۔ انہوں نے وہاں ایک قلعہ بنایا جس کا نام گیلڈیریا قلعہ (Fort Gelderia)ہے ۔اس قلعے کو پرتگالیوں نے 1609 تک اپنے قبضے میں رکھا جب انہیں ڈچ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ڈچوں نے 1609 میں پلی کاٹ کے قلعہ پر قبضہ کرلیا۔ پلی کاٹ 1690 تک ڈچ کورومنڈل کا دارالحکومت رہا۔ یہاں تک کہ آخر کار 1825 میں انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ انگریزوں نے اس قلعہ کو پوری طرح تباہ کردیا۔ انگریزوں کے دور میں پلی کاٹ مدراس پریذیڈنسی کا حصہ بن گیا، جو بعد میں آزاد ہندوستان میں مدراس ریاست کے تحت آگیا۔ 1968 میں مدراس ریاست کا نام تمل ناڈو رکھ دیا گیا۔

پلی کاٹ میں آج بھی ڈچ کا قبرستان (Dutch Cemetery) موجود ہے جسے 1622 میں قائم کیا گیا۔اس قبرستان میں مقبروں کے پتھروں کو خوبصورتی سے تراشا گیا ہے۔ جس میں دفن کئے گئے اشخاص کی تفصیلات بھی کندہ کی گئی ہیں۔ایک قبر پر پلی کاٹ کا نقشہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ تقریباً دو صدیوں تک ڈچوں کے اتنے کامیاب رہنے کی بنیادی وجہ یہی نقشے اور ڈرائنگ تھی جس میں انہیں مہارت حاصل تھی۔

پلی کاٹ میں عیسائیوں کے دو قدیم گرجا گھر موجود ہیں۔ ایک پرتگالیوں نے تعمیر کروایا تھا اور دوسرا ڈچوں نے بنایا تھا۔ پرتگالیوں کا تعمیر کردہ گرجاگھر اپنی نئی حالت میں موجود ہے جسے حال ہی میں از سر نو تعمیر کیا گیا۔

پلی کاٹ کی جھیل پرندوں کی ایک پناہ گاہ بھی ہے۔ یہاں پر فلیمنگو وغیرہ جیسے پرندوں کو ہر وقت دیکھا جاسکتا ہےاور پیلیکن ، سارس وغیرہ جیسے 80 ہزار سے زیادہ پرندے سردی کے موسم میں دور دراز کے ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آتے ہیں۔

-*-*-*-

 

You may also like

2 comments

MOYEEN KHATEEB جولائی 14, 2024 - 5:51 صبح

BEHTAREEN TAHREER,MALUMAT SAY BHARI

Reply
M A Noorullah ستمبر 3, 2024 - 2:56 شام

Very nice and eager to read about pulikat which I have been visited in 1073 with my office staff about 70 person s travelled in 2
buses as usual annual travelling from Highways department. Again will try to visit with whole family such a wonderful place.

Reply

Leave a Comment