Home » مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور عمائدین کی منافقت

مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور عمائدین کی منافقت

by زبان خلق

 

اسانغنی مشتاق رفیقی

جُرعات

ارض فلسطین پر اسرائیل کی وحشت ناک بمباری شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ اب بہت تیزی سے زمینی کاروائی بھی شروع ہوچکی ہے۔ درحقیقیت یہ ایک طرفہ جنگ ہے جس میں ایک طرف جدید ہتھیاروں سے لیس ایٹمی ملک ہے، جسے امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک  کی کھلی حمایت حاصل ہے جو ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہو کر اپنی  سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے پر آمادہ ہےاور دوسری طرف کئی دہائیوں سے اپنے ہی وطن کے ایک چھوٹے سے قطعے میں مبحوس نہتے انسانوں کا  جتھہ ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، پتھروں اور زنگ آلود ہتھیاروں کے بل پر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے ہزاروں ٹن بم  برسا کر ایک ہنستے بولتے شہر کو زمیں دوز کر دیا گیا ہے۔ یہ بموں کی برسات فوجی ٹھکانوں پر نہیں بلکہ عام انسانوں کی رہائش گاہوں پر ان کے اسکولوں پر ان کے ہسپتالوں پر ہوئی جو ایک بد ترین جنگی جرم ہے۔ اس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان کے نیچے آگئے، ہزاروں بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان مرد، ملبوں میں دب کر شہید ہوگئے اور کئی زندہ درگور ہوگئے۔ حاملہ عورتیں سڑکوں پر وضع حمل کے لئے مجبور ہوگئیں اور ان کے نومولود بچے  ننگے فرش پر بنیادی طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے آنکھ کھولنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں سوگئے۔ انسانی لہو کے چھینٹوں سے  سڑکوں اور دیواروں کی رنگت بدل گئی۔ انسانوں کے ایک گروہ پر صرف اس لئے کہ  وہ اپنی زمین پر آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں بدترین ظلم و ستم اور غارت گری کے ایسے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ شیطان بھی شاید ششدر رہ گیا ہوگا، لیکن افسوس اس دردناک سفاکی کو دنیا بھر کے صاحبان اقتدار خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی خون کی ایسی ارزانی ہے کہ وہ لوگ بھی جو ان مظلوموں سے علاقائی، نسلی اور مذہبی تعلق رکھتے ہیں مصلحت کے نام پر اپنی کرسی اور عیش و عشرت کی خاطر شترمرغ کی طرح منافقت کی ریت میں منہ ڈالے بیٹھے ہیں۔پتہ نہیں اس جنگ کا انجام کیا ہو گا ، لیکن جو بھی ہو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ نام نہاد ترقی اور انسانیت و امن کے آسمانوں کو چھونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود دنیا میں آج بھی اسی کی چلتی ہے جس کے پاس طاقت ہے یا جسے طاقتور کی حمایت حاصل ہے۔ طاقتور کا ہر گناہ ہر ظلم اس کی حکمت عملی اور نہتے کی ہر سچائی مظلومیت، بد ترین جرم ہے۔ طاقتور کو چاہے اس پر غلیل سے ایک پتھر ہی کیوں نہ پھینکا جائے فاسفورس بم جیسے خطرناک ہتھیار برسا کر بھی دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اس نہتے کو جس نے غلیل سے پتھر پھینکا اپنے اس جرم کی پاداش میں اس کے شہر کو مسمار کر کے اس کے اپنوں کا قتل عام کر کے اس پر اس کی ہی زمین تنگ  کر کے اس کا ایسا حال کیا جائے گا کہ اس کی سات پشتوں تک کوئی پتھر تو دور ہاتھ سے کنکر چھونے کی بھی ہمت نہ کرے۔

ظلم چاہے کتنا بھی بڑھ جائے آخر ایک دن انصاف کے آگے سر نگوں ہوکر رہے گا اور ظالم چاہے اپنی جیت پر کتنا بھی گھمنڈ کر لے اسکا انجام برا ہی ہوگا اور اسے اپنے کرموں کا حساب دینا ہی ہوگا۔ قدرت جب خاموش تماشائی بن جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مظلوم کی آہ و بکا بیکار جارہی ہے۔ خدا کی رسی کا ڈھیلا ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنے اصل کی طرف کھینچی جانے والی ہے۔ رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کے  انجام میں روشن سویرا پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لئے حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ فلسطین میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھنا ہے کہ ان کے غم میں نڈھال ہوکر سینہ کوبی کرنے والے ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے والے اور مسجدوں میں رو رو کر ان کے لئے دعا کرنے والے ہم،ہمارا اپنے ماحول میں اپنے لوگوں کےساتھ اپنے شب و روز میں رویہ کیسا ہے۔ ہم اپنے اعمال اور کرتوتوں سے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں یا اسرائیل کے ساتھ ۔

جہاں تک ہمارا اپنا حال ہے ہر جگہ بظاہر ہم کتنے ہی مسلکوں فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہوں لیکن حقیقت میں ہم میں دو ہی گروہ ہوتا ہے۔ پہلا گروہ ہمارے درمیان موجود اقتدار کے دائروں جیسے مسجدوں، درگاہوں، خانقاہوں، مدرسوں، اسکول و کالج، فلاحی ،سیاسی اور اصلاحی جماعتوں  پر قابض سرمایہ داروں کا ہے جو عرف عام میں عمائدین کہلاتے ہیں اور دوسرا عوام کا۔ ہم میں کا پہلا گروہ چاہے کوئی کتنی بھی تاویل پیش کر لے اس کا طرز عمل آج اسرائیل والا ہی ہے۔ موجودہ حالات میں یہی گروہ فلسطین پر سب سے زیادہ آنسو بہانے اور اس کی حمایت میں صف اول میں ہونے کا دعویدار ہے۔ ہر دو ایک دن میں جلسے جلوس اور احتجاج منعقد کرا کر عوام کے جذبات کا استحصال کرنا یہ خوب جانتا ہے اور اس طرح عوام کے درمیان یہ اپنی نیک نامی کا بھرم رکھنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن در حقیقت اپنی عملی زندگی میں یہ اسرائیل ہی کے طرز پر اپنے مفاد اور مطلب کے لئے نت نئے قانون وضع کرکےجس طرح فلسطین میں اس کے حقیقی باشندے اجنبی بنا دئے گئے اسی طرح عوام اور خاص کر انہیں جو اس پر سوال کھڑے  کرتے ہیں اپنے اقتدار کے دائروں میں آنے سے روک دیتا ہے اور پھر ان کے خلاف غلط پروپگنڈا کر کے  معاشرے میں الگ تھلگ کرا دیتا ہے۔ جس طرح اسرائیل اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے تاریخ اور تاریخی حقائق کو مسخ کر نے سے بھی نہیں چوکتا اسی طرح یہ اپنی انا، ضد اور کرسی کے گھمنڈ میں تاریخی حقائق کو توڑنے موڑنے اور ایسا بیانیہ تیار کرنے سے بھی نہیں چوکتا جن میں کچھ  تاریخی شخصیتوں کو صرف اس لئے نظر انداز کردیاجاتا ہے کہ ان کا تعلق اس پر سوال کھڑے کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ صہیونیت کے خلاف گھنٹوں بولنے والے یہ عمائدین اسرائیل کے طرز پر اقتدار اور اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے نہیں چوکتے۔ جس طرح اسرائیل اپنے کالے کرتوتوں اور ظلم کو امن اور انصاف کے خوشنما الفاظوں میں  پیش کرتاہے اسی طرح یہ اپنے شنیع افعال اور مفاد پرستانہ کارناموں کو طریقہ کار کا اختلاف اور دوراندیشانہ مصلحت کے غلافوں میں پیش کرتےہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فلسطین پراسرائیل جس بھیانک ظلم و ستم کو جاری رکھے ہوئے ہے اس کی کوئی بھی توجیہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اسرائیل کو اس قتل عام کا ایک نہ ایک دن حساب دینا ہی ہوگا اور وہ دن بہت ہی قریب ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے دنیا میں حکومتیں کفر و الحاد کے ساتھ تادیر چل سکتی ہیں لیکن ظلم کے ساتھ ان کی عمرکبھی طویل نہیں ہوتی۔ اس پس منظر میں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے معاشرے میں بھی ایک گروہ بالکل اسرائیل ہی کے طرز پر اقتدار اور چودھراہٹ قائم رکھنے کی خاطر ہر قسم کے زبانی اور فعلی ظلم و ستم  کو جائز رکھے ہوئے ہے اور خود کو  معصوم ثابت کرنے کے لئے عوام کے آگے فلسطین کی حمایت کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے۔ ایسے  میں ان منافقین سے بچنا اور اپنے معاشرے کو ان کے کرتوتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا پہلا فرض بنتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You may also like

Leave a Comment