Home » جب سنگِ بنیاد رکھا گیا

جب سنگِ بنیاد رکھا گیا

by زبان خلق
0 comment

احسان احمد کے، وانم باڑی (تملناڈو)

 

میں جب بھی اسلامیہ ہائی اسکول کی اِس عظیم الشان عمارت کو دیکھتا تھا تو اکثر سوچتا تھا کہ جس دن اس زبردست عمارت کی بنیاد رکھی گئی ہوگی اس وقت وانمباڑی میں کیسا ماحول رہا ہوگا۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ تقریب وانمباڑی کی تاریخ میں اب تک کی ایک تاریخی تقریب رہی ہوگی۔ جس کے چرچے دُور دُور تک رہے ہوں گےاور جسے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی ہوگی۔ جس میں بے شمار لوگ شامل رہے ہوں گے۔ حال ہی میں تحقیق کے دوران مجھے مدراس کے ایک پرانے اخبار "دی مدراس ویکلی میل ” (The Madras Weekly Mail)کا ایک شمارہ ملا جس میں اس تقریب کے بارے میں تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں نہ صرف مدرسۂ اسلامیہ کے قیام اور اس تقریب کے بارے میں تفصیلات شامل ہیں بلکہ وانمباڑی میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر مفصل طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں مندرجہ ذیل تفصیلات شامل ہیں:

سنگِ بنیاد رکھے جانے والے تقریب کی تفصیلات

اس سنگِ بنیاد کی تقریب میں منعقد تقریریں

مدرسہ کا مالی تعاون کرنے والوں کی تفصیلات

مسلم بچوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کی گئی کوششوں کی تفصیلات

مدرسہ کی رپورٹ

مدرسۂ اسلامیہ کی دوسری شاخوں کی تفصیلات وغیرہ

اس تفصیلی رپورٹ کے خلاصے کے ساتھ اصل اخباری تراشہ بھی منسلک کر رہا ہوں۔ براہ کرم ملاحظہ فرمائیں:

مضمون کا تفصیلی خلاصہ:

اس رپورٹ میں وانمباڑی محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ ایک اہم تقریب کی تفصیلات شامل ہیں۔ وانمباڑی محمڈن ایجوکیشنل سوسائٹی کو اب ہم مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس تقریب میں طلباء کو انعامات تقسیم کئے گئے اور مدرسۂ اسلامیہ یعنی اسلامیہ بائز ہائر سیکنڈری اسکول کی نئی عمارت کا سنگِ بنیاد بھی رکھا گیا۔ یہ تقریب وانمباڑی کے مسلمانوں کے لئے ایک جشن کے مانند تھی۔ اسکول کی عمارت جہاں تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا وہاں ایک وسیع پنڈال تیار کیا گیا ہال کو خوب اچھی طرح سے سجا یا گیا۔ اس تقریب میں نہ صرف وانمباڑی کے بلکہ آس پاس کے مختلف شہروں کے لوگوں نے شرکت کی جس میں علماء کی بھی کافی تعداد شامل تھی۔ اس تقریب کا مقصد یہ تھا کہ وانمباڑی میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر ہونے والی کاوشوں کو شہر اور بیرونِ شہر کے عوام کے مابین اُجاگر کیا جائے۔

ابتدائی میٹنگ:

اس تقریب کو اصل میں 3 اپریل 1907ء کو شروع ہونا تھا لیکن شرکاء کے زبردست جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بند تاریخ سے ایک دن پہلے ہی تقریب کا انعقاد کردیا گیا۔ پہلی میٹنگ 2 اپریل 1907ء کو ہوئی۔ اصل میں انتظامی کمیٹی نے جنوبی ہند کی دوسری صوبائی مسلم کانفرنس وانمباڑی میں منعقد کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیاتھا۔ اس لئے کمیٹی نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے سنگِ بنیاد کی تقریب سے ایک دن پہلے اسلامی تعلیم اور ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے لیکچرز کا اہتمام کیا۔

پہلے اجلاس کی صدارت شمس العلماء حاجی مولوی رکن الدین سید شاہ محمد صاحب قادری نے کی۔ آپ قطبِ ویلور حضرت مولانا سید شاہ عبداللطیف قادری صاحب کے فرزند اور دارلعلوم لطیفیہ ویلور کے مہتمم تھے۔

وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر حاجی مولوی ضیاء الدین صاحب نے اس تقریب میں شرکت کرنے والے سارے مہمانوں کا اور خاص کر علماء کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے وانمباڑی جیسے مسلمانوں کی کثیر آبادی والے قصبے میں مسلمانوں کے لئے ایک خاص اسکول کے قیام کی اہمیت اور ضرورت پر بات کی۔ اُنہوں نے مسلمان بچوں کی بہتری کے لیے انگریزی تعلیم کو بھی اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ باقیات الصالحات کے بانی شمس العلماء مولوی شاہ عبدالوھاب صاحب اعلی حضرت کے فرزند تھے اور باقیات الصالحات کے مہتمم کے علاوہ 1905 سے 1935 تک اور 1938 سے 1941 تک دو بار وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے صدر رہے۔

تعلیم اور ترقی پر تقریریں:

مولوی غلام محمد صاحب شملوی جو کہ ندوۃ العلماء سے منسلک تھےاور جن کا نام دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تاریخ میں ایک کامیاب سفیر اور ترجمان کی حیثیت سے لیا جاتا ہے  وہ بھی اس تقریب میں شامل رہے اور انہوں نے "ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ ضروریات” کے عنوان پر تقریر کی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ علماء کے اندر جدید تعلیم کو لیکر کافی شکوک و شبہات تھے، لیکن اب علماء نے بھی اس کی اہمیت کو پہچان لیاہے  بشرطیکہ یہ مذہبی تعلیم کے ابتدائی کورس پر مبنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید خطوط پر ترقی کے حامل رہیں گے۔

منصوبے کے تحت 3 اپریل 1907ء کو صبح کے 7:30بجے دوسری میٹنگ منعقد ہوئی جس میں تقریباً 4000 لوگوں نے شرکت کی۔ ذرا تصور کرکے دیکھیں ایک چھوٹے سے قصبے وانمباڑی میں جس کی کل آبادی اُس وقت تقریباً 16,000 رہی ہوگی اس بستی میں ایک ایسا جشن جس میں اتنی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک عظیم الشان جشن کے مانند رہی ہوگی۔ اس میٹنگ کی صدارت مسٹر ٹی ٹی لوگان نے کی جو ایکٹنگ ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن کے منصب پر فائز تھے۔ سب سے پہلے مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سدرن انڈیا کے جوائنٹ سکریٹری جناب اے حامد حسن صاحب نے مسٹر جسٹس بوڈام کا ایک خط پڑھ کر سنایا جو وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری جناب یعقوب حسن سیٹھ صاحب کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں جسٹس بوڈام نے مسلمانوں کی تعلیمی کوششوں اور ترقی کو خوب سراہا۔ انہوں نے جنوبی ہند کے مسلمانوں کی خود انحصاری اور اپنے تعلیمی ادارے خود بنانے کے عزم کی خوب تعریف کی، اُنہوں نے لکھا تھا کہ آنے والی نسلیں اِن اداروں سے خوب مستفیض ہوں گی اور انہیں مختلف پیشوں میں کامیبابی حاصل کرنے کے لئے درکار ہنر حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ مسلم کمیونٹی میں ایسے فراخ دل افراد بھی موجود ہیں جو اپنے وسائل کو محض ذاتی تسکین کے علاوہ آنے والی نسلوں کے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

جناب اے حامد حسن صاحب میاسی یعنی مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدرن انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

جسٹس ہنٹر فورڈ ٹیوڈر بوڈام وہ تھے جنہوں نے جنوبی ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کی ہر وقت حمایت کی تھی اُنہوں نے پندرھویں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کی تھی جو 1901ء میں مدراس میں منعقد ہوئی تھی۔

یعقوب حسن سیٹھ صاحب 1905 سے 1913 تک وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری رہ چکے ہیں آپ 1905 سے 1917 تک اسلامیہ ہائی اسکول کے کرسپانڈنٹ بھی رہے۔

اسکول کی پیش رفت پر پیش کی گئی مختصر رپورٹ:

مدرسۂ اسلامیہ کمیٹی کے سکریٹری جناب محمد ابراہیم قریشی صاحب نے مدرسۂ اسلامیہ کی پچھلے ایک سال کی پیش رفت پر ایک جامع رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مختلف چیلنجوں کے باوجود اسکول نے نمایاں ترقی کی ہے۔ انہوں نے ہندو اساتذہ کے تعاون کا بھی شکر ادا کیا۔ انہوں نے حاجی بدرالدین صاحب کو بھی خراج تحسین پیش کیا، جن کے مالی تعاون سے اسکول کے بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنے میں مدد ملی۔

مسٹر لوگان کا خطاب:

مسٹر لوگان نے طلباء میں انعامات تقسیم کئے اور اپنی تقریر میں مسلمانوں کے درمیان جدید تعلیم کے اساتذہ کی کمی کی طرف توجہ دلائی اور مستقبل میں اس طرح کے عہدوں کو پُر کرنے کے لیے مزید مسلم اساتذہ تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اسکول کے استادوں کی تعریف کی اور انہیں اپنی ذمہ داریاں یاد دلائیں۔ انعام جیتنے والے طلباء کو مبارکباد دی اور انہیں خوب نصیحتیں کی کہ ثابت قدم رہیں، محنت کرتے رہیں، اچھا کھیلیں اور اپنے اساتذہ کے فرماں بردار بن کے رہیں۔ انہوں نے اسکول کی مسلسل کامیابی کے لیے بھی اپنی امید ظاہر کی۔

جناب یعقوب حسن سیٹھ صاحب نے مسٹر لوگان کی تقریر کا اردو میں ترجمہ کیا اور تقریب کی صدارت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

سنگِ بنیاد کی تقریب:

سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب شام 4:30 بجے منعقد ہوئی، جس میں جناب غلام احمد کلامی صاحب نے مدرسہ اسلامیہ کی رپورٹ پڑھ کر سنائی آپ مدرسہ کے جوائنٹ سکریٹری تھے آپ 1913 سے 1917 تک وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ نے جو رپورٹ پیش کی اُس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

اسکول میں کل 257 طلباء تھے اور اس میں 18 اساتذہ شامل تھے جن میں تین اساتذہ دینیات پڑھانے کے لئے، 2 اساتذہ جمناسٹک انسٹرکٹر کی حیثیت سے اور ایک ڈرائنگ ماسٹر شامل تھے۔ طلباء میں اچھے اخلاق و عادات کو پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ قرآن پاک، اسلامی قانون اور دینیات باقاعدگی سے پڑھائے جاتے تھے۔ تعلیم کے علاوہ کھیل کود کے میدان میں مدرسہ کے طلباء کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلعی سطح پر منعقد کھیل کے مقابلوں میں اسکول نے کامیابی کے ذریعہ اپنی پہنچان بنا لی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک تربیت یافتہ گریجویٹ کو ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھرتی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

مالیاتی رپورٹ، چیلنجز اور مالی تعاون:

اسکول کی مالیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے سکریٹری صاحب نے کہا کہ پچھلے ایک سال کی آمدنی چھ ہزار ایک سو بہتر روپئے پانچ پیسے اور گیارہ آنے تھی جس میں سے نصف حصہ ماہانہ سبسکرپشنز سے حاصل ہوا تھا۔ پچھلے ایک سال کے اخراجات پانچ ہزار چھپن روپئے پندرہ پیسے اور دس آنے تھے جس میں تنخواہ، کرایہ، اسکول کے مختلف شاخوں پر ہوئے اخراجات، کتابیں، فرنیچر اور دفتری اخراجات شامل تھے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک بھی طالب علم سے فیس نہیں لی گئی۔

انہوں نے کہا کہ سوسائٹی کی خاص زمین نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ موجودہ مستعمل عمارتیں کرائے پر لی گئی تھیں اور اسکول کے استعمال کے لئے موزوں نہیں تھیں۔ ایسے موقع پر حاجی بدرالدین صاحب نے 5,000روپیہ عطیہ کیا اور اُن کے کاروبار کی ایک منڈی بھی فراہم کی تھی جس میں یہ میٹنگ منعقد ہورہی تھی اس زمین کی قیمت 9,000 روپئے تھی۔ انہوں نے اس عمارت کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات کے دو تہائی حصہ کی ذمہ داری بھی لے لی تھی جو تقریباً 20,000روپئے تھی۔ اس اہم عطیہ کو سوسائٹی نے تسلیم کیا اور ان کے اعزاز میں اس نئی عمارت کا نام "بدرالدین منزل” رکھنے کا فیصلہ کیا۔

اسکول کی دوسری شاخیں:

رپورٹ پیش کرتے ہوئے سکریٹری صاحب نے کہا کہ وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی نے نہ صرف مدرسۂ اسلامیہ بلکہ اُس کی چار شاخوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ مدرسہ کی شاخوں کی تفصیلات حسب ذیل ہیں۔ نیوٹاؤن میں واقع شاخ میں 30طلباء اور وجندر م میں واقع شاخ میں 42 طلباء تعلیم حاصل کررہے تھے۔ باقی دو شاخیں اسی علاقے میں تھیں جو صرف مسلم لڑکیوں کے لئے بنائی گئی تھیں ان دونوں شاخوں کی مکمل ذمہ داری چلمکار عبداللطیف صاحب نے لے لی تھی۔

مسٹر لوگان کے اختتامی کلمات:

سکریٹری صاحب کی رپورٹ کے بعد حاجی تکڑی بدرالدین صاحب کی درخواست پر مسٹر لوگان نے اسکول کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا اور پھر ایک بار شرکاء سے مخاطب ہوئے اور اپنے اختتامی کلمات پیش کئے۔ وانمباڑی اور مدراس میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1902ء سے پہلے مسلم کمیونٹی صرف مذہبی تعلیم سے مطمئن تھی اور انگریزی اور جدید تعلیم کی طرف رجحان بہت کم تھا لیکن 1901ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے اس ذہنیت کو بدل دیا جس کے نتیجے میں وانمباڑی ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد پڑی جس کے ذریعہ وانمباڑی میں مسلم بچوں کی تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔ سوسائٹی نے نہ صرف اسکول کے نصاب کو مزید بہتر بنایا بلکہ اس اسکول کو سیکنڈری اسکول میں اپ گریڈ کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ رپورٹ میں ذکر شدہ منصوبوں جیسے نصاب میں نئے اسباق کو شامل کرنے پر اور دور دراز علاقوں سے آنے والے طلباء کے لئے ایک ہاسٹل تعمیر کرنے کے فیصلوں پر انہوں نے خوشی ظاہر کی۔ اپنے اختتام میں، مسٹر لوگان نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ کمیونٹی کی کوششیں جاری رہیں گی اور دیگر مسلمان بھی اس مقصد میں جڑیں گے اور مدرسہ اسلامیہ اور دیگر تعلیمی اقدامات کی کامیابی اور ترقی کو یقینی بنائیں گے۔

یم۔ کے۔ اکبر باشاہ صاحب نے اپنے ایم۔ فل۔ کے مقالہ میں لکھا ہے کہ اس عمارت کو مدراس کارپوریشن کے انجینئر مسٹر لون  نے ڈیزائن کیا اس کی آرکیٹیکچرل خصوصیات کو تجویز کرنے والے یعقوب حسن سیٹھ صاحب تھے۔ عمارت کی تعمیر کا کام اکتوبر 1907 ء کو شروع ہوا۔ عمارت کی پہلی منزل 1910ء میں مکمل ہوئی۔

خطیب قادر بادشاہ صاحب نے اس عمارت کی تکمیل پر ایک قطعۂ تاریخ لکھا ہے جو اُن کی کتاب "گلزارِ بادشاہ” میں شامل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

اس قطعۂ تاریخ میں "زہے سرچشمۂ علم و کمال است” اور "خوب تعمیر” سے 1328ھ کی تاریخ نکلتی ہے جو عیسوی کیلنڈر کے حساب سے 1910ء ہے۔

ان فارسی اشعار کی ترجمانی حسبِ ذیل ہے:

کیا خوب مدرسہ تعمیر کیا گیا۔ رب ذوالجلال کا ہزاروں بار شکر ہے۔

بادشاہ اس کے مکمل ہونے کی تاریخ کہو۔ یہ علم کمال کا سرچشمہ ہے۔

مدرسۂ اسلامیہ کے واسطے، بہت بلند اور خوبصورت تعمیر کی گئی۔

جب اس کی تاریخ کی تلاش بادشاہ نے کی۔ ہاتف سے ندا آئی۔ خوب تعمیر۔

پہلی منزل کی تعمیر پر 34,000 روپئے خرچ ہوئے۔ دوسری منزل کی تعمیر کے لئے ملنگ حیات بادشاہ صاحب اور ملنگ حاجی عبدالرحمٰن صاحب نے 15,000روپئے کا عطیہ کیا۔ اس عمارت کو "ملنگ منزل” کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ان عطیہ دہندگان کے علاوہ حکومت کی طرف سے گرانٹ بھی حاصل ہوئے جس سے اس عمارت کی تعمیر میں تعاون حاصل ہوا۔

اس رپورٹ کے ذریعہ ہمیں ہمارے بزرگوں کی دور اندیشی، لگن اور قربانیوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے جنہوں نے آنے والی نسلوں کے فائدے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے سخت محنتیں کی۔ مذہبی اور جدید تعلیم کے امتزاج کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے مالی مجبوریوں اور سماجی تعصبات جیسے چیلنجوں کا سامنا کیا۔ اس رپورٹ میں مالی تعاون پیش کرنے والوں میں صرف حاجی تکڑی بدرالدین صاحب کا نام ملتا ہے لیکن جب ہم اسلامیہ اسکول کے کیلنڈر میں اس اسکول کی تاریخ کے بارے میں پڑھتے ہیں اور دوسرے ذرائع سے بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملنگ حیات باشاہ صاحب، ملنگ عبدالرحمٰن صاحب، ٹی۔ امین الدین صاحب، ملیالم حاجی عبدالرحمٰن صاحب جیسے کئی فراخدل عمائدینِ شہر نے اسلامیہ ہائی اسکول اور اس کی شاخوں کی تعمیر میں اپنا مالی تعاون پیش کرکے اہم کردار ادا کیا۔ ان سب کی اجتماعی کوششوں کی وجہ سے پوری کمیونٹی کو ترقی حاصل ہوئی۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہمارے شہر کی آنے والی نسلیں مذہبی علوم کے علاوہ جدید علوم بھی سیکھیں۔

٭٭٭ختم شد٭٭٭

You may also like

Leave a Comment