26, اپریل 2025 انجمن خواتین اردو کا سالانہ جلسہ دوپہر3.30 بجے شہر بانو اور ڈاکٹر احمد علی پار پاپیا کمیونٹی ہال ،رائ پیٹھ ،چیننئ میں منعقد ہوا۔
جلسہ کی شروعات تلاوت کلام پاک سے ہوئ جسے عایشہ سمیہ نے خوش الحانی سے ادا کیا۔محترمہ ناظرہ سلطانہ نےایک خوبصورت نعت پاک پیش کی۔ انجینیر ثمین فاضلہ فاطمہ نے نظامت کے فرائض انجام دۓ۔انجمن کی معتمد ڈاکٹر غوثیہ سعیدہ نے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا اور مہمانان خصوصی واعزازی کا تعارف پیش کیا۔ مہمانوں کی گل پوشی اور اعزاز کے بعد ڈاکٹر نکہت ناز معاون معتمد نے انجمن کی رپورٹ پیش کی۔
اسکے فورا بعد محترمہ فاطمہ مظفر صاحبہ کونسلر چیننئ اور پریسی ڈنٹ ویمنس ونگ , IUML نے اپنی تقریر میں انجمن کی کاروائیوں کو سراہتے ہوۓ کہا کہ اس محفل میں بچیوں اور خواتین کی کثیر تعداد میں حاضری اور وقت مقررہ پر جلسہ کی شروعات اردو زبان سے محبت کی دلیل ہے۔ انہوں نے مزید یہ بات کہی کہ اس طرح کی کاروائیاں اور ایسی محفلیں ہر علاقے میں منعقد ہوں تاکہ ہماری قوم میں بیداری پیدا ہو ۔مہمان خصوصی ڈاکٹر ماریہ پریتی صدر شعبہ انگریزی ،کوئین میریس کالج نے اپنی تقریر کے دوران یہ اہم بات کہی کہ بحیثیت اقلیت ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر لیڈرشپ کی خصوصیات پیدا کریں۔ لیڈر کے لۓ چاہیے کہ وہ اونچے مقام پر بیٹھنے کی خواہش رکھنے کی بجاۓ زمینی سطح پر لوگوں کے لۓ کام کرے ۔عوام سے مل جل کر ان کے مسائل دور کرنے کی سعی کرے۔
مہمان خصوصی محترمہ عابدہ بیگم اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء تاریخ ، قائد ملت گورنمنٹ کالج نے اردو زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوۓ بتایا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے اپنی زبان میں گفتگو کرنے سے شرمانےکے بجاے چاہیۓ کہ زبان سیکھ کر پورے وقار کے ساتھ ترقی کریں۔مزید کہا کہ انہوں نے اسکول کی تعلیم اردو زبان میں حاصل کی اور اس بات کا انہیں فخر ہے۔
صدارتی تقریر میں بانی وصدر انجمن محترمہ ڈاکٹر پروین فاطمہ سابق پروفیسر و صدر،شعبہ اردو،کوئین میریس کالج نے انجمن کی کاروائیوں کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ پچھلے دو سالہ مدت میں” انجمن خواتین اردو” نےدو اردو مدارس اور دو کارپوریشن اسکولوں میں اردو زبان کی تدریسی خدمات انجام دۓ اور أگےبھی انشاءاللہ یہ کوششیں جاری رہیں گی۔ ہم جناب کاتب حنیف صاحب کے مشکور ہیں کہ اس کے ذریعے اردو کی ایک ٹیچر کی تنخواہ کی ادائیگی میں معاونت ملی۔
محترمہ ڈاکٹر پروین فاطمہ، محترمہ امتہ السعیدہ ،محترمہ پروین پاپا ،محترمہ ڈاکٹر رشید النساء, محترمہ ڈاکٹر غوثیہ سعیدہ,محترمہ استاذہ ممتاز بیگم صاحبہ ، ڈاکٹر نکہت ناز، اورخازن ثمینہ رضوان کے علاوہ محترمہ ظاہرہ بانو ، ثمین فاضلہ فاطمہ کے تعاون کےساتھ ساتھ ہماری ٹیم کی اساتذات محترمہ خالدہ , محترمہ جمیل النساء، مختار فاطمہ اور سیدہ زہرہ سلطانہ کی کوششوں اور محنتوں سے ہمارے بچے اردو لکھنا پڑھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ اس قابل ہوگۓ کہ أج کےاس جلسے میں اردو نظمیں ،تقاریر اور ڈرامہ پیش کریں۔پروین فاطمہ کا تحریر کردہ ڈراما "جہانگیر کا انصاف” کا پس منظر موزاینہ نے پیش کیا۔تقسیم انعامات کے
موقعہ پر اردو پڑھانے والی دو اساتذات کو زر نقد اور تمغہ جات سے نوازا گیا۔اردو پروگرام میں حصہ لینے والے طلباء وطالبات کو ٹرافی اور سرٹیفیکیٹ دۓ گۓ۔
اس تقریب میں شہر اور بیرون شہر کی نمائندہ خواتین جن میں محترمہ نواب سعدیہ خلیل، محترمہ ظاہرہ بانو,محترمہ خیر النساء، محترمہ فریدہ بانو، محترمہ نزہت جبین، ،محترمہ محمودہ بیگم،محترمہ محمدی ،محترمہ عطیہ فاطمہ ،ڈاکٹر کاملہ اشرف، محترمہ نازیہ علی , محترمہ نسرین،محترمہ جمیل النساء,صابیہ سلطانہ،عائشہ ایم ،جبینہ بانو،ماہرہ بیگم ،ڈاکٹر فیض النساء مسیحہ بیگم ,شاہین تاج وغیرہ شامل ہیں۔ہال تقریباڈیڑھ سو حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔
بچوں کےخوبصورت پروگراموں ،لذیذچاۓ ناشتے اوراستاذہ محترمہ ساجدہ فردوس کے پیش کردہ ہدیہ تشکر کے بعد یہ جلسہ کامیابی کی ساتھ اختتام پذیر ہوا۔الحمد للہ
ادبی و سماجی خبریں
ارباب سخن شکاگو کے زیر اہتمام رازنگونی صاحب کے شعری مجموعہ "ٹھنڈی تپش” کی تقریبِ رونمائی اور عید ملن مشاعرہ
ٹھنڈی تپش کی رونمائی بدست جناب طارق کریم صاحب، قونصل جنرل ۔ پاکستان، شکاگو عمل میں آئی.
ڈاکٹر توفیق احمد انصاری صاحب، کی صدارت اور طاہرہ ردا کی نظامت میں ٹھنڈی تپش پر اظہار خیال پیش کیئے گے اور عیدملن مشاعرہ غلام مصطفی انجم صاحب کی صدارت اور پروفیسر احمد عبدالحکیم صاحب کی نظامت میں منعقد ہوا۔
بروزِ ہفتہ پانچ اپریل2025
بزمِ اربابِ سخن کے زیر اہتمام ممتاز اردو شاعر رازرنگونی کے پہلے اردو شعری مجموعہء کلام "ٹھنڈی تپش” کی تقریبِ رونمائی اور عید ملن مشاعرہ شاہی بریانی بنکویٹ ہال ، گلینڈیل ہائٹس میں منعقد ہوا۔
تقریب کی شروعات جناب رشید شیخ صاحب نے تلاوت قرآن پاک سے کی۔ بعد تلاوت محترم راز رنگونی صاحب نے نعت پاک پڑھی۔
بزمِ اربابِ سخن کے بزمِ اربابِ سخن کے چیف آرگنائزر داکٹر افضال الرحٰن افسر نے سلائیڈ پر پریزنٹیشن کے زریعے "ٹھنڈی تپش” اور شاعر کے بارے میں تفصیلات سےآگاہ کیا۔
جناب عابد رشید صاحب ، جناب رشید شیخ صاحب، جناب پروفیسر اقبال نواز صاحب، ڈاکٹر عبدالرحمٰن مامسا صاحب، ڈاکٹر شمیم آزر صاحب اور ڈاکٹر توفیق انصاری احمد صاحب نے ٹھنڈی تپش پر اظہار خیال پیش کیا۔
طارق کریم صاحب نے کہا "ٹھنڈی تپش” شکاگو، امریکہ کے اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔
جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ شکاگو امریکہ میں اردو ادب کی خدمت اور فروغ کے لئے بہت کام ہورہا ہے اور راز رنگونی کی "ٹھنڈی تپش”اس سلسلے کی اہم کڑی ہے جو اردو ادب کے فروغ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
پرفیسر اقبال نواز نے اپنے انگلش خطاب میں "ٹھنڈی تپش” میں موجود مقصدی شاعری کو سراہا اور کہا راز رنگونی نے شکاگو میں مقصدی شاعری کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔ ڈاکٹر توفیق احمد انصاری صاحب نے راز رنگونی کی آسان زبان اور کھرے لہجے کو سراہتے ہوئے ان کی غزل و نظم کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔
ڈاکڑ شمیم آزر نے راز رنگونی کے معتدل نعتیہ کلاموں کی تعریف کی۔
شاہی بریانی کے لذیذ کھانوں کے بعد بین الرياستی مشاعرے کا انعقاد ہوا مشاعرے کی صدارت غلام مصطفٰی انجم صاحب نے کیء پرفیسر عبدلحکیم نے نظامت کے دوران گاہے بگاہے عربی اشعار اور ان كا منظوم ارو ترجمه پیش کیا۔
ممتاز شعراء نے اپنا کلام سنایا جن میں راشد رحیمی صاحب ، ولی الدین ولی صاحب ، طاہرہ ردا صاحبہ، عابد رشید صاحب ، ڈاکٹر افضال الرحمن افسر صاحب ، رازرنگونی صاحب ، نذر نقوی صاحب ، رشید شیخ صاحب ، پروفیسر اقبال نواز صاحب ، سید سالم صاحب ، ڈاکٹر منیر الزماں منیر صاحب ، ڈاکٹر شمیم آزر صاحب ، ڈاکٹر سلیم تورانیہ صاحب، ڈاکٹر توفیق انصاری احمد صاحب اور غلام مصطفٰی انجم صاحب شامل رہے تمام شعراء کو خواتین و حضرات نے کھل کر داد دی۔
پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر افضال الرحمٰن افسر صاحب، اورجناب رازنگونی صاحب نے ہدیہ تشکر پیش کیا اور پروفیسر احمد عبدالحکیم صاحب نے دعا فرمائی۔
ٹھنڈی تپش کے سلسلہ میں منعقدہ تقریب رسم اجراء اور عید ملن مشاعرہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ شکاگو کے ادبی و سماجی حلقوں کے علاوہ دوسری ریاستوں سے معززین و مدعو عین کی کثیر تعداد نے اس میں شرکت فرماکر اس تقریب کو کامیابی و کامرانی کی منزلوں پر پہنچا دیا-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سخنوران ناگپور کے زیر اہتمام عالمی آن لائن مشاعرے میں معروف شاعر مرحوم ظفر کلیم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا.
عالمی مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ محترمہ نسرین سید (کینیڈا) نے کی۔
سخنوران ناگپور کے منتظم اور معروف شاعر جناب شمشاد شاد نے عالمی شہرت یافتہ شاعر، مفکر، صحافی اور محقق مرحوم ظفر کلیم صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا.
جناب توفیق انصاری احمد (شکاگو)، جناب شفیق مراد(کینیڈا)، انجینئر سلیم کاوش (سعودی عرب) صاحبان نے مہمانان خصوصی اور جناب وحید القادری، سلیم محی الدین اور مختار تلہری صاحبان مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شامل ہو کر تعزیتی مشاعرے کو وقار بخشا-
ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل (پاکستان) کے بانی اور مشہور گرافکس ایکسپرٹ جناب کامران عثمان نے جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پرومو ویڈیوز اور اشتہارات کے ذریعے پروگرام کو شہرت کی بلندیاں عطا کروانے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی-
ساڑھے چار گھنٹے چلے اس برقی اہتمام کو بڑی تعداد میں ناظرین نے فیس بک اور یو ٹیوب پر براہ راست دیکھا اور خوب محظوظ ہوئے-
————————————————
سخنوران ناگپور، بزم ارباب سخن، شکاگو، اور ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل (پاکستان) کے مشترکہ زیر اہتمام بروز اتوار مورخہ 29 دسمبر 2024 کو بھارتی وقت شب 9.00 بجے بذریعہ زوم شہر ناگپور (انڈیا)سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت کے حامل معروف شاعر مرحوم ظفر کلیم صاحب جو حال میں اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ایک بین اقوامی آن لائن مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا. مشاعرے کی صدارت کینیڈا سے معروف شاعرہ محترمہ نسرین سید نے کی.
تقریب کی شروعات جناب کامران عثمان نے تلاوت قرآن پاک سے کی۔ بعد تلاوت محترمہ شہناز رضوی (کراچی) نے نعت پاک پڑھیں. سخنوران ناگپور کے منتظم اور معروف شاعر جناب شمشاد شاد نے عالمی شہرت یافتہ شاعر، مفکر، صحافی اور محقق مرحوم ظفر کلیم صاحب کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ کی مغفرت کی دعا کی. ارباب سخن شکاگو کے جناب افضال الرحمن نے پروگرام کی غرض و غایت بیان کی.
اپنے صدارتی خطبے میں محترمہ نسرین سید نے کہا کہ وہ اس انعقاد سے بہت متاثر ہوئیں اور آئندہ بھی اس قسم کے پروگرام کا انعقاد کرتے رہنے کی تلقین کی تاکہ دنیا بھر کے شعرائے کرم ایک پلیٹ فارم پر آ کر اپنی فکر سے ایک دوسرے کو روشناس کرتے رہیں. محترمہ ممتاز ملک (کینیڈا) نے مشاعرے کی نظامت بہت ہی خوبصورتی سے انجام دی اور کہیں بھی پروگرام کو بوجھل ہونے نہیں دیا. مکمل پروگرام ساڑھے چار گھنٹے چلا- تقریب کو فیس بک پر براہ راست نشر کیا گیا جس میں کافی تعداد میں ناظرین آن لینے جڑ کر لطف اندوز ہوئے- کل ملا کر بہت ہی کامیاب انعقاد ہوا. آخر میں سخنوران ناگپور کے جناب شمشاد شاد نے ہدیہ تشکر پیش کیا-
مشاعرے میں پڑھے گئے کلام کے دو دو اشعار قارئیں کے ادبی ذوق کی نذر پیش کے جاتے ہیں-
نسرین سید (کینیڈا)
آنکھ رہتی ہے جھکی وقتِ تکلم ان کی
ہم بھی اُن کو دمِ گفتار کہاں دیکھتے ہیں
طالبِ جنسِ وفا ہیں جو خریدار یہاں
لاکھ ہو گرمئی بازار، کہاں دیکھتے ہیں
ڈاکٹر توفیق انصاری (شکاگو)
رنگ احساس کا ، کیوں زرد ہے،اب کیا کہئے
درد ، اپنا بھی ، عجب درد ہے،اب کیا کہئے
خوب دیکھا ہے ، تماشے پہ ، تماشہ ، توفیق
پھر ، ہتھیلی پہ ، نئی نرد ہے،اب کیا کہئے
شمشاد شاد(ناگپور،انڈیا)
عالم اسی کے نور سے ہے ضوفشاں جناب
ہے اس کی ذات پاک بڑی مہرباں جناب
اپنی بلندیوں کا اِنہیں تھا گماں جناب
کہلاتے یہ کھنڈر تھے کبھی بستیاں جناب
مختار تلہری (انڈیا)
جب کرتی ہے اچھائی برائی کا نظر فرق
تب کرتےہیں محسوس کہیں قلب وجگرفرق
دشوار بہت ہوتے ہیں پھر زیست کے لمحے
آ جائے مزاجوں میں ذرا سا بھی اگر فرق
افضال الرحمن افسر (شکاگو)
عشق میں جاں کا زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
درد لذت میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
انکی آنکھوں میں ابھر آۓ ہیں آنسوں افسر
تجھ میں یہ زور بیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
ڈاکٹر ندیم ابن منشا (ناگپور)
عمرخضری کی دعا دے کے چلا جاتا ہے
کتنی سنگین سزا دے کے چلا جاتا ہے
چارہ گر بن کے جو أتا ہے وہی شخص ندیم
زخم دل مجھ کو نیا دے کے جاتا ہے
پروفیسر سلیم محی الدین (پربھنی)
مری ہر ادا تھی قلندر صفت
بدلتے ہو خود بھی تو منظر صفت
ہمارے زمانے میں ایسا نہ تھا
بزرگوں کے قصے صفت در صفت
سلیم کاوش
وہ جن کو تم میری کمزوریاں سمجھتے ہو
مروتیں وہ مِری ذات کی علامت ہیں
۔۔۔۔۔
تُو گیا ہے تو اَمَاوَس کی سمجھ آئی ہے
ورنہ ہر شَب شَبِ مہتاب ہوا کرتی تھی
ڈاکٹر منیر الزماں منیرؔ (شکاگو)
دل رکھتا ہوں ایسا کوئی خواہش نہیں کرتا
یہ بات الگ ہے کہ نمائش نہیں کرتا
جس چیز پہ حق ہے مرا لے لیتا ہوں بڑھ کر
اس چیز کی خاطر میں گزارش نہیں کرتا
عابد رشید (شکاگو)
وہ جو انداز زمانے سے جدا چاہتا ہے
جلد وہ شخص بھی ہم جیسا ہُوا چاہتا ہے
کیا بھلا ہو کہ وہ ہو جائے ہمارا اِک دن
دیکھنا یہ ہے خُدا کس کا بھلا چاہتا ہے
پروفیسر احمد عبد الحکیم (شکاگو)
سموسہ منہ میں رکھا تھا کہ دورہ پڑ گیا دل کا
گر پایہ نھاری نوش فرماتا تو کیا ہوتا
رقیب روسیاہ نے چھپ کے دکھلائ مجھے خنجر
اگر شمشیر میں اپنی بھی چمکاتا تو کیا ہوتا
نوید جعفری (حیدرآباد)
میں ہوں چراغِ دیر و حرم تیرا پا کے ساتھ
یا تو سنبھا لے یا چلا میں ہوا کے ساتھ
محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اۓ نویدؔ
دیدِ رسولِ پاکؐ تو ہوگی خدا کے ساتھ
محشر فیض آبادی (ممبئی)
مجھ کو یارو جلال آتا ہے
جب بھی کھانے میں بال آتا ہے
چپ میں رہتا ہوں اس لئے محشر
رنڈوے پن کا خیال آتا ہے
جمیل ارشد خان (ناگپور)
یہ سانحہ ہے کہ اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں
منافقت کی حدیں پار کرنے والے لوگ
وجود مٹنا پے جب دونوں صورتوں میں ہی
سو اب کے جانبٍ صحرا مرا بہاؤ ہے دوست
اشتیاق کامل (ناگپور)
احتیاط اپنی جگہ’لیکن نہ سوچا تھا کبھی
وہ محبت بھی کرے گا استخارہ دیکھ کر۔
وہ تو محشر میں اچانک اٹھ گئ چشم کرم
ورنہ میں گھبرا گیا تھا گوشوارہ دیکھ کر
آرکٹیک عبد الرحمن سلیم (شکاگو)
کچھ بتاؤ تو میرے شہر کی فضاء کیسی ہے
دشمنی کیسی ہے یاروں کی وفا کیسی ہے
میں بھی حیراں ہوں کہ اس دور ترقی میں سلیم
سر پہ چھائی ہوئی کالی یہ گھٹا کیسی ہے
ڈاکٹر ثمیر کبیر (ناگپور)
وہ اک گمان یقیں اور اک خیال کہ بس
جو میرا حال ہے ہوجاے تیرا حال کہ بس
ترے بغیر فقط اس گماں پے کاٹی ہے
ابھی جو ہجر ہے، تھا وہ کبھی وصال کہ بس
مہتاب قدر (جدہ)
الٹ کے کاسہ اسے تاج کرکے دیکھتے ہیں
چلو فقیری میں اب راج کرکے دیکھتے ہیں
اس سے پہلے کہ تم کنارا کرو
اک دفعہ اور استخارا کرو
مشتاق رفیقیؔ اسانغنی (چینئی، تامل ناڈو)
صبح کے بھولے ہوئے شام کو گھر جاتے ہیں
ہم بھی کچھ ایسے ہی جیتے ہوئے مر جاتے ہیں
علم کی پیاس لئے پھرتی ہے ملکوں ملکوں
ہم کمانے کو کہاں لعل و گہر جاتے ہیں
شہناز رضوی، کراچی(پاکستان)
تو باندھ بس اک بار ارادہ دل سادہ
ممکن نہیں پھر راہ بھٹکنا دل سادہ
کس طرح سمیٹوں گی یہی سوچ رہی ہوں
دیکھا نہ گیا تیرا بکھرنا دل سادہ
طاہرہ ردا (شکاگو)
ہم نے تو چلو تھا عشق کیا، ہم پہ تو کوئی اِلزام بھی تھا
کیوں شام ہوۓ ان گلیوں میں پھرتے ہیں دیوانے اور بہت
ہم سادہ لوح ہیں لوگوں کی باتوں میں یونہی آ جاتے ہیں
اِک تم پر ہی موقوف نہیں ہیں لوگ سیانے اور بہت
مظہر قریشی (ناگپور)
زنگ الود روایات سے کیا لینا ہے
ہم کو فرسودہ رسومات سے کیا لینا ہے
یہ ضروری ہے محبت میں وفادار رہیں
چھوڑیے اپ کو اس بات سے کیا لینا ہے
نعیم انصاری (ناگپور)
صلیب و دار ہے لہجہ غزل کا
میاں تلوار ہے لہجہ غزل کا
نظر کس کی لگی ہے اس حسیں کو
بہت بیمار ہے. لہجہ غزل کا
ولی الدین ولی (شکاگو)
میں بھی بوڑھا ہوں رہا ہوں ولی
ہو گیا اس کا احساس کل مجھے
جس شوخ و چنچل کے دیوانے تھے ہم
اس حسینہ نے کہہ دیا انکل مجھے
راز رنگونی (شکاگو)
مرے پاس ہی مرا پیار ہے
دل و جاں سے مجھ پہ نثار ہے
کئی رنگ راز نے دیکھے پر
ٰیہ بسنت رنگ بہار ہے
ممتاز ملک (پیرس)
یوں نہ کاذب بنیں اور مکر و واویلا کیجئے
راکھ ہو جاتے ہیں شعلوں سے نہ کھیلا کیجئے
ان کے دم سے ہے زمانے کے چراغوں میں یہ لو
سچے لوگوں کو نہ منظر سے دھکیلا کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان خواب دیکھنے والے دلوں کو ایک ساتھ جوڑ دیتی ہے ۔۔۔ شائستہ یوسف
” رنگ غزل ” غزل سرائی کے مقابلوں کا ثقافتی پروگرام ہے جسے یونائیٹیڈ کونسل فار ایجوکیشن اینڈ کلچر ، بنگلور نے ملک گیر سطح پر متعارف کیا ہے۔
اس سلسلے کے مقابلوں کا اہتمام 28 دسمبر 2024 کو کیرالا کے شہر ملپ پورم کے گورنمنٹ کالج کے کشادہ آڈیٹوریم میں منعقد ہوا جس کا افتتاح رکن قانون ساز اسمبلی جناب پی عبیداللہ نے کیا۔صدارت کے فرائض ڈاکٹر کے پی شمس الدین تھروروکڈ نے انجام دیے۔ جناب پی کے عبدالحمید کراسری نے استقبالیہ تقریر سے نوازا۔ جناب استاد اشرف حیدروس نے اختتامیہ کلمات ادا کیے۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج کی پرنسپل ڈاکٹر گیتا نمبیار نے شرکت کی۔ محترمہ شائستہ یوسف، کونسل کی منیجنگ ٹرسٹی، جناب محمود شاہد، آل انڈیا کوآرڈینیٹر رنگ غزل اور جناب اقبال احمد بیگ، کونسل کے ٹرزرر کی رسم تہنیت انجام دی گئی ۔تقریب میں جناب این معین الدین کٹی ، جناب پی معین الدین کٹی،سلام مالایما، ڈاکٹر پی کے ابو بکر ، ڈاکٹر کے پی شکیل، جناب ایم پی عبدالستار اور جناب عبدالرشید ٹی اے نے اپنی شرکت سے تقریب کو کامیابی سے ہم کنارکیا۔ ڈاکٹر فیصل دتھل نے ہدیہ تشکر ادا کیا۔۔
اپنی افتتاح تقریر میں ڈاکٹر پی کے عبدالحمید کراسری نے صدر اور مہمانان کا استقبال کیا اور ان کا مختصر تعارف بھی کرایا اور خوبصورت شعر ان کی نذر کیے۔اردو زبان و ادب میں غزل کی اہمیت اور اس کی خوبصورت اور دلنشینی کا ذکر کیا۔محترمہ شائستہ یوسف نے نہایت شاعرانہ انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انسان خواب اپنی مادری زبان میں دیکھتا ہے، سوچتا بھی اپنی مادری زبان میں ہی ہے ، لیکن اردو زبان میں وہ کشش ہے کہ خواب دیکھنے والے انسانوں کے دلوں کو جوڑ دیتی ہے۔ان کے اس خیال پر تقریب گاہ تالیوں سے گونج اٹھی۔جناب محمود شاہد نے ملک میں اردو کی موجودہ صورت حال پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ وہ نام نہاد علاقے جنہیں ہم اردو کے مراکز گردانتے ہیں وہاں اردو کے چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں۔اب وہاں صرف مشاعروں کا شور رہ گیا ہے اور جن علاقوں کو ہم کم علمی کی وجہ سے غیر اردوداں علاقے تصور کرتے ہیں وہاں اردو کے نئے نئے چراغ روشن ہورہے ہیں اور ٹھوس بنیادوں پر ترقی کا عمل جاری ہے۔جناب اقبال بیگ نے مقابلہ آرائی میں کثیر تعداد، جن میں نوجوانوں کا تناسب زیادہ تھا ، دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور انہیں مبارکباد دی۔ جناب پی عبیداللہ نے کہا کہ گو کیرالا کی ریاستی زبان ملیالم ہے لیکن یہاں اردو زبان بھی فروغ پا رہی ہے اور ریاست میں اردو زبان سے محبت کرنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے۔ہمارے لوگوں میں غزل بہت ہی مقبول ہے۔نوجوانوں میں غزل گائیکی کا شوق سر چڑھ کر بول رہا ہے۔میں ریاست میں اردو زبان کی ترقی میں آپ کے ہم قدم ہوں اور ہر ممکن مدد دینے کے لیے تیار ہوں۔صدارتی خطبہ میں کے پی شمس الدین تھروروکڈ نے اپنی ریاست میں اردو کی صورت حال کا تقابل ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے گرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا اور ریاست میں اردو زبان و ادب کی ترویج کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔اس موقع پر استاد اشرف حیدروس کو جو ایک صوفی سنگر ہیں ، ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔جناب اشرف حیدروس نے مقابلہ آرائی کا آغاز اپنی شیریں آواز میں محترمہ شائستہ یوسف کی غزل پیش کرکے کیا۔مقابلے میں ریاست کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تقریبا ساٹھ امیدواروں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جن میں نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد زیادہ تھی۔امیدواروں کی آواز ، لفظوں کی ادائیگی ، ترنم کا انداز اور خود اعتمادی دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ ہم جنوبی ہند کے کسی دور افتادہ ریاست میں منعقد ہونے والے غزل سرائی کے مقابلے میں موجود ہیں۔
غزل سرائی کے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے امید وار کو اردو زبان یا اس کے رسم الخط سے واقفیت ضروری نہیں ہے۔امید وار کی مادری ،علاقائی یا ریاستی زبان کچھ بھی ہو سکتی ہے ، غزل اپنی زبان میں لکھ کر اردو لب و لہجے میں تحت الفظ یا ترنم میں بغیر موسیقی کے سنانا ہے۔امیدواروں کو عمر کے اعتبار سے تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا زمرہ 16 سے 24 سال پر مشتمل ہے۔دوسرا زمرہ 25 سے 40 سال اور تیسرا زمرہ 41 سے زائد عمر کے امیدواروں پر مشتمل ہے۔ہر زمرے کے لیے تین انعامات مختص ہیں۔پہلے انعام کی رقم ایک لاکھ روپے ، دوسرے انعام کی رقم پچاس ہزار روپے اور تیسرا انعام کی رقم پچیس ہزار روپے ہے۔مقابلے کے تین راؤنڈ ہوں گے۔پہلے دو راؤنڈ مقامی سطح پر منعقد ہوں گے اور تیسرا یعنی فائنل راؤنڈ شہر بنگلور میں منعقد ہوگا۔ملک کے مشہور و معروف فن کاروں کے ہاتھوں انعامات کی تقسیم عمل میں آئے گی۔مقابلے میں داخلے کے لیے آن لائن فارم دستیاب ہے۔
رنگ غزل کے اب تک مہاراشٹر اور کرناٹک کے مختلف شہروں میں پہلے راؤنڈ کے مقابلے منعقد کیے جا چکے ہیں۔مزید معلومات کے لیے حسب ذیل نمبر پر رابطہ کیجیے: 99597 61107
…………………………………………………
میاسی اردو اکیڈمی کے سہ ماہی آن لائن اردو کورس کے دوسرے بیچ کے کامیاب تکمیل پر جلسہ تقسیم اسناد
چنئی : (ساجدندوی) میاسی اردو اکیڈمی ،مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدرن انڈیا کا ذیلی ادارہ جس کا قیام 1998میں ہوا تھا ۔ اس کا مقصد اردو کو فروغ دینا اور اردو سے ناواقف لوگوں کو اردو پڑھانا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی سہ ماہی آن لائن اردو لرننگ کورس ہے، جس کا آغاز جنوری 2024کو کیا گیا تھا جس کے اب تک دو بیچ مکمل ہوچکے ہیں اور تیسرے بیچ کا آغاز ہوچکا ہے۔
سہ ماہی آن لائن اردو کورس کے دوسرے بیچ کے کامیاب تکمیل پر میاسی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریبا 137سے زائد طلبا و طالبات کو اسناد سے نوازا گیا ۔ پروگرام کا آغازبیسک اردو لرننگ کورس کے طالب علم عزیزم حافظ عبداللہ سلمہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور عزیزم فاضل شریف سلمہ نے بارگاہ نبوی میں نذرانہ عقیدت پیش کیا جب کہ نظامت کے فرائض پروفیسر ساجد حسین نے انجام دی۔ میاسی اردو اکیڈمی کے چیئر مین جناب اے محمد اشرف صاحب نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ میاسی کے قیام کااصل مقصد اردو ،عربی اور فارسی کو فروغ دینا تھا جس کے لیے میاسی نے بہت سے ادارے قائم کئے ان زبانوں کی حفاظت کی کوشش کی ۔ اس سلسلہ کی ایک کڑی میاسی اردو اکیڈمی کا قیام ہے۔ جس کا مقصد اردو کی حفاظت کرنا اور جہاں تک ممکن ہو اسکول اور مدارس میں اردو کی تعلیم کی عام کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے میاسی اردو اکیڈمی مختلف میدانوں میں کام کررہی ہے،انہیں میں سے ایک سہ ماہی اردو آن لائن لرننگ کورس ہے جس کا آغاز جنوری 2024میں کیا گیا تھا جس کے دوبیچ مکمل ہوچکے اور تیسرے بیچ کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس آن لائن کورس کا مقصد ان لوگوں کو اردو پڑھانا اور سکھاناہے جو کسی وجہ سے اسکول و کالج میں اردو کی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ پہلے بیچ میں تقریبا سو سے زائد طلبا وطالبات شریک ہوئے جبکہ دوسرے بیچ میں پانچ سو سے زائد افراد نے داخلہ لیا ، لیکن فائنل امتحان میں150 سے زائد طلبا وطالبات نے شرکت کی اور کامیاب ہوئے ۔آج انہیں کامیاب ہونے والے طلبا وطالبات کو اسناد سے نوازا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ کورس بالکل مفت ہے اور اس میں کسی بھی مذہب اور کسی بھی عمر کے مردو خواتین حصہ لے سکتے ہیں۔
میاسی کے سابق صدراعزازی جناب عبدالعلی عظیم جاہ ، نواب آف آرکاٹ نے اظہار خیال کرتے فرمایا کہ اردو ہم سب کی مادری زبان ہے، ہم سب اسی زبان میں بات کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ہم اردو نہ پڑھ پاتے ہیں اور نہ لکھ پاتے ہیں۔ میاسی نے ہمارے لیے ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں اورخود بھی اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔
مہمان خصوصی اور مسلم ایجوکیشنل اسوسی ایشن آف سدن انڈیا (میاسی) کے اعزازی سکریٹری جناب الیاس سیٹھ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ میاسی نے اپنے قیام کے دن سے ہی تعلیمی میدانوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اردو ، عربی اور فارسی کو فروغ دینا ہے۔ خصوصاً مادری زبان اردو کے فروغ کے لیے میاسی اردو اکیڈمی کا قیام کیا گیا ۔ میاسی اردو اکیڈمی کے زیر نگرانی سہ ماہی آن لائن اردو تعلیم کا آغاز جنوری میں ہوا تھا جس کے اب تک 2 بیچ مکمل ہوچکے جس میں دو سو سے زائد لوگوں کو اردو اسناد سے نوازا گیا ہے جبکہ تیسرے بیچ کا آغاز ہوچکا ہے جس میں سات سو سے زائد داخلہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ اردو سے شیریں کوئی زبان نہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اردو میں جتنی مٹھاس ہے وہ مٹھاس آج تک میں نے کسی بھی مٹھائی میں محسوس نہیں کی۔ اس لیے آپ تمام لوگ اس کورس سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اردو کو گھر گھر پہونچانے میں ہماری مدد کریں، اور عالمی پیمانے پر اس کو رس کو عام کرے تاکہ ہر کوئی اس سے مستفید ہوسکے۔
میاسی کے صدر اعزازی جناب امتیاز پاشا صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ: اردو ہندوستان کی زبان ہے، یہ زبان یہی پیدا ہوئی اور یہی پلی بڑھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کے کئی ریاستوں میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کورس دراصل آپ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے ہم اردو زیادہ عام کریں کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ اردو بات تو کرتے ہیں لیکن پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں، لہذا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو بولنے کے ساتھ ساتھ لکھنا اور پڑھنا بھی سیکھیں۔
میاسی اردو اکیڈمی کے کنوینر جناب روح اللہ صاحب نے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے حصول اسناد کے لیے دور دراز سے آئے ہوئے طلبا و طالبات کا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو کی حفاظت ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے، نیزا نہوں نے اردو سیکھنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ پوری توجہ دل جمعی کے ساتھ کلاس کی پابندی کریں اور آخر تک کلاس حاضر رہیں اس کا بہت ہی فائدہ ہوگا۔ انہوں نے بیسک کورس مکمل کرنے والے طلبا وطالبات سے کہا کہ آپ اب اڈوانس کورس میں داخل ہوکر اردو کو اور بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اور اس زبان سے جتنا زیادہ ہوسکے فائدہ اٹھائیں کیونکہ اس زبان میں مذہب اسلام کے بہت سے ذخیرے موجود ہیں۔
اس پروگرام میں شہر کے عمائدین، ادباء و شعراء،میاسی کے ممبران کاکا انیس احمد عمری صاحب، آنیکار امتیاز صاحب، آرکیٹیکچرکالج کے پرنسپل ، نیوکالج کے سابق پرنسپل میجر زاہد حسین صاحب، شعبہ نباتات کے سابق صدر پروفیسر خواجہ رسول صاحب کے علاوہ کالج کے اساتذہ اور طلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام کو کامیاب بنانے میں شعبہ اردوکے اساتذہ ڈاکٹر غیاث احمد، ڈاکٹر طیب خرادی، پروفیسر سید شبیر حسین، پروفیسر سید باقر عباس ، پروفیسر ساجد حسین اور طلباء نے بھرپور تعاون کیا ۔
کڈپہ (راست) 19 دسمبر 2024: گورنمنٹ کالج برائے ذکور (خود مختار) میں نیاک کے دو روزہ دورے کا بحسن و خوبی اختتام ہوا۔ یو جی سی کے ماتحت خودمختار ادارہ‘ نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (نیاک) بنگلور کی جانب سے 18 اور 19 دسمبر 2024ء گورنمنٹ آرٹس کالج‘ کڈپہ میں چوتھے دورکی گریڈنگ کے لیے نیاک پیر ٹیم کا دورہ خوشگوار اور کامیاب رہا۔ سہ نفری پیر ٹیم نے کالج کے تمام شعبہ جات کا دورہ کیا اور کالج کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ طلبہ و طالبات سے گفتگو کی‘ ابنائے قدیم‘ اولیائے طلبہ اور تدریسی و غیر تدریسی عملہ سے تبادلہ خیال کیا اور کالج کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے مشورے طلب کیے۔ بڑی جاں فشانی اور باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد تفصیلی رپورٹ مرتب کی۔
راجستھان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر راجیو جین‘ ٹیم کے چئیرمن تھے جب کہ الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر مدھوریندرا کمار نے ممبرسکریٹری اور ڈاکٹر رمیش کمبھر‘ پرنسپل ویویکانند کالج‘ کولہاپورنے ممبر کو آرڈی نیٹر کی حیثیت سے کالج کا دورہ کیا۔
پیر ٹیم کے صدر‘ ممبر سکریٹری اور کو آرڈی نیٹر صاحبان نے شعبہ اردوکے اساتذہ اور طلبہ سے تبادلہ خیال کیا۔ معائنے کے بعد‘ صدر شعبۂ اردو‘ ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری اور استاذ شعبہ اردو ڈاکٹر اقبال خسرو قادری کی ادبی و تدریسی خدمات کی ستائش کی۔ اس اہم دورے کی تیاریوں میں کالج کے پرنسپل ڈاکٹر رویندرناتھ نے بڑی ہمت افزائی کی اور تمام ضروری وسائل مہیا کیے۔ استاذ شعبہ تاریخ جناب غیاث شارب نے بھرپور تعاون دیا۔ سابق استاذ شعبۂ اردو جناب انور ہادی جنیدی اور محقق و ناقد ڈاکٹر ظہیر دانش عمری کا مخلصانہ تعاون حاصل رہا۔ شعبۂ اردو کے طلبہ و طالبات کی سعادت مندی اور فرماں برداری کی وجہ سے کئی اہم کام بروقت انجام دیے جاسکے۔
سنتروں کے شہر ناگپور میں مرکز ادب کی جانب سے کامیاب مشاعرے کا انعقاد
شہر اخلاق و تہذیب حیدرآباد (دکن) سے تشریف لائیں شاعرات محترمہ رفیعہ نوشین صاحبہ اور محترمہ آرزو مہک صاحبہ کے اعزاز میں ادبی و ثقافتی تنظیم "مرکز ادب” کے زیر اہتمام عظیم الشان استقبالیہ مشاعرہ مورخہ 7 دسمبر 2024 شب کو لمرا سیلی بریشن ہال، انصار نگر، مومن پورہ، ناگپور (مہاراشٹرا) میں عالمی شہرت یافتہ مورخ، مفکر، محقق، ادیب و مبصر جناب شرف الدین ساحل صاحب کی زیر صدارت منعقد کیا گیا. مرکز ادب کے بانی جناب شمشاد شاد صاحب نے مدعو شعرا و شاعرات کا استقبال گلدستہ اور شال پیش کر کے کیا. مشاعرے میں جناب ڈاکٹر شرف الدین ساحل، محترمہ رفیعہ نوشین صاحبہ (حیدرآباد)، آرزومہک صاحبہ (حیدرآباد)، جناب اشتیاق کامل، جناب شمشاد شاد، ڈاکٹر ندیم ابن منشاء، جناب اظہر حسین، ڈاکٹر ثمیر کبیر، جناب عشرت بلال، جناب رشید راویری، جناب وحید حیراں، جناب نیاز احبد نیاز، جناب مظہر قریشی، جناب رضا بدنیروی، جناب عمران فیض صاحبان نے اپنے بہترین کلام پیش کر کے سامعین سے خوب داد و تحسین کے نذرانے حاصل کیے. جناب سہیل انصاری اور جناب عمران فیض صاحبان نے مشترکہ طور پر نظامت کے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا. جناب محمد یٰسین مومن، جناب محمد شفیق رحمانی، جناب نیاز احمد (نیازو بھائی)، جناب محمد اسرائیل (ببو)، جناب محمد اشتیاق، جناب بابو بھائی اور گلوبل اردو میڈیا کے جناب عارف بھائی نے پروگرام کی کامیابی کے لئے انتھک محنت کی. مشاعرے میں بڑی تعداد میں سامعین شامل ہوئے جن میں شہر ناگپور کی باوقار شخصیتیں جناب ڈاکٹر مشتاق منصوری صاحب، حاجی علیم الدین انصاری، عرفان بھائی کیبل والے، اکبر خیر آبادی، معین اختر، اشفاق پٹیل، غیاث الدین انصاری، نظام الدین انصاری، شمیم اعجاز، ایوب چشتی اور دیگر حضرات کے نام قابل ذکر ہیں. پروگرام کے اختتام پر کنوینر جناب شمشاد شاد نے اظہار تشکر کے کلمات پیش کیے. اس دوران جناب شمشاد شاد نے اپنے مجموعہ کلام "حرف اثبات” کا نسخہ مہمانان کو پیش کیا.
عالمی یومِ اردو 9 نومبر 2024، اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن تملناڈو اور کرناٹک چیپٹر کا شاندار جلسہ و تقسیمِ اعزازات
(زبان خلق) اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن تملناڈو اور کرناٹک چیپٹرکے زیر اہتمام 9 نومبر 2024 بروز ہفتہ عالمی یومِ اردو کے موقع پر بمقام ایم ایس محل ٹریپلیکن چنئی میں شام سات بجے ایک شاندار جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس باوقار جلسے کی صدارت ڈاکٹر محمد عبیداللہ بیگ (چیرمین اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن تمل ناڈو کرناٹک چیپٹر) نے فرمائی اور ڈاکٹر امان اللہ ایم بی (چیرمین اردو ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف مدراس) نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ جناب تول تھروماولون (ممبر آف پارلیمنٹ اور صدر وڈوتھلائی سرتیگل کزچی) جناب کے ایم قادر محی الدین (سابق ایم پی اور صدر انڈین یونین مسلم لیگ) بطور مہمانانِ خصوصی اور جناب نذیر احمد جے( جوائنٹ رجسٹرار مدراس ہائی کورٹ) جناب اے ایم ضیاء الدین (خزانچی چنئی ایسٹ ڈی سی سی) بحیثیتِ مہمانانِ اعزازی شریکِ مجلس رہے۔ ان کے علاوہ جناب عبدالرزاق (رکن آل انڈیا اقلیتی مورچہ) جناب اسد اللہ عثمان عمری مدنی سمیت کئی دیگر معززین بھی جلسے میں شریک رہے۔
ڈاکٹر محمد عبیداللہ بیگ نے آئے ہوئے مہمانان و ایوارڈ یافتگان اور حاضرین کا استقبال کرتے ہوئے گزشتہ سال منعقدہ عالمی یومِ اردو کابطور خاص ذکر کیا۔
تقریب کے دوران ڈاکٹر امان اللہ ایم بی چیرمین اردو ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف مدراس کی تحریر کردہ دو اہم کتابوں کا اجراء عمل میں آیا، تمل زبان کی شہرہء آفاق تصنیف تیروکورل کے اردو ترجمے کا اجراء جناب تول تھروماولون نے کیا اور انشا پردازی: مسائل و امکانات نامی کتاب کا اجراء جناب کے ایم قادر محی الدین نے کیا، دونوں کتابوں کی پہلی کاپی معزز مہمانوں نے ڈاکٹر محمد عبید اللہ بیگ کو پیش کیں۔
اجراءِ کتب کے بعد اعزازت کی تقسیم کا مرحلہ آیا۔ تمل ناڈو اور کرناٹک میں اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترقی میں قابلِ ذکر کردار ادا کرنے والے حسبِ ذیل اساتذہ، پروفیسرز، شعراء،صحافی حضرات کو اعزازات سے نوازا گیا:
ڈاکٹر امان اللہ ایم بی (چیرمین اردو ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف مدراس) علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے اردو ادب
وی ایم حبیب الرحمٰن( بی ای او چنئی) مولانا ابوالکلام آزاد عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغ تعلیم و تربیت
حفیظ محمد حمیداللہ بیگ، ایم اے ایم فل، چنئی، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو زبان
ڈاکٹر اعجاز حسین، انور جلالپوری عالمی یومِ اردو اعزاز برائےفروغِ اردو شاعری
شاہد مدراسی، حفیظ میرٹھی عالمی یومِ اردو اعزاز برائے اردو شاعری
محمد حنیف کاتب، مولانا حالی عالمی یومِ اردو اعزاز برائے اردو شاعری
اسانغنی مشتاق رفیقی، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے اردو شاعری
سید اکبر زاہد، مولوی محمد باقر عالمی یومِ اردو اعزاز برائےصحافت
ڈاکٹر حیات افتخار، سر سید احمد خان عالمی یومِ اردو اعزاز برائے اردو ادب
ڈاکٹر نکہت ناز، کوئین میری کالج چنئی، نصیر الدین ہاشمی عالمی یومِ اردو اعزاز
سائرہ نسیم، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ایم کرامت اللہ، بی ای او ضلع کرشناگری، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو
شیخ مدار، ہیڈ ماسٹرکیلمنگلم، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو
شاہین بیگم، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو
ار رشیدہ بیگم، کرشناگری، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو
سراج النساء، میونسپل اردو مڈل اسکول پلاورم، چنئی، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
عابدہ بیگم، اردو مدرس، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ای ریشما، ہیڈ مسٹرس حسنات جاریہ گورنمنٹ ایڈڈ پرائمری اسکول، آمبور، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ایم شرمیلا، ہیڈ مسٹرس ایم ایم جی ایم ایس اسکول، وانم باڑی، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
منیر النساء، اردو مدرس، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ناصر النساء، اردو مڈل اسکول، دادےشاہ مکان، چنئی، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
اے خلیل باشاہ، مونسپل مڈل اسکول، ولی محمد پیٹ، کانچی پورم، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ایس محمد امین، ہیڈ ماسٹر اسلامیہ بائز ایڈڈ پرائمری اسکول میل وشارم، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے تدریس
ایس محمد شاہد، علامہ اقبال عالمی یومِ اردو اعزاز برائے صحافت
امین خان، عالمی یومِ اردو اعزاز برائے فروغِ اردو
جناب تول تھروماولون نے ٹمل زبان میں تقریر کرتے ہوئے ایسی خوبصورت محفل سجانے کے لئے ڈاکٹر محمد عبیداللہ بیگ کی خوب ستائش کی اور کہا کہ دنیا بھر میں لوگ الگ الگ زبانوں میں بات کرتے ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے، زبان ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایجاد کی گئی ہے، ہمارے درمیان تفریقات پیدا کرنے کے لئےنہیں، ہم کسی بھی زبان کے مخالف نہیں ہیں، ہم زبان کوتھوپنے کے خلاف ہیں، میں اردو زبان نہیں بول سکتا پھر بھی اردو زبان بولنے والے سب میرے بھائی بہن ہیں۔
جناب کے ایم قادر محی الدین نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے ڈاکٹر محمد عبیداللہ بیگ کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان سے ان کی والہانہ دلچسپی کے تعلق سے بھی بہت سی باتیں سامعین کے آگے رکھیں۔
اس شاندار تقریب میں محبانِ اردو اور اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد شریک رہی۔ ڈاکٹر محمد عبیداللہ بیگ کے ہدیہءِ تشکر کے ساتھ یہ خوبصورت محفل اختتام کو پہنچی۔
ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکاڈمی کا 9نومبر 2024 کو عالمی یومِ اردو کے موقعے پر شاندار تقریب اور اعزازات و انعامات کی تقسیم کا انعقاد
(زبان خلق) ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی، گورنمنٹ آف ٹمل ناڈو کی جانب سے 9 نومبر 2024 کو عالمی یومِ اردو کے موقع پر بمقام تاریخی پرسیڈنسی کالج آڈوٹوریم چنئی میں صبح 10 بجے سے ایک عالیشان جلسہ منعقد ہوا جس میں اردو زبان و ادب اور تعلیم سے وابستہ ادباء شعراء صحافی اور اساتذہ کو ان کے میدانِ عمل میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزازات اور اسناد سے نوازا گیا۔
جلسے کی صدارت ڈاکٹر نعیم الرحمٰن صاحب (نائب چیر مین ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی) نے فرمائی اور جے ایم جعفر صادق نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ ڈاکٹر کے گوپال آئی اے ایس (ایڈیشنل چیف سکریٹری ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف ٹمل ناڈو ) جناب محمد شکیل اختر آئی پی ایس( سابق ڈی آئی جی اسٹیٹ چیف انفارمیشن کمشنر گورنمنٹ آف ٹمل ناڈو) بحیثیت مہمانانِ خصوصی اور ڈاکٹر این تاج الدین پرو وائس چانسلر بی ایس عبدالرحمٰن کیسنٹ انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی، ڈاکٹرایم رزاق صدر انجمنِ مفید اہل اسلام، ڈاکٹر امان اللہ ایم بی چیرمین اردو ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف مدراس بطورِ مہمانانِ اعزازی شریکِ محفل رہے۔
ڈاکٹر رامن پرنسپل پریسڈنسی کالج نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر نعیم الرحمٰن نے اپنے صدارتی خطبے میں ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی جانب سے اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے کی جانے والی کاوشات کا تفصیلی خاکہ پیش کیا۔ ڈاکٹر کے گوپال آئی اےایس نے اپنی خصوصی تقریر میں اردو زبان کی ترقی کے لئے ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے آیندہ کے لئے ممکن حد تک مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ جناب محمد شکیل اختر آئی پی ایس، جو خود بھی ایک شاعر ہیں اور ادب کا اچھا ذوق رکھتے ہیں نے اردو ادب سے اپنی والہانہ لگاؤ کا ذکر کیا اور اس کی تاریخی کردار پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر این تاج الدین نے اردو کو اپنی مادری زبان بتاتے ہوئے نئی نسل کو اس کی جانب متوجہ کرنے اور گھریلو بات چیت اردو ہی میں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ڈاکٹر امان اللہ ایم بی نے اپنی تقریر میں پرسیڈنسی کالج کی تاریخی اردو ڈپارٹمنٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کامیاب ڈیڑھ سو سالہ تاریخ رکھنے کے باوجود اب یہ ڈپارٹمنٹ مقفل ہوگیا ہے۔
تقاریر کے بعد ڈاکٹر کے گوپال آئی اےایس،اڈیشنل چیف سکریٹری ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف ٹمل ناڈو، کے ہاتھوں اردو زبان اور ٹمل زبان کے ریاست کے منتخب شعراء ادباء صحافی اور اساتذہ کو اعزازات سے نوازا گیا۔ ٹمل زبان و ادب سے وابستہ جن 12 افراد کو اعزازات سے نوازا گیا ان کے نام حسب ذیل ہیں:
ڈاکٹر کے رامن، پرنسپل پریسیڈنسی کالج، چنئی
ڈاکٹر ایس ایم ایس سید عبدالقادر، صدر شعبہء ٹمل، نیو کالج، چنئی
ڈاکٹر محمد سلطان، ٹمل اسکالر،چیرمین پاورٹک گروپ آف کمپنیس
سسٹر اسٹلا میری، پرنسپل اسٹلا میری کالج، چنئی
ڈاکٹر ایس اوما گوری، پرنسپل اتھیراج کالج، چنئی
کادل متھی، تمل شاعر
محترمہ پدماوتی، ہیڈ مسٹرس، گورنمنٹ مدرسہء اعظم ہائر سکینڈری اسکول، چنئی
محترمہ کنمنی پریا، ہیڈ مسٹرس، گورنمنٹ مسلم ہاءر سکینڈری اسکول
ڈاکٹر انبو، ٹمل شاعر اور محقق
ڈاکٹر پرمیشوری، پرنسپل، انّا آدرش کالج فار اومین
محترمہ پروین سلطانہ، ماہرنفسیات اور سماجی مصلح
محترمہ چامنڈیشوری، ٹمل اسکالر
اردو زبان و ادب سے وابستہ جن 13 افراد کو اعزازات سے نوازا گیا ان کے نام حسبِ ذیل ہیں:
جناب ایم رزاق، صدر انجمنِ مفید اہل اسلام ، چنئی
محترم غنی محمد سجاد پرویز، کرسپانڈنٹ، قادریہ مسلم ایجوکشنل سوسائٹی، وانم باڑی
جناب سراج زیبائی، اردو شاعر اور محقق
جناب احمد نظیر، اردو شاعر
جناب اکبر زاہد، ایڈیٹر عرش اردو نیوز اینڈ میڈیا ہاؤز
جناب اسانغنی مشتاق رفیقی، ایڈیٹر زبان خلق پندرہ روزہ
جناب سید سلطان باشاہ، ایڈیٹر مسلمان اردو روزنامہ
جناب ایم ایم عمران
محترمہ نکہت سہیل صاحبہ، صدر ایم ڈبلیو اے میٹریکولیشن گرلز ہائر سکینڈری اسکول
محترم کے بابو، ہیڈ ماسٹر دینیات گورنمنٹ ایڈڈ اسکول، آمبور
جناب اے معین الدین شریف، ہیڈ ماسٹر، منسپل اردو گرلز اسکول، کرشنگری
جناب ٹی محمد رضوان اللہ، ہیڈ ماسٹر، ایم ایم بی پی ایس اسکول، آرکاٹ
جناب سید اسماعیل، ہیڈ ماسٹر، پنچائیت یونین اردو اسکول
اس کے علاوہ ٹمل ناڈو اسٹیٹ اردو اکیڈمی کی جانب سے منعقدہ اردو تقریری مقابلے میں منتخب ہونے والے کالج اور اسکولی طلباء و طالبات کو بھی انعامات اور اسناد سے نوازا گیا۔
اس شاندار جلسے میں طلباء و طلبات مع والدین اور سرپرستوں کے اور کئی کالجوں اسکولوں کے پرنسپلس، ہیڈ ماسٹرس، اساتذہ اور بڑی تعداد میں ادبی دلچسپی رکھنے والے اردو دوست عمائدین اور فضلاء بھی شریک رہے۔ پروفیسر اکبر خان صاحب کے ہدیہ ء تشکر کے ساتھ یہ خوبصورت محفل اختتام کو پہنچی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقلیتی زبانوں کے مسئلے پر چنئی میں لمفاٹ کی ایک ہنگامی نشست …… مجلس تحفظ اردو ٹمل ناڈو کی جانب سے ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ کی شرکت۔۔۔
(زبانِ خلق) لمفاٹ، تنظیم برائے اقلیتی زبانیں ٹمل ناڈو، کی ایک ہنگامی نشست ، ریاست میں دسویں جماعت میں اقلیتی زبانوں کے امتحانات کے مسئلےپر، بروز اتوار 20 اکتوبر 2024 بوقت صبح 11 بجے تنظیم کے چیئرمین جناب سی ایم کے ریڈی صاحب کے مکان، کیلپاک، چنئی میں منعقد ہوئی۔
اس خصوصی ہنگامی میٹنگ میں ریاست میں دسویں جماعت کے امتحانات میں اقلیتی زبانوں کو اختیاری اضافی پرچے کے طور پر شامل کئے جانے سے پیدا شدہ صورتحال پر اور آج کی تاریخ تک ہمارے بہت سے اسکولوں کو ٹمل اساتذہ نہ دئے جانے پر، جس کی وجہ سے مارچ اپریل 2025 کے دسویں جماعت کے امتحانات میں ٹمل زبان کا پرچہ لکھنے میں طلباء کو ہورہی پریشانی پر غورو خوص کیا گیا۔
چیئرمین لمفاٹ جناب سی ایم کے ریڈی صاحب کی صدارت میں منعقد اس میٹنگ میں مسئلے کی سنگینی اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس مسئلہ کے عدالتی تدارکی امکانات تلاش کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس ہنگامی نشست میں اردو زبان کی نمائندگی کرتے ہوئے اومیت( تنظیم برائے مسلم تعلیمی ادارے ریاست ٹمل ناڈو) کی جانب سے جناب محمد حنیف کاتب صاحب، جناب محمد فضل صاحب اور مجلس تحفظ اردوٹمل ناڈو کی جانب سے ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ صاحب شریک رہے۔ ان کے علاوہ دوسری اقلیتی زبانوں کے نمائندے بھی شریک رہے۔