جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
ماہِ رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ معتبر مہینہ ہے جس کا تقدس مُسلّم ہے۔ اس مہینے میں جہاں مسلمانوں کے درمیان رجوع الاللہ کا شوق بڑھ جاتا ہے وہیں آپس میں ہمدردی اور غم خواری میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ روزوں کے ساتھ نماز کی پابندی، تراویح کا اہتمام اور اس کے ساتھ ساتھ زکواۃ کی ادائیگی، صدقہ و خیرات کا رجحان اس ماہِ مبارک کی ایسی خصوصیات ہیں جنہیں دیکھ کر سرورِ کائناتؐ کی اس حدیث پر” ماہِ رمضان میں سرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے”، بے اختیار آمنا صدقنا زبان سے نکل جاتا ہے۔
رمضان المبارک کو ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، روزے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں لیکن سب سے بڑا فائدہ اور مطلوب اصحاب شریعت یہی ہے کہ اس سے فاقے کی تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے اورغرباء و مساکین کے ساتھ دل میں ہمدردی اور یگانیت کا جذبہ جاگتا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا،اس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرائض کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے،آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔۔۔ شعب الایمان للبیہقی
اس حدیث میں سب سے زیادہ زور ہمدردی اور غم خواری کے نام پر کھلانے پلانے پردیا گیا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے ذریعے صاحبِ شریعت مسلمانوں میں جذبہءِ اخوت و ہمدردی اور آپسی بھائی چارگی کا فروغ چاہتے ہیں وہیں مسلمانوں میں صبر، نفس کشی اور ہر قسم کی رنجشوں اور تلخیوں کو جھیلنے کا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
معارف الحدیث میں اس حدیث کی شرح کے تحت درج ہے: اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کے تئیں ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: ” اس بابرکت مہینے میں اہلِ ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ” اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحبِ ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔
الحمد اللہ ہمارے شہر وانم باڑی میں رمضان المبارک میں غرباء اور مساکین کی خبر گیری اور ان کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کی روایت بہت پہلے سے موجود ہے اور آج بھی یہاں کی اکثریت اس کی پاسداری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کارخانوں میں سالانہ بونس کے علاوہ ملازمین کو زکواۃ اور ہدیہ کے نام پر معقول رقم دینے اور کام کے حوالے سے ان کے ساتھ نرمی برتنے کا رجحان ہنوز باقی ہے۔ رئیس التجار حضرات کی جانب سے ہزاروں غرباء اور مساکین کو راشن کٹس بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ عام کارباریوں اور چھوٹے دکانداروں میں حتی المقدور اپنے ملازمین کے ساتھ خیرخواہی اور روزہ کے اوقات میں چھوٹ دینے کا مزاج موجود ہے۔ گھروں کی خواتین میں بھی اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں دینے میں فراخی عام سی بات ہے۔ یہ دینی مزاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہر کے عام مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت میں دینداری باقی ہے جس کے لئے بے اختیار اپنے ان دور اندیش بزرگوں کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے شہر میں دینی ادارے، مدرسے اور مکاتب کے جال بچھا کر اس مزاج کو قائم رکھنے میں دامے درمے سخنے بے شمار قربانیاں دیں۔
شہر کی مسجدوں میں گنجی کا جو نظام قائم ہے وہ آج کے دور میں غرباء مساکین اور ان سفید پوش نادار لوگوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں جو ہاتھ پھیلانے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں ان کی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ معتبر لوگوں سے کئی محلوں کے شرفاء کے تعلق سے معلوم ہوا کہ مسجد کی گنجی ہی ان کے دستر خوان پر روزہ افطار کی واحد پکی ہوئی غذا ہوتی ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جب کہ ضروری اجناس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اس گنجی کی اہمیت کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے جس کی آمدنی سے گھر میں ایک وقت کا چولھا جلنا بھی دشوار ہو۔ الحمد اللہ اس نظام کے لئے جہاں حکومت کی جانب سے چاول سستے داموں میں مہیا کیا جاتا ہے وہیں شہر کے دو چار معتبر اور صاحب دل گھرانوں کی جانب سے اجناس بغیر کسی شورشرابے کے مسلسل فراہم ہورہے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ اسی طرح باقاعدہ شہر کی ہر مسجد میں عوام کے لئے افطاری کا انتظام بھی موجود ہے جس کے وسیع دستر خوانوں پر اس محلے کے ساکنین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک سحری کے کھانے کا سوال ہے شہر میں ابھی تک اس کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں بنی ہے۔ کچھ صاحبِ خیرحضرات رمضان کے تمام راتوں میں پیکڈ کھانا مہیا کرارہے ہیں لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ امسال سے نیوٹون کی مسجدِ قبا میں مسجد خدمت کمیٹی کی جانب سے سحری کے کھانے کا انتظام بہت احسن طریقے سے کیا گیا ہے جس سے اس محلے کے کئی افراد فیضیاب ہورہے ہیں۔ لیکن اگر یہ انتظام شہر کی ہر مسجد میں گنجی اور افطاری کے طرز پر ہو جائے تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا۔ شہر کے کئی محلے ایسے ہیں جہاں غربت اس حد تک پیر پسار چکی ہے کہ مہینوں گذر جاتے ہیں ان کے یہاں اچھا کھانا نہیں پکتا۔ ایسے محلوں میں خصوصاً اور شہر کے تمام محلوں میں عموماً اگر رمضان المبارک کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام ہو جائے تو جہاں اس سے کئی گھرانوں کو سحری میں اچھا کھانا کھانے کو ملے گا وہیں کئی غرباء اور سفید پوش حضرات کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوگا۔ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شہر کے کئی محلوں اور مسجدوں میں سحری کا شاندار انتظام رہتا ہے لیکن یہ کسی نظام کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے اتنا فائدہ مند نہیں ہوتا،پھر بھی یہ غنیمت ہے کہ اس سے کئی روزہ داروں کو پیٹ بھر کر سحری کے لئے اچھا کھانا مل جاتا ہے۔ اسی نہج پر اگر رمضان کی تمام راتوں میں شہر کے تمام مساجد میں سحری کا انتظام ہوجائے تواس سے جہاں ایک اچھی روایت قائم ہوگی وہیں دوسرے شہروں کے لئے بھی ایک مثال کے طور پراسے پیش کر سکیں گے۔ ذرا سوچئے حدیث کے ان الفاظ پر جن میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، کیاہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہونا نہیں چاہتے جنہیں بروز محشر ساقیءِ کوثر کے ہاتھوں جامِ کوثر پینا نصیب ہوگا؟ یقیناً ہم سب کی یہی تمنا ہوگی۔ اس کے لئے زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں بس روزہ داروں کے لئے سحری کا انتظام کر کے انہیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر بروزِ محشر سردار انبیاء کے ہاتھوں سے ہم جام کوثر پی کر سیراب ہو سکتے ہیں۔
شہرِ وانم باڑی کے تمام ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ کھلانے پلانے کی سنت کو ماہِ رمضان کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام کر کے زندہ کریں اور جس طرح گنجی اور افطاری کا نظام مساجد کے تحت بحسن و خوبی انجام پارہے ہیں اس کار خیر کو بھی اسی نظام کے ساتھ جوڑ کر شہر کے نادار، غریب اور کئی سفید پوش حضرات کا بھرم رکھتے ہوئے انہیں مساجد میں سحری کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائیں، مساجد کے نظام کو جس طرح آقائے دوجہاں سرورِ کائنات نے مسجدِ نبوی میں قائم کیا تھا اسی طرز پر چلاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسجد صرف عبادتوں کا گھر ہی نہیں ہمدردی اور غم خواری کا محور بھی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں سمجھ کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جُرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
وانم باڑی پچھلے کئی دہائیوں تک ضلع شمالی آرکاٹ میں ایک سرخیلی حیثیت کا حامل شہر ہوا کرتا تھا۔ اگر کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا تو ضلع کے لوگ پہلے یہ دیکھتے کہ وانم باڑی والے اس مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں اور پھر اس کو اپنے یہاں لاگو کرتے۔ معاشرتی معاملات ہو یا معاشی معاملات، وانم باڑی کی رہنمائی کو ضلع میں ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ گزشتہ ایک صدی کی تاریخ دیکھ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ ترقی کے ہر میدان میں چاہے وہ معاشی ہو یا معاشرتی، پہل وانم باڑی نے ہی کی ہے اور اطراف و اکناف والوں نے بعد میں یا بہت بعد میں اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے یہاں اس کی بنا ڈالی۔ اس دور کے وانم باڑی والوں کی دور اندیشی، خلوص و للہیت، رعب و دبدبہ، سادگی، مقصد کی تکمیل کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا جذبہ علاقے میں آج بھی ضرب المثال کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔ بدترین مخالفت کے پر آشوب حالات میں باد مخالف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تعمیری شمع جلانے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا۔ انہوں نے ستائش اور صلہ کی تمنا کیے بغیر اس شہرِ ناپرساں کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو اس خوبصورتی سے سنوارا کہ اطراف و اکناف کے لوگ اس کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگے اور ان کی تقلید میں جٹ گئے۔ لیکن آج نہ وہ لوگ ہیں نہ ان کی جیسی دوراندیشی، سادگی خلوص و للہیت رعب و دبدبہ کہیں نظر آتا ہے۔ بس ان کے بنائے ہوئے کچھ در،دیوار اور چھت باقی ہیں جو یوں تو آج بھی مضبوط اور شاندار لگ رہے ہیں لیکن در حقیقت یہ ان کے نظریات کے کھنڈر ہیں جن پر کچھ مفاد پرست اپنا تخت سجائے قابض ہیں اور ان کے نام کا تاج پہنے ان عمارتوں پر اپنی ناجائز حکومت چلا رہے ہیں۔
شہر وانم باڑی جو کبھی اپنی نیک نامی کی وجہ سے ضلع کا سرخیل ہوا کرتا تھا آج ہر قسم کی معاشرتی اور معاشی برائیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ سوائے کچھ صالحہ نفوس کے جو آج بھی اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلوص و للہیت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں شہر کا ہر طبقہ شر اور فساد میں مبتلا ہو کر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا ہے۔ ساہو کار اورنام نہاد عمائدین اپنے آباؤ اجداد کے نام کی روٹیاں توڑتے توڑتے اور ان کی نیک نامی کا صدقہ کھاتے کھاتے اتنے ڈھیٹ ہوچکے ہیں کہ شہر میں بڑھتی ہوئی اخلاقی انارکی تو دور خود اُن کے گھروں میں داخل ہو چکی بد اخلاقی کا انہیں رتی برابر بھی فکر و احساس نہیں ہے۔ اسی روش پر چلتے ہوئے ان کے خوشہ چیں علماء و دانشور اور فارغین مدرسہ کاایک بڑا طبقہ اپنا فرضِ منصبی بھول کر یا تو بری طرح دولت بٹورنے میں مشغول ہے یا لایعنی بحثوں میں خود بھی الجھا ہوا ہے اور دوسروں کو الجھا کر رکھے ہوئے ہے یا معمولی معمولی مسئلوں کو بھی غیر معمولی بتا کر اُن کو سلجھانے کی کوشش میں خود کو مصروف دکھا کر خود نمائی کے مسندوں پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھ گیا ہے۔ عصری تعلیم یافتہ طبقہ جن کی ترقی پوری طرح ہمارے بزرگوں کے قائم کردہ فلاحی اداروں سے منسلک ہے خود غرضی اور مطلب پرستی میں اس بری طرح مبتلا ہوچکا ہے کہ اُسے سوائے اپنے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اپنے مادر علمی کو ہر نہج سے برباد ہوتا ہوا دیکھ کر بھی اُس کے دل میں کوئی احساس نہیں جاگتا،جب اس کی توجہ اس طرف دلائی جاتی ہے تو بس ”ہمیں کیا”، ”ہمارا ہم دیکھیں یہی بہت ہے” گنگنا کر یہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور رہی عوام، اس کا بس اللہ بیلی ہے۔ ہر روز، صبح تا شام اپنے معاش کی فکر میں الجھے رہنے کے سوا اسے کچھ سوجھتا ہی نہیں، اگر کوئی کچھ اور سجھاتا بھی ہے تو یہ اپنا رونا اس آہ وزاری کے ساتھ شروع کرتی ہے کہ سجھانے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ الغرض یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شہر کا آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ اس بگاڑ کو سدھارنے کی نہ کسی کے پاس فرصت ہے نہ کسی کو اس کی فکر اور نہ ہی کوئی اس پر غور و فکر کرنے کے لئے تیار ہے۔
جہاں شہر کے نوجوانوں کا ایک طبقہ نشے کا عادی ہوتا جارہا ہے، وہیں ایک اور بڑا طبقہ بیکار کے مشغلوں میں مبتلا ہوکر نکڑوں اور چوراہوں پر اپنا وقت ضائع کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تعلیم گاہوں کے حالات بھی قابلِ دید ہیں، نہ طلباء میں استاد کی عزت و احترام باقی ہے نہ استاد میں طلباء کے تئیں شفقت کا جذبہ، تعلیم کے نام پر بس ایک کاروبار ہے جو چل پڑا ہے جس میں سب کچھ مادی فائدے یعنی کچھ لو کچھ دو کے تحت عمل پذیر ہورہا ہے۔تعلیم گاہیں اب تعلیم گاہیں نہیں رہیں تجارت کی منڈیاں بن گئیں ہیں۔(ویسے بھی تجارتوں میں جو زوال آیا ہوا ہے اس کے آگے یہ تعلیم گاہیں آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ منافع دینے والی منڈیاں ہی تو ہیں)۔
کہنے کو یوں تو شہر میں کئی مذہبی اور اصلاحی جماعتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ کام کر ہی ہیں لیکن زمین پر ان کے نتائج نہ کے برابر ہیں۔ عبادات میں خلوص سے زیادہ تصنع کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ اجتماعات میں لوگ شرکت اس لئے نہیں کرتے کہ وہاں سے کچھ نصیحت حاصل کریں بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ دعا میں شامل ہوں کر جنت کے حقدار بن جائیں اور پھر اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذاریں۔ اور جو اپنے آپ کو مبلغ اور داعی باور کراتے پھرتے ہیں ان کا تو کہنا ہی کیا، ان کا دماغ ہمیشہ ساتویں آسمان پر رہتا ہے، نہ وہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی نصیحت قبول کریں، چاہے وہ ان سے بڑا ہی کیوں نہ ہو۔اگر کوئی ان پر ہلکی سی تنقید کردے تو اپنے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ اُس پر پہنچ کے تمام دروازے بند کرانے میں لگ جاتے ہیں اور اسے گمراہ کہہ کر بدنام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور محسوس کر کے بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگتا اور کوئی آواز نہیں بلند کرتا۔ شہر کے لوگ اب ایک ایسی بھیڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس کا کام بس چلتے رہنا ہے، کوئی گرے، کوئی لڑکھڑائے اپنی بلا سے، انہیں تو بس آگے بڑھنا ہے۔ اسی طرح جیسے عید گاہوں میں نماز ادا کرنے کے فوراً بعد اپنی جائے نماز اٹھا کر اسے اچھی طرح جھٹک کر بغل میں دبا کر جانے کی جلدی میں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ایسا کرنے سے دھول اور مٹی اڑ کر صف میں بیٹھے ہوئے دوسرے نمازیوں کے چہروں پر جائے گی اور انہیں تکلیف ہوگی۔ انہیں نہ اپنی منزل کی پرواہ ہے نہ رہنماؤں کی، یہ تو یہ بھی دیکھنا گوارہ نہیں کر رہے ہیں کہ جس سڑک پر وہ چل پڑے ہیں کیا یہ وہی سڑک ہے جو منزل کو جاتی ہے۔
حالات بری طرح بگڑ رہے ہیں۔ معاشرہ اخلاقی زوال کی کگار پر پہنچ چکا ہے، اگر ابھی بھی ہم نے اس پر توجہ نہیں دی اور اس کو سدھارنے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا تو یقیناَ وہ دن بھی دور نہیں جب ہمارے شہر کی نیک نامی، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں سب بیکار ہو جائیں گی، ہمارے پاس ہاتھ ملنے اور افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا اور اگر ایسا ہوگیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسانغنی مشتاق رفیقی
شہر وانم باڑی میں ہی نہیں ریاست ٹمل ناڈو میں بھی اردو زبان کے حوالے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب وہ پہلی جیسی باتیں اور معاملات کہیں نہیں رہے۔ پرانی قدریں قریب قریب قصہء پارینہ بن چکی ہیں۔ نئی نسلیں نئی قدروں کو اپنا کر تیزی سے خالی جگہ پر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اردو معاشرہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اردو دوستی، اردو بھائی چارگی، اور اردوحسن سلوک کی باتیں صرف کتابوں کی زینت بڑھانے کے لئے ہیں، حقیقی دنیا سے ان کا تعلق بالکل ختم ہوچکا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ خود اردو داں طبقہ جس بے اعتنائی کا ثبوت دے رہا ہے اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ اردو اسکولز بند ہو رہے ہیں اور اردو اسکولوں سے اردو کا دیس نکالا ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے اب اردو ریاست میں بس کچھ دنوں کی مہمان ہے۔ ہر چیز کو مادی نفع و نقصان سے جوڑ کر دیکھنے کی ضد نے ہمارے معاشرے سے اردو جیسی میٹھی زبان چھین لی۔ زبان کسی بھی معاشرے کی پہلی اور آخری پہچان ہوتی ہے۔ جو معاشرہ اور سماج اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرسکتا اور اسے اپنے آنے والی نسلو ں کے لئے محفوظ نہیں رکھ سکتا وہ در حقیقت زوال کا شکار غلام ذہنیت کا حامل معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے اور سماج سے دانشور اور مفکر کبھی پیدا نہیں ہوسکتے۔ ہاں غلاموں اور عیاروں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہوکر کل ضرور نکل سکتی ہے، جو اپنی زبان کی طرح اپنے آباؤ اجداد کے نام کو ان کی عزت و ناموس کو بھی اپنے مطلب کے لئے بیچنے سے یقیناً نہیں ہچکچائے گی۔ اپنے بچوں کو دوسری زبانوں میں فر فر بولتا دیکھتا کر خوش ہونے والے والدین اتنا ضرور یاد رکھیں کہ جس طرح آپ نے اپنی نسلوں سے ان کی مادری زبان چھینی ہے اسی طرح قدرت ایک قدم آگے جا کر ان کے دلوں سے مادر و پدر کی محبت کا احساس بھی چھین لے گی۔ آپ لوگوں نے ان کے تئیں جو خواب سجا رکھے ہیں اس کی تعبیر وہ کبھی مہیا نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کے لئے آپ کے خوابوں کی زبان اجنبی ہوگی۔
کسی بھی زبان کی پہچان اس کے شعر و ادب سے ہوتی ہے۔ ریاست ٹمل ناڈو میں ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے اردو شعر و ادب کا ایک بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ افسوس اس پر ہے کہ ہم ان کی نا خلف اولادیں ان میں بڑھوتری کرنا تو دور ان کی حفاظت سے بھی غافل ہوتے جارہے ہیں۔ اردو شعر وادب کے حوالے سے محفلیں خال خال ہی سجتی ہیں۔ کبھی کبھار ایک دو سج بھی جاتی ہیں تو سامعین کی تعداد دیکھ کر مرثیے اور نوحے پڑھنے کو جی کرتا ہے۔ کچھ جگہ ان محفلوں کو لے کر بد ترین سیاست بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، سرمایہ پرست اپنے حاشیہ نشینوں کو محض ذاتی تعلقات کی بنا پر عہدوں سے نواز کر ان محفلوں کا معیار گھٹا رہے ہیں اور اردو شعر و ادب کا ستیاناس کر رہے ہیں، تو کئی مقامات پر محفلیں سجانے کے لئے سرمایے کا حصول ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ ایسی محفلوں پر خرچ کرنے کو کار ثواب نہیں کار زیاں سمجھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کا حامل ہمارا معاشرہ جو خدا کی راہ میں بھی اس لئے خرچ کر تا ہے کہ اسے جنت میں عالیشان محلات اور باغات چاہئیں وہ ان لایعنی مشاغل پر کیوں خرچ کرے گا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
اسی طرح اردو کتابوں کو اب ردی کے بھاؤ خریدنے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ہیں۔ اردو اخبارات اور اردو ذرائع ابلاغ کے دوسرے ذریعوں پر سرمایہ لگا نا ہمارے نزدیک کار عبث اور نقصان دہ ہے۔ لگ بھگ پچیس سال ایک مرد قلندر اردو کا ایک رسالہ نشان منزل کے نام سے جاری رکھ کر مفت تقسیم کرتا رہا، آج وہ بھی تھک کر بیٹھ چکا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح پندرہ روزہ زبان خلق شائع ہورہا ہے، جو مفت تقسیم ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مفت تقسیم ہونے کے باوجود بھی اس کے قارئین کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔
کچھ عرصے قبل ریاست ٹمل ناڈو سے زبان خلق ویب سائٹ کا اجرا عمل میں آیا جو آج کی تاریخ میں ریاست کا پہلا اور اکلوتا اردو ویب سائیٹ ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی المیہ ہورہا ہے کہ اس کے ناظرین کی تعداد اس کی کسی بھی پوسٹ پر تین عدد سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ پتہ نہیں اردو زبان سے محبت کا دعویٰ کرنے والے ریاست ٹمل ناڈو کے وہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ کہاں رہتے ہیں جو اپنے موبائل پر ایک کلک کرکے اس ویب سائٹ کا مطالعہ نہیں کرسکتے شاید ان کے پاس ایسے لایعنی کاموں کے لئے وقت ہی نہیں ہے، لیکن وہیں لوگ اردو کے جلسوں میں شہ نشین پر براجمان ہو کر اردو کے تئیں عوام کی بے اعتنائی پر ٹسوے بہاتے نظر آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ یاد رہے حکومت کی نظر ہماری ہر چیز پر ہے، جب اس کو علم ہے کہ ریاست میں اردو کے اکلوتے ویب سائیٹ پر ناظرین کی تعداد تین عدد سے بھی آگے نہیں بڑھ ری ہے تو وہ کیوں ایسی زبان کے تعلق سے کوئی مثبت رخ دکھائے گی۔
شعر و ادب کی محفلیں، اردو اخبارات، اردو ویب سائیٹس، اردو سے آپ کی محبت اور لگاؤ کے ثبوت ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے، اردو کے حوالے سے موجودہ منظر نامے کو آپ بدل سکتے ہیں تو اردو ذرائع ابلاغ کی ان کاوشوں کو مقدور بھر تقویت مہیا کیجئے۔ آپ کی کوششیں ریاست میں اردو زبان کی بقا کی راہیں ہموار کرسکتی ہیں۔ اردو زبان کی بقا ہمارے سماج اور معاشرے کی بقا ہے اس کی قدروں کی بقا ہے۔ ہماری پہچان کی بقا ہے۔ ہمارے تعلقات اور رشتوں کی بقا ہے، ہماری تہذیب کی بقا ہے۔ رب عظیم ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔۔۔ صحیح مسلم534
مذکورہ بالا حدیث سے شاید ہی کوئی کلمہ گو واقف نہیں ہوگا۔ یہ حدیث مکتب میں چھوٹے بچوں کوازبر کرایا جاتا ہے۔ واعظ اور خطیب حضرات اپنے وعظ اور خطبوں میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ مسلم دانشور اپنے مضامین میں اس حدیث کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے ہمارا مذہب پاکی اور صفائی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن صد افسوس زمین پر اس پر عمل جتنا کم ہمارے لوگوں میں ہوتا ہے اتنا شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہوتا ہو۔
جس طرح ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، گالی دینا اور ہجو اڑانا،کردار کشی کرنا، شراب پینا، سود لینا، جوا کھیلنا،چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، دھوکہ دینا،لواطت اور زنا کرنا، بدترین گناہوں اور حرام میں شمار ہوتے ہیں، ہم میں سے اکثر ان افعال بد میں مبتلا رہتے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے اس کو عادت بنائے ہوئے ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی، بلکل اسی طرح ہم اس حدیث کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے اطراف و اکناف ماحول کو صاف صفائی سے عاری اور اتنا گندہ، بدبودار اور غلیظ رکھتے ہیں کہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے یہ فلاں لوگوں کو محلہ ہے۔ ممکن ہے اکا دکا انگلی میں گننے لائق لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مل جائیں مگر عام طور پر ہمارے یہاں زمینی حوالے سے اس حدیث پر عمل بالکل نہیں ہوتا۔
بات چیت کی حد تک اس موضوع پر بحث کرنے اور اس کو میدان میں نافذ کرنے کے لئے لائحہ عمل بنانے والے تو بہت مل جائیں گے مگر اس پر خود عمل کرنے والے بلکل اسی طرح ملیں گے جس طرح حقوق نسواں پر گھنٹوں بولنے والے جب خود کی بہن بیوی کی باری آتی ہے تو بے شرم ہوکر تاویلیں پیش کرنے والے یا قوم کے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی فکر پر زور دار جذباتی تقریریں کرنے والے جب ان سے اس مدمیں انفرادی مدد اور رہنمائی مانگی جاتی ہے تو بات کترا کر فرار ہوتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے درمیان صرف ظاہری صاف صفائی ہی نہیں باطنی صاف صفائی بھی بدترین زوال کا شکار ہوچکی ہے اور ہم اخلاقی انحطاط کے ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے ہمارا بدترین انجام بالکل صاف نظر آرہا ہے۔
پاکی صفائی آج کے دور کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ حفظان صحت کے لئے جتنی اس کی ضرورت ہے وہیں یہ کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ماحول کو خوشنما بنانا اپنے اطراف و اکناف کو گندگی اور بدبو سے پاک و صاف رکھنا، معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
یہ سوچ کہ صاف صفائی حکومت اور شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس معاملے میں کچھ ہمارے بھی فرائض ہیں۔ صاف صفائی کے لئے انتظامیہ کی جانب سے جو عملہ مامور ہے انہیں آسانیاں مہیا کرنا، کچروں کو جیسا وہ کہیں اس طرح ان کے حوالے کرنا ضروری ہے، راستوں یا نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا کر یا نالی میں کچرا انڈیل کر صاف صفائی کے عملہ کو کوسنا بڑی غلط بات ہے۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے محلوں میں ہر نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ گندے پانی کی نالیوں میں بھی اتنا کچرا پڑا رہتا ہے کہ پانی بہتا ہی نہیں۔ ان سب کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے اور ماحول میں بھی گندی بو پھیلی رہتی ہے۔ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس میں سدھار کی کوشش کریں۔ پہلے اپنے گھر سے اس طریقے سے کچرا اور گندگی پھیلانے سے گریز کرتے ہوئے،پھر اگر ہمیں لگتا ہے کہ گلی اور محلے میں رہنے والے ایسا کرتے ہیں انہیں پیار و محبت سے ایسا کرنے سے روکیں اور اس کے بعد اگر انتظامیہ کا عملہ اس معاملے میں کوئی کوتاہی برت رہا ہے تو اعلی حکام کے درمیان اس بات کو اٹھاکر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
انتظامیہ میں ہمارے چنے گئے کونسلر صاحبان بھی ہوتے ہیں، انہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائیں اور انہیں اپنے فرائض جس کا انہوں نے انتخابات کے وقت وعدہ کیا تھا یاد دلائیں۔ مونسپل کمشنر اور چیرمین کو راست اس مسئلے کی آگہی دے کر انہیں حل کرنے کے لئے کہیں۔اگر پھر بھی ماحول جوں کا توں رہتا ہے تو وزیر اعلیٰ کو خط روانہ کرکے صورت حال سے واقف کراکر انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کہیں۔ صاف ستھرا ماحول قائم رکھنا جس طرح ہماری ذمہ داری ہے اس طرح ہمارے لئے ایسا ماحول مہیا کرانا اور اس پر نگرانی رکھنا حکومت کا فرض بھی ہے۔ بات چھوٹی صحیح لیکن تمام مسائل کی جڑ گندگی اور غلاظت کے انبار ہی ہیں۔ اگر ان کی بر وقت صفائی نہ ہوئی تو بیماریاں پیدا ہوں گی، ان کے علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے گی، اور یوں معاشی مجبوریاں جو معاشرے میں پنپنے والے تمام جرائم کی جڑ ہوتی ہے،معاشرے کو برباد کرکے رکھ دے گی۔
اکثر شہر کے نئے آباد ہونے والے محلوں میں انتظامیہ کی طرف سے شروع میں ہی گندے پانی کے نالے نہیں بنائے جاتے۔ جس کی وجہ سے سارا گندہ پانی گلی اور سڑکوں میں بہتا رہتا ہے، اور اگر بارش ہوجائے تو پھر راستہ اتنا گندا ہوجاتا ہے کہ جانور بھی بچ بچا کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے محلے میں لاکھوں روپئے خرچ کرکے گھر بنانے والے اگر چاہیں تو اپنی گلی کے مکینوں کو جوڑ کر رقم اکٹھا کر کے خود سے گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نالے بنا کر کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا، ہاں انتظامیہ سے گلہ کرتے برابر نظر آئیں گے۔ رہی انتظامیہ کی بات تو یاد رکھیں اس کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔
شہر کے مساجد میں جمعہ کے دن خطیب حضرات اگر اس معاملے پر مسلسل بولنے لگیں تو امید ہے ماحول میں سدھار آسکتا ہے۔ شہر کے سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان،عمائدین اور دانشور حضرات کو چاہئے کہ صاف صفائی کے اس مسئلے کو حقیر سی کچرے کی بات کہہ کر ٹالنے کے بجائے اس کی سنجیدگی کو محسوس کریں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف نئی نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں بلکہ شہر کا امیج بھی خراب ہورہا ہے۔ خالی خولی بحث کرنے کے بجائے اس مسئلے سے جڑے تمام لوگوں کو جوڑ کر اس کا کوئی معقول حل تلاش کریں یا ایسا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں جس پر چل کر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں آسانی ہو۔ یاد رکھیں جب تک آپ کا ظاہر صاف ستھرا نہ ہو گا آپ بھلے سے باطنی طور پر کتنا ہی اپنے آپ کو صاف ستھرا باور کرائیں دنیا آپ کو گندہ، ناپاک اور غلیظ ہی سمجھے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
حضرت امام حُسینؓ کی شہادت کا سانحہ اسلامی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جو تا قیامت ہر اُس انسان کو جس کے سینے میں کسی کے ذرا سے دکھ درد پر ٹرپ اٹھنے والا دل ہو رلاتا رہے گا۔ آپ پر اور آپ کے اہل و عیال پر جو گذری وہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی پر گذری ہو۔ محض اس لئے کہ آپ نے اپنے اصولوں سے سمجھوتا کرنے اور اپنی فکری آزادی سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا، آپ کے اور آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ بد ترین سلوک کیا گیااور بے دردی سے آپ کو اور آپ کے خاندان کے تمام مردوں کو سوائے ایک خیمے میں رہ جانے والے بیمار کے شہید کردیا گیا۔ اور یہ سب ان بد بختوں نے کیا جو آپ کے نانا کے دین کا دم بھرتے تھے اور اپنی ہر نماز میں ان کے اہل وعیال پر سلامتی کی دعائیں بھیجتے تھے۔ منافقت کی ایسی انتہا دنیا نے کبھی نہیں دیکھی کہ جن کی وجہ سے روم و فارس کی حکومتیں ان کے زیر اقتدار آئیں ان ہی کے اہل بیت کو ان جاہ پرستوں نے بڑی بے رحمی کیساتھ قتل کرڈالا، ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اپنے حلقے میں ایک دوسرے کے سامنے طشت میں رکھ کر اپنے فتح کے نشان کے طور پر پیش کیا،ان کی عورتوں کو ننگے سر بازاروں میں گھمایا اور دربار میں انہیں قیدیوں کی طرح کھڑا کروایا۔اسی پر بس نہ کرتے ہوئے ظلم و بربریت کی اس داستاں کو سختی کے ساتھ دہائیوں تک پھیلنے سے روکا گیا اور عوام کے بیچ میں کئی طرح کے جھوٹ پھیلا کر امام حسینؓ اور اہل بیت کی مظلومیت اور اپنے بد ترین جرم کو گھٹا کر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی اور افسوس یہ کوشش اس سانحہ کے گزرنے کے چودہ سو سال بعد آج بھی جاری ہے۔
سب سے بڑی اور حیرت کی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گذر گیا،مورخوں اور راویوں نے اس پر لاکھوں صفحات سیاہ کردئے لیکن آج تک امت اپنے پیارے رسولؐ کی آل پر ڈھائے گئے اس ظلم و شقاوت پر ایک متفقہ اوراجماعی ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام ہے۔ ایک طبقے میں آل رسولؐ سے محبت اور عقیدت کے نام پر اتنا غلو پایا جاتا ہے کہ وہ اُس دور کے اکثر کلمہ گو اور دانستگی یا نادانستگی میں حالات کو اس موڑ تک لانے والے تمام اشخاص کو مرتد اور قابل عتاب سمجھتا ہے اور ان پر لعن طعن کرنے کو دین سمجھے ہوئے ہے تو ایک دوسرا طبقہ اس واقعے کا سارا الزام حضرت حُسینؓ پر ڈال کر ان کے قاتلین کو حق پر قرار دینے کے لئے روایات کی من گھڑت تاویلات پیش کرتا رہتا ہے۔ تیسراطبقہ اصحاب رسول سے محبت اور عقیدت کا نام لے کر اس سانحہ پر سکوت قائم رکھنے کو احسن سمجھتا ہے، حالانکہ اصحاب رسول نے غلط کو غلط کہنے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیا، سچ کے لئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے، انصاف پر کبھی بھی محبت اور عقیدت کو غالب آنے نہیں دیا۔ آج کل تو اس طبقے میں اپنے نظریے کو لے کر اتنا غلو پیدا ہوگیا ہے کہ وہ پہلے والے طبقے کی طرح جو اہل بیت کو معصوم سمجھتے ہیں یہ اصحاب کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے۔ چوتھا طبقہ ان کا ہے جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہادت حسینؓ کے اصل ذمہ دار کون ہیں اوریہ مذموم واقعہ کیوں پیش آیا اس کے اسباب سے بھی یہ واقف ہیں لیکن اپنی سیاسی مجبوریوں اور وجوہات کے بنا پر بظاہر تو امام حسینؓ کومظلوم شہید مانتے ہیں لیکن عملاً ان کے قاتلین کے طریقے کو افضل سمجھ کر اسی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ کرسی اور عہدے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جانے کو غلط نہیں سمجھتے۔ پانچواں طبقہ ان کا ہے جو اس پورے واقعے کو محبت و عقیدت کی نظر سے نہیں قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ طبقہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود روز اول سے اپنے اصولوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ چاروں طبقوں کی مخالفت جھیلتے ہوئے ہر ایک سے دوسرے کی طرفداری کا طعنہ برداشت کرتے ہوئے یہ طبقہ حق پیش کرنے سے کبھی غافل نہیں رہا۔ شہادت حسینؓ اس طبقے کے نزدیک محض ایک واقعہ نہیں ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر حق اور باطل کو آسانی سے پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا وہ موڑ ہے جہاں سے حریت پسندوں اور سرفروشوں کا قافلہ جاہ پرستوں اور دنیاوی مقاصد کے لئے ظلم و جبر کی حمایت کرنے والوں سے الگ ہو کر نمایاں ہوگیا اور قیامت تک آنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کرگیا۔
شہادت حسینؓ پر امت کے اختلاف نے اسلام کے ایک اہم بنیادی اصول مشاورتی جمہوریت کو اس قدر دھندلادیا کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں یہ امت ایک لمبے عرصے تک یا تو شخصی بادشاہت کے زنجیروں میں جکڑی رہی یا طوائف الملوکی کے صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ ہر طرف عوامی حکومت کا چرچا ہے نام نہاد مسلم ریاستوں میں بٹی یہ امت کہیں شخصی بادشاہت تو کہیں فوجی ڈکٹیٹروں،کہیں باطل نظریاتی شدت پسندوں تو کہیں جمہوریت کے نام پر غاصب سرمایہ داروں کے زیر نگیں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اسے اس بات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں امت کو آج اپنے درمیان موجود چھوٹے بڑے اکثر فلاحی اداروں میں بھی ان ہی حالات کا سامنا ہے۔ قاتلان حسین ؓکے روحانی پیروکار کرسی اور عہدے کے لئے حق اور انصاف کا خون کرنے سے ذرا بھی شرمائے بغیر اپنے گھٹیا افعال کی ایسی خوشنما تعبیریں پیش کرتے ہیں کہ شیطان بھی شرماجائے۔ ریاست و حکومت کے بڑے بڑے شعبوں سے لے کر چھوٹے بڑے تمام فلاحی اداروں میں موروثیت اب ایک تسلیم شدہ قابل تقلید امر ہے، اسی طرح قابل شخصیات کو نظر انداز کرکے اپنے حاشیہ نشینوں کو نوازنا معمول بن گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسا کرنے والوں کی صف اول میں وہ صاحبان علم دانش بڑے جاہ جلال کیساتھ نظر آتے ہیں جن کی زبانیں امام حسینؓ اور ان کے اصولوں کی مدحت میں ہمیشہ رطب السان رہتی ہیں۔
کاش کہ امت شہادت امام حسینؓ کا اصل سبق شرح صدر کے ساتھ پڑھ لے اور اس کے پیغام کو پالے۔ کاش کہ امت قاتلان حسینؓ کو پہچان لے تاکہ ان کی روحانی ذریت کی ریشہ دوانیوں سے ہر قدم پر ہوشیار رہے۔ کاش امت کی آنکھوں پر غلو اور اندھی عقیدت کے پردوں کے بجائے قرآن و سنت کا چشمہ لگ جائے۔ کاش اے کاش!!
اسانغنی مشتاق رفیقی
بظاہر ایسا لگتا ہے، فرقہ پرستی کا وہ عفریت جو اپنی پوری خوفناکیت کے ساتھ ہمارے سماج کو نگلنے کے لئے چنگھاڑتا ہوا بڑھ رہا تھا کہیں دبک کر بیٹھ گیا ہے۔ اس کی چنگھاڑ پر کسی نے لگام کس دی ہے۔ فاشزم کے کالے بادل جن سے خطرناک آندھیوں اور طوفانوں کی آہٹ آرہی تھی چھٹنے لگے ہیں۔ ظلم و جبر کی کالی اور مہیب رات پر انصاف اور امن کا سورج طلوع ہونے کی کگار پر ہے۔ وقت بدل رہا ہے، مطلق العنانی پر جمہوریت کی فتح ہوئی ہے اور بہت جلد حالات اس قابل ہوجائیں گے کہ راوی وقت کے کاغذ پر چین ہی چین لکھے گا۔ لیکن کیا سچ میں ایسا ہی ہوا ہے؟
ملک کی رگوں میں گزشتہ ایک صدی سے نفرت و تعصب کا جو زہر دھیرے دھیرے سرایت کرایا گیا تھا اس کا اثر ایک ہی جھٹکے میں تو زائل نہیں ہوسکتا۔ سماج کی نسوں میں خون بن کردوڑتے اس زہر کو باہر نکالنے کے لئے جراحت کا ایک مسلسل عمل درکار ہے۔ جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں مہینوں لگ جاتے ہیں مگر اس کو ڈھانے کے لئے صرف چند لمحے کافی ہوتے ہیں، اسی طرح دہائیوں پر محیط تخریب پر تعمیر کے لئے صدیوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ دو چار فاشستوں کو شکست دے کر یا کچھ سیاسی نعرے بازی کرکے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے فرقہ پرستی کے دیو کو قابو میں کرلیا ہے تو وہ در حقیقیت بے وقوفوں کی جنت میں رہتا ہے۔ نفرت کے زہر سے متاثر ذہنی مریضوں کے لئے صرف محبت کا تریاق ہی نہیں خلوص کے لمس کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس وافر مقدار میں محبت کا تریاق دستیاب ہے نہ خلوص کا لمس، بس کچھ زبانی جمع خرچ کرنے والے نام نہاد طبیب موجود ہیں جن کی نیم حکیمی سے مریض جہاں دو چار لمحے کے لئے شفا یاب ہوتا ہوا نظر آتا ہے تو وہیں گھنٹوں مرض کی شدت سے مغلوب ہوکر اور بھی زیادہ مقدار میں زہر چھننے لگتا ہے۔
شدت پسندی کے دیو کے پاس دولت اور اقتدار کا ایسا طلسم موجود ہے کہ جس کے سحر میں وہ اچھے اچھوں کو گرفتار کرکے اپنے بس میں کرسکتا ہے اور جو ایک بار اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے وہ بہت کم اس سے آزاد ہونے کی سعی کرتا ہے۔ اگر کوئی نادان اس نادانی پر اتر آئے تو پھر اس دیو کے پاس ایسے کئی چھلاوے موجود ہیں جن کی ہیبت دکھا کر وہ اُسے آسانی سے قابو میں کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہےکہ شدت پسندی کے اس دیو کو اگر کبھی لگتا ہے کہ اس کی اقتدار کی پالکی اٹھانے والے کہاروں کی تعداد کم ہورہی ہے تو وہ اپنی جادو کی چھڑی گھما کر اس تعداد میں آسانی سے اضافہ کرلیتا ہے، ماضی میں ایسا کئی بار ہوچکا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ اس لئے اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کہ پالکی اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی کراکر ہم نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے۔ دیو حالات کی نزاکت کی وجہ سے فی الوقت خاموش ہے، جس دن اسے اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ اس کی اقتدار کی پالکی کے لئے اور کہار چاہئیں تو وہ اپنی جادو کی چھڑی بلند کرے گا اور بس سب دیکھتے رہ جائیں گے، محبت کے تریاق پلانے کے دعویدار، نام نہاد طبیبوں کا ایک پورا گروہ اس کے کہاروں کے صف اول میں نظر آئے گا۔
حالات کو اگر سچ میں سدھارنا ہے تو پہلے ہمیں سدھرنا ہوگا۔ اپنی صفوں میں یکتا پیدا کرکے ہی ہم شدت پسندوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر بکھرا ہوا ہجوم بن کر ہم نے نفرت کے سانپ کو کچلنے کی کوشش کی تو وہ بآسانی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے نشانے پر لے کر اس شدت سے ڈسے گا کہ ہم پانی بھی نہیں مانگ سکیں گے۔ یہ لڑائی ایک دو دن میں ختم ہونے والی نہیں ہے۔ فاشزم کے خلاف یہ جنگ صدیوں سے جاری ہے اور صدیوں جاری رہے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں شدت پسندی کے دیو کے جبر سے محفوظ رہیں، سماج میں سرایت نفرت کے زہر کا اثر پوری طرح زائل ہوجائے اور معاشرہ انصاف اور امن کی فضا میں سانس لینے لگے، تخریب پر تعمیرکی حکمرانی قائم ہوجائے تو ہمیں سیاسی نعرے بازی اور وقتی سد باب سے بلند ہو کر ایسی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی جس سے شدت پسندی، فاشزم، مطلق العنانی، ظلم و جبر اور نفرت و تعصب کے دیو اور ناگ ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم ہوجائیں۔ خدا ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
معاشی بدحالی اور غربت ازل سے انسانی زندگی کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا اور مشکل مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے سے چھٹکارہ پانے کے لئے دانشوروں اور مخلص لوگوں نے اپنے اپنے زمانے میں بڑی کوششیں کی ہیں۔ ہر دور میں اس عفریت سے لڑنے کے لئے انسانوں کے درمیان ایک طبقہ موجود رہا، اس کے باوجود آج تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ موجودہ دور انسانی ترقی کے معراج کا دور ہے مگر اس دور میں بھی یہ قدیم مسئلہ اپنی جگہ اسی شدت کے ساتھ کھڑا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ صرف ایک مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ جو مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ان مسائل کے ساتھ جو نئے نئے مسئلے نکلتے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا شیطان کی آنت ہو جس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
انسانی معاشرے میں معاشی بدحالی اور غربت کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اس میں مبتلا لوگوں کو جہاں انسانوں کے ایک طبقے نے ذلیل اور کم تر سمجھا تو وہیں ایک دوسرا طبقہ ہمیشہ ان کا استحصال کر کے اپنے آپ کو بلند کرنے میں لگا رہا۔مذاہب جس کے پیرو کاروں میں اکثریت مفلسوں اور ناداروں کی ہوا کرتی ہے وہ بھی ان کی دادرسی کرنے میں ناکام رہے، کچھ مذاہب نے حیرت انگیز طور پر غربت اور مفلسی کو خدائی عطیہ بتانے سے بھی دریغ نہیں کیا تاکہ لوگ معاشی اونچ نیچ کو تسلیم کرکے اس پر بے جا سوال نہ کھڑے کریں۔ حالانکہ غریبی و مفلسی انسانی ہوس اور لالچ کے نتائج ہیں، اور ہوس اور لالچ انسانی فطرت کا ہی حصہ ہیں۔ جب تک انسان اپنی اس فطری کمزوری پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرے گا وہ معاشرے سے غریبی کو دور نہیں کر پائے گا۔
دین اسلام کو موجودہ ادیان میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ انسانی فطرت کا مکمل خیال رکھتا ہے۔ اس کے احکام انسانی فطرت کو بنیاد بنا کر وضع کئے گئے ہیں اور یہ بات اس کے حق ہونے کی ایک قوی دلیل بھی ہے۔اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید جس کا موضوع اصل، انسان ہے دنیا کی وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں انسانی مسائل پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں خالقِ کائنات کی حمد و ثنا سے ذیادہ زور اس بات پر دکھائی دیتا ہے کہ انسان کس طرح اس دنیا کو اپنے اعمال سے امن کا گہوارہ اور جنت نظیر بنائے۔ دین اسلام کی یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ملتی۔
یہ اور بات ہے کہ وطن عزیز میں آج دین اسلام کے ماننے والے اپنے پاس ایسے بے نظیر اور فطری قوانین ہونے کے باوجود ذلیل و رسوا ہیں اورمسلمانوں کی اکثریت غربت اور مفسلی میں مبتلا ہے۔ در حقیقت یہ سب اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ روایات اور اندھی تقلید میں گم ہوکر امت اپنی اصل سے بھٹک چکی ہے اور اس ہدایت کے نورسے دور ہو چکی ہے جس کی روشنی میں آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے بدوؤں نے اس وقت کے عالمی طاقتوں کو سر نگوں کر دیا تھا۔
آقائے دو جہاں کے اس واضح ارشاد کے باوجود کہ
کَادَ الْفَقْرُ أَنْ یَکُونَ کُفْرًا،ممکن ہے کہ فقیری کفر میں مبتلا کردے۔
اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ،اے اللہ! میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
امت نے معاشرے میں غربت اور مفلسی کے ناسور کو پنپنے دیا اور اس کے دفع کرنے کی راہیں ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی اور آج یہ عالم ہے کہ ہر چوراہے اور نکڑ پر ذلیل و خوار ہوکر مارے مارے پھر رہی ہے۔کہیں دوڑا دوڑا کر ہمیں مارا جارہا ہے تو کہیں کوئی معمولی درجے کا ملازم حالت سجدہ میں ہماری کمر پر لات دھر جاتا ہے اور ہمیں سہنا پڑتاہے۔ سماج میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے، مفلسی اور غربت نے ہمیں اچھوت بنادیا ہے۔ ہماری حیثیت بکریوں کی اس ریوڑ کی طرح ہوگئی ہے جس کے سر پر چھت کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں، ڈنڈے کے زور پر ہمیں کوئی بھی ہانک کر مذبحہ خانوں کی طرف لے جاسکتا ہے اور ہم سرجھکائے اس کے پیچھے چلنے کو تیار رہتے ہیں۔ایسا صرف اس لئے ہوا کہ ہم نے دین کو مذاق بنا لیا۔ اس کے صرف ان احکامات کو اپنایا جس میں اپنی انا کی تسکین ہوتی ہے، جس کے ذریعے جنت کا حصول بھی آسان ہوجائے اور ہمیں کچھ قربانی بھی نہ دینی پڑے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نماز کے ساتھ زکواۃ بھی ہم پر فرض ہے اور روزوں کے علاوہ حج کا بھی ہمیں حکم ملا ہے ہم نے ان فرائض کی بجا آواری میں غفلت برتی۔ کبھی مال کو حقیر جان کر اس کے حصول کی کوشش ہی نہیں کی کہ میں بھی صاحب نصاب بن کر زکواۃ ادا کروں اور کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل کروں، تو کبھی مال رکھتے ہوئے بھی ان فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی برتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیاوی مال و متاع، خدائے ذوالجلال کے پاس موجود خزانوں کے آگے حقیر شئے ہیں، لیکن جس کے خرچ کرنے پر آپ کو آپ کا خالق ملتا ہو وہ اتنی بھی حقیرنہیں ہو سکتی کہ آپ اس کے حصول سے ہی دامن چھڑا بیٹھیں۔ آپ کا دین آُ پ کو حلال رزق کی جستجو کا پابند ہی نہیں بناتا بلکہ اس بات پر اصرار بھی کرتا ہے کہ حلال مال کی تلاش اورکوشش میں لگنا آپ کا فرض ہے تاکہ آپ سے حقوق العباد کی ادائیگی آسان ہوجائے۔
فرمان ربی ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ،پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔
یعنی یہاں رزق حلال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے حصول کو عبادت کے فوراً بعد رکھ کر دوسرے اعمال سے مقدم کیا گیا ہے۔ پتہ نہیں اتنی واضح ہدایت کے باوجود کیوں امت اس فرض کی جانب جتنی سنجیدگی سے متوجہ ہونا چاہئے متوجہ نہیں ہوئی، اور آج اسی وجہ سے ہماری حالت معاشی لحاظ سے اتنی گر چکی ہے کہ الاماں الحفیظ!
یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوچکی ہے کہ ہم معاشی بدحالی اور غربت میں دوسرے کئی اقوام سے بد تر مقام پر ہیں۔ اگر گہرائی سے اس حالت کا تجزیہ کیا جائے تو ایک بات جو سب سے واضح نظر آتی ہے جسے اس زوال کا بنیادی سبب بھی کہا جاسکتا ہے وہ یہ کہ عصری تعلیم سے ہماری لاپرواہی اور انکار کی حد تک اس سے تغافل ہے۔ گزشتہ سو سالوں میں جب عصری تعلیم کا غلبہ شروع ہوا تو دوسری قوموں نے اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن ہمارے کئی دانشوروں اور مصلحیان قوم کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہم نے عصری تعلیم کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور اس کو ایک طرح سے دھتکار دیا، جس کا خمیازہ آج ہم اور ہماری نئی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ عصری تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اگر آپ کو کوئی چھوٹا سے چھوٹا کام بھی کرنا ہے یا کہیں معمولی نوکری بھی حاصل کرنی ہے تو بغیر اس کے آپ کچھ نہیں کرسکتے اور آپ کی حیثیت صفر ہوگی، اتنا ہی نہیں اس کی وجہ سے زندگی کے ہر موڑ پرآپ بری طرح دوسروں کے محتاج ہونگے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس قوم کی جانب پہلی وحی ہی ‘پڑھو’ کی نازل کی گئی اور جسے بتایا گیا کہ آپ کے جد امجد آدم ؐ کو اللہ نے سب سے پہلے اشیاء کے ناموں کی تعلیم یعنی عصری تعلیم دی تھی وہ روایات اور اندھی تقلید میں مبتلا ہوکر اس بات کو فراموش کر گئی۔ جسے دوسری قوموں کے لئے معلم اور نمونہ ہونا چاہئے تھاوہ اب اس تعلیم کے لئے دوسروں کی محتاج بنی کھڑی ہے۔ آج افسوس اس بات پر ہے کہ حالات اتنے دگرگوں ہونے کے باوجود ہم میں سدھار کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت غریبی اور مفلسی کی دلدل سے نکلے اور معاشی طور پر اتنی مضبوط ہوجائے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں نظر انداز نہ کر سکے تو سب سے پہلے امت میں عصری تعلیم کو ایک مضبوط لائحہ عمل بنا کرعام کرنا ہوگا۔ عصری تعلیم گاہوں کا ایک جال وطن عزیز کے کونے کونے میں بچھانا پڑے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کرنے ہوں گے۔کچھ جگہوں پر بنیادی تعلیم کی سہولتیں موجود ہیں لیکن نتائج قابل قدر نہیں نکلتے۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہے اس میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ حکومتیں اس مسئلے میں ہمارے ساتھ کبھی سنجیدہ نہیں رہیں، سرکار کس کی بھی رہی ہو انہوں نے اس بات کو لے کر ہمارا استحصال تو کیا لیکن اس کو سلجھانے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا۔ موجودہ حالات میں ان سے امید نہ کے برابر ہے۔ اب جو بھی کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کے لئے فنڈز کہاں سے دستیاب ہونگے؟
اس گئے گذرے دور میں بھی ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو معاشی لحاظ سے کسی حد تک مضبوط ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو کسی کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں ان کی مالی حالت دوسروں سے بہتر ہے۔ خاص کر جنوبی ہندوستان کے اور شمالی ہندوستان کے بھی کچھ مخصوص علاقوں کے مسلمانوں میں پچھلے کئی دہائیوں سے ان میں عصری تعلیم کے عام ہونے کے سبب معاشی طور پر مضبوطی پائی جاتی ہے۔ اور یہ سب شرعی اصطلاح میں صاحب نصاب میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ ایک لائحہ عمل بنا کر سنجیدگی کے ساتھ اپنی زکواۃ کی رقم عصری تعلیم کو عام کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کو آسان کرنے میں لگائے تو ایک بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔ زکواۃ کے تعلق سے ہمارے یہاں جو سوچ ہے وہ بہت محدود ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے دیا گیا ایسا طریقہء کار ہے جس پر اگر مکمل عمل ہوجائے تو ہمارے سارے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قرون اولیٰ میں جب زکواۃ کا اجتماعی نظام ہمارے درمیان رائج تھا تو حال یہ تھا کہ امت میں زکواۃ لینے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ امت نے جب سے اس طریقے کو پس پشت ڈالا ہے مفلسی اور غربت کا طوق اس کے ایک بڑے حصے کے گلے میں پڑتا چلا گیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے اسی نظام کو اپنے درمیان لانے کی سعی کریں اور اس کے ذریعے عصری تعلیم کو عام کرکے امت کو غربت اور معاشی بدحالی کے صحرا میں بھٹکنے سے بچائیں۔
ایک سرسری اندازے کے مطابق وطن عزیزمیں تیس سے چالیس ہزار کروڑ روپیوں تک کی زکواۃ ادا کی جاتی ہے جس میں اکثر رقم صحیح آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یا غلط رہنمائی کی وجہ سے غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جس سے امت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر قوم کے دانشور اور علماء حضرات ایک لائحہ عمل بنا کر اس رقم کو ضائع ہونے سے بچا لیں تو ان کا یہ عمل آج کی تاریخ میں ایک بہت بڑا جہاد ہوگا۔
ایک اشکال کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کھڑا کیاجاتا ہے کہ کیا زکواۃ کی رقم عصری تعلیم کی مد میں خرچ کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک زکواۃ کا تعلق ہے قران مجید میں صاف لفظوں میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ یہ رقم کن کن پر خرچ کی جاسکتی ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل،ِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ،ِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ التوبہ آیۃ 60
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
اس آیت میں زکواۃ کے درج ذیل مصارف بیان کئے گئے ہیں
٭فقراء اور مساکین کے لئے
٭عاملین علیھا یعنی ریاست کے ملازمین کیلئے
٭مولفۃ قلوب یعنی اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے لئے غیرمسلموں میں
٭ فی الرقاب یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لئے
٭الغارمین یعنی قرض یا نقصان تاوان کے بوجھ تلے دبے لوگوں کی مدد کے لئے
٭فی سبیل اللہ یعنی دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبودی کے کاموں کے لئے
٭ابن السبیل یعنی مسافروں کی مدد اور ان کے لئے سڑکوں پلوں اور سرائے وغیرہ کی تعمیر کے لئے
تھوڑی تدبر اور غور وفکر کر کے ہم ان میں کے تمام یا اکثر مصارف کو موجودہ دور میں عصری تعلیم کے عام کرنے سے جوڑ سکتے ہیں۔ مفلس اور فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ضروریات زندگی کا کوئی ساز و سامان نہ ہو حتٰی کہ دانے دانے کا محتاج ہو یعنی آج کی اصطلاح میں غریبی کی ریکھا سے نیچے والا، ایسے شخص کی بہترین مدد یہی ہوسکتی ہے کہ اُسے یا اس کی اولاد کو تعلیم و فن سے جوڑ کر اس کی نسلوں کو زکواۃ لینے والا نہیں زکواۃ دینے والا بنادیں۔ اسی طرح مولفۃ قلوب پر اگر آج کے حالات میں تدبرکریں تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم عصری تعلیم گاہیں قائم کریں جہاں بلا قوم و ملت ہر کسی کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں۔ اس سے عام معاشرے میں جہاں ہمارے تعلق سے مثبت پیغام جائے گا وہیں مستقبل میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوگا جس کی موجودہ حالات میں ہمیں اشد ضرورت ہے۔ جنوبی ہندوستان میں آج اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔
غلامی یعنی ذلت کی زندگی جس میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے امت کی ایک بڑی اکثریت آج مبتلا ہے اس سے نجات کے لئے بھی عصری تعلیم پر خرچ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ الغارمین کے حوالے سے، آج امت کا اس سے بڑا نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں حقیر اور بے وزن ہوگئی ہے۔ نہ اس کے پاس اچھے وکلاء کی اکثریت ہے جو بے جا مقدمات میں پھنسے ہوؤں کو چھڑا سکیں اور نہ کسی بھی میدان کے ماہرین کی ٹیم ہے جودین کی روشنی میں جدید مسائل کا حل بتاسکیں۔ فی سبیل اللہ اور ابن السبیل کی مد میں، اس کے بین السطور میں پوشیدہ عصری تعلیم اوراس پر خرچ کرنے کی ضرورت کو آپ ذرا سی غور و خوص کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں امت کی درد و فکر رکھنے والا شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے اگر آج قوم کو کسی بات کی اشد ضرورت ہے تو وہ بس عصری تعلیم کی ہے اور اس لحاظ سے اس پرخرچ کرنا گویا آج کا افضل ترین عمل ہے۔
چونکہ اس کی امید کم ہی ہے کہ اجتماعی شکل میں امت فوراً اس کار خیر کی طرف متوجہ ہوجائے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم میں کا ہر فرد جب تک کوئی اجتماعی نظام نہیں بن جاتا یہ بات ٹھان لے کہ وہ اپنی زکواۃ کی رقم کے علاوہ بھی اس سے جو بن پڑے گا وہ عصری تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے میں خرچ کرے گا۔ اپنے آس پاس میں اپنے رشتہ داروں میں اپنے شہر اور گاؤں میں جو بھی تعلیم سے بے گانہ آوارہ گردی میں نظر آئیں انہیں تعلیم کی طرف متوجہ کرے گا، جو تعلیم گاہوں میں خرچ کو لے کر پریشان ہیں ان کی ذمہ داری لے کر انہیں اعلٰی تعلیم تک آسانیاں فراہم کرتا رہے گا۔ اگر یہ روش ہمارے معاشرے میں عام ہوجائے تو اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہمارے حالات ضرور بدلے گا۔
معاشی بدحالی اور غربت کی عفریت کو ہم ایک ہی ہتھیار کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں اور وہ ہے تعلیم اور اس کو عام کرنے کے لئے ہمارے پاس اللہ کا دیا ہوا زکواۃ کا نظام ایک نعمت ہے۔ اگر ہم اب بھی غفلت میں گرفتار رہے اور مستقبل کی فکر نہ کر سکے تو یاد رکھیں وطن عزیز میں ایک دن ہم اتنے ذلیل اور رسوا ٹہرائے جائیں گے کہ ہمارے نیچے دوسری کوئی مخلوق ہی نہ ہوگی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
قرآن دنیا کی وہ واحد احکامی کتاب ہے جس کے پڑھنے والے بے شمار ہیں لیکن اُس کو سمجھنے والے محدود ، اس کے حفاظ کروڑوں میں مل جائیں گے لیکن اس کے احکامات پر عمل کرنے والے گنے چنے، شاید ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی گھر ہو جہاں اس کا نسخہ موجود نہ ہو پر یہ احکامی کتاب کے طور پر نہیں بلکہ حصول برکت کی نیت سے ہوگا۔ عجیب بات ہے مسلمان اس بات کو بطور عقیدہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی ہر بات منجانب اللہ ہے اور یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ قرآن بلا تفریق ہر عربی عجمی، مشرقی مغربی، کالے گورے، عالم جاہل ہر انسان کی ہدایت کے لئے ہے کہ جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر محمد عربیﷺ پر قیامت تک کے آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل کیا ہے، وہیں کبھی کھلے طور اور کبھی دبے دبے انداز میں اس بات کا اقرار بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے کئی علوم میں مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالانکہ موقع بموقع وہ بڑے زعم سے اور پوری خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی وہ آیات بھی پڑھتے جس میں قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے آسان بنا کر اتارا گیا ہے مثلاً،
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ – سورة القمر
اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے نصیحت اخذ کرنے کے لیے ‘ تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ – سورة ص
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا – سورة محمد
کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟
اس بات کو موجودہ دور کے مسلمانوں کی کم نصیبی کہیں یا بے عقلی کہ وہ اپنے پاس ایک شاندار احکامی کتاب رکھتے ہوئے بھی جس پر عمل پیرا ہو کر ان کے آباؤ اجداد نے کئی صدیوں تک ایک عالم پر زمینی اور روحانی حکمرانی کی اور انسانوں کو فلاح و بہبودی والا راستہ دکھایا، نہ اس کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ کبھی اپنے بد ترین حالات اور مشکلات میں اس پر غور و خوض کر کے ان سے نکلنے کے لئے کوئی منطقی راہ ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ خراب اور مشکل حالات میں بطور وظیفہ اس کی تلاوت کو کافی سجھ کر اس کی ورق گردانی کر لیتے ہیں اور پھر اسے چوم کر کسی اونچی جگہ پر حصول برکت کے لئے رکھ دیتے ہیں۔ آج ہم لوگ جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اور رب العزت نے اسے ایک امتحان گاہ بنا کر انسانوں کو یہاں پیدا کرنا شروع کیا تبھی سے حق اور باطل میں کشمکش اس دنیا کے وجود کا اک حصہ بنی ہوئی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ باطل ایک مدت تک بظاہر طاقتور اور ناقابل تخسیر اور حق پسپا ہوتا نظر آتا ہے لیکن اچانک پانسا پلٹتا ہے اور حق باطل پر غالب آجاتا ہے۔ در حقیقت یہ اس امتحان کا ایک حصہ ہے کہ جس کے نتائج پر انسانوں کے اُخروی فلاح کا تعین ہوگا۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف باطل کا بول بالا ہو حق پرستوں کو کیا کرنا چاہئے اس کی صحیح رہنمائی قرآن میں کئی مثالوں کے ساتھ سجھائی گئی ہے۔
دنیا بھر میں حق اور باطل کی کشمکش آج ایک نئے اور الگ انداز میں سامنے آئی ہے۔ باطل ہر جگہ مال ودولت کے انباروں کے ساتھ سیاسی اقتدار سے لیس ‘أَنَا رَبُّکمُ الْأَعْلَی’ کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے تو حق مضمحل اور شکست خوردہ نظر آرہا ہے۔ بالکل قوم مصر،فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح، جب وہاں کی ایک بڑی اکثریت اپنے حاکم کی اندھ بھگتی میں بنی اسرائیل نامی ایک کمزور اقلیت کے درپے ہو گئی۔ فرعون کوئی عام بادشاہ نہیں تھا وہ ایک نظریہ رکھتا تھا اور اس نظریے کی سر بلندی اس کا مقصد حیات تھا۔ اس کے لئے اس نے اپنی قوم کے جذبات کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کیا اور کس طرح انہیں اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کیا قرآن میں اس تعلق سے واضح آیات موجود ہیں،
وَ نادى فِرْعَوْنُ في قَوْمِهِ قالَ يا قَوْمِ أَ لَيْسَ لي مُلْكُ مِصْرَ وَ هذِهِ الْأَنْهارُ تَجْري مِنْ تَحْتي أَ فَلا تُبْصِرُون؛(سورہ زخرف ) اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا: اے میری قوم کیا مصر کی مملکت میری نہیں ہے اور میرے قدموں کے نیچے بہنے والی نہریں کیا میری ملکیت نہیں ہیں ؟! کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ؟!۔
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یا أَیهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَکم مِّنْ إِلَهٍ غَیرِی (سورۃ القصص) اور فرعون نے کہا: اے درباریو!میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا،
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ وَ جَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْناءَهُمْ وَ يَسْتَحْيي نِساءَهُمْ إِنَّهُ كانَ مِنَ الْمُفْسِدين؛ (سورۃ القصص) فرعون زمین پر سرکش بن گیا اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک گروہ کو ضعیف و کمزور کر دیا، ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا بے شک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔
إِلى فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ ما أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشيد ( سورۃ ھود) فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، پس انہوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی اور فرعون کا امر عقلمندانہ نہیں۔
وَ أَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَ ما هَدى ( سورۃ طہٰ) اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھا
ان آیات کو ہمارے موجودہ حالات پر چسپاں کر کے دیکھیں، کیادونوں میں حیرت انگیز مماثلت نہیں ہے؟ یہ اور بات ہے ظلم کی شکلیں مختلف ہوگئی ہیں لیکن شر اور فساد پھیلانے میں دونوں کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ اہل زمین کو گروہوں میں تقسیم کرنا اور پھر انہیں آپس میں لڑانا یہ ازل سے باطل کا معمول رہا ہے۔ اس کے علاوہ طاغوت کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو شر اور فساد پھیلانے والوں سے تعبیر کر کے ان کے گمراہ ہونے کا زور و شور سے پروپگنڈا کرتا ہے۔
وَ قالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوني أَقْتُلْ مُوسى وَ لْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخافُ أَنْ يُبَدِّلَ دينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَساد (سورۃ المؤمن) اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فسادظاہر کرے گا۔
یہ آیت تو کھلے طور پر موجودہ فسطائی طاقتوں کی ذہنی عکاسی کررہی ہے کہ وہ کس طرح حق کو فساد کہہ کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مذہب کے خطرے میں ہونے کی بات کہہ کر حق کے خلاف ماحول تیار کرتے ہیں۔ ان حالات کے درمیان حق کو کیسے بلند کیا جائے اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے خود کو اور اہل حق کو کیسے بچایا جائے اس پر قران مجید صاف الفاظ میں کہتا ہے
فَأْتِياهُ فَقُولا إِنَّا رَسُولا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنا بَني إِسْرائيلَ وَ لا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْناكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَ السَّلامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى؛( سورۃ طہٰ) پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس سے جا کر کہو: ہم تیرے ربّ کے رسول ہیں پس ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو آزاد چھوڑ دے اور ان کو مزید عذاب میں مبتلا مت کر، ہم تیرے ربّ کی جانب سے تیرے پاس نشانی لے کر آئے ہیں اور اس پر سلام ہو جس نے ہدایت کی اتباع کی۔
وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسى وَأَخيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنين؛(سورۃ یونس) اور ہم نے موسی اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور تم لوگ اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور تم مومنین کو بشارت سنا دو۔
ان آیات سے اور ان جیسے دیگر آیات سے جو فرعون اور بنی اسرائیل کو لے کر قران میں موجود ہیں یہ واضح ہوتا کہ ایسے حالات میں نماز کا قیام یعنی رجوع الی اللہ بے حد ضروری ہے، اس کے بعد وقت کے نبی کی قیادت میں مجتمع ہونا اولین مرحلہ ہے، چونکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے اس لئے کسی امیر کی قیادت میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بے باک ہو اور باطل سے لڑ جانے کا حوصلہ رکھتا ہو اس کے تابع ہوکر، اگر یہ امر محال نظر آئے تو ایک جماعت کی قیادت میں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیؐ اور حضرت ہارون کی مشترکہ قیادت میں کیا تھا اور اپنے حالات کو سنوارنے میں کامیاب ہوئے۔
ماحصل بس یہی ہے کہ کلمہ کی بنیاد پر مجتمع ہوکر قرآن کو مضبوطی سے تھام کر باطل سے ٹکرانے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کرکےاس پر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔ چاہے فرعون وقت کا پورا لشکر ہی ہمارے پیچھے کیوں نہ پڑ جائے رب عظیم حالات کے نیل کو چیر کر ہمیں سرخروئی عطا کرے گا۔ اس کے لئے مشترکہ قیادت میں حضرت موسیؐ اور حضرت ہارونؐ جیسا عظم اور حوصلہ، باطل کو اس کے دنگل میں پہنچ کر للکارنے کی جرات اور قوم میں قیادت کی ہر حال میں اطاعت، چاہے اس کے لئے ذہن و دل کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے بے حد ضروری ہے۔ اس بات کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے قرآن کا کوئی بھی ترجمہ پڑھ کر اور غور وفکر کر کے دیکھ لیں، ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں عمل کے اتنے دریچے وا ہوں گے کہ آپ کلام اللہ کی وسعت، گہرائی اور گیرائی پر حیران رہ جائیں گے۔ ہمارے آباؤ اجداد جن کے کارناموں پر باطل آج بھی لرزاں ہوجاتا ہے ، کی کامیابی کا واحد راز یہی تھا کہ وہ قران کے قاری ہی نہیں اس پر مکمل یقین کے ساتھ عمل کرنے والے بھی تھے اور یہی وہ بات ہے جو آج ہم میں نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم بہت کچھ رکھتے ہوئے بھی ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
انسانی جبلت میں برائی کا عنصر ازل سے ثابت ہے۔ جب سےانسان دنیا میں لایا گیا ہے وہ اپنی خیر کے تمام پہلوؤں کے ساتھ برائی کی جانب بھی خاص رغبت دکھاتا رہا ہے۔ یہی وجہ کہ انسانی دنیا شر اور فساد سے کبھی خالی نہیں رہی۔ انسانی تاریخ کا ہر دور اپنی تمام اچھائیوں اور بھلائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بھی نبرد آزما رہا ہے۔ آج کا انسان بھی اپنی تمام مادی اور علمی ترقی کے باوجود اپنی اس جبلت پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔
برائی پر قابو پانے کے لئے روز اول سے انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے نیک نفس اعلیٰ دماغوں نے اپنی بساط بھر کوششیں کیں اور آج بھی کرتے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے منظم اور انسانی فطرت سے قریب کوشش دین اسلام کے ماننے والوں سے ظہور پذیر ہوئی۔ چونکہ خود قرآن اور سنت رسول سے اس کی جانب بھر پور رہنمائی ملتی ہے، یہ کار خیر آج بھی بغیر منقطع ہوئے مسلسل جاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمانے کے سرد وگرم کی وجہ سے کبھی اس میں بہت تیزی آگئی تو کبھی بے حد سستی بھی پیدا ہوگئی لیکن کسی بھی زمانے میں اسلام کے ماننے والوں میں ایک مضبوط گروہ نے انسانوں کو برائی سے روکنے میں کبھی مصلحت اور پس و پیش سے کام نہیں لیا۔
موجودہ دور کو انسانوں کے درمیان علمی اور مادی ترقی کا معراج تصور کیا جاتا ہے۔ اس دور کی ایک اہم پیش رفت ہر طرح کے سفر میں برق رفتاری شامل کر کے وقت کو اپنی مٹھی میں کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ آج کے عام انسانوں کو جو سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں وہ کسی زمانے میں ہفت اقلیم کے شہنشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں ۔ اس ترقی کے ساتھ ساتھ برائی نے بھی کئی زاویے سے اپنی بڑھت بنائی ہے۔ آج برائی میں مبتلا ہونا جتنا آسان ہے اتنا کسی بھی دور میں نہیں رہا۔ اس پس منظر میں برائی کے تعلق سے انسانوں میں بیداری پیدا کرنا اور انہیں اس سے روکنے کی منصوبہ بند کوشش کرنا بے حد اہم ہوگیا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا دینی فریضے کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان یہ ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے ۔
اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ اس دینی اور اخلاقی فرض کو ہم کس طرح انجام دیں۔ قرآن مجید میں ارشاد الہٰی ہے،"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ ادا کریں ، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں۔” (الحج، 22/ 41)۔
یہاں زمین میں اقتدار کا مطلب بادشاہت اور حکومت ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ قدرت ہے جو بغیر ظلم و نا انصافی کے ایک انسان کو دوسرے پر حاصل ہوتی ہے۔ بے شک سیاسی اقتدار ایک بڑی طاقت ہوتی ہے جس سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو بھلائی کے راستے پر لگا کر برائی سے با آسانی روکا جاسکتا ہے۔ لیکن کچھ انسانوں کو قدرت منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازتا ہے جس کے ذریعے وہ دوسرے انسانوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا کچھ انسانوں کے پاس ایسا علم ہوتا ہے یا کچھ کے پاس مال وزر کا اتنا انبار ہوتا ہے کہ وہ اس کے سہارے انسانوں کے ایک گروہ کو اپنی مرضی پر چلا سکتے ہیں۔ یہ سب اقتدار کی قسمیں ہیں جو آج ہمارے معاشرے میں مکمل رائج ہیں۔ ہمارے درمیان عالموں، دانشوروں اور سرمایہ داروں کا ایک مضبوط طبقہ موجود ہے جو بغیر سیاسی طاقت کے بھی معاشرے پر اقتدار رکھتا ہے۔ اس حوالے سے سماج میں بڑھتی ہوئی برائی کو روکنا ان کا خاص فرض بن جاتا ہے۔ پر افسوس ان میں سے اکثر خود پوری طرح برائیوں میں مبتلا ہیں اور کئی جگہ تو برائی پھیلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے سماج کی بڑی بدقسمتی ہے کہ معمولی اقتدار حاصل ہوتے ہی ہم میں سے کچھ برائی سے معاشرے کو بچانے کے بجائے اپنی تمام صلاحیتیں اپنے اقتدار اور کرسی کو بچائے رکھنے میں لگا دیتے ہیں اور یوں آج ہمارا معاشرہ برائیوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں ہمارے درمیان کا یہ مقتدر طبقہ ایسے ایسےحرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ شیطان بھی ان کی عیاری پر ششدر رہ جائے۔ ان کی دیکھا دیکھی برائی کی یہ بیماری جسے وہ مصلحت اور فکری اختلاف کے خوبصورت غلاف میں پیش کرتے ہیں عوام میں بھی عام ہوکر رہ گئی ہے۔
پتہ نہیں ہم میں کا مقتدر طبقہ آخر کس زعم میں مبتلا ہوکر یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ کیا انہیں علم نہیں کہ بھلے وہ انا، خود غرضی، اقتدار کی ہوس، جھوٹ، مکر و فریب، منافقت اور ظلم و جبر کو کتنے ہی اچھے نام دے لیں وہ ازل سے برائی میں ہی گنے جاتے ہیں اور ابد تک بھی اسی میں گنے جاتے رہیں گے۔ قدرت نے انہیں اپنے چند دائروں پر اقتدار عطا کرکے در حقیقت ایک امتحان میں مبتلا کیا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس نعمت کا استعمال کیا اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز اور زکواۃ کا اہتمام کرتے ہوئے انسانوں کو بھلائی کی جانب دعوت دیتے ہوئے برائی سے روکنے کے لئے کرتے ہیں یا اپنی ذاتی مفاد اور انانیت کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس دن خدا کی پکڑ انہیں آدبوچے گی اس دن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ جن لیموں نچوڑوں کے مشورے پر انہوں نے اپنا فرض منصبی بھلا کر دوسروں پر ظلم اور شدید حق تلفی جیسی برائیوں میں خود کو ملوث کر لیا ہے وہ دور سے ہی کترا کر نکل جائیں گے اور یہ اپنے تمام بد اعمالیوں کے ساتھ عذاب الہی کی کگار پر واویلا کرتے تنہا کھڑے رہ جائیں گے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنا فرض پہچان کر برائی کے خلاف چاہے وہ رائی اتنی ہی کیوں نہ ہو اٹھ کھڑا ہو، خود بھی برائی سے اپنے آپ کو روکے اور دوسروں کو بھی برائی سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کرے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
روز بروز جنگ کے شعلوں میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ ٹینکوں اور بلڈوزروں کی دھمک سماعتوں کو لرزہ براندام کررہی ہے۔ کوئی گھڑی کوئی لمحہ ایسا نہیں گزر رہا ہے جس میں کہیں گولی چلنے یا بم پھٹنے کی آوازیں نہ آرہی ہوں ۔ مظلوم عوام کا لہو گلیوں میں پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ عورتوں کا بین، بچوں کی چیخ و پکار معمول بن چکی ہیں۔ نہ کسی کا گھر محفوظ ہے نہ کوئی عبادت گاہ، اسپتال، اسکول محفوظ ہیں۔ ایک طرف دشمن کے مسلح دستے دہشت پھیلا رہے ہیں تو دوسری طرف موسم بارش اور سردی کی سفاکیوں کے ساتھ کھلے میدان میں خیمہ زن مظلوموں پر قہر برسانے پر تلا ہوا ہے۔ کھانے کے لئے پیٹ بھر اناج تو دور پینے کے لئے صاف پانی بھی ناپ تول کر مہیا ہو رہا ہے۔ کاروبار زندگی پوری طرح ٹھپ پڑ چکا ہے۔ دشمن اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے باؤلا ہوا جا رہا ہے اور جب اس کاروائی میں اسے ناکامی ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کا پورا غصہ عوام پر ظلم و ستم کی ہر حد پار کر کے اُتارتا ہے۔ نہ اسے زخمیوں پر ترس آتا ہے نہ معصوم بچوں کے بلکتے ہوئے چہرے اس کے دل کو نرم کر پاتے ہیں اور نہ عمر رسیدہ لوگوں کی آہ بکا اس پر کوئی اثر کرتی ہے۔ وہ چنگیز و ہلاکو کا پیرو مظلوموں کی چیخ و پکار کو موسیقی سمجھ کر اس پر رقصاں ہوجانے کو قابل فخر سمجھتا ہے۔ بچوں کا خون بہانے میں وہ فرعون کو بھی مات دینےپر تلا ہوا ہے۔ حالات اتنے دردناک اور لرزہ پیدا کردینے والے ہیں کہ سوشیل میڈیا میں اور اخباروں میں انہیں دیکھ کر اور ان کے بارے میں پڑھ کر دنیا بھر کے عوام میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ لیکن افسوس خود ان حالات میں گرفتار مظلوموں کے پاس پڑوس میں بیٹھے گدی نشینوں کو لگتا ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔ سوائے شروعات میں چند رسمی جملوں کے انہوں نے ان بدترین حالات پر شاید ہی کوئی ٹھوس اور کار آمد بات کہی ہو۔ پتہ نہیں یہ سب کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ خاک و خون میں تڑپتے سسکتے ہوئے مرد و عورت ، بچے بوڑھے افراد اور ان کے کٹی پھٹی لاشیں بھی ان سخت دل حاکموں کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں ۔
سنتے تھے کرسی اور حاکمیت کا جنون انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہہ سکتا۔ آج دیکھ بھی لیا کہ یہ جاہ پرست عناصر منافقت کی تمام حدیں پار کر کے کس طرح صُمٌّ بُكمٌ عُمىٌ فَهُم لا يَرجِعونَ کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔ باطل کے پرستاروں کی غلامی کرنے والے، اپنے نام نہاد آقاؤں کو خوش کرنے کی خاطر اپنی عوام کو اور ان کے ہر دل عزیز قائدوں کو پابند سلاسل کر کے حوالہء زنداں کرنے والے، اُن مظلوموں کو تختہ دار پر کھنچوانے والے، اِن منافقین سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ اللہ بھلا کرے ان غیور حق پرستوں کا جو یکا و تنہا ہوکر بھی اپنے محاذوں میں ڈٹے ہوئے ہیں اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ ممکن ہے وہ تمام کے تمام ایک نہ ایک دن اسی محاذ پر شہید کردئے جائیں اور وہ یہ جنگ ہار بھی جائیں لیکن رہتی دنیا تک لئے انہوں نے تاریخ کے صفحوں پر اپنا نام روشن حرفوں میں سبط کر دیا ہے۔ جب آنے والے دور کا مورخ ان جیالوں کے کارنامے لکھے گا تو وہیں یہ بھی لکھے گا کہ ان کے آس پاس موجود ان کے نام نہاد اپنوں نے کیسے ان نازک اوقات میں انہیں ان دیکھا کیا۔ ان علاقوں میں پھنسے عوام کو کیسے سفاک دشمن کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ دیا کہ وہ گھر بار لٹا کر، اہل خانہ کی قربانیاں دے کر ،ایک ایک دانے کو محتاج ہوکر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں اور دشمن ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے لئے عالی شان محلات تعمیر کر لے۔ ان نام نہاد اپنوں کا لہو ظلم و ستم کے اس دردناک صورتحال پر بھی اس لئے نہیں بھڑکا کہ کرسی اور اقتدار کی ہوس اور اس کے چھن جانے کا خوف ان کے لہو کو منجمد کر چکا تھا۔ مورخ یہ بھی لکھے گا کہ جاہ پرستی اور ہوس اقتدار کی یہ بیماری صرف اس علاقے تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ دنیا بھر میں قوم کے درمیان سرطان کی طرح پھیل چکی تھی۔ خادمین کا جھوٹا لبادہ پہنے بڑی بڑی سلطنتوں کے تخت پر قبضہ جمائے یہ اقتدار پرست طبقہ جہاں اپنے مفاد اور کرسی کی خاطر کچھ بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تھا وہیں نام نہاد جمہوریت کے نام پرعوام کو الو بنانے والا ہوس اقتدار میں مبتلا ایک اور طبقہ کسی بھی حد تک جانے لئے آمادہ رہتا تھا۔ اسی نہج پر چھوٹے پیمانے میں ہی سہی اقتدار کے تمام دائروں میں نام نہاد خادمین و غم خوارانِ قوم کا یہ کھیل جاری تھا۔ سچائی، حق و صداقت، انصاف جیسے الفاظ یوں تو بہت بولے جاتے تھے لیکن انہیں اپنانے والے خال خال ہی نظر آتے تھے۔ مورخ کا قلم اس بات کو بھی ضرور تحریر کر کے رہے گا کہ اس دور میں قوم کو نقصان دشمن سے کم قوم کے اندر موجود فرعون نما حاکموں، جاہ پرستوں اور ان کےچاپلوسوں سے پہنچا اور امت کو برباد کرنے میں سب بڑا کردار انہوں نے ہی ادا کیا۔