جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
ماہِ رمضان المبارک اسلامی تقویم کا وہ معتبر مہینہ ہے جس کا تقدس مُسلّم ہے۔ اس مہینے میں جہاں مسلمانوں کے درمیان رجوع الاللہ کا شوق بڑھ جاتا ہے وہیں آپس میں ہمدردی اور غم خواری میں بھی بے پناہ اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ روزوں کے ساتھ نماز کی پابندی، تراویح کا اہتمام اور اس کے ساتھ ساتھ زکواۃ کی ادائیگی، صدقہ و خیرات کا رجحان اس ماہِ مبارک کی ایسی خصوصیات ہیں جنہیں دیکھ کر سرورِ کائناتؐ کی اس حدیث پر” ماہِ رمضان میں سرکش شیاطین کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے”، بے اختیار آمنا صدقنا زبان سے نکل جاتا ہے۔
رمضان المبارک کو ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے، روزے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں لیکن سب سے بڑا فائدہ اور مطلوب اصحاب شریعت یہی ہے کہ اس سے فاقے کی تکلیف کا احساس پیدا ہوتا ہے اورغرباء و مساکین کے ساتھ دل میں ہمدردی اور یگانیت کا جذبہ جاگتا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ دیا،اس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرائض کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتشِ دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے،آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اس ماہِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔۔۔ شعب الایمان للبیہقی
اس حدیث میں سب سے زیادہ زور ہمدردی اور غم خواری کے نام پر کھلانے پلانے پردیا گیا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ماہِ مبارک کے ذریعے صاحبِ شریعت مسلمانوں میں جذبہءِ اخوت و ہمدردی اور آپسی بھائی چارگی کا فروغ چاہتے ہیں وہیں مسلمانوں میں صبر، نفس کشی اور ہر قسم کی رنجشوں اور تلخیوں کو جھیلنے کا جذبہ بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
معارف الحدیث میں اس حدیث کی شرح کے تحت درج ہے: اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کے تئیں ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: ” اس بابرکت مہینے میں اہلِ ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ” اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحبِ ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔
الحمد اللہ ہمارے شہر وانم باڑی میں رمضان المبارک میں غرباء اور مساکین کی خبر گیری اور ان کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کی روایت بہت پہلے سے موجود ہے اور آج بھی یہاں کی اکثریت اس کی پاسداری کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کارخانوں میں سالانہ بونس کے علاوہ ملازمین کو زکواۃ اور ہدیہ کے نام پر معقول رقم دینے اور کام کے حوالے سے ان کے ساتھ نرمی برتنے کا رجحان ہنوز باقی ہے۔ رئیس التجار حضرات کی جانب سے ہزاروں غرباء اور مساکین کو راشن کٹس بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ عام کارباریوں اور چھوٹے دکانداروں میں حتی المقدور اپنے ملازمین کے ساتھ خیرخواہی اور روزہ کے اوقات میں چھوٹ دینے کا مزاج موجود ہے۔ گھروں کی خواتین میں بھی اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور انہیں دینے میں فراخی عام سی بات ہے۔ یہ دینی مزاج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہر کے عام مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت میں دینداری باقی ہے جس کے لئے بے اختیار اپنے ان دور اندیش بزرگوں کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنہوں نے شہر میں دینی ادارے، مدرسے اور مکاتب کے جال بچھا کر اس مزاج کو قائم رکھنے میں دامے درمے سخنے بے شمار قربانیاں دیں۔
شہر کی مسجدوں میں گنجی کا جو نظام قائم ہے وہ آج کے دور میں غرباء مساکین اور ان سفید پوش نادار لوگوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں جو ہاتھ پھیلانے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ اس سے معاشرے میں ان کی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ معتبر لوگوں سے کئی محلوں کے شرفاء کے تعلق سے معلوم ہوا کہ مسجد کی گنجی ہی ان کے دستر خوان پر روزہ افطار کی واحد پکی ہوئی غذا ہوتی ہے۔ کساد بازاری کے اس دور میں جب کہ ضروری اجناس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اس گنجی کی اہمیت کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے جس کی آمدنی سے گھر میں ایک وقت کا چولھا جلنا بھی دشوار ہو۔ الحمد اللہ اس نظام کے لئے جہاں حکومت کی جانب سے چاول سستے داموں میں مہیا کیا جاتا ہے وہیں شہر کے دو چار معتبر اور صاحب دل گھرانوں کی جانب سے اجناس بغیر کسی شورشرابے کے مسلسل فراہم ہورہے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر عطا کرے۔ اسی طرح باقاعدہ شہر کی ہر مسجد میں عوام کے لئے افطاری کا انتظام بھی موجود ہے جس کے وسیع دستر خوانوں پر اس محلے کے ساکنین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک سحری کے کھانے کا سوال ہے شہر میں ابھی تک اس کی کوئی باقاعدہ شکل نہیں بنی ہے۔ کچھ صاحبِ خیرحضرات رمضان کے تمام راتوں میں پیکڈ کھانا مہیا کرارہے ہیں لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہے۔ امسال سے نیوٹون کی مسجدِ قبا میں مسجد خدمت کمیٹی کی جانب سے سحری کے کھانے کا انتظام بہت احسن طریقے سے کیا گیا ہے جس سے اس محلے کے کئی افراد فیضیاب ہورہے ہیں۔ لیکن اگر یہ انتظام شہر کی ہر مسجد میں گنجی اور افطاری کے طرز پر ہو جائے تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا۔ شہر کے کئی محلے ایسے ہیں جہاں غربت اس حد تک پیر پسار چکی ہے کہ مہینوں گذر جاتے ہیں ان کے یہاں اچھا کھانا نہیں پکتا۔ ایسے محلوں میں خصوصاً اور شہر کے تمام محلوں میں عموماً اگر رمضان المبارک کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام ہو جائے تو جہاں اس سے کئی گھرانوں کو سحری میں اچھا کھانا کھانے کو ملے گا وہیں کئی غرباء اور سفید پوش حضرات کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوگا۔ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شہر کے کئی محلوں اور مسجدوں میں سحری کا شاندار انتظام رہتا ہے لیکن یہ کسی نظام کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے اتنا فائدہ مند نہیں ہوتا،پھر بھی یہ غنیمت ہے کہ اس سے کئی روزہ داروں کو پیٹ بھر کر سحری کے لئے اچھا کھانا مل جاتا ہے۔ اسی نہج پر اگر رمضان کی تمام راتوں میں شہر کے تمام مساجد میں سحری کا انتظام ہوجائے تواس سے جہاں ایک اچھی روایت قائم ہوگی وہیں دوسرے شہروں کے لئے بھی ایک مثال کے طور پراسے پیش کر سکیں گے۔ ذرا سوچئے حدیث کے ان الفاظ پر جن میں کہا گیا ہے کہ جس نے کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا، کیاہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہونا نہیں چاہتے جنہیں بروز محشر ساقیءِ کوثر کے ہاتھوں جامِ کوثر پینا نصیب ہوگا؟ یقیناً ہم سب کی یہی تمنا ہوگی۔ اس کے لئے زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں بس روزہ داروں کے لئے سحری کا انتظام کر کے انہیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر بروزِ محشر سردار انبیاء کے ہاتھوں سے ہم جام کوثر پی کر سیراب ہو سکتے ہیں۔
شہرِ وانم باڑی کے تمام ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ کھلانے پلانے کی سنت کو ماہِ رمضان کی تمام راتوں میں سحری کا انتظام کر کے زندہ کریں اور جس طرح گنجی اور افطاری کا نظام مساجد کے تحت بحسن و خوبی انجام پارہے ہیں اس کار خیر کو بھی اسی نظام کے ساتھ جوڑ کر شہر کے نادار، غریب اور کئی سفید پوش حضرات کا بھرم رکھتے ہوئے انہیں مساجد میں سحری کا کھانا پیٹ بھر کر کھلائیں، مساجد کے نظام کو جس طرح آقائے دوجہاں سرورِ کائنات نے مسجدِ نبوی میں قائم کیا تھا اسی طرز پر چلاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسجد صرف عبادتوں کا گھر ہی نہیں ہمدردی اور غم خواری کا محور بھی ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں سمجھ کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اسلامیات
احسان احمد کے (وانم باڑی، تملناڈو)
خطیب قادر بادشاہ صاحب وانمباڑی کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں آپ وانمباڑی کے سب سے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ آپ کا تخلص بادشاہ تھا۔ آپ نے صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ فارسی میں بھی اشعار کہے ہیں۔ آپ کی تصنیف کردہ نو کتابیں شائع ہوئیں اور تقریباً ساری ہی کتابیں اب نایاب ہیں۔ آپکی پیدائش 1854ء میں وانمباڑی میں ہوئی اور 1926ء میں وانمباڑی ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کی قومی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو حالئیؔ مدراس کہا جاتا تھا۔
آپ نے 1906ء میں سفرِ حج کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ محترمہ اور آپ کے نسبتی ہمشیرہ زادہ الحاج عبدالشکور صاحب تھے۔ آپ کا سفر 25 اگست 1906ء کو مدراس سے شروع ہوا اور نو مہینوں کے بعد 5 جون 1907ء کو آپ مدراس واپس آئے۔ مکہ میں آپ پانچ مہینے رہے اور مدینۂ منورہ میں آپ نے 40 دن گزارے۔ دورانِ سفر آپ مدراس سے چھپنے والے ایک اخبار "مخبر دکن” کے ایڈیٹر کو چٹھیاں لکھا کرتے تھے جو مخبر دکن میں "ایک عازم حرمین شریفین کی مراسلت” کے عنوان سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ 1910ء میں آپ کے دوستوں کی فرمائش پر آپ نے اُن سارے خطوط کو جماکیا اور اسے ایک کتاب کی شکل میں شائع کردیا جسے "سفرِ حجاز” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کتاب کے شائع کرنے کا مقصد آپ نے یوں بیان کیا ہے کہ اسے پڑھنے والوں کے دلوں میں سفرِ حرمین شریفین کا ذوق و شوق پیدا ہو۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند خطیب عبدالرشید صاحب نے اِس کتاب کا ایک اور ایڈیشن 1926ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 136 صفحات پر مشتمل ہے۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ اِس کتاب کو اختصار کے ساتھ ایک مضمون کی شکل میں پیش کیا جائے جس سے اُس زمانے کے حالات کا پتہ چلے۔
مدراس سے بمبئی کا سفر:
25 اگست 1906ء کو آپ نے شام کی میل ٹرین سے مدراس سے بمبئی کا سفر کیا۔ مدراس کے سنٹرل ریلوے اسٹیشن پر آپ کے دوست و احباب نے آپ کو الوداع کہا۔ دوسرے دن صبح کے بارہ بجے جب ٹرین واڈی ریلوے اسٹیشن (Wadi Railway Station)پر رکی تو وہاں آپ کی ملاقات آپ کے بھائی خطیب احمد حسین صاحب سے ہوئی جو امین جنگ کے نام سے جانے جاتے تھے آپ حیدرآباد کے نظام کے خاص سکریٹری تھے۔ اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کے لئے ایک خاص ٹرین میں وہ واڈی اسٹیشن تک آئے ہوئے تھے۔ پندرہ منٹ تک ملاقات رہی پھر بمبئی کا سفر جاری رہا۔ 27 اگست کو آپ بمبئی پہنچے۔
بمبئی سے حجاز (مکہ و مدینہ) جانے والے جہازوں کی دو کمپنیاں تھیں۔ بوہرہ کمپنی یا شاہ لین اور مغل کمپنی یا بمبئی پرشیہ اسٹیم ناوگیشن کمپنی۔ آپ نے مدراس سے ایک پاسپورٹ حاصل کیا ہوا تھا ایک اور پاسپورٹ بمبئی میں بنانا پڑا۔ آپ کے قافلہ میں آپ کے ہمراہ مرد، خواتین، بچے کُل ملا کر چالیس لوگ تھے آپ نے بوہرہ کمپنی کے جہاز کورامنڈل یا شاہ نور کے ذریعہ جدہ جانے کا فیصلہ کیا۔اس اسٹیمر میں سکنڈ کلاس کی ٹکٹ 75 روپیہ اور تھرڈ کلاس کی ٹکٹ 40 روپئے تھی۔ چونکہ سفر ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لئے بمبئی کے مقامات کی سیر کی۔ ایک جگہ پر آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سکریٹری مشہور سیاست دان نواب محسن الملک بہادر کو دیکھا، ایک ریڈنگ روم گئے، ایک جلسہ میں شرکت کی جس میں مولانا شبلی نعمانی صاحب کی تقریر سنی۔ بمبئی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اُس وقت بمبئی میں پانچ پانچ چھ چھ منزلوں کی عمارتیں متعدد تھیں۔
بمبئی سے عدن (Aden) کا سفر:
پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ جہاز 15 ستمبر کو جدہ کے لئے روانہ ہوگا لیکن اس میں تاخیر ہوتے ہوتے بمبئی میں 22 دن گزارنے کے بعد 19 ستمبر کی شام کو بمبئی سے شاہ نور اسٹیمر کے ذریعہ جدہ کا سفر شروع ہوا۔ اسٹیمر پر سوار ہوتے ہی ایک جگہ لے جایا گیا جہاں سارے مسافروں کا طبی معائنہ کیا گیا۔ اُن کے سامان کو دھواں دیا گیا اور ہر ایک مسافر کے ٹکٹ پر، کلائی پر اور سینےپر ایک مہر لگایا گیا۔ رات کو 10 بجے اسٹیمر بمبئی سے نکلا۔ اس جہاز میں کپتان، خلاصی اور متفرق کام کرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 تک تھی اور حجاج کی تعداد 980 تھی۔ وانمباڑی کی مشہور شخصیت چولورم زین العابدین صاحب بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس سفر میں آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کے قافلہ کے امیر الحاج حکیم محمد عبدالعزیز صاحب تھے جن کا تعلق مدراس سے تھا۔ 980 حجاج میں بمبئی اور مدراس سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 250 تھی۔ باقی تمام لوگ سندھی، بخاری، دہلوی، پنجابی، برمی وغیرہ تھے۔ محتاج و مساکین جن کے پاس صرف جہاز کی ٹکٹ کے پیسے تھے وہ بھی اس سفر میں شامل تھے۔ نو دنوں کے سفر کے بعد 28 ستمبر کو جہاز عدن (Aden) پہنچا جو یمن کا ساحلی شہر ہےوہاں پہنچتے ہی دوکانداروں کی آٹھ دس کشتیوں نے اُ ن کے جہاز کو گھیرلیا۔ اُن کشتیوں میں گوشت، انڈے، مرغی، مچھلی، پھل وغیرہ جیسی چیزیں موجود تھیں خریدار پیسے رسی میں باندھ کر کشتی تک پہنچادیتے تھے دوکاندار اِسی طرح خریدی ہوئی چیزوں کو ٹوکری میں رکھ کر جہاز میں پہنچادیتے تھے۔
عدن سے جزیرۂ پریم (Perim Island) کا سفر:
ایک دن اور ایک رات کے وقفے کے بعد جہاز عدن سے نکل کر اگلے دن 29 ستمبر کی شام کو جزیرۂ پریم (Perim Island)پہنچا۔ پریم کا اصل نام باب المندب باب سکندر مشہور تھا۔ اسے اب جزیرۂ میون (Mayyun Island)کہتے ہیں جو یمن کا حصہ ہے۔پریم میں ملٹری ڈاکٹروں نے جہاز کے کپتان اور ڈاکٹروں سے اہلِ جہاز کی صحت کے بارے میں دریافت کیا اور جہاز کو نکلنے کا حکم دیدیا گیا۔
پریم سے جزیرۂ کامران (Kamaran Island) کا سفر:
پریم سے بحرِ احمر (Red Sea) کی ابتدا ہوتی تھی۔ بحرِ احمر میں زیادہ تر پہاڑ پانی کے اندر تھے جہازوں کو ٹکرائے جانے کا خوف زیادہ رہتا تھا اسلئے ایک رہبر جہاز جس کو عرب لوگ ‘ربان’ کہتے تھے عدن سے جدہ تک ہر جہاز کے ساتھ رہتا تھا اسکی فیس 150روپیہ مالکِ جہاز کی طرف سے دی جاتی تھی۔
کامران میں قرنطینہ (Quarantine):
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان اور کئی دوسرے ممالک میں طاعون (Plague)کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اسی لئے جب آپ کا جہاز 1 اکتوبر کی صبح کو کامران پہنچا تو آپ لوگوں کو دس دن کا قرنطینہ (Quarantine)کرنا پڑا۔ کامران ایک جزیرہ ہے جو یمن کا ایک حصہ ہے۔ کامران میں کیمپس بنوائے گئے تھے جہاں مسافروں کو قرنطینہ کے لئے ٹہرایا جاتا تھا اُس وقت کامران میں سات کیمپ تھے یعنی ایک وقت میں سات جہاز کے مسافر رہنے کی گنجائش تھی ہر کیمپ میں متعدد جھونپڑیاں تھیں ہر جھونپڑی میں پچاس سے ساٹھ آدمی رہنے کی گنجائش تھی اس کیمپ میں ہر روز ڈاکٹر معائنے کے لئے آتے اگر کسی کو بیمار پاتے تو اُسے شہر کے ہسپتال میں منتقل کیا جاتا۔ خطیب قادر بادشاہ صاحب کے کیمپ میں 6 لوگوں کو بیمار پایا گیا اس میں سے ایک حیدرآبادی عوت کا انتقال ہوگیا باقی سب ہسپتال سے صحت یاب ہوکر لوٹ گئے۔
کامران سے جدہ کا سفر:
10 اکتوبر کو سب جہاز میں پھر سے سوار ہوگئے اور جدہ کی طرف سفر شروع ہوگیا۔یلملم (Yalamlam)کا پہاڑ جہاں سے حجاج کے احرام باندھنے کا قاعدہ تھا اس کے آنے سے پہلے ہی سارے مسافروں نے احرام باندھ لیا۔پانچ دن سفر کرنے کے بعد 15 اکتوبر کو جہاز جدہ پہنچا۔
جدہ پہونچے:
ترکی سرکاری عہدہ داروں نے جو ساحل پر موجود تھے سارے مسافروں سے بمبئی کا پاسپورٹ لیکر نصف کاغذ تک چاک کردیا اور باقی نصف مسافروں کے حوالے کردیا۔ جدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کے اطراف حصار (Boundary)تھی اور متعدد دروازے تھے۔ جدہ سے قریب حضرت بی بی حواؑ کی مزار تھی جس کی انہوں نے زیارت کی۔
جدہ سے مکہ معظمہ میں داخلہ:
15 اکتوبر کی صبح کو جدہ سے مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے۔ بعدِ نمازِ مغرب بحرہ (Bahrah) نامی منزل میں پہنچے وہاں دو تین گھنٹے ٹہر کر پھر وہاں سے قافلہ نکلا اور 16 اکتوبر بمطابق 28 شعبان 1328ھ کو دن کے گیارہ بجے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ چونکہ سرکارِ نظام حیدرآباد سے سفارشی خط آپ کے پاس تھا اس لئے آپ کو ایک خاص مکان میں رہنے کا انتظام کیا گیا جسے رباط کہتے تھے۔ مکہ پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے عمرہ کیا۔
ہر ملک کے حجاج کے لئے ایک ایک مطوف مقرر ہوتا تھا۔ مطوف کی ذمہ داری یہ ہوتی تھی کہ وہ حجاج کے لئے اونٹوں کی سواری کا بندوبست کرے، ان کو کرایہ کے مکان دلائے، ان کے سامان کو پہونچانے کی ذمہ داری لے۔ غرض حجاج کے تمام امور انہی لوگوں کی معرفت سے انجام پاتے۔ کوئی غیر شخص ان امور میں دخل اندازی نہیں کرسکتا تھا۔ آپ کے قافلے کے مطوف سید عبدالرحمٰن صاحب شلی تھے۔
مکہ معظمہ میں رمضان کی مبارک ساعتیں:
یاد رہے یہ وہ دور تھا جب حجاز پر ترکی سلطانوں کی حکومت تھی۔ حرم شریف کے شمال میں ایک پہاڑ پر ترکی حکومت کا قلعہ تھا دیواروں پر توپ لگی ہوئی تھیں ترکی فوج اندرونِ قلعہ مقیم تھی۔
جب رمضان کا چاند نظر آیا تو قلعہ سے 21 توپ رویتِ ہلال کی خوشی میں چلائے گئے۔ رمضان المبارک کے حوالے سے مکہ کی چند خصوصیات کے بارے میں آپ نے درجِ ذیل لکھا ہے:
1۔ابتدائے سحر کے وقت ایک توپ، انتہائے سحر کے وقت دو توپ اور افطار کے وقت ایک توپ جملہ چار توپ قلعہ سے چلائے جاتے تھے۔ 2۔تمام شب بازار کھلے رہتے تھے چائے کی دکانیں، ہوٹل، کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں ساری رات کھلی رہتی تھیں۔ سرکاری دفاتر مثلاً کورٹ، ڈاک خانہ وغیرہ نمازِ تراویح کے بعد کھلتے اور نمازِ فجر سے پہلے بند ہوا کرتے تھے۔3۔مسجد الحرام کی میناروں پر روشنی کا اہتمام رمضان کی راتوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتا تھا۔ 4۔نمازِ عشاء کے بعد مسجد الحرام کے صحن میں تراویح کی نماز با جماعت مختلف حفاظِ قرآن پڑھایا کرتے تھے
مکہ معظمہ میں عیدالفطر:
جب عید کا چاند دیکھا گیا تو قلعہ سے 21 توپ چلائے گئے۔ عید کی نماز کے بعد بھی 21 توپ چلائے گئے اور ہر نماز کی ابتداء میں بھی 21 توپ تین دن تک برابر چلائے جاتے رہے۔ عید کی نماز میں مصلیوں کا مجمع تقریباً 1,80,000 سے کم نہ تھا۔عید کے دوسرے دن سے ملاقاتیں شروع ہوتی تھیں ہر محلہ کے لئے ایک دن ملاقات کا مقرر تھا جس محلہ کی ملاقات کا دن ہوتا اس محلہ والے تمام دن اپنے مکان میں رہتے اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی کرتے تھے۔
کعبۃ اللہ اور مکہ معظمہ کے بارے میں تفصیلات:
مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر مسجد تنعیم واقع تھی لوگ وہاں جا کر دو رکعت نفل نماز ادا کرکے احرام بادھ لیا کرتے تھے اور مسجد الحرام پہنچ کر عمرہ کیا کرتے تھے۔
چار مذہب کے چار مصلے حرم شریف میں موجود تھے ان میں فقط نمازِ فجر کی پہلی جماعت مصلائے شافعی میں شافعی امام کے پیچھے ہوتی تھی باقی چاروں نمازوں کی پہلی جماعت مصلائے حنفی میں حنفی امام کے پیچھے ہوتی تھیں۔ ہر نماز کی پہلی جماعت کثیر رہتی تھی بعد کے تین مصلے کی تین جماعتیں یکے بعد دیگرے بالکل مختصر ہوتی تھیں۔
نمازِ عصر کے بعد مغرب تک حرم شریف میں طلباء کے حلقۂ درس کی بہار قابلِ دید ہوتی تھی ہر ایک حلقۂ درس میں تقریباً ساٹھ طلباء پڑھا کرتے تھے۔
حرم شریف کے 39 دروازے تھے ہر ایک کے الگ الگ نام تھے ان میں تین دروازے بہت بڑے اور شاندار تھے لوگوں کی آمدورفت اُن میں کثرت سے تھی اُن کے نام یہ ہیں: باب السلام، باب الزیادہ، باب ابراھیم۔ پانچ پانچ چھ چھ منزلہ عمارتیں بالکل حرم شریف سے لگی ہوئی تھیں۔ مسجد الحرام کے اطراف سات مینار تھے ہر مینار دو منزلہ سے چار منزلہ تک بلند تھی موذنین اُن پر سے اذاں دیا کرتے تھے ساتوں مینار میں سات موذن ہر نماز کے لئے اذاں دیتے تھے۔ کعبۃ اللہ میں موذنین و مکبرین کی تعداد تقریباً ساٹھ تھی۔ خطیبوں اور اماموں کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔ حرم شریف میں 1200 چراغ ایک ہی وضع کے شیشے کے ہانڈیوں میں روشن کئے جاتے تھے۔
رمضان کے بعد مکہ معظمہ میں جاوی لوگ 15,000 ہندوستانی 8,000 ترکی 7,000 جملہ تقریباً 30,000 لوگ موجود تھے۔ ہر نماز میں لوگوں کی تعداد 15,000 اور مغرب اور عشاء کی نمازوں میں اس سے بھی زیادہ کی تعداد ہوتی تھی۔
جب بارش ہوتی تو اس وقت میزابِ کعبہ کے نیچے لوگوں کا بڑا ہجوم ہوتا کیوں کہ جو پانی میزاب سے گرتا اس سے جسم اور کپڑوں کو تر کرنا متبرک سمجھا جاتا تھا۔
حرم شریف کے باب حمیدیہ کے روبرو ایک لنگر خانہ مصر کے ایک رئیس کی جانب سے جاری تھا جس کا نہایت عالیشان مکان تھا دو ڈہائی ہزار مسکینوں کو روٹی تقسیم کی جاتی تھی۔
ذی قعدہ کے آخری دنوں میں کعبۃ اللہ کے اندر کی دیواروںاور سطح زمین کو شریفِ مکہ نے اپنے ہاتھوں سے آبِ زمزم کے ساتھ گلاب عطر صندل شامل کرکے غسل دیا۔ غسل کا پانی جب کعبۃ اللہ کے اندر سے باہر پھینکا جاتا تو لوگ اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
حج کے بعد احاطۂ حرم شریف کو غسل دیا گیا۔ ہر محلہ کے سقّا لوگ (پانی لانے والے) گروہ گروہ نہایت خوشی سے دف بجا کر رقص کرتے ہوئے کچھ دعائیہ فقرات پڑھتے ہوئے نہر زبیدہ کا پانی مشکوں میں بھر کر لاتے تھے احاطۂ حرم شریف یعنی مسجد الحرام کو غسل دیا جاتا تھا۔
آپ لکھتے ہیں کہ 1 محرم سے عاشورہ تک جو واہیات رسمیں ہندوستان میں جاری تھیں اُن میں سے کوئی بھی رسم مکہ میں دیکھنے کو نہیں ملی۔
ذی الحجہ کے آخری جمعہ کو حرم شریف میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موجود تھے۔
وانمباڑی کے ایک عالم دین مولوی عبدالہادی صاحب کے وعظ میں بھی شریک ہونے کا آپ کو موقع ملا۔
شہرِ مکہ میں کوئی میونسپالٹی نہیں تھی جس کی وجہ سے راستوں کو پاک و صاف رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بارش میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہوتی تھی۔
مکہ معظمہ میں موجود زیارت گاہیں:
آپ نے مکہ معظمہ کے شہر کے اندر بعض زیارت گاہوں کی زیارت کی مثلاً حضورؐ کے تولد کا مقام، حضرت علیؓ کے تولد کا مقام، حضرت فاطمہؓ کا مقامِ تولد اور مقامِ سکونت، حضرت خدیجہؓ کے مکان میں حضورؐ پر نزولِ وحی کا مقام۔ زیارت کی ہر جگہ پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی جاتی اور درود و فاتحہ کے بعد دعا مانگی جاتی تھی۔
آپ جبلِ بوقیس بھی گئے اس پہاڑ پر چار مقاماتِ زیارت تھے۔ 1۔چھوٹی مسجد جہاں حضرت بلالؓ نے پہلی بار اذاں دی۔ 2۔ایک سطح زمین جہاں حضورؐ نے اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھ کر روٹی اور کھجور کھائے۔ 3۔ایک سطح زمین جہاں شق القمر کے معجزہ کا ظہور ہوا۔ 4۔ایک مسجد نما مکان جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ بہ ایام سکونتِ مکہ تشریف رکھتے تھے۔
حج کی تیاری:
حج سے پہلے آپ کو مِنا جانے کا دوبار موقع ملا۔ وہاں جا کر 150 روپیہ کرایہ پر ایک مکان کا انتظام کیا گیا تاکہ حج کے دوران اُسے استعمال کیا جائے۔ باقی لوگ خیموں میں رہا کرتے تھے ہر شخص سے خیمہ میں رہنے کے لئے 5 روپئے لئے جاتے تھے۔
عیدالفطر کے بعد کچھ لوگ مدینۂ منورہ کی زیارت کے لئے نکل پڑے لیکن آپ اور آپ کے قافلہ میں سے کسی نے بھی جانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وقت بہت کم تھا اس لئے اندیشہ تھا کہ اگر چلے جائیں تو حج تک واپس آنا دشوار ہوجائیگا۔
اُس وقت والئی حجاز یعنی حجاز کے گورنر احمد راتب پاشا صاحب تھے اور شریفِ مکہ علی پاشا صاحب تھے۔ سردی کے موسم میں دونوں طائف میں رہا کرتے تھے۔ حج سے پہلے دونوں جب شہر مکہ تشریف لائے تو بڑی دھوم دھام سے اُن کا استقبال کیا گیا۔
اُسی سال بہاولپور کے نواب صاحب بھی اپنے ساتھ پانچ سو خدام اور ملازمین کو لئے حج کے لئے مکہ تشریف لائے ہوئے تھے۔
مِنا کی زیارت گاہیں:
حج سے پہلے جب آپ دو بار مِنا گئے تو آپ کے ساتھ 10 آدمی تھے۔ کرائے کے گھر کا انتظام کرنے کے بعد آپ نے مِنا میں چند مقامات کی زیارت کی جن کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں: ایک چھوٹی سی مسجد دیکھی جہاں حضورؐ پر سورۂ کوثر نازل ہوئی تھی۔ مِنا کے متصل دامنِ کوہ میں مذبحِ اسمٰعیل کی زیارت کی یہ وہ مقام تھا جہاں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو اللہ تعالی کے حکم سے ذبح کرنے کے لئے ایک پتھر پر لٹایا تھا اس پتھر کی بھی زیارت کی۔ اس کے علاوہ مسجد خیف بھی دیکھی جو کہ مِنا کی سب سے بڑی مسجد تھی جو حضورؐ کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی جسے پھر سے از سرِ نو تعمیر کیا گیا تھا۔متصل مسجد دامنِ کوہ میں ایک چھوٹے غار کو بھی گئے اسی مقام پر سورۃ المرسلات نازل ہوئی تھی اسی لئے اُس غار کو سورۃالمرسلات کا غار کہا جاتا تھا۔ یہ حضورؐ کی عبادت کا مقام تھا چنانچہ حضورؐ کے سرِ مبارک کا نشان پتھر پر موجود تھا۔ زیارت کی ہر جگہ پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی گئی۔
مکہ معظمہ میں ایک مشاعرہ میں شرکت:
مکہ میں دو بار مشاعرہ میں شرکت کی جو ہر سال منعقد ہوتا آرہا تھا ہر ماہ میں دو بار مشاعرہ ہوتا تھا دہلی، پنجاب، لکھنؤ وغیرہ کے رہنے والے شعراء شامل ہوتے تھے۔ آپ نے بھی دونوں مشاعروں میں اپنا کلام پڑھ کر سنایا۔
مکہ معظمہ میں موجود ایک مدرسے کا معائنہ:
مکہ معظمہ میں ایک مدرسہ کو گئے جس کا نام مدرسۂ صولتیہ تھا۔ یہ مدرسہ خاص کر ہندوستان سے آکر مکہ میں بسنے والوں کے لئے زیادہ مفید تھا۔اس مدرسے کے لئے آپ نے اور اور آپ کے ساتھیوں نے عطیہ بھی پیش کیا۔
وانمباڑی سے آپ کے والدِ محترم کے انتقال کی خبر:
7 جنوری 1907ءکو اپنے بھائی کے خط کے ذریعہ آپ کو خبر ملی کہ وانمباڑی میں آپ کے والدِ محترم خطیب محمد قاسم صاحب کا انتقال ہوگیا۔ مکہ معظمہ کے اُن تمام مقامات میں جہاں دعا قبول ہوتی ہے آپ نے اپنے والدِ محترم کے لئے دعائے مغفرت کی۔
غلافِ کعبہ:
غلافِ کعبہ مصر میں تیار ہوکر وہاں سے مکہ لایا جاتا تھا۔ غلافِ کعبہ کو جس صندوق میں لایا جاتا اُسے محمل شریف کہتے تھے مصر سے جدہ تک جہاز میں لانے کے بعد مصری فوج جس میں چار سو سے زیادہ سپاہی ہوتے اُسے اٹھائے ہوئے جدہ سے پیدل چل کر مکہ کو آتے۔ ہر سال حج کے دن غلافِ کعبہ بدل دیا جاتا تھا۔
حج کی شروعات:
7 ذی الحجہ کو مسجد الحرام میں اعلانِ حج کا خطبہ پڑھا گیا۔ اسی دن آپ اور آپ کے قافلہ کے سارے لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر مِنا پہنچے۔ اسی مکان میں جا کر ٹہرے جسے کرایہ پر لیا گیا تھا۔
8 ذی الحجہ نمازِ عصر کے قریب شریفِ مکہ اور والئی حجاز کی سواریاں نہایت شان و شوکت کے ساتھ مکہ سے مِنا کی طرف نکلیں۔ ترکی کا لشکر بیانڈ بجاتا ہوا والئی حجاز کی سواریوں کے ساتھ تھا جن کی تعداد تقریباً 4,000 تھی۔ شریفِ مکہ کی سواری کے ساتھ بدوی لشکر اونٹوں پر سوار تھا اس کی تعداد بھی تقریباً 4,000 سے کم نہ تھی۔ خچروں پر توپ خانہ ہوتا جس میں سے پانچ پانچ منٹ کے وقفہ سے توپ چلائے جاتے۔ والئی حجاز اور شریفِ مکہ کی سواریوں کے بعد شامی مصری قافلے محملوں کو لئے ہوئے رواں تھے ہزاروں اونٹ اور خچر اس قافلہ کا حصہ تھے۔ شامی قافلے کے توپ خانے سے بھی توپ چل رہی تھیں۔
9 ذی الحجہ کو آپ عرفات کی طرف نکلے۔ نو بجے میدانِ عرفات پہنچے جہاں لاکھوں خیمے تھے۔ مسجد نمرہ آپ کے خیمے سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔ زوالِ آفتاب کے ساتھ تہنیتِ حج کی توپ چلائے گئے۔ نمازِ عصر کے وقت جبلِ رحمت جسے جبلِ عرفات بھی کہتے ہیں وہاں پر ایک چبوترے کے قریب اونٹ پر بیٹھ کر قاضی صاحبِ مکہ نے خطبہ پڑھا اور دعا بھی کی۔ اُس وقت تقریباً آٹھ لاکھ لوگ عرفات میں تھے۔ جبلِ رحمت کے قریب مسجد صخرات کی بھی زیارت کی جہاں حضرت ابراہیمؑ اور تمام انبیاء حج کے دن تشریف رکھتے تھے۔ عشاء کے وقت سب لوگ مزدلفہ پہنچے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں۔ آپ جہاں ٹہرے تھے وہاں سے مسجد مزدلفہ قریب ہی تھی۔
میدانِ عرفات میں موجود حاجیوں کے ہجوم کی منظر کشی آپ نے یوں کی ہے:
"اثنائے دعا میں جس قدر لوگ پہاڑ کے بلندی پر تھے لبیک لبیک اللہم الخ کہتے ہوئے اپنے اپنے رومالوں کو ہلانا شروع کئے۔ علیٰ ہذالقیاس جس قدر لوگ پہاڑ کے نیچے تھے رومال ہلا ہلا کر بہ آواز بلند تلبیہ کہہ رہے تھے۔ یہ عجب منظر تھا کہ جس کی پوری کیفیت الفاظ کے پیرایہ میں ہم کو ادا کرنے کی طاقت نہیں۔ لاکھوں آدمیوں کا اپنے خلاق پاک کے حکم پر ایک تق و دق ریگستان میں جہاں بجز خاردار جھاڑوں کے اور کوئی چیز نہیں فراہم ہونا، اپنے تمام آرام و آسائش سے قطع نظر کرنا، دھوپ کی شدت کو جھیلنا، نہایت عجز و الحاح سے لبیک لبیک کی صدا بلند کرنا، اپنے گناہوں کو یاد کرکے بے اختیار اشکبار ہونا، فقیر سے بادشاہ تک برہنہ سر صرف ایک قسم کا لباس یعنی احرام کے کپڑوں پر اکتفا کرنا بھلا وہ کون مسلمان ہوگا جس کا دل ان امور سے متاثر نہ ہو۔ وہ کون دین دار ہوگا جو ان باتوں کو اپنے دین کی عظمت و شوکت کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو”۔
عرفات سے واپسی پر جو نظارہ آپ نے دیکھا اس پر یوں لکھتےہیں:
"ہم جبلِ رحمت سے جس وقت اپنے خیمہ کے پاس پہنچے آفتاب غروف ہوگیا پھر سب لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر عرفات سے نکلنے لگے لاکھوں اونٹوں کا ایک ہی وقت عرفات سے واپس ہونا، پیدل چلنے والے خلائق کا ہجوم، کہیں لبیک لبیک کی صدا، کہیں اونٹ والے بدوؤں کی طریق طریق کی پکار، راستے کی گردوغبار، مصری شامی قوافل اور توپ خانۂ سرکاری سے توپوں کی بھر مار اس قسم کے نظارہ کا لطف وہی شخص جانتا ہے جس نے اس کو دیکھا ہے”۔
10 ذی الحجہ صبح کے آٹھ بجے مِنا پہنچے۔ زوال کے آگے جمرۃ العقبیٰ کو سات کنکری مار کر قربانی دینے کے مقام پر گئے۔ یہ مقام مسجد خیف سے ایک دو فرلانگ فاصلہ پر تھا۔ یہاں غار کھدوائے گئے تھے ہر غار کے پاس متعدد گوسفند (Sheep)لئے ہوئے بدو لوگ موجود تھے قربانی وہیں پر دی گئی۔ حجام کو بلوا کر حلقِ سر سے فارغ ہوئے اور احرام کھول دیا۔ گوشتِ قربانی کو سرکاری لوگ مذبح سے باہر لے جانے کی ممانعت کرتے تھے اس لئے تمام گوشت اُنہی غاروں میں دفن کردیا گیا لیکن چند مسکین لوگ سرکاری لوگوں سے آنکھ بچا کر ان سے منت و سماجت کرکےقربانی کا گوشت تھوڑا بہت اپنے ساتھ لے گئے۔
11 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک زوالِ آفتاب کے آگے رمی جائز نہیں تھی اسی مطابق اُنہوں نے عمل کیا۔ رمی جمرات صبح سے شروع کردی۔ آپ لکھتے ہیں کہ "بڑا لطف تو یہ ہوا کہ کسی نے کنکری کے عوض بڑے بڑے پتھروں سے کام لیا کسی نے جوتا پھینک مارا۔ کسی نے جُمر پر میخ ٹھونک دی کسی ترکی نے پستول سے گولیاں چلائیں پولس نے فوراً اس ترکی کو گرفتار کرلیا۔ واقعی دنیا میں ہر مرض کا علاج ممکن ہے نادانستگی کا علاج ہی کیا ہے”۔ جمرۃ الاولیٰ، جمرۃ الوسطے، جمرۃ الاخریٰ جسکو جمرۃ العقبیٰ بھی کہتے ہیں یہ تین جمرات چبوترہ کی طرح پتھر کے نشانات تھے۔ 11ذی الحجہ کو مِنا سے مکہ معظمہ میں طوافِ افاضہ سے فارغ ہوگئے پھر مِنا کو نمازِ مغرب کے آگے پہنچ گئے۔
12 ذی الحجہ کو لوگ مِنا سے نکلنے لگے نمازِ عصر کے وقت مصری شامی قافلے بھی واپس ہورہے تھے۔
13 ذی الحجہ کو بعدِ زوالِ آفتاب رمی جمرات سے فارغ ہو کر آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے۔
کعبۃ اللہ کے اندر داخلے کی اجازت:
آپ کو کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہونے کا دو مرتبہ موقع ملا۔ پہلی بار جب 10 رمضان المبارک کی شب میں کعبۃ اللہ کے اندر لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اُس وقت سب کو نہیں بلکہ صرف اُنہیں کو جنہوں نے کلید بردارِ کعبہ کو کچھ عطیہ دیا ہو۔ کعبۃ اللہ کے اندر تین ستون تھے چاروں جانب دو دو رکعت نفل نمازیں اُن لوگوں نے پڑھی اور ستونوں کو لپیٹ کر ہر ایک نے دعا مانگی۔ اوپر کی طرف دیکھنے کو بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔آدھ گھنٹے تک اندر رہے۔
عاشورہ کے دن کعبۃ اللہ کے اندر عام داخلی کی اجازی دی جاتی تھی۔ اندر جانے کے لئے جو سیڑھی دروازہ پر لگائی گئی تھی وہ کرناٹک کے نواب اعظم جاہ محمد منور خاں بہادر مرحوم کی عطیہ کردہ تھی۔ ایک اور چاندی کی سیڑھی بھی ایک طرف رکھی ہوئی تھی جسے نواب رامپور نے تیار کرکے عطیہ کیا تھا۔
عرفہ کے دن مرد حضرات اور اگلے دن صرف مستورات کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ دونوں دنوں میں صرف گیارہ بجے تک داخلے کی اجازت تھی۔
مکہ سے روانگی پر آپ کے دل کی کیفیت کو آپ نے یوں بیان فرمایا ہے:
” ہم لوگ اس مبارک مقام میں تخمیناً پانچ مہینے سکونت گزیں تھے جو کچھ دل بستگی یہاں کی اقامت میں ہم نے حاصل کی تھی وہ ایسی نہیں جس کو الفاظ کے پیرایہ میں ہم ادا کرسکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہم جس وقت کعبۃ اللہ مین طواف الوداع کرینگے البتہ ایک بھاری صدمہ مفارقت کا ہمارے دلوں پر محسوس ہوگا۔ یہاں کی عبادات کی دلچسپی، حرم شریف کی خوشنما وسعت، صبح و شام کعبۃ اللہ کی رویت، طواف کی لذت، جماعت کی کثرت،اُن میں کس کی ہم تعریف کریں، کس کو قابل تعریف نہ سمجھیں”۔
پانچ مہینے مکہ میں گزار کر مدینے کی طرف سفر کا آغاز:
مکہ سے مدینۂ منورہ تک اونٹوں کا کرایہ 45 مجیدی تھا۔ مجیدی جسے ریال بھی کہا جاتا تھاانگریزی 2 روپیہ اور 8 پیسے ہوتے تھے یعنی انگریزی سکوں کے حساب سے اونٹوں کا کرایہ 115 روپیہ تھا۔ افواہ اڑی تھی کہ مدینہ میں قرنطینہ Quarantineکرنا پڑیگا کیونکہ جدہ میں طاعون کی بڑی شدت ہے لیکن یہ افواہیں غلط ثابت ہوئیں جب بعد میں معلوم ہوا کہ طاعون کی وجہ سے چند اموات ہوئی تھیں مگر فی الحال ہر طرح کا امن و امان ہے۔
7 مارچ 1907ء کو کعبۃ اللہ سے نمازِ اشراق کے بعد نکلے۔ بحرہ (Bahrah) نامی مقام پر پہنچے۔ دوسرے دن جدہ پہنچےجہاں پانچ دن رہے۔ 11 مارچ کو مغل کمپنی کے مشتری نامی جہاز پر سوار ہوئے اور دن کے بارہ بجے جہاز ینبوع (Yanbu) کی طرف نکلا۔ دو دن کے سفر کے بعد 13 مارچ کو ینبوع پہنچے اور کرایہ کے مکان میں ٹہرے۔ جس طرح جدہ مکہ کا بندر(Port) تھا اسی طرح ینبوع مدینہ کا بندر تھا۔ ینبوع سے مدینۂ منورہ کا اونٹ کا سفر پانچ منزل (Stoppings) کی مسافت تھی۔ پانچ منزلوں کے نام یہ ہیں: بئر سعید، حمرہ، بئر عباس، بئر درویش، مدینۂ منورہ۔ 19 مارچ کو دس بجے قافلہ ینبوع سے نکلا۔
جب بھی منزل (Stoppings) پر پہنچتے حلقہ بنا کر درمیان میں اونٹوں کو بٹھلا دیتے تھے حجاج اور حمال یعنی اونٹوں کے ہانکنے والے اسی حلقہ کے اندر رہتے تھے کیونکہ حلقہ سے باہر نکلنا خطرناک ثابت ہوتا تھا کیونکہ بدمعاش ڈاکو لٹیروں کی جماعت لوٹ مار کے لئے حملہ کردیتی تھی۔
مدینۂ منورہ میں داخلہ:
24 مارچ کو آپ نمازِ مغرب کے قریب مدینۂ منورہ پہنچے۔ 8 بجے باب السلام سے مسجدِ نبویؐ میں داخل ہوئے۔ مسجدِ نبویؐ کے اندر اس مبارک مقام میں پہلے دو رکعت نفل نماز ادا کی جس کی توصیف میں حضورؐ نے فرمایا ہے کہ ‘میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان ایک باغ ہے جنت کے باغوں سے’۔ روضۂ مبارک پر سلام پیش کیا۔
مدینۂ منورہ میں داخلہ پر اپنے احساسات کو آپ نے یوں بیان فرمایا ہے:
"آج یہ مراسلہ اس شہر سے لکھا جارہا ہے جس کی بزرگی کا اعتراف مشرق سے مغرب تک جنوب سے شمال تک ساری اسلامی دنیا کررہی ہے جس مقام کے سنگریزوں کو لعل و گوہر کے ہمسر کہئے تو بجا ہے جس جا کی خاکپاک عشاق کے مس دل کے لئے کیمیا ہے جس مقام کا رہنا دونوں جہاں کی سعادت ہے جس جا پر مرنا باعث نجات آخرت ذریعۂ حصول جنت ہے زہے قسمت اس شخص کے جس نے اپنی ایام زندگی یہاں بسر کئے۔ خوشا زندگی اُس کی جس کا خاتمہ اِس مقام پر ہوا”۔
مسجدِ نبویؐ اور مدینۂ منورہ کے بارے میں تفصیلات:
مدینۂ منورہ کی آبادی تقریباً 80,000 تھی۔ اس شہر کی صفائی کا اہتمام اور سرکاری نظم و نسق دوسرے شہروں سے بہتر تھا۔ اطرافِ شہر دیوار و فصیل (Boundary)تھی جس پر توپ چڑھی ہوئی تھیں۔ شہر کے مغربی سمت بھی ایک دیوار تھی پہلی دیوار میں چار اور دوسری دیوار میں سات دروازے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں: باب العوالی، باب الوسط، باب نبی علی، باب قبا، باب الحمیدیہ، باب الکومہ، باب الشامی، باب الصغیر، باب المصری، باب المجیدی، باب الجمعہ۔ باب الحمیدیہ عالیشان دروازہ تھا۔ ہر دروازے پر ترکی فوج کا پہرہ تھا کُل ملا کر تقریباً 4000 کی تعداد میں فوجی مدینۂ منورہ میں حفاظت کے لئے فائز تھے۔
مسجدِ نبویؐ کے خطیبوں اور اماموں کی تعداد 150 کے قریب تھی اور موذنوں اور مکبروں کی تعداد 200 کے قریب تھی۔ مسجدِ نبویؐ میں صرف تین مصلے تھے حنفی، شافعی، مالکی۔ حنبلی مصلا نہیں تھا۔ مسجدِ نبویؐ میں ظہر اور عصر کے سوائے باقی تین نمازوں میں مصلیوں کی تعداد پانچ چھ ہزار رہتی تھی۔ مسجدِ نبویؐ کے دروازے پانچ تھے: باب السلام، باب الرحمٰن، باب المجیدی، باب النساء، باب جبرئیل۔ مسجدِ نبویؐ کے صحن میں حضرت فاطمہؓ کا ایک چھوٹا کنواں تھا جس کو بئر فاطمہ کہتےتھے۔ اس کے پانی کا نام کوثر تھا۔ آبِ زمزم کی طرح خاص و عام اس پانی کو بھی متبرک سمجھ کر پیا کرتے تھے۔
حجاز ریلوے کے بارے میں تفصیلات:
حجاز ریلوے دمشق (Damascus)سے مداین صالح (Hegra)اسٹیشن تک مکمل ہوچکی تھی۔ مداین صالح مدینہ سے 350کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ترکی زبان میں ریلوے کو شمند فیر کہتے تھے۔ یہ امکان تھا کہ اگلے سال تک حجاز ریلوے مدینے تک پہنچ جائیگی۔
مدینے میں موجود متعدد مقامات کی زیارتیں:
آپ نے مدینۂ منورہ کے اطراف و اکناف میں واقع جن مقامات کی زیارت کی اُن کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں:
بئر عثمانی نامی ایک کنواں دیکھا یہ کنواں حضورؐ کے عہد مبارک میں حضرت عثمانؓ نے ایک یہودن سے خریدا تھا اور مسلمانوں کے لئے وقف کردیا تھا۔آپ نے صرف نصف کنواں 30,000 دینار دیکر خریدا تھا بعد میں باقی نصف حصہ بھی آپ ہی نے 4,000 دینار کی قیمت پر خریدلیا۔اس کے متصل ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مسجدِ قبلتین، مسجدِ انفتح، مسجدِ سلمان فارسیؓ، مسجدِ علیؓ، مسجد ابوبکر صدیق ؓ کی بھی زیارت کی گئی۔ مسجدِ قبلتین وہ مقام ہے جس مقام پر حضورؐ پر کعبۃ اللہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے عین نماز میں وحی نازل ہوئی تھی۔ مسجد الفتح وہ مقام ہے جہاں جنگِ خندق کے بعد حضورؐ تشریف فرماتھے۔ مشہدِ حضرت عثمانؓ کی بھی زیارت کی گئی یعنی جس مکان میں حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوئی تھی اُس مکان اور اُس مقام کو دیکھا گیا۔
کوہِ اُحد کو بھی گئے۔ راہ میں مسجد الدرع دیکھی جہاں حضورؐ نے جنگ احد کے لئے خود لوہے کی کڑیوں کا بنا ہوا جامہ پہنا تھا۔ مستراح نامی مقام کو بھی گئے جہاں حضورؐ نے تھوڑا وقت ایک پتھر پر پشتِ مبارک لگائے ہوئے آرام کیا تھا۔ اُس جگہ بھی گئے جہاں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تھے۔ اُس مسجد کی بھی زیارت کی جس کے درمیان حضرت حمزہؓ کی مزارتھی۔ اس ایک مزار میں حضرت حمزہؓ اور چار صحابۂ کرام مدفون تھے۔ ایک علیٰحدہ مزار اس کے متصل تھی جو حضرت عقیلؓ بن امیہ کی تھی وہ بھی جنگِ احد میں شہید ہوئے تھے۔ ایک مٹی کے چبوترے کی بھی زیارت کی جس میں اکثر شہداء مدفون تھے۔ اُس مقام کی بھی زیارت کی جہاں حضورؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے۔ جہاں پر ایک قُبّہ (گنبد) بنایا گیا تھا۔ کوہِ احد کے اس در کی بھی زیارت کی جہاں حضورؐ نے صحابہ کی ایک جماعت کو ٹہرنے کا حکم دیا تھا۔ کوہِ احد کے متصل جو آبادی تھی اس کا نام سیدنا حمزہ رکھا گیا تھا۔
مسجد قبا کی بھی زیارت کی جو مدینۂ منورہ سے تقریباً دیڑھ میل فاصلہ پر واقع تھی۔ اس کے اطراف جو آبادی تھی اس کو مدینۂ قدیم کہتے تھے۔ اس مسجد کے احاطہ میں کچھ مقامات کی زیارت کی مثلاً حضورؐ کی اونٹنی کے نشست کا مقام، بعض آیاتِ قرآنی کے نزول کا مقام، کعبۃ اللہ کو آپؐ نے بچشم خود وہاں سے ملاحظہ فرمانے کا مقام۔
مسجدِ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ، مسجدِ حضرت علیؓ، مسجدِ عمرہ، بئر خاتم اِن سب مقاموں کو بھی دیکھا۔ بئر خاتم وہ کنواں ہے جس میں حضورؐ کی مہر گم ہوگئی تھی۔وہاں کا پانی بھی نوش کیا گیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ مسجدِ عمرہ وہ مقام ہے جہاں خاص کر رمضان المبارک میں نماز پڑھنا ایک عمرہ کے ثواب کا حکم رکھتا ہے۔ زیارت کے ہر مقام پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی۔ مسجدِ قبا کی زیارت کا دن پیر مقرر تھا کیونکہ حضورؐ پیر کے دن ہی وہاں تشریف لیجاتے تھے۔
امام و خطیب مسجدِ نبویؐ احمد ابوالجود افندی کے مکان میں ایک کمان و تیر کی زیارت کی یہ کمان و تیر صحابئ رسول حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی خاص دست مبارک کی تھی۔اس کمان کے پشت پر ایک قرآنی آیت اور ایک حدیثِ مبارک لکھی ہوئی تھی۔
مسجد المائدہ، مسجد الاجابہ، حضورؐ کے خچر اور اونٹ کے نشانات، قبتہ البغلہ وغیرہ کی بھی زیارت کی۔ قبتہ البغلہ وہ مقام تھا جہاں حضورؐ کا خچر کنویں میں گرپڑا تھا۔ مسجد الاجابہ وہ مقام تھا جہاں حضورؐ نے نماز پڑھ کر امت کے لئے دعا کی تھی۔
جنت البقیع قبرستان کی زیارت:
اس قبرستان میں تیرہ گنبد تھے۔ ہر گنبد میں کس کس کے قبور تھے اس کے بارےمیں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں: 1۔حضرت عثمانؓ کی قبر، 2۔حضرت بی بی حلیمہؓ (حضورؐ کی دایہ تھیں) کی قبر، 3۔حضرت ابراہیمؓ (حضورؐ کے فرزند) کی قبر، 4۔امہات المومنین ازواج رسول اللہ ؐکے نو قبور، 5۔دخترانِ رسولؐ کی تین قبور تھیں جن کے نام یہ ہیں: حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہؓ، 6۔اہل بیت میں سے حضرت عباسؓ، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام زین العابدین، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام باقراور حضرت بی بی فاطمہؓ کے قبور، 7۔اسمٰعیل بن امام جعفر صادق کی قبر، 8۔شیخ القراء حضرت نافع مولائے ابن عمرؓ کی قبر، 9۔حضرت عقیلؓ بن ابی طالب کی قبر، 10۔حضرت امام مالکؒ کی قبر۔
جنت البقیع کی دیوار کے باہر تین گنبد تھیں جن میں مندرجۂ ذیل بزرگوں کے قبور تھیں۔ 11۔حضرت ابوسعید خدریؓ، 12۔حضرت فاطمہؓ بنت اسد والدۂ حضرت علیؓ، 13۔حضرت عاتکہؓ و حضرت صفیہؓ (حضورؐ کی پھوپیاں)۔
اس کے علاوہ جنت البقیع کے بائیں جانب ایک قطعہ زمین جو بلندی پر تھا جس پر حضرت قطب ویلور حاجی سید شاہ عبداللطیف سید شاہ محی الدین صاحب قادری کی قبر تھی جس پر ایک پتھر لگا ہوا تھا اُس پر سنہِ وفات کندہ کیا ہوا تھا۔
مدینۂ منورہ میں میلاد شریف کی مجلسیں:
1 ربیع الاول سے میلاد شریف کی مجلسیں مدینۂ منورہ میں منعقد ہوتی رہیں تمام مجلسیں بعد نمازِ فجر یا بعد نمازِ ظہر ہوا کرتی تھیں۔ 11 ربیع الاول کو عید میلاد کی خوشی کا ہر طرف اہتمام ہوا۔ مسجدِ نبویؐ کو روشنی سے چراغاں کیا گیا۔مسجد کے پانچوں میناروں پر چھوٹے چھوٹے قنادیل روشن کئے گئے۔ 12 ربیع الاول کو بعد نمازِ فجر صحنِ مسجدِ نبویؐ میں مجلسِ میلاد شریف منعقد کی گئی۔ حافظِ مدینہ نے اس مجلس میں شرکت کی۔ مجلس میں شرکت کرنے والوں کو عمدہ شربت مشکوں میں بھر کر پلائی گئی اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئی۔ اختتامِ مجلس پر 21 توپ چلائے گئے۔ 11 ربیع الاول کی مغرب سے 12 ربیع الاول کی مغرب تک ہر نماز کے ابتداء میں 21 توپ چلائے گئے۔
واپسی:
مدینۂ منورہ میں آپ چالیس دن رہے۔ آخری دن روانہ ہونے سے پہلے روضۂ مبارک کے روبرو الوداعی سلام پڑھا۔ 1مئی کو بعدِ نمازِ عصر مدینۂ منورہ سے نکلے۔ واپسی میں ینبوع کے بجائے رابغ (Rabigh)کو جاکر وہاں سے جہاز میں جدہ جانا پڑا کیونکہ ینبوع میں جہازوں کا آنا موقوف ہوگیا تھا۔مدینہ سے رابغ کے بندر تک اونٹوں پر سوار ہو کر گئے۔ مدینۂ منورہ سے رابغ تک اونٹوں کی چھ منزلیں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں: بئر عار، بئر خلص، بئر بن حسانی، بئر شیخ، مستورہ، رابغ۔ رابغ سے کشتی میں سوار ہو کر 10 مئی کی شام کو جدہ پہنچے۔
13 مئی کو بوہرہ کمپنی کا شاہنور نامی اسٹیمر جدہ پہنچا۔ جدہ میں نو دنوں تک رہنے کے بعد شاہ نور میں سوار ہو کر 20 مئی کو جدہ سے نکلے۔ اس جہاز میں 360 آدمی تھے۔ 23 مئی کو عدن پہنچے۔ جدہ سے بارہ دن کے سفر کے بعد اسٹیمر کے ذریعہ بمبئی کے بندر پر پہنچے۔ صبح کا وقت تھا 8 بج رہے تھے ڈاکٹر صاحب آئے حجاج کا سرسری طور پر معائنہ کرکے انھوں نے اتر نے کا حکم دیدیا اور بمبئی میں تین دن رُکے رہے اور چوتھے دن ریل میں سوار ہو کر 5 جون 1907ء کی صبح کو مدراس سنٹرل اسٹیشن پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر اکثر معززین و عمائدینِ شہر استقبال کے لئے موجود تھے۔
اس کتاب کا تذکرہ:
حج کے سفرنامے لکھنے کی روایت خاصی قدیم ہے کئی مصنفین اور ادباء نے اس فن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ڈاکٹر محمد شہاب الدین صاحب نے اپنی کتاب "اردو میں حج کے سفرنامے” میں 40 سے زائد حج کے سفرناموں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے انہوں نے خطیب قادربادشاہ صاحب کی کتاب "سفرِ حجاز” پر بھی 8 صفحات پر مشتمل تبصرہ پیش کیا ہے۔
کتاب "سفرِ حجاز” کی دوسری خصوصیات:
اس کتاب میں صرف نثر کے علاوہ آپ کی لکھی ہوئی کُل سات نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ نظمیں کس مناسبت سے لکھی گئی ہیں اس کے بارے میں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔ ہر ایک نظم سے ایک ایک شعر کو بھی منتخب کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
1۔دورانِ سفرِ جہاز بمبئی سے ساحلِ عدن
اپنے مہمانوں پہ کر لطف و کرم
یا الہٰی تیرے گھر آتے ہیں ہم
2۔مکہ معظمہ کو پہونچنے کے بعد
الہٰی خواب کا عالم ہے ہم پر یا ہے بیداری
کہاں تھے کس جگہ تھے یکبیک ہم اب کدھر پہنچے
3۔اپنی لکھی ہوئی نعت جسے آپ نے مکہ میں منعقد ایک مشاعرہ میں پڑھی
ہوں شیفتہ لقائے رسالت مآب کا
جلوہ ہے داغ دل میں مری آفتاب کا
4۔میدانِ عرفات کے توصیف میں ایک نظم
صدا لبیک کی پہنچا رہا ہے
زمیں سے تاسما میدانِ عرفات
5۔ایک قصیدہ جسے آپ نے روضۂ مبارک کے سامنے پڑھا
کہاں ہوں کون ہوں کیا دیکھتا ہوں آج آنکھوں سے
مجھے اِس خوش نصیبی پر ہے حیرت یا رسول اللہؐ
6۔اختتامِ سفر پر ایک نظم
جلد کیجئے سفر اے مشتاقو
ہے اگر دل میں احترامِ سفر
7۔فریضۂ حج پر ایک نظم:
اے مومنو حج فرض ہے سمجھے ہوئے کیا ہو
یہ فرض ادا ہو تو بڑا قرض ادا ہو
٭٭٭ختم شد٭٭٭
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔۔۔ صحیح مسلم534
مذکورہ بالا حدیث سے شاید ہی کوئی کلمہ گو واقف نہیں ہوگا۔ یہ حدیث مکتب میں چھوٹے بچوں کوازبر کرایا جاتا ہے۔ واعظ اور خطیب حضرات اپنے وعظ اور خطبوں میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ مسلم دانشور اپنے مضامین میں اس حدیث کو بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ دیکھئے ہمارا مذہب پاکی اور صفائی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ لیکن صد افسوس زمین پر اس پر عمل جتنا کم ہمارے لوگوں میں ہوتا ہے اتنا شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہوتا ہو۔
جس طرح ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، گالی دینا اور ہجو اڑانا،کردار کشی کرنا، شراب پینا، سود لینا، جوا کھیلنا،چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، دھوکہ دینا،لواطت اور زنا کرنا، بدترین گناہوں اور حرام میں شمار ہوتے ہیں، ہم میں سے اکثر ان افعال بد میں مبتلا رہتے ہیں اور پوری ڈھٹائی سے اس کو عادت بنائے ہوئے ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی، بلکل اسی طرح ہم اس حدیث کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے اطراف و اکناف ماحول کو صاف صفائی سے عاری اور اتنا گندہ، بدبودار اور غلیظ رکھتے ہیں کہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے یہ فلاں لوگوں کو محلہ ہے۔ ممکن ہے اکا دکا انگلی میں گننے لائق لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے مل جائیں مگر عام طور پر ہمارے یہاں زمینی حوالے سے اس حدیث پر عمل بالکل نہیں ہوتا۔
بات چیت کی حد تک اس موضوع پر بحث کرنے اور اس کو میدان میں نافذ کرنے کے لئے لائحہ عمل بنانے والے تو بہت مل جائیں گے مگر اس پر خود عمل کرنے والے بلکل اسی طرح ملیں گے جس طرح حقوق نسواں پر گھنٹوں بولنے والے جب خود کی بہن بیوی کی باری آتی ہے تو بے شرم ہوکر تاویلیں پیش کرنے والے یا قوم کے نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی فکر پر زور دار جذباتی تقریریں کرنے والے جب ان سے اس مدمیں انفرادی مدد اور رہنمائی مانگی جاتی ہے تو بات کترا کر فرار ہوتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے درمیان صرف ظاہری صاف صفائی ہی نہیں باطنی صاف صفائی بھی بدترین زوال کا شکار ہوچکی ہے اور ہم اخلاقی انحطاط کے ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے ہمارا بدترین انجام بالکل صاف نظر آرہا ہے۔
پاکی صفائی آج کے دور کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ حفظان صحت کے لئے جتنی اس کی ضرورت ہے وہیں یہ کسی بھی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ماحول کو خوشنما بنانا اپنے اطراف و اکناف کو گندگی اور بدبو سے پاک و صاف رکھنا، معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
یہ سوچ کہ صاف صفائی حکومت اور شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے ایک حد تک صحیح ہے لیکن اس معاملے میں کچھ ہمارے بھی فرائض ہیں۔ صاف صفائی کے لئے انتظامیہ کی جانب سے جو عملہ مامور ہے انہیں آسانیاں مہیا کرنا، کچروں کو جیسا وہ کہیں اس طرح ان کے حوالے کرنا ضروری ہے، راستوں یا نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا کر یا نالی میں کچرا انڈیل کر صاف صفائی کے عملہ کو کوسنا بڑی غلط بات ہے۔
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہمارے محلوں میں ہر نکڑ پر کچروں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ گندے پانی کی نالیوں میں بھی اتنا کچرا پڑا رہتا ہے کہ پانی بہتا ہی نہیں۔ ان سب کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے اور ماحول میں بھی گندی بو پھیلی رہتی ہے۔ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اس میں سدھار کی کوشش کریں۔ پہلے اپنے گھر سے اس طریقے سے کچرا اور گندگی پھیلانے سے گریز کرتے ہوئے،پھر اگر ہمیں لگتا ہے کہ گلی اور محلے میں رہنے والے ایسا کرتے ہیں انہیں پیار و محبت سے ایسا کرنے سے روکیں اور اس کے بعد اگر انتظامیہ کا عملہ اس معاملے میں کوئی کوتاہی برت رہا ہے تو اعلی حکام کے درمیان اس بات کو اٹھاکر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
انتظامیہ میں ہمارے چنے گئے کونسلر صاحبان بھی ہوتے ہیں، انہیں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائیں اور انہیں اپنے فرائض جس کا انہوں نے انتخابات کے وقت وعدہ کیا تھا یاد دلائیں۔ مونسپل کمشنر اور چیرمین کو راست اس مسئلے کی آگہی دے کر انہیں حل کرنے کے لئے کہیں۔اگر پھر بھی ماحول جوں کا توں رہتا ہے تو وزیر اعلیٰ کو خط روانہ کرکے صورت حال سے واقف کراکر انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کہیں۔ صاف ستھرا ماحول قائم رکھنا جس طرح ہماری ذمہ داری ہے اس طرح ہمارے لئے ایسا ماحول مہیا کرانا اور اس پر نگرانی رکھنا حکومت کا فرض بھی ہے۔ بات چھوٹی صحیح لیکن تمام مسائل کی جڑ گندگی اور غلاظت کے انبار ہی ہیں۔ اگر ان کی بر وقت صفائی نہ ہوئی تو بیماریاں پیدا ہوں گی، ان کے علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے گی، اور یوں معاشی مجبوریاں جو معاشرے میں پنپنے والے تمام جرائم کی جڑ ہوتی ہے،معاشرے کو برباد کرکے رکھ دے گی۔
اکثر شہر کے نئے آباد ہونے والے محلوں میں انتظامیہ کی طرف سے شروع میں ہی گندے پانی کے نالے نہیں بنائے جاتے۔ جس کی وجہ سے سارا گندہ پانی گلی اور سڑکوں میں بہتا رہتا ہے، اور اگر بارش ہوجائے تو پھر راستہ اتنا گندا ہوجاتا ہے کہ جانور بھی بچ بچا کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے محلے میں لاکھوں روپئے خرچ کرکے گھر بنانے والے اگر چاہیں تو اپنی گلی کے مکینوں کو جوڑ کر رقم اکٹھا کر کے خود سے گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نالے بنا کر کر سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا، ہاں انتظامیہ سے گلہ کرتے برابر نظر آئیں گے۔ رہی انتظامیہ کی بات تو یاد رکھیں اس کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔
شہر کے مساجد میں جمعہ کے دن خطیب حضرات اگر اس معاملے پر مسلسل بولنے لگیں تو امید ہے ماحول میں سدھار آسکتا ہے۔ شہر کے سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان،عمائدین اور دانشور حضرات کو چاہئے کہ صاف صفائی کے اس مسئلے کو حقیر سی کچرے کی بات کہہ کر ٹالنے کے بجائے اس کی سنجیدگی کو محسوس کریں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف نئی نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں بلکہ شہر کا امیج بھی خراب ہورہا ہے۔ خالی خولی بحث کرنے کے بجائے اس مسئلے سے جڑے تمام لوگوں کو جوڑ کر اس کا کوئی معقول حل تلاش کریں یا ایسا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں جس پر چل کر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں آسانی ہو۔ یاد رکھیں جب تک آپ کا ظاہر صاف ستھرا نہ ہو گا آپ بھلے سے باطنی طور پر کتنا ہی اپنے آپ کو صاف ستھرا باور کرائیں دنیا آپ کو گندہ، ناپاک اور غلیظ ہی سمجھے گی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
حضرت امام حُسینؓ کی شہادت کا سانحہ اسلامی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جو تا قیامت ہر اُس انسان کو جس کے سینے میں کسی کے ذرا سے دکھ درد پر ٹرپ اٹھنے والا دل ہو رلاتا رہے گا۔ آپ پر اور آپ کے اہل و عیال پر جو گذری وہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی پر گذری ہو۔ محض اس لئے کہ آپ نے اپنے اصولوں سے سمجھوتا کرنے اور اپنی فکری آزادی سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا، آپ کے اور آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ بد ترین سلوک کیا گیااور بے دردی سے آپ کو اور آپ کے خاندان کے تمام مردوں کو سوائے ایک خیمے میں رہ جانے والے بیمار کے شہید کردیا گیا۔ اور یہ سب ان بد بختوں نے کیا جو آپ کے نانا کے دین کا دم بھرتے تھے اور اپنی ہر نماز میں ان کے اہل وعیال پر سلامتی کی دعائیں بھیجتے تھے۔ منافقت کی ایسی انتہا دنیا نے کبھی نہیں دیکھی کہ جن کی وجہ سے روم و فارس کی حکومتیں ان کے زیر اقتدار آئیں ان ہی کے اہل بیت کو ان جاہ پرستوں نے بڑی بے رحمی کیساتھ قتل کرڈالا، ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے، ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور اپنے حلقے میں ایک دوسرے کے سامنے طشت میں رکھ کر اپنے فتح کے نشان کے طور پر پیش کیا،ان کی عورتوں کو ننگے سر بازاروں میں گھمایا اور دربار میں انہیں قیدیوں کی طرح کھڑا کروایا۔اسی پر بس نہ کرتے ہوئے ظلم و بربریت کی اس داستاں کو سختی کے ساتھ دہائیوں تک پھیلنے سے روکا گیا اور عوام کے بیچ میں کئی طرح کے جھوٹ پھیلا کر امام حسینؓ اور اہل بیت کی مظلومیت اور اپنے بد ترین جرم کو گھٹا کر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی اور افسوس یہ کوشش اس سانحہ کے گزرنے کے چودہ سو سال بعد آج بھی جاری ہے۔
سب سے بڑی اور حیرت کی بات ہے کہ اتنا بڑا سانحہ گذر گیا،مورخوں اور راویوں نے اس پر لاکھوں صفحات سیاہ کردئے لیکن آج تک امت اپنے پیارے رسولؐ کی آل پر ڈھائے گئے اس ظلم و شقاوت پر ایک متفقہ اوراجماعی ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام ہے۔ ایک طبقے میں آل رسولؐ سے محبت اور عقیدت کے نام پر اتنا غلو پایا جاتا ہے کہ وہ اُس دور کے اکثر کلمہ گو اور دانستگی یا نادانستگی میں حالات کو اس موڑ تک لانے والے تمام اشخاص کو مرتد اور قابل عتاب سمجھتا ہے اور ان پر لعن طعن کرنے کو دین سمجھے ہوئے ہے تو ایک دوسرا طبقہ اس واقعے کا سارا الزام حضرت حُسینؓ پر ڈال کر ان کے قاتلین کو حق پر قرار دینے کے لئے روایات کی من گھڑت تاویلات پیش کرتا رہتا ہے۔ تیسراطبقہ اصحاب رسول سے محبت اور عقیدت کا نام لے کر اس سانحہ پر سکوت قائم رکھنے کو احسن سمجھتا ہے، حالانکہ اصحاب رسول نے غلط کو غلط کہنے میں کبھی تامل سے کام نہیں لیا، سچ کے لئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے، انصاف پر کبھی بھی محبت اور عقیدت کو غالب آنے نہیں دیا۔ آج کل تو اس طبقے میں اپنے نظریے کو لے کر اتنا غلو پیدا ہوگیا ہے کہ وہ پہلے والے طبقے کی طرح جو اہل بیت کو معصوم سمجھتے ہیں یہ اصحاب کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے۔ چوتھا طبقہ ان کا ہے جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہادت حسینؓ کے اصل ذمہ دار کون ہیں اوریہ مذموم واقعہ کیوں پیش آیا اس کے اسباب سے بھی یہ واقف ہیں لیکن اپنی سیاسی مجبوریوں اور وجوہات کے بنا پر بظاہر تو امام حسینؓ کومظلوم شہید مانتے ہیں لیکن عملاً ان کے قاتلین کے طریقے کو افضل سمجھ کر اسی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ کرسی اور عہدے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جانے کو غلط نہیں سمجھتے۔ پانچواں طبقہ ان کا ہے جو اس پورے واقعے کو محبت و عقیدت کی نظر سے نہیں قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ طبقہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود روز اول سے اپنے اصولوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ چاروں طبقوں کی مخالفت جھیلتے ہوئے ہر ایک سے دوسرے کی طرفداری کا طعنہ برداشت کرتے ہوئے یہ طبقہ حق پیش کرنے سے کبھی غافل نہیں رہا۔ شہادت حسینؓ اس طبقے کے نزدیک محض ایک واقعہ نہیں ایک ایسی کسوٹی ہے جس پر حق اور باطل کو آسانی سے پرکھا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا وہ موڑ ہے جہاں سے حریت پسندوں اور سرفروشوں کا قافلہ جاہ پرستوں اور دنیاوی مقاصد کے لئے ظلم و جبر کی حمایت کرنے والوں سے الگ ہو کر نمایاں ہوگیا اور قیامت تک آنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کرگیا۔
شہادت حسینؓ پر امت کے اختلاف نے اسلام کے ایک اہم بنیادی اصول مشاورتی جمہوریت کو اس قدر دھندلادیا کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں یہ امت ایک لمبے عرصے تک یا تو شخصی بادشاہت کے زنجیروں میں جکڑی رہی یا طوائف الملوکی کے صحرا میں بھٹکتی رہی۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ ہر طرف عوامی حکومت کا چرچا ہے نام نہاد مسلم ریاستوں میں بٹی یہ امت کہیں شخصی بادشاہت تو کہیں فوجی ڈکٹیٹروں،کہیں باطل نظریاتی شدت پسندوں تو کہیں جمہوریت کے نام پر غاصب سرمایہ داروں کے زیر نگیں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور اسے اس بات کا ذرا برابر بھی احساس نہیں ہے۔ اتنا ہی نہیں امت کو آج اپنے درمیان موجود چھوٹے بڑے اکثر فلاحی اداروں میں بھی ان ہی حالات کا سامنا ہے۔ قاتلان حسین ؓکے روحانی پیروکار کرسی اور عہدے کے لئے حق اور انصاف کا خون کرنے سے ذرا بھی شرمائے بغیر اپنے گھٹیا افعال کی ایسی خوشنما تعبیریں پیش کرتے ہیں کہ شیطان بھی شرماجائے۔ ریاست و حکومت کے بڑے بڑے شعبوں سے لے کر چھوٹے بڑے تمام فلاحی اداروں میں موروثیت اب ایک تسلیم شدہ قابل تقلید امر ہے، اسی طرح قابل شخصیات کو نظر انداز کرکے اپنے حاشیہ نشینوں کو نوازنا معمول بن گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسا کرنے والوں کی صف اول میں وہ صاحبان علم دانش بڑے جاہ جلال کیساتھ نظر آتے ہیں جن کی زبانیں امام حسینؓ اور ان کے اصولوں کی مدحت میں ہمیشہ رطب السان رہتی ہیں۔
کاش کہ امت شہادت امام حسینؓ کا اصل سبق شرح صدر کے ساتھ پڑھ لے اور اس کے پیغام کو پالے۔ کاش کہ امت قاتلان حسینؓ کو پہچان لے تاکہ ان کی روحانی ذریت کی ریشہ دوانیوں سے ہر قدم پر ہوشیار رہے۔ کاش امت کی آنکھوں پر غلو اور اندھی عقیدت کے پردوں کے بجائے قرآن و سنت کا چشمہ لگ جائے۔ کاش اے کاش!!
جُرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
معاشی بدحالی اور غربت ازل سے انسانی زندگی کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا اور مشکل مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے سے چھٹکارہ پانے کے لئے دانشوروں اور مخلص لوگوں نے اپنے اپنے زمانے میں بڑی کوششیں کی ہیں۔ ہر دور میں اس عفریت سے لڑنے کے لئے انسانوں کے درمیان ایک طبقہ موجود رہا، اس کے باوجود آج تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ موجودہ دور انسانی ترقی کے معراج کا دور ہے مگر اس دور میں بھی یہ قدیم مسئلہ اپنی جگہ اسی شدت کے ساتھ کھڑا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ صرف ایک مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ جو مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ان مسائل کے ساتھ جو نئے نئے مسئلے نکلتے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا شیطان کی آنت ہو جس کی کوئی انتہا ہی نہیں۔
انسانی معاشرے میں معاشی بدحالی اور غربت کو کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اس میں مبتلا لوگوں کو جہاں انسانوں کے ایک طبقے نے ذلیل اور کم تر سمجھا تو وہیں ایک دوسرا طبقہ ہمیشہ ان کا استحصال کر کے اپنے آپ کو بلند کرنے میں لگا رہا۔مذاہب جس کے پیرو کاروں میں اکثریت مفلسوں اور ناداروں کی ہوا کرتی ہے وہ بھی ان کی دادرسی کرنے میں ناکام رہے، کچھ مذاہب نے حیرت انگیز طور پر غربت اور مفلسی کو خدائی عطیہ بتانے سے بھی دریغ نہیں کیا تاکہ لوگ معاشی اونچ نیچ کو تسلیم کرکے اس پر بے جا سوال نہ کھڑے کریں۔ حالانکہ غریبی و مفلسی انسانی ہوس اور لالچ کے نتائج ہیں، اور ہوس اور لالچ انسانی فطرت کا ہی حصہ ہیں۔ جب تک انسان اپنی اس فطری کمزوری پر قابو پانے کی کوشش نہیں کرے گا وہ معاشرے سے غریبی کو دور نہیں کر پائے گا۔
دین اسلام کو موجودہ ادیان میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ انسانی فطرت کا مکمل خیال رکھتا ہے۔ اس کے احکام انسانی فطرت کو بنیاد بنا کر وضع کئے گئے ہیں اور یہ بات اس کے حق ہونے کی ایک قوی دلیل بھی ہے۔اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید جس کا موضوع اصل، انسان ہے دنیا کی وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں انسانی مسائل پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب میں خالقِ کائنات کی حمد و ثنا سے ذیادہ زور اس بات پر دکھائی دیتا ہے کہ انسان کس طرح اس دنیا کو اپنے اعمال سے امن کا گہوارہ اور جنت نظیر بنائے۔ دین اسلام کی یہ ایک ایسی خوبی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ملتی۔
یہ اور بات ہے کہ وطن عزیز میں آج دین اسلام کے ماننے والے اپنے پاس ایسے بے نظیر اور فطری قوانین ہونے کے باوجود ذلیل و رسوا ہیں اورمسلمانوں کی اکثریت غربت اور مفسلی میں مبتلا ہے۔ در حقیقت یہ سب اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ روایات اور اندھی تقلید میں گم ہوکر امت اپنی اصل سے بھٹک چکی ہے اور اس ہدایت کے نورسے دور ہو چکی ہے جس کی روشنی میں آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے بدوؤں نے اس وقت کے عالمی طاقتوں کو سر نگوں کر دیا تھا۔
آقائے دو جہاں کے اس واضح ارشاد کے باوجود کہ
کَادَ الْفَقْرُ أَنْ یَکُونَ کُفْرًا،ممکن ہے کہ فقیری کفر میں مبتلا کردے۔
اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ،اے اللہ! میں کفر اور محتاجی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
امت نے معاشرے میں غربت اور مفلسی کے ناسور کو پنپنے دیا اور اس کے دفع کرنے کی راہیں ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی اور آج یہ عالم ہے کہ ہر چوراہے اور نکڑ پر ذلیل و خوار ہوکر مارے مارے پھر رہی ہے۔کہیں دوڑا دوڑا کر ہمیں مارا جارہا ہے تو کہیں کوئی معمولی درجے کا ملازم حالت سجدہ میں ہماری کمر پر لات دھر جاتا ہے اور ہمیں سہنا پڑتاہے۔ سماج میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے، مفلسی اور غربت نے ہمیں اچھوت بنادیا ہے۔ ہماری حیثیت بکریوں کی اس ریوڑ کی طرح ہوگئی ہے جس کے سر پر چھت کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں، ڈنڈے کے زور پر ہمیں کوئی بھی ہانک کر مذبحہ خانوں کی طرف لے جاسکتا ہے اور ہم سرجھکائے اس کے پیچھے چلنے کو تیار رہتے ہیں۔ایسا صرف اس لئے ہوا کہ ہم نے دین کو مذاق بنا لیا۔ اس کے صرف ان احکامات کو اپنایا جس میں اپنی انا کی تسکین ہوتی ہے، جس کے ذریعے جنت کا حصول بھی آسان ہوجائے اور ہمیں کچھ قربانی بھی نہ دینی پڑے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نماز کے ساتھ زکواۃ بھی ہم پر فرض ہے اور روزوں کے علاوہ حج کا بھی ہمیں حکم ملا ہے ہم نے ان فرائض کی بجا آواری میں غفلت برتی۔ کبھی مال کو حقیر جان کر اس کے حصول کی کوشش ہی نہیں کی کہ میں بھی صاحب نصاب بن کر زکواۃ ادا کروں اور کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل کروں، تو کبھی مال رکھتے ہوئے بھی ان فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی برتی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیاوی مال و متاع، خدائے ذوالجلال کے پاس موجود خزانوں کے آگے حقیر شئے ہیں، لیکن جس کے خرچ کرنے پر آپ کو آپ کا خالق ملتا ہو وہ اتنی بھی حقیرنہیں ہو سکتی کہ آپ اس کے حصول سے ہی دامن چھڑا بیٹھیں۔ آپ کا دین آُ پ کو حلال رزق کی جستجو کا پابند ہی نہیں بناتا بلکہ اس بات پر اصرار بھی کرتا ہے کہ حلال مال کی تلاش اورکوشش میں لگنا آپ کا فرض ہے تاکہ آپ سے حقوق العباد کی ادائیگی آسان ہوجائے۔
فرمان ربی ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ،پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔
یعنی یہاں رزق حلال کو اللہ کے فضل سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے حصول کو عبادت کے فوراً بعد رکھ کر دوسرے اعمال سے مقدم کیا گیا ہے۔ پتہ نہیں اتنی واضح ہدایت کے باوجود کیوں امت اس فرض کی جانب جتنی سنجیدگی سے متوجہ ہونا چاہئے متوجہ نہیں ہوئی، اور آج اسی وجہ سے ہماری حالت معاشی لحاظ سے اتنی گر چکی ہے کہ الاماں الحفیظ!
یہ بات اب بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوچکی ہے کہ ہم معاشی بدحالی اور غربت میں دوسرے کئی اقوام سے بد تر مقام پر ہیں۔ اگر گہرائی سے اس حالت کا تجزیہ کیا جائے تو ایک بات جو سب سے واضح نظر آتی ہے جسے اس زوال کا بنیادی سبب بھی کہا جاسکتا ہے وہ یہ کہ عصری تعلیم سے ہماری لاپرواہی اور انکار کی حد تک اس سے تغافل ہے۔ گزشتہ سو سالوں میں جب عصری تعلیم کا غلبہ شروع ہوا تو دوسری قوموں نے اس کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے اس کو سر آنکھوں پر رکھا لیکن ہمارے کئی دانشوروں اور مصلحیان قوم کی لاکھ کوششوں کے باوجود ہم نے عصری تعلیم کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور اس کو ایک طرح سے دھتکار دیا، جس کا خمیازہ آج ہم اور ہماری نئی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ عصری تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج اگر آپ کو کوئی چھوٹا سے چھوٹا کام بھی کرنا ہے یا کہیں معمولی نوکری بھی حاصل کرنی ہے تو بغیر اس کے آپ کچھ نہیں کرسکتے اور آپ کی حیثیت صفر ہوگی، اتنا ہی نہیں اس کی وجہ سے زندگی کے ہر موڑ پرآپ بری طرح دوسروں کے محتاج ہونگے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس قوم کی جانب پہلی وحی ہی ‘پڑھو’ کی نازل کی گئی اور جسے بتایا گیا کہ آپ کے جد امجد آدم ؐ کو اللہ نے سب سے پہلے اشیاء کے ناموں کی تعلیم یعنی عصری تعلیم دی تھی وہ روایات اور اندھی تقلید میں مبتلا ہوکر اس بات کو فراموش کر گئی۔ جسے دوسری قوموں کے لئے معلم اور نمونہ ہونا چاہئے تھاوہ اب اس تعلیم کے لئے دوسروں کی محتاج بنی کھڑی ہے۔ آج افسوس اس بات پر ہے کہ حالات اتنے دگرگوں ہونے کے باوجود ہم میں سدھار کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت غریبی اور مفلسی کی دلدل سے نکلے اور معاشی طور پر اتنی مضبوط ہوجائے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں نظر انداز نہ کر سکے تو سب سے پہلے امت میں عصری تعلیم کو ایک مضبوط لائحہ عمل بنا کرعام کرنا ہوگا۔ عصری تعلیم گاہوں کا ایک جال وطن عزیز کے کونے کونے میں بچھانا پڑے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کرنے ہوں گے۔کچھ جگہوں پر بنیادی تعلیم کی سہولتیں موجود ہیں لیکن نتائج قابل قدر نہیں نکلتے۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہے اس میں ہمارا حصہ پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ حکومتیں اس مسئلے میں ہمارے ساتھ کبھی سنجیدہ نہیں رہیں، سرکار کس کی بھی رہی ہو انہوں نے اس بات کو لے کر ہمارا استحصال تو کیا لیکن اس کو سلجھانے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا۔ موجودہ حالات میں ان سے امید نہ کے برابر ہے۔ اب جو بھی کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کے لئے فنڈز کہاں سے دستیاب ہونگے؟
اس گئے گذرے دور میں بھی ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو معاشی لحاظ سے کسی حد تک مضبوط ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو کسی کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں ان کی مالی حالت دوسروں سے بہتر ہے۔ خاص کر جنوبی ہندوستان کے اور شمالی ہندوستان کے بھی کچھ مخصوص علاقوں کے مسلمانوں میں پچھلے کئی دہائیوں سے ان میں عصری تعلیم کے عام ہونے کے سبب معاشی طور پر مضبوطی پائی جاتی ہے۔ اور یہ سب شرعی اصطلاح میں صاحب نصاب میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ ایک لائحہ عمل بنا کر سنجیدگی کے ساتھ اپنی زکواۃ کی رقم عصری تعلیم کو عام کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کو آسان کرنے میں لگائے تو ایک بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔ زکواۃ کے تعلق سے ہمارے یہاں جو سوچ ہے وہ بہت محدود ہے۔ حالانکہ یہ اللہ کی جانب سے دیا گیا ایسا طریقہء کار ہے جس پر اگر مکمل عمل ہوجائے تو ہمارے سارے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قرون اولیٰ میں جب زکواۃ کا اجتماعی نظام ہمارے درمیان رائج تھا تو حال یہ تھا کہ امت میں زکواۃ لینے والے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ امت نے جب سے اس طریقے کو پس پشت ڈالا ہے مفلسی اور غربت کا طوق اس کے ایک بڑے حصے کے گلے میں پڑتا چلا گیا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پھر سے اسی نظام کو اپنے درمیان لانے کی سعی کریں اور اس کے ذریعے عصری تعلیم کو عام کرکے امت کو غربت اور معاشی بدحالی کے صحرا میں بھٹکنے سے بچائیں۔
ایک سرسری اندازے کے مطابق وطن عزیزمیں تیس سے چالیس ہزار کروڑ روپیوں تک کی زکواۃ ادا کی جاتی ہے جس میں اکثر رقم صحیح آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یا غلط رہنمائی کی وجہ سے غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے جس سے امت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر قوم کے دانشور اور علماء حضرات ایک لائحہ عمل بنا کر اس رقم کو ضائع ہونے سے بچا لیں تو ان کا یہ عمل آج کی تاریخ میں ایک بہت بڑا جہاد ہوگا۔
ایک اشکال کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کھڑا کیاجاتا ہے کہ کیا زکواۃ کی رقم عصری تعلیم کی مد میں خرچ کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک زکواۃ کا تعلق ہے قران مجید میں صاف لفظوں میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ یہ رقم کن کن پر خرچ کی جاسکتی ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْل،ِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ،ِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ التوبہ آیۃ 60
یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ خدا میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔
اس آیت میں زکواۃ کے درج ذیل مصارف بیان کئے گئے ہیں
٭فقراء اور مساکین کے لئے
٭عاملین علیھا یعنی ریاست کے ملازمین کیلئے
٭مولفۃ قلوب یعنی اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کے لئے غیرمسلموں میں
٭ فی الرقاب یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لئے
٭الغارمین یعنی قرض یا نقصان تاوان کے بوجھ تلے دبے لوگوں کی مدد کے لئے
٭فی سبیل اللہ یعنی دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبودی کے کاموں کے لئے
٭ابن السبیل یعنی مسافروں کی مدد اور ان کے لئے سڑکوں پلوں اور سرائے وغیرہ کی تعمیر کے لئے
تھوڑی تدبر اور غور وفکر کر کے ہم ان میں کے تمام یا اکثر مصارف کو موجودہ دور میں عصری تعلیم کے عام کرنے سے جوڑ سکتے ہیں۔ مفلس اور فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس ضروریات زندگی کا کوئی ساز و سامان نہ ہو حتٰی کہ دانے دانے کا محتاج ہو یعنی آج کی اصطلاح میں غریبی کی ریکھا سے نیچے والا، ایسے شخص کی بہترین مدد یہی ہوسکتی ہے کہ اُسے یا اس کی اولاد کو تعلیم و فن سے جوڑ کر اس کی نسلوں کو زکواۃ لینے والا نہیں زکواۃ دینے والا بنادیں۔ اسی طرح مولفۃ قلوب پر اگر آج کے حالات میں تدبرکریں تو ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ ہم عصری تعلیم گاہیں قائم کریں جہاں بلا قوم و ملت ہر کسی کو تعلیم کے مواقع میسر ہوں۔ اس سے عام معاشرے میں جہاں ہمارے تعلق سے مثبت پیغام جائے گا وہیں مستقبل میں ہمارے خیر خواہوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوگا جس کی موجودہ حالات میں ہمیں اشد ضرورت ہے۔ جنوبی ہندوستان میں آج اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔
غلامی یعنی ذلت کی زندگی جس میں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے امت کی ایک بڑی اکثریت آج مبتلا ہے اس سے نجات کے لئے بھی عصری تعلیم پر خرچ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ الغارمین کے حوالے سے، آج امت کا اس سے بڑا نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں حقیر اور بے وزن ہوگئی ہے۔ نہ اس کے پاس اچھے وکلاء کی اکثریت ہے جو بے جا مقدمات میں پھنسے ہوؤں کو چھڑا سکیں اور نہ کسی بھی میدان کے ماہرین کی ٹیم ہے جودین کی روشنی میں جدید مسائل کا حل بتاسکیں۔ فی سبیل اللہ اور ابن السبیل کی مد میں، اس کے بین السطور میں پوشیدہ عصری تعلیم اوراس پر خرچ کرنے کی ضرورت کو آپ ذرا سی غور و خوص کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں امت کی درد و فکر رکھنے والا شاید ہی کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے اگر آج قوم کو کسی بات کی اشد ضرورت ہے تو وہ بس عصری تعلیم کی ہے اور اس لحاظ سے اس پرخرچ کرنا گویا آج کا افضل ترین عمل ہے۔
چونکہ اس کی امید کم ہی ہے کہ اجتماعی شکل میں امت فوراً اس کار خیر کی طرف متوجہ ہوجائے اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم میں کا ہر فرد جب تک کوئی اجتماعی نظام نہیں بن جاتا یہ بات ٹھان لے کہ وہ اپنی زکواۃ کی رقم کے علاوہ بھی اس سے جو بن پڑے گا وہ عصری تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے میں خرچ کرے گا۔ اپنے آس پاس میں اپنے رشتہ داروں میں اپنے شہر اور گاؤں میں جو بھی تعلیم سے بے گانہ آوارہ گردی میں نظر آئیں انہیں تعلیم کی طرف متوجہ کرے گا، جو تعلیم گاہوں میں خرچ کو لے کر پریشان ہیں ان کی ذمہ داری لے کر انہیں اعلٰی تعلیم تک آسانیاں فراہم کرتا رہے گا۔ اگر یہ روش ہمارے معاشرے میں عام ہوجائے تو اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہمارے حالات ضرور بدلے گا۔
معاشی بدحالی اور غربت کی عفریت کو ہم ایک ہی ہتھیار کے ذریعے ختم کرسکتے ہیں اور وہ ہے تعلیم اور اس کو عام کرنے کے لئے ہمارے پاس اللہ کا دیا ہوا زکواۃ کا نظام ایک نعمت ہے۔ اگر ہم اب بھی غفلت میں گرفتار رہے اور مستقبل کی فکر نہ کر سکے تو یاد رکھیں وطن عزیز میں ایک دن ہم اتنے ذلیل اور رسوا ٹہرائے جائیں گے کہ ہمارے نیچے دوسری کوئی مخلوق ہی نہ ہوگی۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی
قرآن دنیا کی وہ واحد احکامی کتاب ہے جس کے پڑھنے والے بے شمار ہیں لیکن اُس کو سمجھنے والے محدود ، اس کے حفاظ کروڑوں میں مل جائیں گے لیکن اس کے احکامات پر عمل کرنے والے گنے چنے، شاید ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کا کوئی گھر ہو جہاں اس کا نسخہ موجود نہ ہو پر یہ احکامی کتاب کے طور پر نہیں بلکہ حصول برکت کی نیت سے ہوگا۔ عجیب بات ہے مسلمان اس بات کو بطور عقیدہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی ہر بات منجانب اللہ ہے اور یہ دعوٰی بھی کرتے ہیں کہ قرآن بلا تفریق ہر عربی عجمی، مشرقی مغربی، کالے گورے، عالم جاہل ہر انسان کی ہدایت کے لئے ہے کہ جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر محمد عربیﷺ پر قیامت تک کے آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل کیا ہے، وہیں کبھی کھلے طور اور کبھی دبے دبے انداز میں اس بات کا اقرار بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے کئی علوم میں مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ حالانکہ موقع بموقع وہ بڑے زعم سے اور پوری خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی وہ آیات بھی پڑھتے جس میں قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے آسان بنا کر اتارا گیا ہے مثلاً،
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ – سورة القمر
اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے نصیحت اخذ کرنے کے لیے ‘ تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ – سورة ص
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا – سورة محمد
کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟
اس بات کو موجودہ دور کے مسلمانوں کی کم نصیبی کہیں یا بے عقلی کہ وہ اپنے پاس ایک شاندار احکامی کتاب رکھتے ہوئے بھی جس پر عمل پیرا ہو کر ان کے آباؤ اجداد نے کئی صدیوں تک ایک عالم پر زمینی اور روحانی حکمرانی کی اور انسانوں کو فلاح و بہبودی والا راستہ دکھایا، نہ اس کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ کبھی اپنے بد ترین حالات اور مشکلات میں اس پر غور و خوض کر کے ان سے نکلنے کے لئے کوئی منطقی راہ ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں۔ بس زیادہ سے زیادہ خراب اور مشکل حالات میں بطور وظیفہ اس کی تلاوت کو کافی سجھ کر اس کی ورق گردانی کر لیتے ہیں اور پھر اسے چوم کر کسی اونچی جگہ پر حصول برکت کے لئے رکھ دیتے ہیں۔ آج ہم لوگ جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اور رب العزت نے اسے ایک امتحان گاہ بنا کر انسانوں کو یہاں پیدا کرنا شروع کیا تبھی سے حق اور باطل میں کشمکش اس دنیا کے وجود کا اک حصہ بنی ہوئی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ باطل ایک مدت تک بظاہر طاقتور اور ناقابل تخسیر اور حق پسپا ہوتا نظر آتا ہے لیکن اچانک پانسا پلٹتا ہے اور حق باطل پر غالب آجاتا ہے۔ در حقیقت یہ اس امتحان کا ایک حصہ ہے کہ جس کے نتائج پر انسانوں کے اُخروی فلاح کا تعین ہوگا۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف باطل کا بول بالا ہو حق پرستوں کو کیا کرنا چاہئے اس کی صحیح رہنمائی قرآن میں کئی مثالوں کے ساتھ سجھائی گئی ہے۔
دنیا بھر میں حق اور باطل کی کشمکش آج ایک نئے اور الگ انداز میں سامنے آئی ہے۔ باطل ہر جگہ مال ودولت کے انباروں کے ساتھ سیاسی اقتدار سے لیس ‘أَنَا رَبُّکمُ الْأَعْلَی’ کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے تو حق مضمحل اور شکست خوردہ نظر آرہا ہے۔ بالکل قوم مصر،فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح، جب وہاں کی ایک بڑی اکثریت اپنے حاکم کی اندھ بھگتی میں بنی اسرائیل نامی ایک کمزور اقلیت کے درپے ہو گئی۔ فرعون کوئی عام بادشاہ نہیں تھا وہ ایک نظریہ رکھتا تھا اور اس نظریے کی سر بلندی اس کا مقصد حیات تھا۔ اس کے لئے اس نے اپنی قوم کے جذبات کے ساتھ کس طرح کھلواڑ کیا اور کس طرح انہیں اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کیا قرآن میں اس تعلق سے واضح آیات موجود ہیں،
وَ نادى فِرْعَوْنُ في قَوْمِهِ قالَ يا قَوْمِ أَ لَيْسَ لي مُلْكُ مِصْرَ وَ هذِهِ الْأَنْهارُ تَجْري مِنْ تَحْتي أَ فَلا تُبْصِرُون؛(سورہ زخرف ) اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا: اے میری قوم کیا مصر کی مملکت میری نہیں ہے اور میرے قدموں کے نیچے بہنے والی نہریں کیا میری ملکیت نہیں ہیں ؟! کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ؟!۔
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یا أَیهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَکم مِّنْ إِلَهٍ غَیرِی (سورۃ القصص) اور فرعون نے کہا: اے درباریو!میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا،
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ وَ جَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً يَسْتَضْعِفُ طائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْناءَهُمْ وَ يَسْتَحْيي نِساءَهُمْ إِنَّهُ كانَ مِنَ الْمُفْسِدين؛ (سورۃ القصص) فرعون زمین پر سرکش بن گیا اور اس نے اہلِ زمین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک گروہ کو ضعیف و کمزور کر دیا، ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا بے شک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔
إِلى فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ ما أَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشيد ( سورۃ ھود) فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، پس انہوں نے فرعون کے امر کی پیروی کی اور فرعون کا امر عقلمندانہ نہیں۔
وَ أَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَ ما هَدى ( سورۃ طہٰ) اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کر دیا اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھا
ان آیات کو ہمارے موجودہ حالات پر چسپاں کر کے دیکھیں، کیادونوں میں حیرت انگیز مماثلت نہیں ہے؟ یہ اور بات ہے ظلم کی شکلیں مختلف ہوگئی ہیں لیکن شر اور فساد پھیلانے میں دونوں کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔ اہل زمین کو گروہوں میں تقسیم کرنا اور پھر انہیں آپس میں لڑانا یہ ازل سے باطل کا معمول رہا ہے۔ اس کے علاوہ طاغوت کا یہ بھی معمول رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو شر اور فساد پھیلانے والوں سے تعبیر کر کے ان کے گمراہ ہونے کا زور و شور سے پروپگنڈا کرتا ہے۔
وَ قالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوني أَقْتُلْ مُوسى وَ لْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخافُ أَنْ يُبَدِّلَ دينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَساد (سورۃ المؤمن) اور فرعون نے کہا:مجھے چھوڑدو تاکہ میں موسیٰ کو قتل کردوں اور وہ اپنے رب کو بلالے۔بیشک مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فسادظاہر کرے گا۔
یہ آیت تو کھلے طور پر موجودہ فسطائی طاقتوں کی ذہنی عکاسی کررہی ہے کہ وہ کس طرح حق کو فساد کہہ کر دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مذہب کے خطرے میں ہونے کی بات کہہ کر حق کے خلاف ماحول تیار کرتے ہیں۔ ان حالات کے درمیان حق کو کیسے بلند کیا جائے اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے خود کو اور اہل حق کو کیسے بچایا جائے اس پر قران مجید صاف الفاظ میں کہتا ہے
فَأْتِياهُ فَقُولا إِنَّا رَسُولا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنا بَني إِسْرائيلَ وَ لا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْناكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَ السَّلامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى؛( سورۃ طہٰ) پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس سے جا کر کہو: ہم تیرے ربّ کے رسول ہیں پس ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو آزاد چھوڑ دے اور ان کو مزید عذاب میں مبتلا مت کر، ہم تیرے ربّ کی جانب سے تیرے پاس نشانی لے کر آئے ہیں اور اس پر سلام ہو جس نے ہدایت کی اتباع کی۔
وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسى وَأَخيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقيمُوا الصَّلاةَ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنين؛(سورۃ یونس) اور ہم نے موسی اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور تم لوگ اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور تم مومنین کو بشارت سنا دو۔
ان آیات سے اور ان جیسے دیگر آیات سے جو فرعون اور بنی اسرائیل کو لے کر قران میں موجود ہیں یہ واضح ہوتا کہ ایسے حالات میں نماز کا قیام یعنی رجوع الی اللہ بے حد ضروری ہے، اس کے بعد وقت کے نبی کی قیادت میں مجتمع ہونا اولین مرحلہ ہے، چونکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے اس لئے کسی امیر کی قیادت میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بے باک ہو اور باطل سے لڑ جانے کا حوصلہ رکھتا ہو اس کے تابع ہوکر، اگر یہ امر محال نظر آئے تو ایک جماعت کی قیادت میں ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیؐ اور حضرت ہارون کی مشترکہ قیادت میں کیا تھا اور اپنے حالات کو سنوارنے میں کامیاب ہوئے۔
ماحصل بس یہی ہے کہ کلمہ کی بنیاد پر مجتمع ہوکر قرآن کو مضبوطی سے تھام کر باطل سے ٹکرانے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کرکےاس پر استقامت کے ساتھ جم جانا ہے۔ چاہے فرعون وقت کا پورا لشکر ہی ہمارے پیچھے کیوں نہ پڑ جائے رب عظیم حالات کے نیل کو چیر کر ہمیں سرخروئی عطا کرے گا۔ اس کے لئے مشترکہ قیادت میں حضرت موسیؐ اور حضرت ہارونؐ جیسا عظم اور حوصلہ، باطل کو اس کے دنگل میں پہنچ کر للکارنے کی جرات اور قوم میں قیادت کی ہر حال میں اطاعت، چاہے اس کے لئے ذہن و دل کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے بے حد ضروری ہے۔ اس بات کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے قرآن کا کوئی بھی ترجمہ پڑھ کر اور غور وفکر کر کے دیکھ لیں، ان شاءاللہ آپ کے ذہن میں عمل کے اتنے دریچے وا ہوں گے کہ آپ کلام اللہ کی وسعت، گہرائی اور گیرائی پر حیران رہ جائیں گے۔ ہمارے آباؤ اجداد جن کے کارناموں پر باطل آج بھی لرزاں ہوجاتا ہے ، کی کامیابی کا واحد راز یہی تھا کہ وہ قران کے قاری ہی نہیں اس پر مکمل یقین کے ساتھ عمل کرنے والے بھی تھے اور یہی وہ بات ہے جو آج ہم میں نہیں ہے جس کی وجہ سے ہم بہت کچھ رکھتے ہوئے بھی ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ اقبال نے بالکل صحیح کہا
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
انسانی جبلت میں برائی کا عنصر ازل سے ثابت ہے۔ جب سےانسان دنیا میں لایا گیا ہے وہ اپنی خیر کے تمام پہلوؤں کے ساتھ برائی کی جانب بھی خاص رغبت دکھاتا رہا ہے۔ یہی وجہ کہ انسانی دنیا شر اور فساد سے کبھی خالی نہیں رہی۔ انسانی تاریخ کا ہر دور اپنی تمام اچھائیوں اور بھلائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بھی نبرد آزما رہا ہے۔ آج کا انسان بھی اپنی تمام مادی اور علمی ترقی کے باوجود اپنی اس جبلت پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔
برائی پر قابو پانے کے لئے روز اول سے انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے نیک نفس اعلیٰ دماغوں نے اپنی بساط بھر کوششیں کیں اور آج بھی کرتے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے منظم اور انسانی فطرت سے قریب کوشش دین اسلام کے ماننے والوں سے ظہور پذیر ہوئی۔ چونکہ خود قرآن اور سنت رسول سے اس کی جانب بھر پور رہنمائی ملتی ہے، یہ کار خیر آج بھی بغیر منقطع ہوئے مسلسل جاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمانے کے سرد وگرم کی وجہ سے کبھی اس میں بہت تیزی آگئی تو کبھی بے حد سستی بھی پیدا ہوگئی لیکن کسی بھی زمانے میں اسلام کے ماننے والوں میں ایک مضبوط گروہ نے انسانوں کو برائی سے روکنے میں کبھی مصلحت اور پس و پیش سے کام نہیں لیا۔
موجودہ دور کو انسانوں کے درمیان علمی اور مادی ترقی کا معراج تصور کیا جاتا ہے۔ اس دور کی ایک اہم پیش رفت ہر طرح کے سفر میں برق رفتاری شامل کر کے وقت کو اپنی مٹھی میں کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ آج کے عام انسانوں کو جو سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں وہ کسی زمانے میں ہفت اقلیم کے شہنشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں ۔ اس ترقی کے ساتھ ساتھ برائی نے بھی کئی زاویے سے اپنی بڑھت بنائی ہے۔ آج برائی میں مبتلا ہونا جتنا آسان ہے اتنا کسی بھی دور میں نہیں رہا۔ اس پس منظر میں برائی کے تعلق سے انسانوں میں بیداری پیدا کرنا اور انہیں اس سے روکنے کی منصوبہ بند کوشش کرنا بے حد اہم ہوگیا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا دینی فریضے کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان یہ ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے ۔
اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ اس دینی اور اخلاقی فرض کو ہم کس طرح انجام دیں۔ قرآن مجید میں ارشاد الہٰی ہے،"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ ادا کریں ، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں۔” (الحج، 22/ 41)۔
یہاں زمین میں اقتدار کا مطلب بادشاہت اور حکومت ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ قدرت ہے جو بغیر ظلم و نا انصافی کے ایک انسان کو دوسرے پر حاصل ہوتی ہے۔ بے شک سیاسی اقتدار ایک بڑی طاقت ہوتی ہے جس سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو بھلائی کے راستے پر لگا کر برائی سے با آسانی روکا جاسکتا ہے۔ لیکن کچھ انسانوں کو قدرت منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازتا ہے جس کے ذریعے وہ دوسرے انسانوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا کچھ انسانوں کے پاس ایسا علم ہوتا ہے یا کچھ کے پاس مال وزر کا اتنا انبار ہوتا ہے کہ وہ اس کے سہارے انسانوں کے ایک گروہ کو اپنی مرضی پر چلا سکتے ہیں۔ یہ سب اقتدار کی قسمیں ہیں جو آج ہمارے معاشرے میں مکمل رائج ہیں۔ ہمارے درمیان عالموں، دانشوروں اور سرمایہ داروں کا ایک مضبوط طبقہ موجود ہے جو بغیر سیاسی طاقت کے بھی معاشرے پر اقتدار رکھتا ہے۔ اس حوالے سے سماج میں بڑھتی ہوئی برائی کو روکنا ان کا خاص فرض بن جاتا ہے۔ پر افسوس ان میں سے اکثر خود پوری طرح برائیوں میں مبتلا ہیں اور کئی جگہ تو برائی پھیلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے سماج کی بڑی بدقسمتی ہے کہ معمولی اقتدار حاصل ہوتے ہی ہم میں سے کچھ برائی سے معاشرے کو بچانے کے بجائے اپنی تمام صلاحیتیں اپنے اقتدار اور کرسی کو بچائے رکھنے میں لگا دیتے ہیں اور یوں آج ہمارا معاشرہ برائیوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں ہمارے درمیان کا یہ مقتدر طبقہ ایسے ایسےحرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ شیطان بھی ان کی عیاری پر ششدر رہ جائے۔ ان کی دیکھا دیکھی برائی کی یہ بیماری جسے وہ مصلحت اور فکری اختلاف کے خوبصورت غلاف میں پیش کرتے ہیں عوام میں بھی عام ہوکر رہ گئی ہے۔
پتہ نہیں ہم میں کا مقتدر طبقہ آخر کس زعم میں مبتلا ہوکر یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ کیا انہیں علم نہیں کہ بھلے وہ انا، خود غرضی، اقتدار کی ہوس، جھوٹ، مکر و فریب، منافقت اور ظلم و جبر کو کتنے ہی اچھے نام دے لیں وہ ازل سے برائی میں ہی گنے جاتے ہیں اور ابد تک بھی اسی میں گنے جاتے رہیں گے۔ قدرت نے انہیں اپنے چند دائروں پر اقتدار عطا کرکے در حقیقت ایک امتحان میں مبتلا کیا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس نعمت کا استعمال کیا اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز اور زکواۃ کا اہتمام کرتے ہوئے انسانوں کو بھلائی کی جانب دعوت دیتے ہوئے برائی سے روکنے کے لئے کرتے ہیں یا اپنی ذاتی مفاد اور انانیت کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس دن خدا کی پکڑ انہیں آدبوچے گی اس دن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ جن لیموں نچوڑوں کے مشورے پر انہوں نے اپنا فرض منصبی بھلا کر دوسروں پر ظلم اور شدید حق تلفی جیسی برائیوں میں خود کو ملوث کر لیا ہے وہ دور سے ہی کترا کر نکل جائیں گے اور یہ اپنے تمام بد اعمالیوں کے ساتھ عذاب الہی کی کگار پر واویلا کرتے تنہا کھڑے رہ جائیں گے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنا فرض پہچان کر برائی کے خلاف چاہے وہ رائی اتنی ہی کیوں نہ ہو اٹھ کھڑا ہو، خود بھی برائی سے اپنے آپ کو روکے اور دوسروں کو بھی برائی سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کرے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوفہد، نئی دہلی
قرآن ایک کھلی کتاب ہے،یہ دنیا کے ہر انسان کے لیے ہے، خواہ اس کا عقیدہ یا مذہب کچھ بھی ہو، وہ بہت زیادہ پڑھا لکھا ہو یا بہت زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو۔ اسی مقصد سے دنیا کی بیشتر زبانوں میں قرآن کے تراجم کیے گئے ہیں تاکہ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے کہ اس کتاب کا سمجھنا اس کی دسترس سے باہر رہ جائے۔
اگر آپ غیر مسلم ہیں توقرآن کا خود ہی مطالعہ کریں،ادھر ادھر سے آدھی ادھوری باتیں سن کر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ بہتر تو یہی ہے کہ قرآن سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کے لیے پڑھیں، بلکہ ابدی سچائی اور حقیقت جاننے کے لیے پڑھیں، البتہ تنقیدی نقطہ نظر کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں، پھر اپنے خیالات اور سوالات بھی پیش کرسکتے ہیں، حتیٰ کہ اعتراضات بھی کرسکتے ہیں، مگر یہ اعتراضات تعصب کی بنیاد پر نہ ہوں بلکہ تقریب فہم کے لیے ہوں اورعالمانہ یا طالب علمانہ ہوں۔ پھر جب کسی دوسرے قرآن کے طالب علم یا اسکالر کے ذریعے آپ کے اعتراضات کے جواب دیے جائیں تو آپ انہیں بھی مزیدغوروفکر کے لیے اور تحقیقی وعلمی اور تنقیدی روایات کو آگے بڑھانے کے لیے پڑھیں۔ پھراگر ان میں آپ کو جواب مل جائیں تو انہیں قبول کریں اور اگر جواب نہ ملیں تو انہیں رد کردیں۔ اور پھر سے غوروفکر کریں، پھر اللہ اگر توفیق دے تو معاشرے سے نہ ڈریں، مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر آگے بڑھیں اورقرآن کی آغوش میں آجائیں۔
قرآن پر ہمیشہ سے اعتراضات ہوتے آئے ہیں اور ان کے جواب بھی دیے گئے ہیں،حد تو یہ ہے کہ قرآن کا چیلینج قبول کرنے کی بھی کوششیں ہوئی ہیں اور قرآن کی آیات جیسی عبارتیں پیش کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرنے والوں نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے۔ تو آگر آپ بھی اپنے علم کے زعم میں ہیں، یا اپنے تئیں کسی طرح کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں تو آپ بھی کوشش کرکے دیکھ لیں، مگر جب ایسا کرنے سے عاجز رہ جائیں تو غورکریں کہ ایسا کیوں ہے پھر آپ کے ذہن میں جو بھی سچائی آئے اسے قبول کریں۔
اگر آپ سائنٹسٹ ہیں تو قرآن کی بہت ساری آیات آپ کی توجہ کی مستحق ہیں، قرآن میں ہے: أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ زمین وآسمان باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا۔ اورہم نے ہرذی روح چیز پانی سے پیدا کی ہے، ایسی سیکڑوں آیات ہیں جنہیں آپ اپنی ریسرچ کا موضوع بناسکتے ہیں۔
اگر آپ تاریخ کے طالب علم ہیں توآپ کے لیے بہت سی آیات ہیں جوآپ کی دلچسپی کا باعث بن سکتی ہیں، قرآن میں ہے: الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ آپ اس آیت کو اور اس جیسی دیگر آیات کو اپنی تحقیق کا موضوع بناسکتے ہیں۔
اگر آپ آرکیا لوجسٹ ہیں تب بھی آپ کے لیے سیکڑوں آیات ہیں، قرآن میں ہے: فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً۔۔ غورکریں کہ قرآن اس بیان میں کتنا سچا ہے، اور کیا مصر کے میوزیم میں موجود رعمسیس دوم وہی فرعون ہے جسے اللہ نے بحر قلزم میں غرق کیا تھا۔ اسی طرح تحقیق کریں اور بتائیں کہ قرآن نے جس بادشاہ کو ذوالقرنین کہا ہے کیا وہ سکندراعظم ہی ہے۔
اگر آپ جج اور وکیل ہیں تو آپ کے لیے قرآن میں سیکڑوں آیات موجود ہیں،آپ انہیں بغور پڑھیں اور دنیا کے تمام ممالک کے قوانین سے ان کا موازنہ کریں۔اگر آپ اخلاقیات کے معلم ہیں تو دیکھیں کہ خاص ان حوالوں سے قرآن کی رہنمائی کیا ہے۔
اگر آپ ابدی سچائی کے متلاشی ہیں اورکائنات کی کُنہہ کو سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں اور بطورخاص ڈوائن بیانیوں کے حوالے سے جاننا چاہتے ہیں کیونکہ بعض مقامات پر سائنس بھی ہاتھ کھڑے کردیتی ہے، تو آپ کے لیے قرآنی بیانیے سے زیادہ اَوتھینٹک اوربھر پور وضاحت والا بیانیہ نہیں مل سکتا۔
غرض آپ جو بھی ہیں آپ کے لیے قرآن میں دلچسپی کا پورا سامان موجود ہے۔ بس آپ ارادہ کریں اور پڑھنا شروع کریں۔قرآن اور اسلام کے بارے میں دوسروں کے ریمارکس پر اعتماد نہ کریں۔اور صرف انہیں کو سامنے رکھ کر کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔ قرآن ایک کھلی کتاب ہے اور وہ سب کے لیے ہے۔قرآن میں ہر صاحب عقل وفہم کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ ﴿الروم: ۲۲﴾
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
آج کل مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ ایک طرف ضروریاتِ زندگی کے مد میں آنے والے اشیاء کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں تو دوسری طرف لوگوں میں قوت خرید تیزی سے گھٹ رہی ہے ۔اچھے بھلے بھی (جن کی آمدنی اور تنخواہیں لاکھوں میں ہے)، حالات سے گھبرا کر کراہنے لگے ہیں تو ایسے میں سماج کے اُس طبقہ پر کیا کچھ گذررہی ہوگی جس کی تنخواہ میں ایک عرصے سے جمود طاری ہوچکا ہو ، اُس کا اندازہ شاید ہی کوئی کر پائے۔ معاشی مجبوری ایک ایسا بوجھ ہے جس کے نیچے دب کر آدمی نہ صرف اپنے آپ کے آگے ذلیل ہوجاتا ہے بلکہ معاشرے میں بھی اس کی وقعت کم ہو جاتی ہے۔
اسلام دین اعتدال ہے۔ اس کے نزدیک سماج کے ہر فر د کی اہمیت ہے۔ وہ جہاں مالکوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اُس کی مزدوری ادا کر دی جائے وہیں یہ بھی کہتا ہے کہ اگر مزدور نے کام میں جان بوجھ کر کوئی کوتاہی کی تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اُس کے لے حلال نہیں ہے۔ملازمین اور ماتحتین کی تنخواہیں کم از کم اتنی ضرور ہونی چاہئے کہ وہ اپنی ضروریات زندگی کے حصول میں پریشان اور خوار نہ ہوتے پھریں۔ اگر سماج کے عام افراد کے تعلق سے اسلام میں اتنی تاکید ہے تو وہ لوگ جو معاشرے میں اسلام کی علامت سمجھے جاتے ہیں ان کی کتنی اہمیت ہوگی یہ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک زوال پذیر معا شرہ ہے ، ہم معاشی ، دینی اور اخلاقی ہر میدان میں دیوالیہ ہوتے جارہے ہیں اور اس کی ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے معاشرے میں فعالیت لانے کے لئے انقلابی اصلاحات کرتے رہتے ہیں، چاہے اس کی وجہ سے انہیں خود اپنے معاشرے کی مخالفت کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ لیکن ہم اپنی دقیانوسی سوچ کے ساتھ اندھی تقلید میں مبتلا ہر اس عمل سے بدکتے ہیں جس سے تبدیلی کی بو آتی ہے۔ اکابرین اور بزرگوں کی رٹ لگاتے لگاتے ہماری اپنی سوچ مردہ ہوچکی ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہم حالات کا جائزہ لے کر خود فیصلہ کرنے سے خوف کھاتے ہیں۔ ہم میں موجود خود اعتمادی کی کمی ہی ہمارے زوال کی حقیقی وجہ ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے دور میں اگر کوئی عام سی زندگی بھی جینا چاہے تو اس کے لئے کتنا خرچ ہوگا۔ ہم خود اس مرحلے سے بارہا گذرتے رہتے ہیں لیکن جب ہمارے ان ماتحتین کا معاملہ آتا ہے جن سے ہماری کوئی معاشی وابستگی نہیں ہوتی، جو ہمارے ماتحت میں ہوتے ہوئے بھی راست ہمارے ماتحت میں نہیں ہوتے جیسے پیش امام ، موذن اور خادم مسجد تو پھر ہمیں بزرگوں کی روایتیں ، بیت المال کی حفاظت ، اور اس کو لے کرآخرت کا خوف بری طرح جکڑ لیتا ہے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نے جو تنخواہیں اسلام کی ان علامتی شخصیتوں کے لئے طے کر رکھی ہیں اس میں ان کا گذارا بہت مشکل ہے ، ہم انہیں توکل کا سبق پڑھا کر قناعت کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔خود پر حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے، لیکن ان خادمین اسلام کی تنخواہیں بڑوں کا حوالہ دے کر اُن کے طے کردہ اصولوں پر ہی دیں گے۔ ہماری اس ماضی پرستی کے نتیجے میں معاشرے کایہ معتبر طبقہ کن مشکلات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اس کا ہم رتی برابر بھی اندازہ نہیں کرسکتے۔ جدید معیار زندگی کو مد نظر رکھ کر جب تک ہم اپنے ان معتبر خادمین اسلام پر کشادگی اور فارغ البالی کے دروازے وا نہیں کرینگے قدرت بھی ہمیں آسودگی اور معاشی اطمینان سے نہیں نوازے گی۔
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
تکبر یعنی اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا انسانوں میں پایا جانے والا سب سے خطرناک اخلاقی مرض ہے ۔ اس میں مبتلا چاہے کوئی بھی ہو سماج اور معاشرے کے لئے ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے ، اپنے وجود ، اپنے عبادات اور اپنے علم پر گھمنڈاور تکبر کی وجہ سے ہی راندہ ء درگاہ ٹہرا ، اللہ رب العزت کے نزدیک تکبر سب سے زیادہ نا پسندیدہ فعل ہے، کلام مجید میں اس تعلق سے کئی آیات موجود ہیں۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ للّٰہَ لَا یُحِبُّ کَلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ (سورہ لقمٰن، آیت نمبر۱۸)
اور تو لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اترا کر مت چل، بلاشبہ تکبر کرنے والے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (ترجمہ آسان قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)
اِنَّمَا یؤْمِنُ بِا یَاتِنَا الَّذِینَ اِذَا ذُِّکرُوْا بِھاخَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبھِّم ُوھمْ لَا یَسْتکَبرُوْنَ (سورہ السجدہ آیت نمبر۱۵)
ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ جب انہیں ان آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (ترجمہ آسان قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)
ان دو آیات سے جہاں تکبر کی حرمت واضح ہوتی ہے وہیں مومنین کے تعلق سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مومنین لوگوں سے منہ نہیں موڑتے ، زمین پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ چلتے ہیں، ان کے آگے جب حق بات دلائل کے ساتھ رکھی جاتی ہے تو وہ اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ کہنے والا اُن سے چھوٹا ہے ، عامی ہے اور حقیر ہے اور ہر گز تکبر اختیار نہیں کرتے۔
آقائے دو جہاں سردار انبیاء ﷺ سے صحیح مسلم میں ایک حدیث یوں منقول ہے: یحییٰ بن حماد نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابان بن تغلب سے حدیث سنائی، انہوں نے فضیل بن عمرو فقیمی سے ، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺسے روایت کی، آپ نے فرمایا:‘‘جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔’’ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ‘‘اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔’’ صحیح مسلم (حکم حدیث: صحیح۔ قسم حدیث: قولی۔ نسبت حدیث: مرفوع۔ حدیث نمبر:265)
اس حدیث سے دو باتیں واضح ہورہی ہیں پہلی یہ کہ ظاہرمیں اچھا لباس یعنی خوش پوشاکی تکبر کے زمرے میں نہیں آتی دوسر ی بات یہ کہ تکبر کا مطلب حق واضح ہوجانے کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہنا ہے اور لوگوں کو اپنے سے حقیر جاننا ہے ۔
موجودہ دور میں یہ مرض ایک مخصوص طبقے میں عام ہوتا جارہا ہے ، جو بزعم خود معاشرہ پر خدائی فوجدار بننے کا متمنی ہے، جس کی وجہ سے سماج میں شر اور انتشار تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ صرف اپنے آپ کو علم سے وابستہ قرار دینا، اپنی ہر بات کو چاہے وہ کتنی ہی لایعنی کیوں نہ ہو حق بتلانا ،اگر کوئی ان کے طبقے سے باہر کا دلائل کے ساتھ ان کا رد پیش کرے تو اسے عامی کہہ کر اس کی سر عام ہجو اُڑانا ، اپنی مجلسوں میں اپنے بھگتوں کے آگے اُسے گمراہ بتا کر بد دعا دینا ، تکبر اور گھمنڈ کی بدترین مثال ہے ۔ علم اور آگہی کسی کی جاگیر نہیں ہے ، یہ اللہ رب العزت کی وہ نعمتیں ہیں جو وہ جسے چاہے عطاکر ے ، شیطان لعین اپنی تمام علم اور معرفت کے باوجود گمراہ قرار پایا اور ایک اُمی میرے ماں باپ آپﷺپر قربان معراج کے شرف سے نوازے گئے اور ‘ ‘بعد از خدائے بزرگ توئی قصہ مختصر ’’ کے درجے پر پہنچے۔
تکبر انسان کے عقل کو اندھا کر دیتاہے ۔ وہ سچ سننے ، دیکھنے اور سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے ریاض الصالحین میں اس پر کیا ہی خوب لکھا ہے ، فرماتے ہیں: کبر اور بڑائی خاصاً ذات الٰہی کے لئے ہے۔کسی مخلوق خصوصاً اشرف المخلوقات کو یہ ہرگز زیبا نہیں کہ وہ اس رواے الہٰی پر دست درازی کرے۔ یہی فعل ابلیس کی دائمی ملعونیت کا باعث بنا کبردراصل خود پسندی کی وہ شکل ہے جس میں آدمی دوسروں کو حقیر و بے چارہ سمجھتا ہے اور اپنے کو سر بلند و گردن فراز ۔مگر وہ شایداس قانون الہٰی سے واقف نہیں کہ ہر متکبر کا انجام وہی ہے جو شیطان کا ہے (ریاض الصالحین)۔
اللہ ہمیں سمجھ دے ، تکبر جیسی لعنتی برائی سے اپنے سایہء عافیت میں رکھے اور جو تکبر میں مبتلا ہوکر عامی کہہ کے دوسروں کی تحقیر کرتے ہیں انہیں عقل سلیم سے نوازے اور تکبر کے اس شیطانی شکنجے سے ان کی مکمل حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین