اشفاق اسانغنی
خود کو پانے کی تمنا میں ہوا دنیا میں خوار
ہاتھ میرے صرف آیا انتظار اور انتظار
ان کو آزر کی ضرورت ہے نکھرنے کے لئے
آئنہ دکھلا نہیں تو پتھروں کو بار بار
سیکھ لے آداب پینے کے تو پہلے بادہ کش
بیخودی تجھ کو ملے گی میکدے سے قسطوار
رو رہا تھا تو مرا پرساں نہ تھا کوئی یہاں
میرے ہنسنے کا لگا ہے شہر بھر میں اشتہار
آشنائی میری مجھ سے ہو نہ پائی آج تک
میرا میں رہتا ہے مجھ میں اب ہمیشہ بیقرار
شور کی سنتا رہے گا کب تلک اے وقت تو
کان دھر،کیا کہہ رہی ہے، خامشی کی سن پکار
ساتھ میں مٹی کے رکھ تو عزم اپنا چاک پر
ظرف میں آئے گا تیرے کوزہ گر بالکل نکھار
منحصر خودکار آلوں پر ہوا ہے اسقدر
کھو چکا ہے آج انساں اپنا خود پر اختیار
سود میں اشفاق کھوٹی ہی ملیں تعبیریں سب
میں نے خوابوں کا کیا تھا زندگی میں کاروبار
*****