اکبر زاہدؔ، وانم باڑی
کسی بھی رسالے یا جریدے کا سب سے اہم جز اس کے اداریے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہی ایک صفحہ ایسا ہوتا ہے جس میں ایک مخلص،سچا اور ایماندار مدیر اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ایک ایسی دستاویز رقم کرتا ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے آنکھوں دیکھی تاریخ کے اہم صفحات ثابت ہوتے ہونگے۔ یہ ایک بالکل سچی دستاویز ہوگی کیونکہ اس میں صرف وہی باتیں لکھی گئی ہوں گی جن کا مدیر نے مشاہدہ کیا ہوگا یا براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی ہونگی۔
ایسے ہی بہت سارے اداریے میرے سامنے موجود ہیں، جواسانغنی مشتاق رفیقی کے پندرہ روزہ رسالہ ‘‘زبانِ خلق’’ سے لئے گئے ہیں۔ان اداریوں سے جہاں مدیر کے دل کا درد اور خلوص جھلکتا ہے، وہیں ہمیں اس دنیا کی بے ثباتی ، خودغرضی ،معاشرے کی زبوں حالی ، اور سیاست دانوں کے دوغلے پن کا بھی شدید احساس ہوتا ہے۔ان اداریوں کی زبان صاف ، شستہ اور نکھری ہوئی ہے اور قاری کو کسی بھی قسم کے گنجلک پن کا احساس نہیں دلاتی بلکہ انہیں پڑھتے ہوئے وہ ان میں کچھ اس طرح کھو جاتا ہے کہ اسے وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ پھر جب وہ اس احساس سے بیدار ہوتا ہے اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اب تک ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کررہا تھا جو اس کی اپنی ہوتے ہوئے بھی ، اس کی اپنی نہیں تھی۔ اس نے بس خیالوں کی دنیا میں زندگی بسر کی تھی اور حقیقی دنیا اس کی پہنچ سے کافی دور ہے۔
ان کا ایک اداریہ 15 فروری 2017 کا ہے جس میں وہ شدت پرستی کے تعلق سے رقم طراز ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ
شدت پرستی انسانی سماج اور تہذیب کے لئے ہمیشہ سے سم قاتل رہی ہے۔ چاہے وہ زبان کے تعلق سے ہو یا مادرِ وطن کے تعلق سے، سماجی رسم و رواج کے تعلق سے ہو یا آبا و اجداد کے تعلق سے ، قوم و ملت کے تعلق سے ہو یا مذہب کے تعلق سے، شدت پرستی نے ہمیشہ سے ہی انسانیت اور انسانی نسل کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے ہیں۔ اور ان میں سب سے زیادہ خطرناک اگر کوئی ہے تو وہ مذہبی شدت پرستی ہے اور اس کی وجہ سے انسانی سماج اور تہذیب میں جو دڑاریں پڑتی ہیں اور انسانیت کے جسم پر جو گھاؤ لگتے ہیں وہ ناسور بن کر نامعلوم وقت تک رِستے رہتے ہیں اور گہرے ہوتے رہتے ہیں۔
جیسے ہی ہم یہ جملے پڑھ کر ختم کرنے لگتے ہیں ہمارے سامنے مذہبی شدت پسندی کے وہ تمام واقعات سامنے آ جاتے ہیں جس کا ہم نے گزشتہ تین دہائیوں میں مشاہدہ کیا تھا۔ ہمیں اڈوانی کی رتھ یاترا یاد آجاتی ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت یا دآجاتی ہے اور اس کے بعد فسادات کا جو لامتناہی سلسلہ چلا وہ بھی یاد آجاتا ہے۔پھر 2002 کا گجرات یاد آجاتا ہے، اور مسلمانوں کی نسل کشی یاد آجاتی ہے۔ پھر ہم تاریخ کے ایک ایک پنّے کو الٹتے ہوئے ہمیں سی اے اے، شاہین باغ، سقوطِ جموں کشمیر اور اس کے بعد کرونا وبا جس کے لئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا وہ سب کچھ یاد آجاتا ہے ۔ حالانکہ مدیر نے یہ سب کچھ نہیں لکھا تھا لیکن اس کے باوجود بین السطور کہی ہوئی یہ تمام باتیں یاد آجاتی ہیں۔ یہی تحریر کی خوبی ہوتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بات جو دل سے نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے۔ اسانغنی مشتاق رفیقی نے اپنے اخبار کا ہر اداریہ پوری دردمندی اور خلوص کے ساتھ سے لکھا ہے ، اسی لئے ان کے اداریوں میں اثر انگیزی ہے۔
ان کا کوئی بھی اداریہ اٹھا کر پڑھ لیجئے ان میں ایک عجیب سوز و گداز ہوگا۔ دھیمے دھیمے جلتے ہوئے شعلوں کی آنچ محسوس ہوگی تو کہیں ایسا محسوس ہوگا کہ لکھنے والا ابھی پھٹ پڑے گا اور اس کی زبان سے بے شمار مغلظات نکلیں گے لیکن اس کے فوراََ بعد الفاظ میں یکلخت نرمی بھی پیدا ہوجائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدیر ہم سب کی طرح اسی دنیا کا باسی ہے ، اس کے دل میں بھی احساسات ہوتے ہیں ، وہ مردہ دل یا مردہ ضمیر نہیں ہے بلکہ وہ بھی غصہ ہوسکتا ہے، کبھی سماج پر، تو کبھی سیاست دانوں پر ، کبھی امیرِ شہر پر تو کبھی فقیۂ شہر پر۔ چاہے اس کا غصہ کسی پر بھی کیوں نہ ہو،نیت نیک ہی ہوتی ہے۔ کبھی اسے غصہ ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنے والوں پر ہوتا ہے کہ کوئی بولتا کیوں نہیں، کوئی آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑتا۔ تو کبھی اسے غصہ اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر یہ ظلم کب تک چلتا رہے گا۔ کبھی اسے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ اسلام کے ماننے والے خود اسلام کے اصولات پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ کبھی اسے اپنے شہر کی فکر ہوتی ہے کبھی اسے اپنے ملک کی فکر ستاتی ہے۔ کبھی اسے احساسِ کمتری میں مبتلا خواتین کی فکر ستاتی ہے جو معاشرے میں آج تک اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کرسکیں۔ حالانکہ عورتوں کے حقوق میں اٹھنے والی سب سے مضبوط آواز اسلام کی تھی اور اس کے بعد ہی سے عورتوں کو سماج میں صحیح مقام عطا ہوا تھا لیکن مغرب کی کم ظرف قوم کو عورتوں کو اسلام کی طرف سے دیا گیا یہ برتر و اعلیٰ مقام پسند نہیں آیا تو انہوں نے اسلامی تعلیمات کی شفاف جھیلوں میں گند پھیلانی شروع کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے صالح نفوس بھی اس گند سے پیدا ہونے والی جراثیموں کا شکار ہو کر مردانہ برتری اور مردانہ تکبر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ’’(عورت، اسلام اور ہم 10 مارچ2017 ء کا ادرایہ)
اپنے 27 مارچ2020 کے اداریے‘‘فسطائیت کے بڑھتے ہوئے قدم۔۔۔’’ میں انہوں نے یوپی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شاندار جیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس جیت کے پیچھے دراصل وہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اور خاص کر وہ مسلم سیاسی پارٹیاں ہیں جن کا تکیہ ہی نہیں بلکہ اوڑھنا بچھونا سب مسلم عوام تھے۔انہوں نے عام مسلمانوں کے بیچارگی کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے کہ
بیچار ا مسلمان؛ ایک طرف اسے فسطائی طاقتوں کے یلغار کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسے نام نہاد سیکولر اور مسلم سیاسی پارٹیوں کی منافقانہ چالوں سے نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے، ایک طرف سے مذہبی اور مسلکی شدت پسندوں نے اس کی گھیرا بندی کررکھی ہے تو دوسری طرف سے معاشی اور سماجی مسائل دیوار بن کر اس کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ اس چہار سمتی لڑائی میں نہ وہ جیت رہا ہے نہ ہار رہا ہے۔ اب کرے تو کیا کرے؟
اسی اداریے میں آگے چل کر اس کا حل بھی پیش کرتے ہیں کہ
‘‘حکمت ِ عملی سے کام لے کر حالات کے رخ کو موڑنے کی کوشش کریں اور یہ کام ہر فرد کو کرنا ہے۔ اگر آپ نے بدلاؤ لانے کی
ٹھان لی ہے یقین رکھئے ، آپ کا ضمیر خود آپ کی رہنمائی کرے گا، آپ کو نام نہاد رہنماؤں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ سیاست و حکومت کی شان اور دبدبہ اپنی جگہ لیکن سماج اور معاشرہ صرف سیاست و حکومت کی بنیاد پر نہیں قائم ہوتا۔ اس سے ہٹ کر بھی رعب اور شوکت حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان دوسرے طریقوں پر دھیان دیں، حکومت اور سیاست کے میدان ان قوموں کے لئے چھوڑ دیں جنہوں نے اسی کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔ ٹکراؤ سے ہرحال میں گریز کریں۔۔۔عمل اور مسلسل عمل ، پوری دانشمندی اور تفکر کے ساتھ، اسی میں ہماری کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
’’
اسانغنی مشتاق رفیقی نے کئی مسائل اور کئی اہم موضوعات کا اپنے اداریوں میں احاطہ کیا ہے۔ تین طلاق کا مسئلہ، انسانی معاشرے میں اختلافات ،دولت کی غیر مساوی تقسیم،عدم برداشت ، خادمین اسلام کی تنخواہوں کا مسئلہ، انسانی تکبرّ اور اخلاقی امراض،بہتان تراشی اور بدگمانی ،خبروں کی تحقیق کے تعلق سے اسلام کا اصول،اتحادِ ملت، سیاست، غرض یہ کہ ہر موضوع پر انہوں نے گفتگو کی ہے اور صرف مسائل و موضوعات پر گفتگو ہی نہیں کی بلکہ حالات و مسائل سے نمٹنے کے لئے حل بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے پوری دنیا میں ملتِ اسلامیہ کی حالت کا بھی جائزہ لیا ہے اور ہندوستان میں مسلم قوم کی جذباتیت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ 20 جون2017 کا ایک اداریہ ‘‘سعودی عرب، قطر اور ہم’’ اس موضوع پر ایک بہت ہی اچھا اداریہ ہے ۔
پھر کرونا وبا اور لاک ڈاؤن اور اس کے نیتجے میں جو دردناک مناظر سامنے آئے اور جس طرح عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور سرمایہ داروں نے جس طرح سے اپنی تجوریا ں بھریں، اور پھر کس طرح اس وبا کو بھی مذہبی رنگ دینے کی وطن عزیز میں کوشش کی گئی یہ سب کچھ انہوں نے اپنے اداریے ‘‘بڑھتی ہوئی مایوسی کا اندھیرا’’ میں مفصل طور پر لکھا ہے۔
اگر بات اسلام کی ہو اور مفتیانِ کرام اور علماء کی کرنی ہوتو وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرتے ہیں، کہیں کسی قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہیں تو کسی مقام پر وہ کسی معتبر حدیث کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور اس طرح اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مدیر نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سوچ سمجھ کر لکھا ہے اور یہی چیز ان کے ادریوں کو معتبر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔