ریاست ٹمل ناڈو کی سیاست پر ٹمل سنیما سے وابستہ افراد کی گرفت، ایک جائزہ
ایم جی رامچندرن سے جوزف وجے چندرشیکھر تک
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
ریاستِ ٹمل ناڈو کی سیاست میں ٹمل سنیما سے وابستہ افراد کی شراکت کی ایک لمبی تاریخ ہے، چاہے وہ آزادی سے پہلے ہو یا آزادی کے بعد اور ہنوز آج تک۔ آزادی سے پہلے انگريز حکومت کے خلاف ریاست میں انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈروں نے بھی اس میڈیم کا کامیاب استعمال کیا۔ لیکن آزادی کے بعد دراوڑی پارٹیوں نے اس کا استعمال جس خوبصورتی سے اپنے نظریاتی پرچار اور عوام کے درمیان اپنی منفرد پہچان بنانے کے لئے کیا وہ یہاں کی سیاست کا ایک ایسا باب ہے جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
ریاستِ ٹمل ناڈو کے پہلے دراوڑین وزیر اعلیٰ سی انادورائی جو ریاست میں دراوڑی سیاست کے سرخیل مانے جاتے ہیں، نے ٹمل سینما میں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر نہ صرف اپنے گہرے نقوش چھوڑے بلکہ اپنی منفرد طرز بیانی سے اس ذریعہءِ ترسیل کا استعمال اپنے نظریات کی تبلیغ کے لئے اتنے شدید انداز میں کیا کہ اس کے اثرات کی گونج آج بھی یہاں کی فضاؤں میں بازگشت کرتی ہے اور لگا تار چوتھی اور پانچویں نسل کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔ سی انادورائی کو یہاں کے عوام و خواص آج بھی انّا یعنی بڑے بھائی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے دو خاص شاگرد ہیں جنہوں نے ان کے بعد بحیثیت وزیرِ اعلیٰ ریاست میں دراوڑین طرز حکومت کو مضبوط کیا، ان میں اول نام ایم کروناندھی کا ہے، یہ بھی ٹمل سنیما میں بحیثیت اسکرپٹ رائٹر اور کہانی نویس ایک تاریخی پہچان رکھتے ہیں، اور دوسرا نام اُن سے سیاسی اختلافات کی بنیاد پر الگ ہوکر، اپنے استاد کا نام جوڑ کر الگ پارٹی بنانے والے ایم جی راماچندرن کا ہے جو ایم جی آر کے نام سے مشہور ہیں،یہ بھی ٹمل سنیما کے ایک کامیاب اداکار اور اپنے دور کے سپر اسٹار مانے جاتے ہیں۔ اس قطار میں تیسرا نام جے جئے للتا کا آتا ہے جو ٹمل سنیما میں بطور ایم جی آر کی ہیروئین شہرت کے ساتھ ساتھ ان کے قائم کردہ پارٹی میں پروپگنڈہ سکریٹری کی حیثیت سے بھی ان کی موت تک جڑی رہیں اور بعد میں چھ مرتبہ ریاستِ ٹمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کرسی سنبھالی۔
ان کامیاب افراد کے علاوہ جو ٹمل سنیما سے وابستہ رہ کر اس سے ملنے والی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے اور بھی کئی لوگ ہیں اس میدان کے جنہوں نے ریاست کی سیاست میں سر گرم ہونے کی کوشش کی،کچھ نے نئی پارٹی بنا کر یا پہلے سے موجود پارٹیوں میں شامل ہو کر، ان میں پچھلے دور کے شیواجی گنیشن،ایس ایس راجندرن، ایم آر رادھا اور ماضیءِ قریب میں وجئے کانت، ٹی راجندر، سرت کمار، کے باکیاراج، کمل ہاسن، رجنی کانت قابل ذکر ہیں۔ شیواجی گنیشن بہت عرصے تک کانگریس سے وابستہ رہنے کے بعد اپنی ایک الگ پارٹی تمژگا منیٹرا مننانی نام سے بنائی لیکن الیکشنس میں بری طرح ناکام رہے۔ اسی طرح ٹی راجندر اور سرت کمار نے بھی پارٹیاں بنائیں لیکن کوئی کامیابی درج نہیں کراسکے۔ البتہ وجئے کانت نے دیسیا مرپوکودراوڑاکژگم کے نام سے ایک پارٹی بنائی اور ریاست میں حزبِ اختلاف کے رہنما کی حیثیت تک پہنچے، ان کے مرنے کے بعد اب یہ پارٹی ان کی بیوی پریمالتا کے ماتحتی میں اپنا ایک چھوٹا سا حلقہءِ اثر قائم رکھے ہوئے ہے۔ کمل ہاسن نے 2018 میں مکّل نیدھی مییم کے نام سے ایک پارٹی بنائی اور ہنوز سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ رجنی کانت جو سپر اسٹار سمجھے جاتے ہیں، ان سے توقع تھی کہ وہ پارٹی بنا کر سیاست میں داخل ہوں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا،جے جیللتا کے خلاف ایک عرصہ تک دبے دبے انداز میں سیاست کرنے کے بعد آج کل ان کا رجحان بی جے پی کی جانب مڑا ہوا ہے۔ لیکن راست طور پر سیاست میں آنے سے وہ آج تک گریز کرتے آرہے ہیں۔
ریاستِ ٹملناڈو کے موجودہ وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین نے بھی اپنے اولین دور میں سیاست میں رہتے ہوئے فلموں میں کام کرکے اپنی شہرت بڑھانے کی کوشش کی اور جب ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو ایک ٹمل ٹیلی سیریل میں درواڑین نظریات سے وابستہ شاعر کے طور پر ایک مضبوط کردار میں یاد گار رول بھی ادا کیا۔ ان کے سیاسی وارث سمجھے جانے والے ریاست کے موجودہ نائب وزیرِ اعلیٰ ادھیاندھی اسٹالین سیاست میں آنے سے پہلے ٹمل سینما میں قسمت آزمائی کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ان کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں اور وہ 2023 تک فلمی دنیا میں سرگرم رہ چکے ہیں۔
گویا ریاستِ ٹمل ناڈو کی سیاست اور ٹمل سنیما کا شروع سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس رشتے میں ایک نیا اضافہ حالیہ دور کے ٹمل فلموں کے پاپولر اسٹارجوزف وجے چندرشیکھر ہیں جو وجے کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے ریاست کی سیاست میں ایک نئی پارٹی تملاگا ویٹری کژگم کے ساتھ داخلہ لیا ہے۔ اس راست داخلے سے پہلے 2009 میں وہ وجئے مکل ایکّم کے نام سے اپنا ایک فین کلب بنا کر سیاست میں چھپے طور سے دخل اندازی شروع کرچکے تھے۔ اپنی اس تنظیم کے تحت انہوں نے 2011 کے اسمبلی انتخابات میں اے آئی اے ڈی ایم کے کا ساتھ دے کر اسے بھاری اکثریت کے ساتھ جیتنے میں مدد دی اور 2021 کے لوکل باڈی الیکشن میں حصہ لیا اور 169 حلقوں میں لڑ کر 115 جگہ جیت بھی درج کرائی۔
جب بی جے پی کی مرکزی حکومت نے سٹیزن شپ ایکٹ 2019 پاس کیا تو وجے نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور اسے ملک کے سماجی اور مذہبی ہم آہنگی کے لئے نا قابل قبول قرار دیا، اس کے ساتھ انہوں نے تمل ناڈو حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ریاست میں اس کے نفاذ کی اجازت نہ دے۔
فروری 2024 میں جوزف وجے چندرشیکھر نے اپنی سیاسی پارٹی تملاگا ویٹری کژگم لانچ کرنے کے بعد اس کا پہلا عوامی جلسہ 27 اکتوبر 2024 کو وکراوانڈی میں منعقد کیا۔اس جلسے میں لگ بھگ پانچ سے چھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور جوانوں کی تھی جو اپنے پسندیدہ ادکار کو دیکھنے اور سننے کے لئے امڈ آئے تھے۔
اپنے پہلے عوامی جلسے میں اپنے پرستاروں سے خطاب کرتے ہوئے تلاپدی یعنی سپہ سالار کے نام سے اپنے فینس کے درمیان مشہور وجے نے جو باتیں کہیں ان میں بالغ نظری اور سیاسی بصیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نظر آئی۔ بیک وقت مرکزی حکمران پارٹی بی جے پی اور ریاستی حکمران پارٹی ڈی ایم کے کو راست نشانے پہ رکھتے ہوئے وجے نے اپنی سیاسی اننگ کی شروعات کی۔
پریار کو اپنا نظریاتی رہنما بتاتے ہوئے وجے نے کہا وہ ان کے الحاد کے نظرئیے کے سوا، اُن کے دیگر نظریات جیسے خواتین کے لیے تعلیم ، سماجی مساوات اور سماجی انصاف کی پابندی کریں گے اور ڈی ایم کے بانی رہنما سی این انادورائی،ریاست ٹمل ناڈو کے پہلے غیر کانگریسی وزیرِ اعلیٰ کے کہے ہوئے الفاظ "ونڈرے کلم، وروونے دائیوم”( ایک نسل اور ایک خدا ) کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریاستِ ٹمل ناڈو کے اولین دور کے کانگریسی وزیر اعلیٰ کامراج، ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر، رانی ویلو ناچیار اور انجلی امّال کے نقش قدم پر سماج کی خدمت کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
جہاں بی جے پی کو اپنا نظریاتی حریف اور ڈی ایم کے کو اپنا سیاسی حریف بتاتے ہوئے وجے نے آنے والے اسمبلی انتخابات میں ان سے مقابلے کی بات کہی، وہیں سابق حکمران جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے، کے خلاف کچھ بھی کہے بغیر مستقبل میں اس کے ساتھ اتحاد کے دروازے کھلے ہونے کا عندیا دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ان کے اتحاد میں شامل ہونے والی پارٹیوں کو حکمرانی میں حصہ دیں گے، اس پر بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ریاستِ ٹمل ناڈو کی سیاست میں ایک نئی پہل ہوگی۔
وجے چندرشیکھر، ان کی نئی پارٹی اور ان کی اس بیان بازی پر تبصرہ کرتےہوئے ریاستی حکمران پارٹی ڈی ایم کے کے رہنماؤں نے ان کو بی جے پی کی بی اور سی ٹیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں سیاست کے دنگل میں اتارنے میں بی جے پی کا ہاتھ ہے۔ ریاست کے نائب وزیرِ اعلیٰ اودیانیدھی اسٹالین نے وجے کی سیاست میں آمد پر ان کے مستقبل کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ جہاں کانگریس نے ان کے ساتھ مستقبل میں کسی اتحاد سے صاف انکار کیا ہے، وہیں وی سی کے جو ریاستی دلت پارٹی ہے کے رہنماؤں نے ان کی، اتحادیوں کو حکم رانی میں حصہ دینے کی بات، کا خیر مقدم کیا ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کے جنرل سکریٹری اور سابق وزیرِ اعلیٰ کے پلنی سوامی نے اس بات سے صاف انکار کرتے ہوئے کہ وجے ان کی پارٹی کا ووٹ کاٹیں گے کہا ہے کہ ان سے سیاسی اتحاد کی بات قبل از وقت ہے اور اس کے لئے آنے والی اسمبلی انتخابات کے وقت تک انتظار کریں۔ اسی طرح ویلفئیر پارٹی کے ریاستی ذمہ دار ٹی محمد اسماعیل نے بھی کہا ہے کہ ابھی وہ وجے اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کسی فیصلے پرپہنچنے کی جلدی میں نہیں ہیں، کیونکہ جس طرح کی باتیں سامنے آرہی ہیں، جیسے بی جے پی کے ساتھ ان کے اور ان کی پارٹی کے بعض ذمہ داروں کےتعلقات، انہیں رکھ کر یقینی طور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور چونکہ ریاستی انتخابات کے آنے میں ابھی کافی وقفہ ہے تب تک ڈبلیو پی آئی اُن کے تعلق سے کسی امکان تک پہنچنے کو مکمل رد کرتی ہے۔
ریاست کے کئی سیاسی مبصرین نےجہاں وجے اور ان کی سیاسی پارٹی کے اس شاندار ریلی کو ریاست ٹمل ناڈو کی سیاست میں ایک نئی شروعات کا پیش خیمہ قرار دیا ہے، وہیں کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وجے کے سامنے ایک لمبا سفر ہے اور ابھی سے ان کے سیاسی قد کو ناپنے کی کوشش قبل از وقت ہوگی۔ کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ نوجوانوں میں ان کے فینس کی تعداد کافی بڑی ہے اس زاوئیے سے آنے والے اسمبلی انتخابات میں وہ ٹمل ناڈو کے پون کلیان بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اُنہیں ڈی ایم کے سے زیادہ اے آئی اے ڈی ایم کے کے لئے خطرہ بتا رہے ہیں، کیونکہ کوئی قابل لیڈر شپ کی کمی سے جوجھ رہی اے آئی اے ڈی ایم کے کا ووٹ بینک آسانی کے ساتھ وجے اور ان کی پارٹی کی جانب سرک سکتا ہے۔
ٹی وی کے اور وجے پر جہاں تک ریاستِ ٹمل ناڈو کے عوام کا تعلق ہے اس کی ایک بڑی اکثریت انتظار کرو ، دیکھو اور پھر رائے دو، کی حکمت عملی اپناتی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے، سوشیل میڈیا میں انہیں اور ان کی پارٹی والوں کو سنگھی اور بی جے پی کی بی اور سی ٹیم ہونے کا طعنہ دے کر ٹرول کرتے نظر آ رہے ہیں۔
ٹی وی کے، کے عوامی جلسے میں جمع بھیڑ سے یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ کُلی طور پر اس کے ووٹ بینک میں تبدیل ہوسکتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر اپنے پسندیدہ اداکار کی جھلک پانے اور اسے سننے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ وجے اور ان کی پارٹی کی وجہ سے آنے والے ریاستی انتخابات میں اتحاد کی ایک نئی شکل سامنے آئے گی اور چونکہ وجےکا تعلق کسی خاص ذات سے نہیں ہے اور وہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں تو اس اعتبار سے بھی سکیولر سیاست کرنا ان کی مجبوری ٹہری اور اگر انہوں نے بی جے پی سے اتحاد کر بھی لیا تو اس کا کوئی فائدہ اُنہیں نہیں ہوگا، الٹا اپنے پیشرو وجئے کانت اور ان کی پارٹی ڈی ایم ڈی کے کی طرح (جس نے گزشتہ سے پیشتر والے انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی شناخت کھودی تھی) یہ بھی عوام کے درمیان اپنا اعتبار کھو دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔