Home » وانم باڑی، ماضی اور حال کے آئینے میں

وانم باڑی، ماضی اور حال کے آئینے میں

by زبان خلق
3 comments

اسانغنی مشتاق رفیقی

وانم باڑی پچھلے کئی دہائیوں تک ضلع شمالی آرکاٹ میں ایک سرخیلی حیثیت کا حامل شہر ہوا کرتا تھا۔ اگر کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا تو ضلع کے لوگ پہلے یہ دیکھتے کہ وانم باڑی والے اس مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں اور پھر اس کو اپنے یہاں لاگو کرتے۔ معاشرتی معاملات ہو یا معاشی معاملات، وانم باڑی کی رہنمائی کو ضلع میں ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ گزشتہ ایک صدی کی تاریخ دیکھ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ ترقی کے ہر میدان میں چاہے وہ معاشی ہو یا معاشرتی، پہل وانم باڑی نے ہی کی ہے اور اطراف و اکناف والوں نے بعد میں یا بہت بعد میں اس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے یہاں اس کی بنا ڈالی۔ اس دور کے وانم باڑی والوں کی دور اندیشی، خلوص و للہیت، رعب و دبدبہ، سادگی، مقصد کی تکمیل کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا جذبہ علاقے میں آج بھی ضرب المثال کی طرح یاد کیا جاتا ہے۔ بدترین مخالفت کے پر آشوب حالات میں باد مخالف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تعمیری شمع جلانے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا۔ انہوں نے ستائش اور صلہ کی تمنا کیے بغیر اس شہرِ ناپرساں کے الجھے ہوئے گیسوؤں کو اس خوبصورتی سے سنوارا کہ اطراف و اکناف کے لوگ اس کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگے اور ان کی تقلید میں جٹ گئے۔ لیکن آج نہ وہ لوگ ہیں نہ ان کی جیسی دوراندیشی، سادگی خلوص و للہیت رعب و دبدبہ کہیں نظر آتا ہے۔ بس ان کے بنائے ہوئے کچھ در،دیوار اور چھت باقی ہیں جو یوں تو آج بھی مضبوط اور شاندار لگ رہے ہیں لیکن در حقیقت یہ ان کے نظریات کے کھنڈر ہیں جن پر کچھ مفاد پرست اپنا تخت سجائے قابض ہیں اور ان کے نام کا تاج پہنے ان عمارتوں پر اپنی ناجائز حکومت چلا رہے ہیں۔

شہر وانم باڑی جو کبھی اپنی نیک نامی کی وجہ سے ضلع کا سرخیل ہوا کرتا تھا آج ہر قسم کی معاشرتی اور معاشی برائیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ سوائے کچھ صالحہ نفوس کے جو آج بھی اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلوص و للہیت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں شہر کا ہر طبقہ شر اور فساد میں مبتلا ہو کر اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکا ہے۔ ساہو کار اورنام نہاد عمائدین اپنے آباؤ اجداد کے نام کی روٹیاں توڑتے توڑتے اور ان کی نیک نامی کا صدقہ کھاتے کھاتے اتنے ڈھیٹ ہوچکے ہیں کہ شہر میں بڑھتی ہوئی اخلاقی انارکی تو دور خود اُن کے گھروں میں داخل ہو چکی بد اخلاقی کا انہیں رتی برابر بھی فکر و احساس نہیں ہے۔ اسی روش پر چلتے ہوئے ان کے خوشہ چیں علماء و دانشور اور فارغین مدرسہ کاایک بڑا طبقہ اپنا فرضِ منصبی بھول کر یا تو بری طرح دولت بٹورنے میں مشغول ہے یا لایعنی بحثوں میں خود بھی الجھا ہوا ہے اور دوسروں کو الجھا کر رکھے ہوئے ہے یا معمولی معمولی مسئلوں کو بھی غیر معمولی بتا کر اُن کو سلجھانے کی کوشش میں خود کو مصروف دکھا کر خود نمائی کے مسندوں پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھ گیا ہے۔ عصری تعلیم یافتہ طبقہ جن کی ترقی پوری طرح ہمارے بزرگوں کے قائم کردہ فلاحی اداروں سے منسلک ہے خود غرضی اور مطلب پرستی میں اس بری طرح مبتلا ہوچکا ہے کہ اُسے سوائے اپنے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اپنے مادر علمی کو ہر نہج سے برباد ہوتا ہوا دیکھ کر بھی اُس کے دل میں کوئی احساس نہیں جاگتا،جب اس کی توجہ اس طرف دلائی جاتی ہے تو بس  ”ہمیں کیا”، ”ہمارا ہم دیکھیں یہی بہت ہے” گنگنا کر یہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور رہی عوام، اس کا بس اللہ بیلی ہے۔ ہر روز، صبح تا شام اپنے معاش کی فکر میں الجھے رہنے کے سوا اسے کچھ سوجھتا ہی نہیں، اگر کوئی کچھ اور سجھاتا بھی ہے تو یہ اپنا رونا اس آہ وزاری کے ساتھ شروع کرتی ہے کہ سجھانے والا اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ الغرض یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شہر کا آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ اس بگاڑ کو سدھارنے کی نہ کسی کے پاس فرصت ہے نہ کسی کو اس کی فکر اور نہ ہی کوئی اس پر غور و فکر کرنے کے لئے تیار ہے۔

جہاں شہر کے نوجوانوں کا ایک طبقہ نشے کا عادی ہوتا جارہا ہے، وہیں ایک اور بڑا طبقہ بیکار کے مشغلوں میں مبتلا ہوکر نکڑوں اور چوراہوں پر اپنا وقت ضائع کرنے پر تلا ہوا ہے۔ تعلیم گاہوں کے حالات بھی قابلِ دید ہیں، نہ طلباء میں استاد کی عزت و احترام باقی ہے نہ استاد میں طلباء کے تئیں شفقت کا جذبہ، تعلیم کے نام پر بس ایک کاروبار ہے جو چل پڑا ہے جس میں سب کچھ مادی فائدے یعنی کچھ لو کچھ دو کے تحت عمل پذیر ہورہا ہے۔تعلیم گاہیں اب تعلیم گاہیں نہیں رہیں تجارت کی منڈیاں بن گئیں ہیں۔(ویسے بھی تجارتوں میں جو زوال آیا ہوا ہے اس کے آگے یہ تعلیم گاہیں آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ منافع دینے والی منڈیاں ہی تو ہیں)۔

کہنے کو یوں تو شہر میں کئی مذہبی اور اصلاحی جماعتیں پورے جوش و خروش کے ساتھ کام کر ہی ہیں لیکن زمین پر ان کے نتائج نہ کے برابر ہیں۔ عبادات میں خلوص سے زیادہ تصنع کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ اجتماعات میں لوگ شرکت اس لئے نہیں کرتے کہ وہاں سے کچھ نصیحت حاصل کریں بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ دعا میں شامل ہوں کر جنت کے حقدار بن جائیں اور پھر اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذاریں۔ اور جو اپنے آپ کو مبلغ اور داعی باور کراتے پھرتے ہیں ان کا تو کہنا ہی کیا، ان کا دماغ ہمیشہ ساتویں آسمان پر رہتا ہے، نہ وہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں نہ کسی کو اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی نصیحت قبول کریں، چاہے وہ ان سے بڑا ہی کیوں نہ ہو۔اگر کوئی ان پر ہلکی سی تنقید کردے تو اپنے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ اُس پر پہنچ کے تمام دروازے بند کرانے میں لگ جاتے ہیں اور اسے گمراہ کہہ کر بدنام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور محسوس کر کے بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگتا اور کوئی آواز نہیں بلند کرتا۔ شہر کے لوگ اب ایک ایسی بھیڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں جس کا کام بس چلتے رہنا ہے، کوئی گرے، کوئی لڑکھڑائے اپنی بلا سے، انہیں تو بس آگے بڑھنا ہے۔ اسی طرح جیسے عید گاہوں میں نماز ادا کرنے کے فوراً بعد اپنی جائے نماز اٹھا کر اسے اچھی طرح جھٹک کر بغل میں دبا کر جانے کی جلدی میں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ایسا کرنے سے دھول اور مٹی اڑ کر صف میں بیٹھے ہوئے دوسرے نمازیوں کے چہروں پر جائے گی اور انہیں تکلیف ہوگی۔ انہیں نہ اپنی منزل کی پرواہ ہے نہ رہنماؤں کی، یہ تو یہ بھی دیکھنا گوارہ نہیں کر رہے ہیں کہ جس سڑک پر وہ چل پڑے ہیں کیا یہ وہی سڑک ہے جو منزل کو جاتی ہے۔

حالات بری طرح بگڑ رہے ہیں۔ معاشرہ اخلاقی زوال کی کگار پر پہنچ چکا ہے، اگر ابھی بھی ہم نے اس پر توجہ نہیں دی اور اس کو سدھارنے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا تو یقیناَ وہ دن بھی دور نہیں جب ہمارے شہر کی نیک نامی، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں سب بیکار ہو جائیں گی، ہمارے پاس ہاتھ ملنے اور افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا  اور اگر ایسا ہوگیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

You may also like

3 comments

Chowdhry Nisar Ahmed Amburi نومبر 1, 2024 - 1:11 شام

eNot only Vaniyambadi all are sufferingr

Reply
شہاب الدین (شاہ)قنوجی نومبر 1, 2024 - 1:52 شام

عمدہ

Reply
فیصل مسعود نومبر 1, 2024 - 6:40 شام

زبان خلق کے مدیر صاحب نے وانمباڑی کے ماضی اور حال کو مضمون کی شکل دیکر میں شہر کے ہم جیسے لاپرواہ اور دنیا پرست دلوں اور خود غرض ذہنوں کو جنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ رفیق و رقیب جاگتے ہیں يا نہیں ۔ اگر یہ مضمون میرے اسلاف کے قبروں پر پڑھا جائیگا تو واللّٰہ میرے شہر کے اسلاف اپنی قبروں میں ضرور پہلو بدلینگے ۔
مشتاق رفیقی صاحب نے شہر کی مجموعی اصلاح کے لیے مضمون کے اختتام میں لاحہ عمل تشکیل دینے کی بات کی ہے۔ اس پر فوری عمل ہونا چاہئے اور اس طرف کام کا آغاز ہوجانا چاہئے ۔ والسلام ۔ ۔ وانم با ڑی

Reply

Leave a Comment