اسانغنی مشتاق رفیقی
شہر وانم باڑی میں ہی نہیں ریاست ٹمل ناڈو میں بھی اردو زبان کے حوالے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب وہ پہلی جیسی باتیں اور معاملات کہیں نہیں رہے۔ پرانی قدریں قریب قریب قصہء پارینہ بن چکی ہیں۔ نئی نسلیں نئی قدروں کو اپنا کر تیزی سے خالی جگہ پر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اردو معاشرہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اردو دوستی، اردو بھائی چارگی، اور اردوحسن سلوک کی باتیں صرف کتابوں کی زینت بڑھانے کے لئے ہیں، حقیقی دنیا سے ان کا تعلق بالکل ختم ہوچکا ہے۔ اردو زبان کے ساتھ خود اردو داں طبقہ جس بے اعتنائی کا ثبوت دے رہا ہے اس پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ اردو اسکولز بند ہو رہے ہیں اور اردو اسکولوں سے اردو کا دیس نکالا ہو رہا ہے اس کو دیکھ کر لگتا ہے اب اردو ریاست میں بس کچھ دنوں کی مہمان ہے۔ ہر چیز کو مادی نفع و نقصان سے جوڑ کر دیکھنے کی ضد نے ہمارے معاشرے سے اردو جیسی میٹھی زبان چھین لی۔ زبان کسی بھی معاشرے کی پہلی اور آخری پہچان ہوتی ہے۔ جو معاشرہ اور سماج اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرسکتا اور اسے اپنے آنے والی نسلو ں کے لئے محفوظ نہیں رکھ سکتا وہ در حقیقت زوال کا شکار غلام ذہنیت کا حامل معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے اور سماج سے دانشور اور مفکر کبھی پیدا نہیں ہوسکتے۔ ہاں غلاموں اور عیاروں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہوکر کل ضرور نکل سکتی ہے، جو اپنی زبان کی طرح اپنے آباؤ اجداد کے نام کو ان کی عزت و ناموس کو بھی اپنے مطلب کے لئے بیچنے سے یقیناً نہیں ہچکچائے گی۔ اپنے بچوں کو دوسری زبانوں میں فر فر بولتا دیکھتا کر خوش ہونے والے والدین اتنا ضرور یاد رکھیں کہ جس طرح آپ نے اپنی نسلوں سے ان کی مادری زبان چھینی ہے اسی طرح قدرت ایک قدم آگے جا کر ان کے دلوں سے مادر و پدر کی محبت کا احساس بھی چھین لے گی۔ آپ لوگوں نے ان کے تئیں جو خواب سجا رکھے ہیں اس کی تعبیر وہ کبھی مہیا نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کے لئے آپ کے خوابوں کی زبان اجنبی ہوگی۔
کسی بھی زبان کی پہچان اس کے شعر و ادب سے ہوتی ہے۔ ریاست ٹمل ناڈو میں ہمارے بزرگوں نے ہمارے لئے اردو شعر و ادب کا ایک بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ افسوس اس پر ہے کہ ہم ان کی نا خلف اولادیں ان میں بڑھوتری کرنا تو دور ان کی حفاظت سے بھی غافل ہوتے جارہے ہیں۔ اردو شعر وادب کے حوالے سے محفلیں خال خال ہی سجتی ہیں۔ کبھی کبھار ایک دو سج بھی جاتی ہیں تو سامعین کی تعداد دیکھ کر مرثیے اور نوحے پڑھنے کو جی کرتا ہے۔ کچھ جگہ ان محفلوں کو لے کر بد ترین سیاست بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، سرمایہ پرست اپنے حاشیہ نشینوں کو محض ذاتی تعلقات کی بنا پر عہدوں سے نواز کر ان محفلوں کا معیار گھٹا رہے ہیں اور اردو شعر و ادب کا ستیاناس کر رہے ہیں، تو کئی مقامات پر محفلیں سجانے کے لئے سرمایے کا حصول ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ لوگ ایسی محفلوں پر خرچ کرنے کو کار ثواب نہیں کار زیاں سمجھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کا حامل ہمارا معاشرہ جو خدا کی راہ میں بھی اس لئے خرچ کر تا ہے کہ اسے جنت میں عالیشان محلات اور باغات چاہئیں وہ ان لایعنی مشاغل پر کیوں خرچ کرے گا جس کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
اسی طرح اردو کتابوں کو اب ردی کے بھاؤ خریدنے کے لئے بھی ہم تیار نہیں ہیں۔ اردو اخبارات اور اردو ذرائع ابلاغ کے دوسرے ذریعوں پر سرمایہ لگا نا ہمارے نزدیک کار عبث اور نقصان دہ ہے۔ لگ بھگ پچیس سال ایک مرد قلندر اردو کا ایک رسالہ نشان منزل کے نام سے جاری رکھ کر مفت تقسیم کرتا رہا، آج وہ بھی تھک کر بیٹھ چکا ہے۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح پندرہ روزہ زبان خلق شائع ہورہا ہے، جو مفت تقسیم ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مفت تقسیم ہونے کے باوجود بھی اس کے قارئین کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔
کچھ عرصے قبل ریاست ٹمل ناڈو سے زبان خلق ویب سائٹ کا اجرا عمل میں آیا جو آج کی تاریخ میں ریاست کا پہلا اور اکلوتا اردو ویب سائیٹ ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی المیہ ہورہا ہے کہ اس کے ناظرین کی تعداد اس کی کسی بھی پوسٹ پر تین عدد سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔ پتہ نہیں اردو زبان سے محبت کا دعویٰ کرنے والے ریاست ٹمل ناڈو کے وہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ کہاں رہتے ہیں جو اپنے موبائل پر ایک کلک کرکے اس ویب سائٹ کا مطالعہ نہیں کرسکتے شاید ان کے پاس ایسے لایعنی کاموں کے لئے وقت ہی نہیں ہے، لیکن وہیں لوگ اردو کے جلسوں میں شہ نشین پر براجمان ہو کر اردو کے تئیں عوام کی بے اعتنائی پر ٹسوے بہاتے نظر آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ یاد رہے حکومت کی نظر ہماری ہر چیز پر ہے، جب اس کو علم ہے کہ ریاست میں اردو کے اکلوتے ویب سائیٹ پر ناظرین کی تعداد تین عدد سے بھی آگے نہیں بڑھ ری ہے تو وہ کیوں ایسی زبان کے تعلق سے کوئی مثبت رخ دکھائے گی۔
شعر و ادب کی محفلیں، اردو اخبارات، اردو ویب سائیٹس، اردو سے آپ کی محبت اور لگاؤ کے ثبوت ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے، اردو کے حوالے سے موجودہ منظر نامے کو آپ بدل سکتے ہیں تو اردو ذرائع ابلاغ کی ان کاوشوں کو مقدور بھر تقویت مہیا کیجئے۔ آپ کی کوششیں ریاست میں اردو زبان کی بقا کی راہیں ہموار کرسکتی ہیں۔ اردو زبان کی بقا ہمارے سماج اور معاشرے کی بقا ہے اس کی قدروں کی بقا ہے۔ ہماری پہچان کی بقا ہے۔ ہمارے تعلقات اور رشتوں کی بقا ہے، ہماری تہذیب کی بقا ہے۔ رب عظیم ہمیں سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 comment
حرف حرف متق۔ بہترین تحریر