اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
ماضی، حال اور مستقبل، انسانی دنیا زمانے کو تین ادوار میں تقسیم کرتی ہے۔ ماضی جو گذر گیا کچھ خوشگوار یادیں لئے، کچھ حسرت زدہ لمحات لئے، زندگی کے آسمان پر کبھی خوشیوں کے ستارے چمکا کر، کبھی اماوس کی تاریکی پھیلا کر، کسی کے لئے مایوسی تو کسی کے لئے عبرت کسی کے لئے شادی و وصال تو کسی کے لئے مرگ و فراق۔ اسی طرح مستقبل جو امید کا نام ہے اور حال جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں، بس وہ ایک باریک سی لکیر ہے جسے عمل کہتے ہیں جو ماضی اور مستقبل کے درمیان کہیں موجود ہے۔
ماضی سچ پوچھیں تو مستقبل کی کاہن ہوتی ہے۔ کسی بھی انسان کا ماضی پڑھیں تو وہاں اس کے مستقبل کی نمایاں جھلکیں نظر آئیں گی۔ انسان کا ہر عمل کو اس کے ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں گے تو وہاں اس کی پیشن گوئی کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آئے گی۔
یہ 1983 کی بات ہے میں ان دنوں اسلامیہ بائز ہائیر سکینڈری اسکول وانم باڑی میں بارھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ پڑھائی لکھائی میں درمیانی درجے کا اور کھیل کود سے دور ایک عام سا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ بس مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انٹرول میں یا دوپہر کے کھانے کے وقفے میں یا استادوں کی غیر حاضری کی وجہ سے جو بھی وقت مجھے ملتا میں ریڈنگ روم میں گزارتا یا لائبریری میں۔ لائبریری کے نگران جناب عباس علی صاحب نیک دل اور سیدھی سادھی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ایک فرزند تجمل حسین میرے ہم جماعت تھے۔ تجمل سےمیرا بہت اچھا یارانہ تھا۔ دوپہر کے کھانے کے لئےجب عباس علی حضرت گھر چلے جاتے تو لائبریری بلا شرکت غیرے تجمل کی ملکیت میں آجاتی اور یوں میری رسائی لائبریری کے ہر کتاب تک ہوجاتی۔ لائبریری کے پاس ہی مطالعے کا کمرہ تھا جہاں میز پر اردو انگریزی اور ٹمل کے بہت سارے ماہنامے اور اخبارت رکھے ہوئے ہوتے۔ اردو رسائل میں کھلونا اور پیام تعلیم میرے پسندیدہ رسالے تھے۔ ان میں ان دنوں سراج انور صاحب کی لکھی کہانیاں قسطوار چھپتی تھیں جن کا ہر ماہ مجھے ہی نہیں اکثر طالب علموں کو شدت سے انتظار رہتا تھا۔ مطالعہ کرتے کرتے مجھ میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوگیا۔ نثر پر توجہ نہیں ہوسکی پر شاعری کے نام پر تک بندیاں کرنی شروع کردیں۔
تو بات ہورہی تھی 1983 کی، یہ میرا اسکول میں آخری سال تھا، میرا ہی نہیں اسکول کے ہیڈ ماسٹر حضرت سید غوث صاحب کا بھی یہ آخری سال تھا۔ ہیڈ ماسٹر سید غوث صاحب بہت سخت مزاج اور ڈسپلن کے پابند مانے جاتے تھے۔ میں نے ان کے ہیڈ ماسٹری میں سات سال بحیثت طالب علم گزارے لیکن کبھی ان کو ہنستے یا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اپنے بے تکلف دوستوں کے درمیان شاید وہ کچھ ہنس بول لیں پر کلاس میں یا طلباء کے سامنے ان کا چہرا ہمیشہ ایسے تاثرات سے عاری ہی رہتا۔ ان کے پاس ان کے کمرے میں ایک لمبی سی بید کی چھڑی بھی ہوتی تھی، جس کے ذریعے وہ طلباء کو دیر سے آنے پر یا کلاس ٹیچر کی شکایت پر اچھی خاصی پٹائی کردیا کرتے تھے۔ ایک دوبار دیر سے آنے کی وجہ سے مجھے بھی ان کی چھڑی کا تجربہ ہوا تھا جو بڑا اذیت ناک رہا۔ اسکول انتظامیہ نے ان کے ریٹارمنٹ کو لے کر اسکول ڈے کے موقع پر کئی خصوصی پروگرام منعقد کرائے۔ اسپورٹس کے علاوہ کئی ڈرامے اسٹیج کئے گئے، اور چونکہ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب ایک اچھے شاعر بھی تھے ان کے اعزاز میں بعد عشاء ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا۔
چونکہ مجھ میں شاعری کے جراثیم داخل ہوچکے تھے میں نے بھی مشاعرے میں سنانے کے کے لئے کچھ تک بندی کی اور استاد محترم یعقوب اسلم عمری صاحب کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کیا۔ اس وقت وہ نماز گاہ میں تشریف فرما تھے، تھوڑی دیر بغور دیکھنے کے بعد کچھ تک بندیاں حذف کردیں اور کچھ الفاظ ادھر ادھر کرکے کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ان کے یوں کئی تک بندیوں کو حذف کرنے سے میرے چہرے پر مایوسی چھا گئی جس کو ان کی نظروں نے فوراً تاڑ لیا اور وہ کہنے لگے، ” صرف ایک اچھا شعر کہہ دینا کئی صفحات سیاہ کر دینے سے بہتر ہے، غالب نے میر کے ایک شعر کے عوض اپنا پورا دیوان دے دینے کی بات کہی تھی ، زیادہ لکھنے کے بجائے ایک اچھا شعر کہنے کی کوشش کرو یہ تمھارے لئے بہتر ہے۔ ” ممکن ہے استاد محترم نے میرا دل رکھنے کے لئے یہ بات کہی ہو لیکن میں نے ان کی یہ نصیحت گرہ میں باندھ لی، اور آج بھی میری پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بس ایک اچھا شعر کہہ لوں، لیکن میرا ماننا ہے کہ میں ابھی تک اس میں ناکام ہی رہا ہوں۔
پروگرام میں ڈرامے کی ذمہ داری لائبریرین حضرت عباس علی صاحب کے پاس تھی۔ انہوں نے تین خاکے تیار کئے، ایک مزاحیہ تقریر کے طرز پر جس کو پیش کرنے کے لئے انہوں نے مجھے چنا۔ دوسرا ڈرامہ دکنی زبان میں سلمان خطیب کی نظم سانپ کے پس منظر میں تھا جس میں بوڑھا باپ ایک دوسرے کردار سے اپنی بیٹی کی شادی کو لے کر سماج کے رویے سے شاکی اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ہچ غیض الدین جو میرے ہم جماعت تھے انہیں بوڑھے باپ کا کردار دیا گیا اور امتیاز احمد سلیم (مولانا اعجاز اسلم صاحب کے بھائی)کو دوسرا کردار دیا گیا۔ تیسرا ڈرامہ ایک بوڑھے باپ کا اپنے اولاد سے شکوہ شکایت پر مشتمل تقریر کی شکل میں تھا، جس کو پیش کرنے کے لئے ہمارے ایک ہم عصر طالب علم کو چنا گیا۔
صبح دس بجے پروگرام شروع ہوا، پہلے کھیل کود کے مظاہرے ہوئے، دوپہر میں ڈرامہ پیش کیا گیا۔ پہلے میرا نام پکارا گیا، میں نے مزاحیہ تقریر جو پہلے ہی سے رٹ لی تھی جاکر اسٹیج میں ویسے ہی پیش کردی، کہیں بھی چہرے کے تاثرات اور لہجے میں بناؤ بگاڑ پیدا کرنے میں میں مکمل ناکام رہا۔ دوسرا ڈرامہ ہچ غیض الدین اور امتیاز احمد سلیم کی جوڑی نے پیش کیا۔ دونوں نے دئے گئے کرداروں کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا،چہرے کے تاثرات اور لہجے کی ہی نہیں چال ڈھال سے بھی اپنی قابلیت کا ثبوت دیا۔ تیسرا ڈرامہ جس طالب علم نے پیش کیا اس نے تو کمال ہی کردیا، اس کے تاثرات ، لہجے اور الفاظ کی ادائیگی اور پیش کش کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا وہ اگر اداکاری کے میدان میں داخل ہوگا تو ایک کامیاب اداکار بننے سے اسے کوئی نہیں روک پائے گا۔ ڈرامے کے اختتام پر کھیل کود کے لئے انعامات تقسیم کئے گئے بعد ازاں ڈرامہ بازی میں کامیاب طلبہ کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔ حسب گمان میں انعام پانے سے محروم رہا، باقی دونوں ڈرامہ پیش کرنے والے طلباء انعام کے مستحق اور کامیاب قرار دئے گئے۔
جیسا کہ میں نے شروعات میں لکھا ہے کہ یہ ڈرامے کا پروگرام بھی کچھ ایسا ہی ثابت ہوا۔ جس طرح بطور ایک سلیز مین میں اپنا کرادر، مجھے دئے گئے ڈرامے میں احسن طریقے سے نہیں نبھا سکا اور ناکام رہا، اسی طرح زندگی بھر اور آج تک میں ایک کامیاب سیلز مین یعنی تاجر نہیں بن سکا اور تجارت میں اکثر ناکامی ہی میرا مقدر ٹہری۔
دوسرے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے میرے ہم جماعت ہچ غیض الدین اس ڈرامے میں انعام جیتنے کے بعد( یا ممکن ہے پہلے ہی سے یہ بات ان کے شعور میں راسخ ہوچکی ہو) اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ وہ ایک اچھے ادکار ہیں اور انہیں اداکاری کے میدان میں کوشش کرنی چاہئے (اور شاید سچ میں ایسا ہی ہے)۔ اس خوش فہمی کی وجہ سے جب انہیں ممبئی میں کاروبار جوڑنے کا موقعہ نصیب ہوا تو انہوں نے تجارت سے زیادہ ادکاری کے میدان میں دلچسپی دکھانی شروع کردی، دو ایک مراٹھی ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا اور ‘ککر متے’ کے نام سے ایک فلم بنانے کی شروعاتی تیاری بھی کرلی پھر پتہ نہیں کیا ہوا وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس گاؤں آگئے اور تدریسی پیشہ اختیار کرلیا۔ آج بھی گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوجاتی ہے ، موصوف اچھا ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں اور افسانہ نگار بھی ہیں، لیکن مجھے یقین ہے وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہیں،ان کی کامیابی میں دور دور تک اداکاری کا کوئی دخل نہیں ہے۔ امتیاز احمد سلیم سے اسکول کے زمانے کے بعد کبھی ملاقات نہیں ہوسکی، سنا ہے وہ گلف میں کہیں ملازمت کرتے ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
تیسرے ڈرامے کے مرکزی اور واحد کردار آج شہر میں ہی نہیں ملک بھر میں ایک خاص طبقے کے درمیان شہرت کی بلندیوں پر براجمان ہیں، قدرت نے دنیا میں جس کردار کے طور پر انہیں منتخب کیا ہے اس کو پوری کامیابی کے ساتھ نبھار رہے ہیں۔ بوڑھے باپ کے کردار میں اپنی اولاد سے شکوہ شکایت کرنے کا کردار کامیابی کے ساتھ نبھانے والی یہ شخصیت آج ایک پورے معاشرے سے شاکی ہے اور انہیں نالائق اولاد تصور کرکے ان کی سر زنش کرتے رہنے کو اپنا فرض منصبی سمجھے ہوئے ہے۔ جب کبھی میں انہیں اسٹیج پر خطاب کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ آج بھی ان کے چہرے کے تاثرات ، لہجہ ، ادائیگی اور پیش کش میں ادکاری کا فن اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ میری سچ بیانی کو لے کر اکثر مجھ سے شاکی اور نالاں رہتے ہیں، میں ان کے ہنر کا طالب علمی کے زمانے سے قائل ہوں اور دعاگو ہوں کہ رب کائنات ان کے فن میں اور اضافہ کرے اور ان پر ترقی کے کثیر راستے وا کرے۔
بعد نماز عشاء نماز گاہ میں مشاعرے کی نشست منعقد ہوئی۔ ہال صاحبان ذوق سے کھچا کھچ بھرا ہوا نظر آیا۔ کس کس نے مشاعرہ پڑھا مکمل تو یاد نہیں ہاں استادان محترم یعقوب اسلم اور نور آفاق کو پڑھتے ہوئے آج بھی یادوں کے پردے پر محسوس کرتا ہوں۔ اللہ یعقوب اسلم صاحب کی مغفرت فرمائے اور نور آفاق صاحب کو صحت و عافیت سے نوازے۔ اس مشاعرے میں میں نے بھی پہلی مرتبہ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ کیا پڑھا، نہ مجھے یاد ہے نہ میرے پاس محفوظ ہے، لیکن اتنا یاد ہے کہ کئی استادوں نے داد سے نوازا، ( ممکن ہے میری عمر اور ماحول کو دیکھ کر انہوں نے سمجھا ہو کہ میں کسی استاد سے لکھا کر پڑھ رہا ہوں)۔ کالج میں پڑھنے کے دوران بھی میں شاعری سے جڑا رہا( جس کی تفصیلات پھر کبھی پیش کروں گا)اور پھر ایک لمبے عرصے تک فکر معاش نے کچھ اس طرح الجھا لیا کہ ادب سے لگاؤ، لکھنا پڑھنا تو برقرار رہا لیکن عملاً ادبی سرگرمیوں میں شرکت سے قاصر رہا۔ ادھر کچھ سالوں سے سوشیل میڈیا کی مہربانی ہے جو میں اپنے خول سے نکلنے میں ایک حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ دیکھتے ہیں یہ سلسلہ کب تک باقی رہتا ہے۔ زندگی نے وفا کی اور مہلت بخشی تو ضرور اپنی آپ بیتی لکھنے کی کوشش کروں گا جس میں بحیثیت طالب علم، تاجر پیشہ، دوست، سماجی خدمت گار ، شاعر و ادیب اور ایک انسان کے میرے ساتھ جو کچھ گذرا اور جو کچھ ان کو لے کر میں نے محسوس کیا ضرور لکھوں گا۔ ان شاءاللہ.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔