Home » لوک سبھا انتخابات 2024 — جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کے نتائج  کا اجمالی جائزہ

لوک سبھا انتخابات 2024 — جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں میں انتخابات کے نتائج  کا اجمالی جائزہ

by زبان خلق
0 comment

 اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

 

کرناٹکا اور آندھرا پردیش میں انڈیا الائنس کو مایوسی ۔ کیرلا میں بی جے پی نے اپنا کھاتہ کھولا

جمہوریہء ہند کی اٹھارویں لوک سبھا کے 543 امیدواروں کو چننے کے لئے ہوئے  انتخابات  جو سات مرحلوں میں 19 اپریل 2024 سے شروع ہوکر 01 جون 2024 کو اختتام پذیر ہوئے کئی اعتبار سے پچھلے عام انتخابات سے الگ اور منفرد مانے گئے۔ ایک تو اس کا 44 دن کا دورانیہ جو اپنی طوالت کی وجہ سے 52-1951 کے عام انتخابات کے بعد دوسرے نمبر پر  ہے، دوسرا 968 ملین رائے دہندگان میں 642 ملین نے ووٹ دیا اور ان میں 312 ملین خواتین تھیں جو اپنی جگہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

اس کے علاوہ اس بار کے انتخابات میں ملک کے دونوں بڑی پارٹیاں بی جے پی اور کانگریس کا زیادہ زور جنوب کی طرف رہا۔ جہاں کانگریس کی پوری کوشش رہی کہ کسی بھی طرح جنوب کے تمام ریاستوں میں اس کے اور اس کے ساتھ گٹھ بندھن میں بندھے پارٹیوں کے نمائندے معقول تعداد میں کامیاب ہوں وہیں بی جے پی نے بھی اس بات پر  بہت زیادہ زور لگایا کہ کسی بھی طرح جنوب میں اس کی بنیاد مضبوط ہو اور وہ زیادہ سیٹوں پر جیت درج کروا سکے۔

جنوب کی پانچوں ریاستیں، ٹمل ناڈو، کیرلا، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور کرناٹکا ہندوستانی سیاست میں اول دور سے ہی ایک الگ  پہچان رکھتی ہیں۔ جہاں کے ووٹروں کو بہ نسبت دوسری ریاستوں کے زیادہ معاملہ فہم، سیکو لر ذہنیت کے حامل اور دور اندیش سمجھا جاتا رہا ہے۔ مذہبی سیاست یہاں کبھی اس بری طرح حاوی  نہیں ہوئی کہ ریاست کے  اصل مسائل حاشیے میں چلے جائیں۔ گزشتہ دونوں 2014 اور 2019 کے  لوک سبھا انتخابات میں سوائے کرناٹکا کے کسی بھی ریاست میں بی جے پی قابل ذکر جیت نہیں درج کرسکی۔ کرناٹکا میں بھی اس کی گزشتہ بڑی جیت دوسرے مسائل کے مرہون منت رہی نہ کہ مذہبی سیاست کے جس کے ثبوت حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شاندار جیت سے عیاں ہوگئے۔

جنوب کی ان پانچوں ریاستوں، یعنی تلنگانہ اور کرناٹکا میں کانگریس کی سرکار ہے، ٹمل ناڈو میں کانگریس کے اتحادی ڈی ایم کے کی سرکار ہے، کیرلا میں لفٹ کی سرکار ہے جو ملکی سطح پر کانگریس کے ساتھ انڈیا الائنس میں شامل ہے اور آندھرا پردیش میں کانگریس سے الگ ہوئے ایک دھڑے وائی ایس آر کانگریس کی حکومت ہے۔ ان پانچوں ریاستوں میں صرف کرناٹکا میں بی جے پی کو ریاستی حکومت بنانے کا تجربہ ہے باقی چاروں جگہ اس کی نمائندگی بہت محدود ہے۔

ٹمل ناڈو:

ریاستِ ٹمل ناڈو میں لوک سبھا کے کل 39 نشستیں ہیں۔ اس بار ڈی ایم کے جو انڈیا اتحاد کا حصہ ہے 22 سیٹوں پر اور اس کے حلیف، کانگریس 9 پر، سی پی آئی ایم 2 پر، سی پی آئی 2 پر، مسلم لیگ، وی سی کے، ایم ڈی ایم کے اور کے ایم ڈی کے ایک ایک سیٹوں پر انتخاب لڑی تھیں۔

ان کے مقابلے میں اے آئی اے ڈی ایم کے نےایک ریاستی اتحاد بنا کر الیکشن کا سامنا کیا تھا جس میں 34 پر اے آئی اے ڈی ایم کے اور 5 پر ڈی ایم ڈی کے امیدوار تھے اور ان میں دو امیدوار جو پدیا ٹملاگم اور ایس ڈی پی آئی کے تھے وہ اے آئی اے ڈی ایم کے کے نشان پر مقابلے میں شامل تھے۔

 بی جے پی نے ایک الگ اتحاد بنا کر یہاں مقابلے میں ان دونوں گٹھ بندھنوں کا سامنا کیا تھا ،  خود بی جے پی 22 نشستوں پر، پی ایم کے 10 پر، ٹی ایم سی 3 پر، اے ایم ایم کے 2 پر، سابق وزیراعلیٰ او پنیرسیلوم بحیثیت آزاد امیدوار، تین اور علاقائی پارٹیوں کے امیدوار بی جے پی کے نشان پر انتخابی میدان میں اترے تھے۔

انتخابات میں اہم مدعے کے طور پر جہاں بی جے پی نے کانگریس اور ڈی ایم کے کی اقرباء پروری کو اچھالا اور ریاست میں بڑھتی ہوئی رشوت، نشہ کے کاروبار اور بجلی کی شرح پر انہیں گھیرنے کی کوشش کی وہیں انڈیا اتحاد نے بی جےپی کو اقلیتوں اور دلتوں کے لئے بطور خطرہ پیش کیا اور نیٹ امتحان کو اہم مدعا بنایا۔ وزیر اعظم مودی نے گزشتہ چار مہینے میں 8 بار ریاست کا دورہ کیا اور کئی ریلیوں اور روڈ شوز میں حصہ لے کر ریاست میں اپنی حصہ داری بڑھانے کی بھر پور کوشش کی۔

گزشتہ 2019 کے الیکشن میں 38 نشستوں پر ڈی ایم کے اتحاد نے کامیابی درج کی تھی اورصرف ایک سیٹ پر اے آئی اے ڈی ایم کے جیت سکی تھی۔ اس بار ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 69.72% رہاجو گزشتہ سے 2.72% کم ہے۔

بی جے پی لگاتار طوفانی کوشش کے باوجود اپنے ووٹوں کی شرح میں اضافہ کراکر بھی اس بار ریاست میں اپنا کھاتا کھولنے میں ناکام رہی۔ انڈیا الائنس سے ڈی ایم کے 22 پر، کانگریس 9 پر، وی سی کے، سی پی آئی اور سی پی ایم دو دو پر، ایم ڈی ایم کے اور مسلم لیگ ایک ایک پر یعنی کل 39 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ ریاست میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی ووٹوں کی شرح یہاں کے سیکولر عوام کے لئے قابل تشویش ہے، انڈیا الائنس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کو اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

کیرلا:

کیرلا جنوب کی ایک واحد  ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی آج تک اپنا کھاتا نہیں کھول سکی۔ موجودہ ایل ڈی ایف کی ریاستی حکومت جو ملکی سطح پر انڈیا اتحاد کا حصہ ہے لیکن ریاستی سطح پر کانگریس اور بی جے پی سے بر سرپیکار ہے۔ کل 20 نشستوں والی اس ریاست میں حکمران ایل ڈی ایف اتحاد سے سی پی آئی ایم 15 پر سی پی آئی  4 پر اور کیرلا کانگریس 1 پر مقابلہ میں حصہ لیا تھا ۔ کانگریس 16 نشستوں پر  مسلم لیگ 2 پر آر ایس پی اور کیرلا کانگریس  ایک پر یو ڈی ایف الائنس  کے نام سے  انتخابی میدان میں تھے۔ جبکہ بی جے پی 16 سیٹوں پر اور اسکی حلیف پارٹی بھارت دھرما جنا سینا 4 پر اپنی قسمت آزما رہی تھی۔

ریاست میں اس بار  پول شدہ ووٹوں کا شرح تناسب 71.27% رہا جو گزشتہ بار سے 6.57٪  کم ہے۔ بی جے پی نے جہاں کانگریس ایل ڈی ایف  کی اقلیت نوازی کو یہاں بڑا مدعا بنایا وہیں کانگریس ایل ڈی ایف  نے سیکولرازم، ایلکٹورل بانڈ اور آئین کے حوالے سے بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی، اس کے علاوہ ریاستی سطح پر لیفٹ اور کانگریس نے ایک دوسرے پر بی جے پی کے ساتھ ساز باز کا بھی الزام لگایا۔

کانگریس کے بڑے نیتاؤں میں  راہل گاندھی دوسری بار یہاں وائناڈو سے اور ششی تھرور ترونداپورم سے انتخاب کے دنگل میں تھے جس کی وجہ سے ریاست کے انتخابات شروع سے  سرخیوں میں رہے۔ کانگریس اتحاد نے 20 نشستوں میں سے 18 پر جیت درج کرائی ہے، جس میں کانگریس کے 14 انڈین یونین مسلم لیگ کے 2 آر ایس پی کے 1 امیدوار شامل ہیں۔ راہل گاندھی نے وائیناڈو سے تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے  اپنی جیت درج کرائی ہے۔ ششی تھرور نے ایک سخت مقابلے میں بی جے پی امیدوار کو شکست دی ہے۔ ریاست میں پہلی مرتبہ بی جے پی کے اداکار سے سیاست دان   بنےامیدوار  سریش گوپی نےتھروسور حلقے سے اپنی جیت درج کرا کر کانگریس اور لفٹ دونوں کو حیران کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں بی جے پی کا ووٹ شئیر بھی 17 فیصد سے زیادہ گنا جارہا ہے جو اپنی جگہ کانگریس اور لفٹ کے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔

کرناٹکا:

ریاست کر ناٹکا جنوب کی واحد  ریاست ہے جہاں بی جے پی ایک اہم سیاسی رول نبھاتی اور حکومت بناتی آرہی ہے۔ لیکن گزشتہ سال کے ریاستی انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کو بری طرح سے ہرا کر اپنی سرکار بنائی تھی۔ اس پس منظر میں دونوں پارٹیوں کے لئے یہاں کی نشستیں انا کا سوال تھیں۔

کل 28 نشستوں والی اس ریاست میں بی جے پی 25 پر اور اس کی حلیف جنتا دل سیکولر 3 سیٹوں پر انتخابی  میدان میں تھیں۔ کانگریس تمام 28 سیٹوں پر ان کے مقابل کھڑی تھی ۔ ان کے علاوہ بہوجن سماج پارٹی 21 سیٹوں پر کرناٹکا راشٹرا سمیٹی 28 سیٹوں پر اور کئی علاقائی اور ملکی چھوٹی پارٹیاں انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی کر رہی تھیں۔

بی جے پی نے جہاں کانگریس کو بڑھتی ہوئی رشوت ستانی کے معاملات اور لاپرواہ حکمرانی کے نام پر گھیرنے کی کوشش کی وہیں کانگریس نے اس لڑائی کو دو نظریات کے درمیان لڑائی قرار دیا۔   ریاست میں ایک بڑا تنازعہ جس نے پولنگ کی مدت کے دوران سرخیوں میں جگہ بنائی وہ مبینہ جنسی استحصال کا معاملہ تھا جس میں ہاسن سے موجودہ جے ڈی (ایس) ایم پی پراجول ریوانا کا نام شامل تھا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرناٹک حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے۔

گزشتہ 2019 کے انتخابات میں یہاں بی جے پی نے 25 سیٹیں جیتی تھیں، کانگریس، جنتا دل اور ایک آزاد امیدوار  ایک ایک سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے ۔اس بار  ڈالے گئے ووٹوں  کا تناسب  70.64% رہا جو گزشتہ بار سے 1.83% سے زائد ہے۔

بی جے پی جہاں گزشتہ بار سے گھٹ کر صرف 17 سیٹوں پراور اس کی حلیف جنتا دل (یس) دوسیٹوں پر  ایک سیٹ کی بڑھت کے ساتھ جیت درج کی ہے وہیں کانگریس پارٹی  اپنے ووٹوں کی شرح میں اضافے کے باوجود صرف 9 سیٹوں پر کامیابی حاصل کر سکی ہے۔ ہاسن سے جنتا دل سیکولر کے امیدوار پراجول ریوانا جس نے مبینہ جنسی استحصال کے معاملہ  میں گزشتہ دنوں ہندوستان واپس لوٹ کر خود سپردگی کی تھی انتخابات ہار گیا ہے۔

آندھرا پردیش:

 پچیس نسشتوں والی ریاست آندھرا پردیش میں مقابلہ سہ رخی رہا۔ ایک طرف حکمران وائی ایس آر کانگریس پارٹی دوسری طرف ریاستی پارٹی ٹی ڈی پی اور بی جے پی اوران کے مقابل میں کانگریس پارٹی۔

وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی کی پارٹی وائی ایس آر کانگریس پارٹی تمام 25 سیٹوں پر انتخابی دنگل میں تھی۔ این ڈی اے الائنس میں سابق وزیر اعلیٰ این چندر بابو نائڈو 17 پر بی جے پی 6 پر اور جنا سینا پارٹی 2 نشستوں پر مقابلہ میں تھیں۔ انڈیا الائنس سے کانگریس 23 پر سی پی آئی ایم اور سی پی آئی ایک ایک نشستوں پر انتخابات لڑ رہے تھے۔ ان کے علاوہ بہو جن سماج پارٹی تمام 25 نشستوں پر اپنی قسمت آزمائی کے لئے میدان میں تھی۔

چونکہ لوک سبھا انتخابات کے ساتھ یہاں ریاستی انتخابات بھی منعقد ہوئے اس زاویے سے ریاستی حزب اختلاف ٹی ڈی پی کا پلڑا شروع سے ہی بھاری محسوس کیا گیا۔ریاست بھر میں حکومت مخالف لہر نمایاں طور پر  دیکھی گئی۔ ووٹر ٹرن آؤٹ 81.86% ریکارڈ کیا گیا جو گزشتہ بار سے 2.12% زائد تھا۔

سابق وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو (جنہیں کئی الزاما ت لگا کر جیل بھیجا گیا تھا جو آج کل ضمانت پر ہیں) نے اپنی گرفتاری کو بھی ان انتخابات میں ایک اہم مدعا بنایا ۔ اس کے علاوہ وائی ایس ویویکانندا ریڈی کے قتل  اور موجودہ وزیر اعلیٰ پر حملے کا مدعا بھی انتخابی منظر پر چھایا رہا۔

جیسا کہ گمان غالب رہا ٹی ڈی پی ریاستی اسمبلی انتخابات میں بڑی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے۔ جون 9 تاریخ کو ٹی ڈی پی کے چندرا بابو نائیڈو نے بطور وزیر اعلیٰ حلف لینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔

لوک سبھا کے لئے ٹی ڈی پی نے جن 17 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے ان میں 16 پر اور  اس کی حلیف بی جے پی 3 پر ، جناسینا پارٹی 2 پر جیت کر ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے 4 نشستوں پر اپنی جیت درج کرائی ہے۔ کانگریس پارٹی  اور انڈیا لائنس یہاں اپنا کھاتا کھولنے پوری طرح ناکام رہی۔

تلنگانہ:

تلنگانہ اور آندھرا پردیش قریب قریب ایک ہی قسم کا منظر نامہ رکھتے ہیں۔ یہاں بھی مقابلہ سہ رخی رہا، لیکن فرق یہ ہے کہ یہاں کانگریس کی سرکار ہے جو اس نے حال ہی میں بی آر ایس کو شکست دے کر بنائی ہے۔ گزشتہ لوک سبھا میں یہاں سے ٹی آر ایس کی 9 ممبر ، بی جے پی کے  4 ممبر ، کانگریس کے 3 ممبر اور اے آئی ایم ایم کے 1 ممبر  تھے۔ 17 سیٹوں والی اس ریاست میں 2024 کے لئے کانگریس، بی آر ایس اور بی جے پی نے تمام سیٹوں پر اپنے امیداوار کھڑے کئے تھے۔ ان کے علاوہ اے آئی ایم آئی ایم اور چی پی آئی ایم سے ایک ایک امیدوار میدان میں تھے ۔

اس بار بی جے پی نے اپنی تعداد بڑھانے کی بھر پور کوشش کی ۔ بی آر ایس اپنی ایک بڑی نیتا   اور سابق وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ کی بیٹی، کے کویتا کی  دہلی شراب گھوٹالے میں گرفتار ہوکر جیل میں ہونے کی وجہ سے انتخابات میں زیادہ توجہ نہیں دے سکی۔ کانگریس نے جہاں کاسٹ سنسکس، آئین کو در پیش خطرہ ، بے روزگاری وغیرہ کو مدعا بنایا وہیں بی جے پی  نے کانگریس کی اقلیت نوزای کو اصل مدعا بتاکر اسے گھیرنے اوراے آئی ایم آئی ایم کے واحد امیدوار اسد الدین اویسی کو بھی حیدر آباد کے سیٹ پر سخت ٹکر دینے کی کوشش کی۔

ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب اس بار  66.30% رہا۔ بی جے پی کے لاکھ کوشش کے باوجود آے آئی ایم آئی ایم کے واحد امیدوار اسد الدین اویسی تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹوں کے فرق سے اپنے قریبی حریف مادھوی لتا کو ہرانے میں کامیاب رہے۔ کانگریس نے جہاں اپنی سابقہ تعداد تین سے بڑھا کرآٹھ کرلی وہیں بی جے پی نے بھی اپنی تعداد چار سے بڑھا کرآٹھ کر لی ہے۔ مقامی پارٹی بی آر ایس اس بار اپنا کھاتا کھولنے میں پوری طرح ناکام رہی۔

کل ملا کر جنوب کے پانچوں ریاستوں میں 129 سیٹوں پر ہوئے انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح رہے

این ڈی اے  49 ، انڈیا الائنس 75 ، دیگر 5

کرنا ٹکا اور آندھرا پردیش میں انڈیا الائنس اپنا حلقۂ اثر کو توسیع دینے میں ناکام رہا اور خاص کر کرناٹکا میں سرکار میں ہونے کے باوجود اچھے نتائج نہیں لاسکا یہ بات قابل غور و فکر ہے۔ کیرلا میں بی جے پی کا داخلہ اور ریاست ٹمل ناڈو میں اس کے ووٹ کی شرح میں اضافہ  اس بات کی علامت ہے کہ اسکی اکثریت پرست سیاست پورے ہندوستان میں اپنا پیر پھیلانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

ملکی سطح پر جس طرح کے نتائج آئےہیں اس سے نہیں لگتا کہ جو بھی حکومت بنے گی وہ من مانی کرسکےگی کیونکہ کسی بھی پارٹی کو خود کے بل بوتے پر اکثریت حا صل نہیں ہوسکی ہے اور یہ ملک کے لئے اور ملک کے مستقبل کے لئے جہاں ایک طرف تشویشناک ہے وہیں خوش آئیند بھی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کے لئے اس بار کے نتائج میں بظاہر راحت نظر آرہی ہے  کیونکہ جس طرح کی مہم بی جے پی اور خاص کر وزیر اعظم نے دوران  الیکشن چلائی اس نے سیکولر اور انصاف پسند رہنماؤں اور دانشوروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

You may also like

Leave a Comment