اسانغنی مشتاق رفیقی
شہر وانم باڑی کی معروف شاعرہ محترمہ نعیمہ پرویز صاحبہ کا بروز پیر بتاریخ 20 مئی 2024 کو انتقال ہوگیا۔ بروز منگل 21 مئی بعد نمازِ ظہر مسجد قلعہ میں جنازے کی نماز ادا کی گئی اور وہیں کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ نمازِ جنازہ میں شہر کے اردو ادب سے وابستہ اشخاص کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وانم باڑی میں اردو زبان و ادب اور اس سے جڑے شخصیات سے بے حسی انتہا کو پہنچ چکی ہےاور یہ زبان یہاں کچھ دنوں کی مہمان ہے۔
محترمہ نعیمہ پرویز صاحبہ ایک شاعرہ ہی نہیں ایک معلمہ کی حیثیت سے بھی ایک خاص پہچان کی حامل رہی ہیں۔ ان کی ولادت شہر کے ایک معزز گھرانے میں 25 مئی 1944 کو ہوئی۔ آپ کے والد کا نام پلسرک عبدالصمد صاحب تھا اور والدہ کا نام رمیضہ بی۔ ان کی شادی اپنے خالہ زاد جناب مانگوڑی عبدالرشید صاحب تبسم سے 16 مئی 1966 میں ہوئی، جو خود بھی ایک قابل شاعر تھے۔ 1988 میں شوہر کا انتقال ہوگیا۔
محترمہ نعیمہ پرویز نے مدراس یونیورسٹی سے ادیب فاضل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ادیب کامل میسور یونورسٹی سے ایم اے اردو کے ساتھ حکومت ٹمل ناڈو کا پنڈت ٹریننگ امتحان بھی پاس کیا اور بطور معلمہ اسلامیہ گرلز ہائیرسکینڈری اسکول میں 1971 میں ملازمت اختیار کرلی اور اکتیس برس کے تعلیمی خدمات کے بعد 2002 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔
شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ چودہ سال کی عمر سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا، شروعات میں اختر عجمی اختر حیدر آبادی سے استفادہ کر کے اپنی شاعری پر اصلاح لیتی رہیں۔ ماہنامہ بیسویں صدی اور بانو وغیرہ میں آپ کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی تھیں۔ ڈاکٹر عبداللہ ذوقی کی کلینک میں ہر ماہ بزم نو کا طرحی مشاعرہ منعقد ہوتا تھا جس میں اوروں کے توسط سے اپنا کلام بھیج کر شامل ہوا کر تی تھیں۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی وانم باڑی کے حلقہء خواتین کے اجتماعات میں بھی شریک ہو کر وہاں اپنا کلام پیش کیا کرتی تھیں۔
آپ کا مجموعہ کلام ‘بیاض نعیمہ پرویز’ خاکسار (اسانغنی مشتاق رفیقی) نے مرتب کر کے 2016 میں شائع کیا۔ اس مجموعہ کلام کے ساتھ محترمہ نعیمہ پرویز موجودہ ریاست ٹمل ناڈو کی اکلوتی صاحب دیوان شاعرہ ٹہریں۔
آپ کی شاعری بظاہر روایتی لب و لہجہ کیساتھ عام سی شاعری نظر آتی ہے لیکن در حقیقت اس کا ہر لفظ ماحول کا گھٹن، معاشرے کا جبر، استحصال زن اور سسکتی نسوانیت کی آہ و بکا کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ سماجی اور مذہبی ٹھیکیداروں کی نام نہاد اصول پرستی کے بوجھ تلے دبی ایک مظلوم عورت کی چیخوں کی گونج ہر شعر سے صاف سنائی دیتی ہے۔محترمہ نعیمہ پرویز کی شاعری سچ پوچھئے تو اپنے دور کی ایک ایسی تاریخ ہے جس میں ایک حساس شاعرہ کے پاس اپنے معاشرے اور سماج کو دینے کےلئے سوائے چند آنسو اور دبی دبی سسکیوں کے کچھ بھی نہیں ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرما کر انہیں جنت الفردوس کے اعلیٰ مقامات سے نوازے۔آمین
نعیمہ پرویز کے چند اشعار:
کروگے کوششیں پیہم تو پاؤگے منزل
ہمارا فرض تو بس راستہ دکھانا ہے
چلو طے ہے نہ روئیں گے نہ آہیں تک بھریں گے ہم
پھر ان کو دیکھتے ہی دل جو بھر آیا تو کیا ہوگا
غم دنیا سے ہے فرار کہاں
لاکھ دامن بچا کے دیکھ لیا
کتنے ہمارے سامنے منزل کو پاگئے
ہم بد نصیب ایسے ، کہیں کے نہیں رہے
سنانے بیٹھ گئے اس کو حال دل اپنا
ذرا سی جس کے رویے میں دلدہی پائی
کچھ فرق ہی نہیں ہے خزاں میں بہار میں
کس موڑ پہ حیات کے اب آگئی ہوں میں
ہمارا بھی تو ہے حق چمن پر ، ہم ایسے بیگانے بھی نہیں ہیں
ہم اپنی حق تلفی دیکھ کر بھی لبوں کو کب تک سیا کریں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔