Home » بابائے اردو ٹمل ناڈو حضرت علیم صبا نویدی

بابائے اردو ٹمل ناڈو حضرت علیم صبا نویدی

by زبان خلق
0 comment

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

 

رکھ گیا کاغذی خانوں میں خزانے کتنے

یاد رکھیں گے اُسے لوگ نہ جانے کتنے(علیم صبا نویدی)

بابائے اردو ٹمل ناڈو حضرت علیم صبا نویدی انتقال کرگئے۔ اردو زبان و ادب کے آسمان پر گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی تابناکیاں بکھیرنے والا ایک روشن ستارا بروز ہفتہ 24 فروری 2024، شہر چنئی کی ایک خشک صبح کے ساحل پر  روشنی کی آخری رمق بکھیر کر قدرت کی آغوش میں پناہ گزیں ہو گیا اور یوں ریاست ٹمل ناڈو میں اردو زبان و ادب کا  ایک باب اختتام کو پہنچا۔

ریاست ٹمل ناڈو کو اردو کے حوالے سے نئی پہچان دینے والی بابائے اردو ٹمل ناڈو کے نام سے عالمی شہرت رکھنے والی نابغۂ  روزگار  شخصیت حضرت علیم صبا نویدی کی رحلت ایک ایسا سانحہ ہے جس کے اثرات کی گونج اردو زبان و ادب کے ایوانوں میں رہتی دنیا تک محسوس کی جاتی رہے گی۔

تاریخ میری ذات سے آگے نہ بڑھ سکی

کچھ اس طرح سے صدیوں بکھرا ہوا ہوں میں(علیم صبا نویدی)

سید علیم الدین (علیم صبا نویدی) کی پیدائش 28 فروری 1942ء کو ریاستِ تمل ناڈو کے ضلع شمالی آرکاٹ کےقصبے امور(والاجاہ پیٹ) میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام سید غوث بادشاہ حسینی اور والدہ کا نام شرف النساء پیرانی بی تھا۔ پرنانا شاہ محمد امین الدین چشتی قادری نے زائچہ تیار کیا اور نو مولود کے شاندار مستقبل کی پیشنگوئی کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ بچہ بڑا فن کار ہوگا اور خاندان کا نام روشن کرے گا۔

علیم صبا نویدی کی ابتدائی تعلیم مولانا راجی صدیقی کے زیر سایہ ہوئی۔ مدرسہء اعظم  چنئی سے یس یس یل سی،نیو کالج چنئی سے پی یو سی اور 1960ء میں جامعہ علی گڈھ سے ادیب کامل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے علاوہ علی گڈھ یونیورسٹی سے انگریزی  کے پرچے لکھ کر بی اے(انگریزی)  کی سند  بھی حاصل کی۔ تعلیم کے بعد انہیں پورٹ ٹرسٹ مدراس میں ملازمت مل گئی اور وہیں سے کئی دہائیاں خدمت انجام دے کر سبکدوش ہوئے۔

ادبی سفر کی شروعات 1958ء میں ایک جاسوسی افسانہ "ایک رات” سے کی جو 1960ء میں ماہنامہ پاکیزہ میں شائع ہوا۔ پہلی غزل یس یس یل سی کے  دوران  لکھی جس کا مطلع یوں تھا:

وہ حسیں تھے مجھے دل لگانا پڑا

تیر کھانا پڑا مسکرانا پڑا

یہ غزل دہلی کے ماہنامہ پرستان میں شائع ہوئی اور یہی غزل 1958 میں مدراس کے ایک عظیم الشان مشاعرے میں بھی پڑھی جس کی صدارت پروفیسر حیدر علی خان حیدر اور نظامت کاوش بدری فرما رہے تھے۔

ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ روشنی کے بھنور 1967ء میں شائع ہوا جس میں ان کے افسانوں کے ساتھ حسن فیاض اور فضل جاوید کے افسانے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ  تین اور افسانوں کے مجموعے شگاف در شگاف، اجلی مسکراہٹ اور سفر لا سفر قابل ذکر ہیں۔

بحیثت  شاعر علیم صبا نویدی کی شخصیت منفرد اور امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مختلف شعری اصناف جیسے غزل، آزاد غزل،  نظم، آزاد نظم، نثری نظم،نعت، نعتیہ غزل، سانیٹ، ترسیلے یعنی ہائیکو، دوہے، ترائیلے اور گیت میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ ان میں کامیاب تجربے بھی کئے۔ علیم صبا نویدی جنوب میں جدیدیت کے صف اول کے علم برداروں میں سے تھے۔  وہ ایک زود گو شاعر تھے اس کے باوجود انہوں نے کبھی فن کو رسوا نہیں کیا۔ جو بھی لکھا سوچ سمجھ کر لکھا اور فن کی پاسداری کرتے ہوئے مکمل دھیان کے ساتھ لکھا۔ کہتے ہیں

میں دے رہا ہوں ادب کو شعور نو کا لہو

نئے شعور کا دربار ہے مرے اندر

آپ کا پہلا شعری  مجموعہ طرح نو، جو غزلوں پر مشتمل تھا  1975ء میں شائع ہوا۔ لمس اول، جس میں ٹیپ بند نظمیں تھیں دو سال بعد جلوہ افروز ہوا۔ رد کفر، 1989ء میں شائع ہوا جو آزاد غزلوں پر مشتمل تھا۔ ہائیکو نظموں کے تین مجموعے ترسیلے 1986ء ، شعاع مشرق 1987ء میں اور تشدید 1990ء میں شائع ہوئے۔ نعتیہ کلام کے مجموعے مراۃ النور 1988ء میں ن 1990ء میں نور اعظم 2000ء میں اور نعتہ سانیٹ کا مجموعہ نور السموٰت 1989 میں شائع ہوئے۔

نثر نگاری میں بھی علیم صبا نویدی کو کمال فن حاصل تھا۔اردو زبان و ادب  کے خزانے میں خاص کرٹمل ناڈو کے حوالے سے  تحقیق و تنقید کے ایسے ایسے گوہر نایاب  جمع کرائے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مولانا باقر آگاہ ویلوری اردو ادب کا اولین نقاد اور دو ضخیم جلدوں میں دو ہزار چھ سو صفحات پر مشتمل  تاریخ ادب اردو ٹمل ناڈو ان کے وہ کارنامے ہیں جو انہیں اردو زبان و ادب میں زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔ ٹمل ناڈو میں اردو افسانہ، جو ٹمل ناڈو کے افسانہ نگاروں کا انتخاب ہے جس کے وہ مرتب ہیں ایک ایسا قابل کارنامہ ہے جو سوائے ان کے کسی اور سے ناممکن تھا۔

اردو زبان و ادب پر کل ملا کر سو سے زائد کتابوں کی تخلیق کرنے والی علیم صبا نویدی کی شخصیت اور فن پر معاصر مشاہیر ادب نے بھی کافی کتابیں لکھی ہیں جن میں عکس در عکس (یعقوب اسلم عمری)، علیم اور اردو ادب کے نئے زاویے ( ڈاکٹر نذیر فتح پوری)، علیم صبا نویدی ہمہ جہت فنکار ( ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)، علیم صبا نویدی اور ہیئتی تجربے ( ڈاکٹر انور مینائی)، علیم صبا نویدی بابائے اردو ٹمل ناڈو ( فاروق جائسی) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ان کی شخصیت اور فن پر لکھے گئے معاصر مشاہیر کے مضامین اور خطوط کے انتخابات بھی کئی ناموں سے شائع ہو کر محفوظ ہوچکے ہیں۔

حضرت علیم صبا نویدی کا ذکر ان کی لائق اور فرمابردار دختر ڈاکٹر جاویدہ حبیب کے بغیر نامکمل ہے۔ اپنے باپ کے علمی و ادبی ذوق کی جس خوش اسلوبی اور اخلاص کے  ساتھ انہوں نے آبیاری کی ایسا بہت کم ہی دیکھا گیا ہے۔ اپنے والد محترم کی تمام تحقیقی و اشاعتی کاموں میں نہ صرف پوری دلجمعی کے ساتھ حصہ لیتی رہیں وہیں ان کی کئی کتابوں کی ترتیب و تدوین میں بھی بھر پور حصہ لیا۔

علیم صبا نویدی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں علامہ ناوک حمزہ پوری نے انہیں بابائے اردو ٹمل ناڈو کے لقب سے پکارا جو آج ان کے نام کا ایک جزو بن چکا ہے۔ ملک کے کئی اردو اکیڈمیوں، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے بھی علیم صبا نویدی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازت اور انعامات سے نوازا، جن میں اتر پردیش اردو اکاڈمی، ویسٹ بنگال اردو اکاڈمی، بہار اردو اکاڈمی، غالب انسٹیوٹ نئی دہلی، آل انڈیا حمد و نعت اکاڈمی نئی دہلی، آل انڈیا انجمن فروغ اردو نئی دہلی بھی شامل ہیں۔

حضرت علیم صبا نویدی کی شخصیت و فن  کی سحر انگیزی اور قبولیت اس درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ ان پر تا حال کئی مختلف یونیورسٹی سے تحقیقی کام ہوچکے ہیں جن میں تین پر ایم فل اور چار پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ہے۔

حضرت علیم صبا نویدی کا مقام جہاں زبان و ادب میں بلند و بالا ہے وہیں ان کی ذاتی زندگی میں بھی وہ ایک پر خلوص صاف گو انسان دوست شخصیت کے حامل تھے۔ مہمان نوازی میں ید طولیٰ رکھنے والے، فقر و بے نیازی کے پیکر، زمینی سوچ کے ساتھ ہر قسم کے تصنع سے بیزار،بات بے بات پر روٹھنے اور آسانی سے من جانے والے، وہ ایک ایسے انسان تھے جنہیں اپنی ذات کا ادارک حاصل تھا۔ وہ خود کہتے ہیں

میں آئندہ یگوں کی روشنی ہوں

کسی نے مجھ کو پہچانا نہیں ہے

قدرت نے انہیں فکر و فن کی  جس دولت سے نوازا اسے لٹانے میں انہوں نے کبھی کمی نہیں کی۔ دوست و احباب اور خویش و اقارب پر بے دریغ خرچ کیا  اور کبھی ستائش اور صلہ کی تمنا نہیں رکھی۔ بابا ئے اردو ٹمل ناڈو علیم صبا نویدی کی شخصیت سچ میں ٹمل ناڈو کی اردو تاریخ میں صبا کا وہ جھونکا تھی جو اپنے ساتھ ادبی تحقیق و تجربے  کی کئی نویدیں لے کر آئی اور وابستہ گان اردو کو فکر و فن کی ایک نئی صبح سے روشناس کر گئی۔ یہ اور بات ہے زمانے نے ان کی قدر نہیں پہچانی اور ان کی جتنی پزیرائی ہونی چاہئیے تھی اتنی نہیں ہوئی، اس کے باوجود  زندگی کے آخری لمحوں تک وہ  اردو سے جسے انہوں نے  کار حیات بنالیا تھا جڑے رہے اور گمان ہے وہ اپنے قبر میں بھی اسی فکر میں کھوئے ہوئے ہونگے، رب مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

بہار کیا ہے کہ سورج بھی تیرے در پر تھا

ترا وجود تو رنگوں کا اک سمندر تھا(علیم صبا نویدی)

You may also like

Leave a Comment