مذاکرے کی صدارت مشہور انشائیہ نگار، شاعر ور ادیب ڈاکٹر محمد اسد الله نے کی اور مشاعرے کی صدارت کراچی، پاکستان سے معروف سینئر شاعرہ محترمہ انجم عثمان صاحبہ نے فرمائی۔
مشہور شاعر ور ادیب ڈاکٹر مہرافروز، (ھارواڑ ، انڈیا) جناب خاورکمال صدیقی (کراچی ، پاکستان)، جناب محمود گیلانی (لاہور ، پاکستان)، جناب انجینئر سلیم کاوش (ریاض ، سعودی عرب ) صاحبآن نے مہمانان خصوصی ومہمانان اعزازی کی حیثیت سے مذاکرے اور مشاعرے کو وقار بخشا۔
ارباب سخن شکاگو کے زیر اہتمام بروز ہفتہ بتاریخ ۲۷ جنوری ۲۰۲۴ شکاگو وقت ۱۰ بجے صبح زوم پر اردو شاعری اور امن بین الاقوامی تناظر میں مذاکرہ و مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
پروگرام کی شروعات تلاوت قرآن پاک سے کی گئی۔ محترمہ شہناز رضوی صاحبہ نے اپنی خوبصورت اور مترنم آواز میں نعت پاک پڑھی۔
جناب ڈاکٹر توفیق انصاری احمد نے بزم کے انعقاد اور اس کے مقصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
ارباب سخن شکاگو کے مذاکرے میں اردو شاعری اور امن عالمی تناظر میں، اس موضوع کے تحت مقالات پیش کئے گئے۔ پروفیسر مسرور قریشی صاحب نے مذاکرے کی نظامت فرمائی اور اردو شاعری میں امن اور آشتی پر گفتگو کی۔
محترم خاور کمال صدیقی صاحب نے عصری شاعری میں جنگ کی تباہ کاریوں کی نشاندہی کی اور مناسب مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شاعر کا حساس دل ان سانحات سے پیدا ہونے والی بےچینی اور امن کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے۔ ہمارے بیشتر شاعروں نے جنگوں کی مزاحمت کی ہے اور امن بحال کرنے کی خاطر اپنے نعمات میں اس سلسلے کی کوشش کو سراہا ہے۔
محترمہ ڈاکٹر مہر افروز صاحبہ نے علامہ اقبال اور ان کے عہد کے شعرا کے کلام میں جنگوں اور امن کے متعلق اشعار پیش کر کے ان کی فکر کو واضح کیا۔ اقبال کی نظر عالمی منظر نامے پر تھی اس لئے انکی فکر میں گہرائی ہے۔یہ سچ ہے کہ اقبال، شبلی اور ان کے ہم عصر شعراء نے اپنے دور کی بدامنی اور جنگوں کی خرابیوں کو شاعری میں پیش کیا اور امن کی اہمیت و عظمت کو بیان کیا۔ ہمارے یہاں دو عالمی جنگوں کے بعد جو انقلابات انسانی زندگیوں میں رونما ہوئے اس کا ایک نتیجہ جدیدیت کی تحریک تھی جس نے ان تباہ کاریوں کو شاعری میں منعکس کیا۔ شاعری میں پایا جانے والا شکست و ریخت کا احساس، اداسی، افسردگی اور قنوطیت ان تباہیاں کے اثرات ہیں۔
وہ تجلی کی شعائیں تھیں کے جلتے ہوئے تیر
آئینے ٹوٹ گئے، آئینہ بردار گرے
( شکیب جلالی)
صدر مذاکرہ محترم اسد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جنگوں کے علاوہ برصغیر میں ہونے والے فسادات نے بھی امن عالم کو نقصان پہنچایا۔ اس موضوع پر خاص طور پر عصری شاعری میں اور افسانوی ادب میں بھی بہت کچھ لکھا گیا۔ یہ سب دنیا میں امن بحال کرنے کی غرض سے شاعروں کا حصہ ہے۔ عملی سطح پر دیکھا جائے تو اردو شاعری نے خواہ فلمی نغموں کی شکل میں ہو، ہمارے ادب پاروں کے دیگر زباتوں میں ترجمے کی شکل میں ہو دیگر قوموں کو قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ اردو غزل کا فارم پنجابی، گجراتی، سندھی، ہندی اور مراٹھی وغیرہ زبانوں میں اپنایا گیا جس سے مختلف قوموں اور علاقوں کے لوگوں میں خوشگوار تعلقات پیدا ہوئے یہ بھی اردو شاعری کا فیضان ہے۔
بعد ازاں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جسکی صدارت لاہور پاکستان سے معروف سینئر شاعرہ محترمہ انجم عثمان صاحبہ نے کی اور نظامت کے فرائض محترمہ غزالہ تبسم غزال نے اسلام آباد پاکستان سے کی۔
مشاعرے میں محترمہ انجم عثمان ،لاہور، پاکستان ، محترم شفیق مراد صاحب فرینکفرڈ جرمنی، محترم محمود الحسن گیلانی لاہور، پاکستان، محترم انجینئر سلیم کاوش ریاض ،سعودی عرب، محترم اسانغنی مشتاق رقیقی تامل ناڈو ،انڈیا، محترم شمشاد شاد (ناگپور) انڈیا، محترم ڈاکٹر ندیم خان ناگپور ، انڈیا، محترمہ شہناز رضوی کراچی، پاکستان، محترمہ شازیہ عالم شازی کراچی ، پاکستان، محترم خاور کمال صدیقی کراچی ،پاکستان، محترمہ ڈاکٹر مہر افروز دھارواڈ ،انڈیا، محترمہ فرزانہ فرحت لندن ،یوکے، محترمہ فرزانہ اعجاز شکاگو، یو ایس اے، ڈاکٹر توفیق انصاری احمد شکاگو، یو ایس اے، محترم پروفیسر احمد عبدالحکیم شکاگو ، یو ایس اے، محترم ڈاکٹر افضال الرحمن افسر شکاگو، یو ایس اے، محترم عابد رشید شکاگو ، یو ایس اے، راج لالی بٹالہ شکاگو، یو ایس اے، محترم ریاض نیازی شکاگو ، یو ایس اے، محترمہ طاہرہ ردا شکاگو، یو ایس اے، محترم کامران عثمان لاہور، پاکستان، نے شرکت فرمائی۔
مشاعرے میں پڑھے گئے کلاموں میں سے چنندہ اشعار ۔
محترمہ انجم عثمان ، لاہور، پاکستان
محفلِ بے ثبات میں شورشِ ہاؤ ہو نہ کر
زیورِ کائنات کو زیبِ رگِ گلو نہ کر
ثروت و جاہ کو زوال ،حشمت و شان بے ثبات
عظمت و اوج پائمال مِیری کی جستجو نہ کر
*
محترم شفیق مراد صاحب، فرینکفرڈ، جرمنی
خون جگر سے قصہ اوہام لکھ دیا
صحرا کی تپتی ریت پر اک نام لکھ دیا
میں تھا حقیقتوں کے کسی دیش میں مراد
اس نے میرے یقین کو ابہام لکھ دیا
*
محترمہ ڈاکٹر مہر افروز ، دھارواڈ ، انڈیا
خواب کے آشیانے! حد کر دی
نیند کی ہر ہوا نے حد کر دی
مہر افروز تیرے چہرے پر
عمر کی اس ادا نے حد کر دی
*
محترم ڈاکٹر توفیق انصاری احمد ، شکاگو، امریکہ
بھائی بھائی کی طرح ملکے رہیں گے، سب لوگ
شانتی، امن ، اگر ، پیر و جواں تک ، پہنچے
امن کی آشا کا ، جلتا رہے ، دیپک ، ہر دم
بس! یہ پیغام ، ہمارا ہے ، جہاں تک،پہنچے
*
محترم انجنئیر سلیم کاوؔش ، ریاض ، سعودی عرب
گُفتگُو اِک مُسکراہٹ میں سِمَٹ کر رہ گئی
اَور پھر اَیسے ہوا کہ فاصلے بڑھتے رہے
ہم نے قِرطاِسِ دُعا پر نام تیرا کیا لکھا
مختصر تحریر تھی پر حاشیے بڑھتے رہے
اب کے تنہائی نے کاوِش معجزہ ہی کر دیا
بے تَعَلُّق بھی رہے اَور رابطے بڑھتے رہے
*
محترم سید محمود الحسن گیلانی ، لاہور، پاکستان
وہ سراپا ہے پھول کی صورت
میں ہوں رستہ میں دھول کی صورت
کب سے محو دعا ہوں میں محمود
کوئی نکلے قبول کی صورت
*
محترمہ شہناز رضوی ، کراچی، پاکستان
بھاتی سب ہی کو کس قدر تھی گل فشانی آپ کی
اب تو کوئی سنتا نہیں ہے لن ترانی آپ کی
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
شہناز ہے بحر رجز میں بھی روانی آپ کی
*
محترمہ شازیہ عالم شازی ، کراچی ، پاکستان
دل اندر سے تنہا اچھا لگتا ہے
جیسے خالی کمرا اچھا لگتاہے
اسکا ساتھ میسر ہو تو شازی پھر
سورج میں بھی چلنا اچھا لگتا ہے
*
محترم خاور کمال صدیقی ،کراچی ، پاکستان
چھوڑ کیا بات کریں رات گئی بات گئی
نفسا نفسی میں تبسم کی بھی خیرات گئی
ہائے بھر پور جوانی مری برباد ہوئی
ہر جواں رت سے لیے صد ہا شکایات گئی
*
محترم شمشاد شاؔد ، ناگپور، انڈیا
رنج دے دے کے مجھے رنج کا خوگر نہ بنا
حال بدتر ہے مرا، اور بھی بدتر نہ بنا
وار خنجر کے خوشی سے تو کئے جا لیکن
زخم لفظوں کے مسلسل مرے دل پر نہ بنا
*
محترم ڈاکٹر ندؔیم ابن منشاء ، ناگپور ، انڈیا
انکے رخسار پہ ٹھیرے ہوۓ پیارے أنسو
میٹھا میٹھا سا مزا دیتے ہیں کھارے أنسو
ان کی پلکوں پہ ٹھہر جائیں تو لگتا ہے ندیم
جیسے بیٹھے ہوں سمندر کے کنارے أنسو
*
محترمہ فرزانہ فرحت ، لندن ، یوکے
لکھیں جو شعر ہوا کے سپرد کرتے ہیں
تمہاری ضدی انا کے سپرد کرتے ہیں
تمہارے ہجر میں جو کچھ کمایا ہے فرحت
تمہیں قریب بُلا کے سپرد کرتے ہیں
*
محترم پروفیسر احمد عبد الحکیم ، شکاگو، امریکہ
الفت کی مئے سے نفس جو سرشار ہی نہیں
انسانیت سے اسکو کوئی پیار ہی نہیں
امن و اماں کی بات کوئی خاک کیا کرے
حملوں کو روکنے کوئی تیار ہی نہیں
*
محترم ڈاکٹر افضال الرحمن افسؔر، شکاگو ، امریکہ
تمھارے حسن کی مانا کوئی مثال نہیں
ہمارا عشق بھی وہ ہے جسے زوال نہیں
کیسے خبر ہے کدھر لے چلا جنوں افسرؔ
جنوب و مشرق و مغرب نہیں شمال نہیں
*
محترم عابد رشید ، شکاگو، یو ایس اے
بات کوئی ہو مکافات سے ڈر لگتا ہے
منہ سے نکلی ہوئی ہر بات سے ڈر لگتا ہے
کہتے کہتے وہ کوئی بات ٹھہر جاتا ہے
مجھ کو ہونٹوں میں دبی بات سے ڈر لگتا ہے
*
محترمہ طاہرہ ردؔا ، شکاگو، امریکہ
خواہش سے زیادہ مری ہستی ہی کہاں ہے
مچھلی کی طرح ہوں میں کسی جار کے اندر
مکڑی نے مجھے جینے کی امید دلائی
رہ لیتی ہے گھر بُن کے کسی تار کے اندر
اُس پاۓ شکستہ کی مجھے کیسے خبر ہو
گم رہتی ہوں میں اپنی ہی رفتار کے اندر
*
محترم اسانغنی مشتاق رفیقی ، ٹمل ناڈو، انڈیا
یہ سوچ کے اس کو جانے دیا کچھ دیر میں وہ، لوٹ آئے گا
تھی کس کو خبر وہ ہرجائی، جیون بھر یوں ترسائے گا
جب شام کو سونی گلیوں میں یادوں کے دریچے وا ہوں گے
ایسے میں کوئی دستک دے کر کیا مجھ سے ملنے آئے گا
وہ آیا نہ اس کی یاد آئی، آنکھوں نے پتھر اُوڑھ لیا
میں گہری نیند میں سویا ہوں، مجھ کو اب کون جگائے گا
*
محترمہ غزالہ تبسم غزال صاحبہ ، اسلام آباد ، پاکستان
گلی میں جو اتنا مجمع لگا ہے
پتا کر کے آو کہ کیا ماجرا ہے
لگائی ہے کلیوں نے گل کی شکایت
ہمیں گد گد اتی یہ پاگل ہوا ہے
*
محترمہ فرزانہ اعجاز ، شکاگو ، یو ایس اے
ہمارے قتل کا چرچا ہوا کیا
وہ ظالم ہنس پڑا یا رودیا کیا
بہت مغموم ہے فرزانہ لوگوں
یہ اسکو آخری وقت ہو گیاکیا
*
مذکورہ آن لائن شاعرے کو فیس بک پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کے سبب جو لوگ سیدھے زوم پر نہیں آ سکتے تھے وہ بھی ادب کی اس محفل سے لطف اندوز ہو پائے۔ پروگرام لگ بھگ پونے پانچ گھنٹوں تک چلا. مشاعرے میں سبھی شعرائے کلام نے ایک سے بڑھ کر ایک اور معیاری کلام سنائے۔
آخر میں انتظامیہ سے جناب ڈاکٹر ڈاکٹر افضال الرحمن افسؔرصاحب نے سبھی مہمانان اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ خاص طور پرکامران عثمان صاحب کی ایڈیٹنگ اور ٹیکنیکل سپورٹ کے لئے خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔ ڈاکٹر توفیق انصاری احمد نے پروگرم کے اختتام پر دعا فرمائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔