جرعات
اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
انسانی جبلت میں برائی کا عنصر ازل سے ثابت ہے۔ جب سےانسان دنیا میں لایا گیا ہے وہ اپنی خیر کے تمام پہلوؤں کے ساتھ برائی کی جانب بھی خاص رغبت دکھاتا رہا ہے۔ یہی وجہ کہ انسانی دنیا شر اور فساد سے کبھی خالی نہیں رہی۔ انسانی تاریخ کا ہر دور اپنی تمام اچھائیوں اور بھلائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں سے بھی نبرد آزما رہا ہے۔ آج کا انسان بھی اپنی تمام مادی اور علمی ترقی کے باوجود اپنی اس جبلت پر قابو پانے میں پوری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے۔
برائی پر قابو پانے کے لئے روز اول سے انسانوں کے درمیان پیدا ہونے والے نیک نفس اعلیٰ دماغوں نے اپنی بساط بھر کوششیں کیں اور آج بھی کرتے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے منظم اور انسانی فطرت سے قریب کوشش دین اسلام کے ماننے والوں سے ظہور پذیر ہوئی۔ چونکہ خود قرآن اور سنت رسول سے اس کی جانب بھر پور رہنمائی ملتی ہے، یہ کار خیر آج بھی بغیر منقطع ہوئے مسلسل جاری ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمانے کے سرد وگرم کی وجہ سے کبھی اس میں بہت تیزی آگئی تو کبھی بے حد سستی بھی پیدا ہوگئی لیکن کسی بھی زمانے میں اسلام کے ماننے والوں میں ایک مضبوط گروہ نے انسانوں کو برائی سے روکنے میں کبھی مصلحت اور پس و پیش سے کام نہیں لیا۔
موجودہ دور کو انسانوں کے درمیان علمی اور مادی ترقی کا معراج تصور کیا جاتا ہے۔ اس دور کی ایک اہم پیش رفت ہر طرح کے سفر میں برق رفتاری شامل کر کے وقت کو اپنی مٹھی میں کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ آج کے عام انسانوں کو جو سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں وہ کسی زمانے میں ہفت اقلیم کے شہنشاہوں کو بھی میسر نہیں تھیں ۔ اس ترقی کے ساتھ ساتھ برائی نے بھی کئی زاویے سے اپنی بڑھت بنائی ہے۔ آج برائی میں مبتلا ہونا جتنا آسان ہے اتنا کسی بھی دور میں نہیں رہا۔ اس پس منظر میں برائی کے تعلق سے انسانوں میں بیداری پیدا کرنا اور انہیں اس سے روکنے کی منصوبہ بند کوشش کرنا بے حد اہم ہوگیا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا دینی فریضے کے ساتھ ساتھ بحیثیت انسان یہ ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے ۔
اب یہ ہمیں سوچنا ہے کہ اس دینی اور اخلاقی فرض کو ہم کس طرح انجام دیں۔ قرآن مجید میں ارشاد الہٰی ہے،"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ ادا کریں ، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں۔” (الحج، 22/ 41)۔
یہاں زمین میں اقتدار کا مطلب بادشاہت اور حکومت ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ قدرت ہے جو بغیر ظلم و نا انصافی کے ایک انسان کو دوسرے پر حاصل ہوتی ہے۔ بے شک سیاسی اقتدار ایک بڑی طاقت ہوتی ہے جس سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو بھلائی کے راستے پر لگا کر برائی سے با آسانی روکا جاسکتا ہے۔ لیکن کچھ انسانوں کو قدرت منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازتا ہے جس کے ذریعے وہ دوسرے انسانوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا کچھ انسانوں کے پاس ایسا علم ہوتا ہے یا کچھ کے پاس مال وزر کا اتنا انبار ہوتا ہے کہ وہ اس کے سہارے انسانوں کے ایک گروہ کو اپنی مرضی پر چلا سکتے ہیں۔ یہ سب اقتدار کی قسمیں ہیں جو آج ہمارے معاشرے میں مکمل رائج ہیں۔ ہمارے درمیان عالموں، دانشوروں اور سرمایہ داروں کا ایک مضبوط طبقہ موجود ہے جو بغیر سیاسی طاقت کے بھی معاشرے پر اقتدار رکھتا ہے۔ اس حوالے سے سماج میں بڑھتی ہوئی برائی کو روکنا ان کا خاص فرض بن جاتا ہے۔ پر افسوس ان میں سے اکثر خود پوری طرح برائیوں میں مبتلا ہیں اور کئی جگہ تو برائی پھیلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
یہ ہمارے سماج کی بڑی بدقسمتی ہے کہ معمولی اقتدار حاصل ہوتے ہی ہم میں سے کچھ برائی سے معاشرے کو بچانے کے بجائے اپنی تمام صلاحیتیں اپنے اقتدار اور کرسی کو بچائے رکھنے میں لگا دیتے ہیں اور یوں آج ہمارا معاشرہ برائیوں کا گڑھ بنتا جارہا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں ہمارے درمیان کا یہ مقتدر طبقہ ایسے ایسےحرکات کا مرتکب ہوتا ہے کہ شیطان بھی ان کی عیاری پر ششدر رہ جائے۔ ان کی دیکھا دیکھی برائی کی یہ بیماری جسے وہ مصلحت اور فکری اختلاف کے خوبصورت غلاف میں پیش کرتے ہیں عوام میں بھی عام ہوکر رہ گئی ہے۔
پتہ نہیں ہم میں کا مقتدر طبقہ آخر کس زعم میں مبتلا ہوکر یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ کیا انہیں علم نہیں کہ بھلے وہ انا، خود غرضی، اقتدار کی ہوس، جھوٹ، مکر و فریب، منافقت اور ظلم و جبر کو کتنے ہی اچھے نام دے لیں وہ ازل سے برائی میں ہی گنے جاتے ہیں اور ابد تک بھی اسی میں گنے جاتے رہیں گے۔ قدرت نے انہیں اپنے چند دائروں پر اقتدار عطا کرکے در حقیقت ایک امتحان میں مبتلا کیا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس نعمت کا استعمال کیا اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نماز اور زکواۃ کا اہتمام کرتے ہوئے انسانوں کو بھلائی کی جانب دعوت دیتے ہوئے برائی سے روکنے کے لئے کرتے ہیں یا اپنی ذاتی مفاد اور انانیت کو تقویت پہنچانے کے لئے کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس دن خدا کی پکڑ انہیں آدبوچے گی اس دن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ جن لیموں نچوڑوں کے مشورے پر انہوں نے اپنا فرض منصبی بھلا کر دوسروں پر ظلم اور شدید حق تلفی جیسی برائیوں میں خود کو ملوث کر لیا ہے وہ دور سے ہی کترا کر نکل جائیں گے اور یہ اپنے تمام بد اعمالیوں کے ساتھ عذاب الہی کی کگار پر واویلا کرتے تنہا کھڑے رہ جائیں گے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنا فرض پہچان کر برائی کے خلاف چاہے وہ رائی اتنی ہی کیوں نہ ہو اٹھ کھڑا ہو، خود بھی برائی سے اپنے آپ کو روکے اور دوسروں کو بھی برائی سے روکنے کی مقدور بھر کوشش کرے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔