اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
عروس البلاد ممبئی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیر اہتمام اور انجمن اسلام ممبئی جیسے ایک تاریخی ادارے کے زیر انصرام 26 واں قومی اردو کتاب میلہ 2024 ممبئی، کا سنیچر جنوری 4 سے پورے تزک و احتشام کے ساتھ انعقاد ہوا ہے جو اتوار 14 جنوری تک جاری رہے گا۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی پچھلے 25 برسوں سے ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں یہ میلہ منعقد کراتی آرہی ہے۔
شہر ممبئی اردو زبان کے حوالے سے ایک اہم شہر ہے۔ یہاں ہر زمانے میں اردو زبان و ادب سے وابستہ کئی اہم شخصیات موجود رہی ہیں اور آج بھی اردو زبان و ادب سے جڑے شعراء و ادباء کا ایک کہکشاں یہاں کے ادبی آسمان میں جگمگا رہا ہے۔ ایسے میں یہاں اردو کتاب میلے کا انعقاد اردو کی ترویج اور ترقی میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ قومی اردو کتاب میلہ 2024 جس کا افتتاح ملک کے ممتاز علمی ادبی دینی سیاسی و سماجی شخصیات کی موجودگی میں سنیچر 4 جنوری صبح 30-10 کو ہوا ، 14 جنوری بروز اتوار شام 7 بجے تا 10 بجے ایک کل ہند مشاعرے کے ساتھ اختتام کو پہنچے گا، جس میں دنیائے شعر و ادب کے مشہور و مقبول شعرائے کرام سمیت مقامی معتبر شعراء اپنا کلام پیش کریں گے۔ 4 جنوری سے 14 جنوری کے درمیان کے دنوں میں اردو زبان و ادب سے وابستہ شہر ممبئی اور ریاست مہارشٹرا کے کئی اردو اسکول اور فعال تنظیمیں ہر روز صبح دوپہر اور شام، کئی پروگرام پیش کریں گی ۔ یہ بڑی ہی اچھی اور خوش آئند بات ہے کہ اردو زبان و ادب سے وابستہ مخلتف ادارے اور شخصیات اپنی اپنی انفرادی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے اردو کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اردو کے فروغ اور اس کی تریج و ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
قومی اردو کتاب میلہ 2024 ممبئی کے اس کہکشاں میں انجمن اسلام ممبئی کے علاوہ،اردو ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن، آل انڈیا آڈیل ٹیچرس ایسوسی ایشن، بچوں کا ماہنامہ گل بوٹے، مرکز المعارف ممبئی، آئیڈیل ڈرامہ اینڈ انٹرٹائنمنٹ اکاڈیمی، مدنی ہائی اسکول، فاروق ہائی اسکول، کوہ نور میوزک اکیڈمی،اردو جرنلسٹ ایسوسی ایشن ممبئی، ٹیم کاوش، اردو چینل، عوامی ادارہ اردو گگن، اردو کارواں، ہماری پرتھا، بزم ریختہ فاؤنڈیشن بھیونڈی، رئیس ہائی اسکول بھیونڈی، کوکن ٹیلنٹ فورم، شعبہء اردو فارسی اور عربی ممبئی یونیورسٹی، اردو ڈی ایڈ کالجز، بزم نسواں، انجمن گرلز بورڈ، بی ایم سی ٹیچرز ایسوسی ایشن، کوئز ٹائم ممبئی، محفل یاراں ممبرا، پاسبان ادب ممبئی جیسے معتبر فعال اور تاریخی ادارے اور انجمنیں اپنی تابناکیاں بکھیر رہی ہیں۔ یہ خوبصورت گل دستہ جو اردو کے نام پر جڑا اور جوڑا گیا ہے، اردو اتحاد و یکجہتی کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ اردو زبان و ادب کے اس خستہ دور میں بھی اگر ریاست مہارشٹرا میں اردو بہت حد تک تابندہ ہے تو اس کی ایک ہی وجہ یہاں موجود اردو والوں میں زبان و ادب کے حوالے سے متحد ہوجانے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روش ہے جو اردو سے وابستہ ہندوستان کےاکثر ریاستوں میں مفقود ہے۔
قومی اردو کتاب میلہ 2024 ممبئی کے تحت چلنے والے ان نوروزہ علمی ادبی و ثقافتی تقاریب میں اردو زبان و ادب سے وابستہ سلگتے موضوع جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، صحافت، ادبیات پر سیمینار، دانشوروں کے تقاریر اور بحث و مباحثہ، طلباء کو لے کر حب الوطنی گیت مقابلہ، غزل خوانی، بیت بازی، ٹیلنٹ ڈبیٹ مقابلہ، کوئز مقابلہ کے علاوہ ڈرامے، شام شعرو نغمہ، مقامی شاعروں کا مشاعرہ،شام نسواں، کامیڈی شو وغیرہ پیش کئے جارہے ہیں۔ ان رنگا رنگی تقاریب کے ذریعے اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ اردو کو ایک زاہد خشک کی طرح نہیں زمین سے جڑی ایک زندہ اورخوبصورت تہذیب کے طور پر پیش کیا جائے جس کی ہمہ گیری اور نیرنگی واقعی مثالی ہے۔ اس بات کی پوری امید ہے کہ عروس البلاد کی دریا دل اردو عوام، میلے میں لگے کتابوں کے اسٹالز سے خوب مستفید ہوں گے اور بڑھ چڑھ کر خریداری کرکے اس میلے کے اصل مقصد کو پورا کرتے ہوئے کامیاب بھی بنائیں گے۔ یہ بھی امید ہے کہ ممبئی کا یہ اردو کتاب میلہ، قومی اردو کتاب میلے کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا اور ریاست مہارشٹرا ہی میں نہیں پورے ہندوستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج اور ترقی کا سبب بنے گا۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے ایسا ہی ایک اردو کتاب میلہ گزشتہ سال ریاست ٹمل ناڈو کے شہر وانم باڑی میں منعقد کیا تھا۔ شروعات میں جب وہاں اس پر چرچا شروع ہوا تو ریاست اور بالخصوص شہر کا اردو داں طبقہ بہت خوش ہوا کہ ملکی سطح پر اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک بڑا پروگرام شہر میں ہونے والا ہے اور ایسے میں ریاست اور شہر کے اردو شعرا ء و ادبا ، دانشوروں اور صحافیوں کو ایک بڑے پلیٹ فارم سے نمایاں ہونے کا اچھا موقع میسر آئے گا۔ لیکن صد حیف! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ شہر کا ایک فلاحی تعلیمی ادارہ جو آج کل بری طرح سے سرمایہ پرستوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے، کے زیر انصرام ویسے تو یہ میلہ منعقد ہوا، لیکن در حقیقت شہر کے سرمایہ داروں کا ایک ٹولہ اس پورے پراجیکٹ کو ہائی جیک کرنے میں مکمل کامیاب رہا۔ شروعات سے ہی ایسا ہوّا بنا یا گیا کہ پروگرام کا الف سے یا تک دہلی سے ڈکٹیٹ ہورہا ہے اور اس کے کسی بھی کام میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں۔ اور پھر آخر میں جیسے ہی پردہ اٹھا یہ بات کھل کر آگئی کہ صرف اپنے آپ کو اور اپنے خوشہ چینوں اور حاشیہ برداروں کو شہہ نشین پر بٹھائے رکھنا ان کا اولیں مقصد تھا ایسا اس لئے کہ شاید انہیں ڈر تھا کہ مقامی اردو دان طبقہ جو ان کی اردو سے نام نہاد محبت سے پوری طرح واقف ہے اسٹیج سے ان پر کوئی سوال نہ کھڑا کردے۔
مکمل نو روز چلنے والے اس قومی کتاب میلے میں اور اس کے تحت منعقد ہونے والے تقاریب میں جس بے دردی سے ریاست اور شہر کے اردودانوں کو خاص کرشعراء،ادباء، صحافیوں اور دانشوروں کو نظر انداز کر کے ذلیل کیا گیا وہ ریاست کی اردو تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جو کبھی دھل ہی نہیں سکتا۔ بعض اردو وابستگان کوجو ملکی سطح پراردو شعر و ادب میں خاص اور منفرد پہچان رکھتے ہیں، کو ان سے وابستہ فن کی تقریب میں شہہ نشین پر بلا کر انکی عزت افزائی کرنا تو دور انہیں کاغذ کا ایک دعوت نامہ بھی نہیں بھیجا گیا۔ انا نیت، تکبر، میں پن اور سرمائے کے غرور میں اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ یہ سب وہ ایک ایسے فلاحی تعلیمی ادارے کے نام پر کر رہے ہیں جس کا اولیں مقصد شہر اور ریاست کے اردو دانوں کو علم و فن کی ہر سطح پرنمایاں مقام عطا کرنا ہے، سرمایہ پرستوں کے اس ٹولے نے صرف اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے تمام تقاریب کا مکمل طور پر سبو تاژ کیا اور اپنی اس حرکت سے ریاست میں اردو کاز کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تقاریب کی ذمہ داری میں سوائے اپنے اور اپنے حاشیہ برداروں کے ریاست کےکسی بھی نامی اردو ادارے اور انجمن کو شامل نہیں کیا گیا۔ ان انجمنوں کو بھی نہیں جو سال بھر ریاست میں چنئی سے لے کر وانمباڑی تک کسی نہ کسی عنوان پر پروگراموں کے ذریعے اردو کا علم بلند کئے رہتے ہیں۔
افسوس صد افسوس کہ اردودانوں اور اردو عوام کو جوڑنے، ان میں زبان کے حوالے سے اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کا ایک نادر موقع ریاست ٹمل ناڈو میں چند مفاد پرست افراد کی کوتاہ بینی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ہاتھ سے نکل گیا۔ الٹا اس کی جگہ ایسی رنجشیں اور دوریاں پیدا ہوگئیں کہ جن کا پاٹ پانا بڑی حد تک ناممکن لگ رہا ہے۔ صرف اس لئے کہ ریاست اور شہر کے شعراء و ادباء طبقاتی اعتبار سے غریب ہیں، سرمایہ پرستوں پر سوال کھڑے کرتے ہیں، ان پر انا اور تکبر کے تلوار چلانا اور ادبی محفلوں سے ان کا مقاطعہ کرانا، میلے میں انہیں اپنے پرچے کی تقسیم سے روکنا، شہر وانم باڑی جیسے حلم وبردباری کےگہوارے میں حد درجے کی رذالت نہیں تو اور کیا ہے؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، اردو کے ان نام نہاد ڈیڑھ متوالوں نے 25 واں قومی اردو کتاب میلہ وانم باڑی کے یادگار کے طور پر ایک سوینیر ” تمل ناڈوکی اردو بستیاں-ایک دستاویزی مجلہ” کا بھی اجراء کیا جس میں تمل ناڈو میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے شروعات سے لے کر آج تک کی تاریخ پیش کرنے کا دعوٰ ی کیا گیا ہے۔ لیکن افسوس اپنے آپ کو ظاہری قول و عمل سے مذہب کے ٹھیکدار ہونے کا دعوٰی پیش کرنے والے سرمایہ پرستوں کے اس ٹولے نے اس کتاب کے ذریعے اپنی منافقت کا کھلا ثبوت پیش کردیا۔ جہاں کتاب میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے کئی جید ناموں کو ان کے شایان شان پیش نہیں کیا گیا وہیں کئی موجودہ اردو ادباء کو ان کے مقام سےگھٹا کر یا حاشیے کی طرح پیش کیا گیا۔ خاکسار اسانغنی مشتاق رفیقی کو تو اس کتاب میں کسی بھی عنوان کے تحت رکھا ہی نہیں گیا ہے۔ گویا شہر کی اردو تاریخ میں میری کوئی حیثیت ہی نہیں۔ میرا پندرہ روزہ رسالہ زبان خلق کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے۔ صاحب کتاب کی حیثیت سے میرا ذکر تو دور بطور شاعر بھی میرا ذکر کرنا گویا گناہ عظیم تصورکیا گیا ہے۔ یہ سب صرف اس لئے کہ میں فلاحی ادارے سے جڑی ان کی اخلاقی بدعنوانیوں پر سوال کھڑے کرتا ہوں۔ صرف اخلاقی بدعنوانیوں پر سوال کھڑے کرنے پر شہر کی تاریخ سے میرا نام مٹانے والے اگر میں کبھی ان کی مالی بد عنوانیوں پر بولنا شروع کردوں تو یہ کس حد تک جاسکتے ہیں سوچ کر دیکھئے۔
آج کل حکمران فسطائی طاقتوں کے خلاف ہمارا رونا یہی ہے کہ وہ تاریخ کی کتابوں سے ہماری تاریخ مٹا رہے ہیں اور ہمارے آثاروں کو ڈھا رہے ہیں۔ ایسا کرنا غلط ہے اور یقیناً غلط ہے تو پھر پچیسویں قومی اردو کتاب میلہ وانم باڑی کی مقامی منتظم تنظیم نے اس میلے میں جو سوینیر پیش کیا اس میں میرے تعلق سے جو حرکت کی گئی وہ کیا ہے؟ تاریخ میں تحریف دوسرے کریں تو غلط اور فسطائیت اور آپ کریں تو۔۔۔؟؟
ممکن ہے میری اس تحریر سے آپ مکمل اتفاق نہ کر پائیں اور اردو کی خاطر اس کی ترقی اور ترویج کی خاطر خود مجھے تمام باتیں بھلا کرآگے بڑھنے کی صلاح دیں اور یقیناً یہی ٹھیک بھی ہے، میں گزشتہ سال کے ان نو دنوں کو ایک برے خواب کی طرح بھلا ہی چکا تھا اس کے باوجود کہ اتنے بڑے پروگرام کا ایک رسمی دعوت نامہ بھی مجھے نہیں بھیجا گیا جب کہ ایسے لوگوں کو جو اردو کے ابجد سے بھی واقف نہیں دروازے کھٹکھٹا کر دعوت نامے دے گئے، لیکن ممبئی میں منعقد قومی اردو کتاب میلہ 2024 کے اشتہارات کو دیکھ کر اور وہاں کی مقامی تنظیموں کے اتحاد و اتفاق کو دیکھ کر پرانے زخم ہرے ہوگئے اور یوں یہ دکھڑا سنانا پڑا۔ سچ بولنا اور سوال کھڑے کرنا ہمارے معاشرے میں آج بھی اتنا ہی کھٹن ہے جتنا ہزاروں سال پہلے تھا۔ اس وقت سوال کھڑے کرنے والوں کا حاکم وقت سر قلم کرادیتے تھے اور آج ان کے نائبین سرمایہ پرست ایساکرنے والوں کو بد نام اور بے نام کر کے جیتےجی مار دیتے ہیں۔
عجیب شہر ہے یہ مصلحت پرستوں کا
یہاں برا ہوں میں اس واسطے کہ بولتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔