نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب
یہ کہانی ہے ایک ایسے بچہ کی جسے دوسال کی عمر میں دماغ کی ایک ایسی بیماری ہوگئی تھی جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ آٹھ سال کی عمر تک پہونچتے پہونچتے اس خطرناک بیماری سے وہ اس قدر متاثر ہوگیا کہ اب وہ معذور بچوں میں شمار ہونے لگا۔ Tourette Syndrome, severe Obsessive Compulsive Disorder (OCD) اورAspergers Syndrome (ASP – a broad spectrum Autism Disorder)، جیسی خطرناک بیماریوں کا وہ شکار ہوگیا۔ یہ ساری بیماریاں دماغ کے حصوں کو متاثر کرتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کانربھس سسٹم متاثر ہوجاتا ہے۔ وہ ٹھیک سے حرکت نہیں کرپاتا اور اس کو اپنی آواز، اپنے اعضاء اور اپنے حرکات وسکنات پر قابو نہیں رہتا، جس کی وجہ سے وہ طرح طرح کی آوازیں نکالتا ہے، ایک ہی حرکت باربار کرتا ہے اور بے چین رہتا ہے۔ ایسے بچوں کو لکھنے پڑھنے اور دوسروں سے انٹریکشن کرنے میں بہت زیادہ دقت ہوتی ہے۔
جب وہ بڑا ہوا تو اس کے والدین نے اس کو ایک چھوٹے سے اسکول میں ایڈمیشن کرادیا۔ مقصد یہ تھا کہ بڑے اسکولوں میں زیادہ بچے ہونگے اور وہ اس کو پریشان کریں گے، چھوٹے اسکول میں بچوں کی کم تعداد ہونے کی وجہ سے اس کو کم پریشان کیا جائیگا۔ مگراس چھوٹے سے اسکول میں بھی بچوں نے اس کی معذوری کی وجہ سے پریشان کرنا شروع کیا۔ دوسرے بچے اس کو پریشان کرتے، اس کا مذاق اڑاتے اور اس کو طرح طرح سے زودوکوب کرتے، یہ سب کچھ بچے ہنسی مذاق میں کرتے، اسی کو (Bullying) یا ریگنگ کہا جاتا ہے۔جب اسکول میں بچے اسے پریشان کرتے اور مذاق اڑاتے تووہ بہت اداس ہوجاتا۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اس پر جو کچھ گذر رہا ہے وہ کسی دوسرے بچے پر گذرنے نہیں دیگا۔ وہ ضرور کچھ ایسا کریگا کہ دوسرے بچے ایسی حرکتوں سے محفوظ رہیں۔ اس ننھی سی عمر میں اداس ہونے اور ہمت ہارنے کے بجائے اس نے ٹھان لیا کہ اس قسم کے دوسرے تمام معذور بچوں کے لئے وہ آواز اٹھائے گا اور بچوں کو اور لوگوں کو سمجھائیگا کہ معذور بچوں کو ان کی معذوری کی وجہ سے پریشان نہ کیا کریں بلکہ ان کو عزت اور پیار دیں۔ خاص طور پر اسکولوں میں ریگنگ اور ایک دوسرے بچے کو پریشان کرنے کا جو گھٹیا سلسلہ چل رہا ہے اس کوکسی طرح ختم کیا جائے۔
سب سے پہلے اس نے اپنی ماں روبین آرنلڈ کے ساتھ مل کر بچوں کو اسکول میں پریشان کرنے کے خلاف بیداری عام کرنے کے لئے ایک ویب سائٹ کھولی اور اس پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد وہ دوسرے اسکولوں میں جا نے لگا اور بچوں کو سمجھانے لگا کہ وہ اسکول میں کیسا رویہ اپنے دوستوں کے ساتھ رکھیں اور ایک دوسرے کوپریشان کرنے سے کیسے وہ بچیں۔
وہ اپنے ویب سائٹ https://www.jaylenschallenge.org پرلکھتا ہے۔
مہینوں دوسرے بچوں کے ذریعہ پریشان کئے جانے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے لوگوں کو ایک دوسرے کو پریشان نہ کرنے اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کے بارے میں کچھ کرنا پڑیگا۔ جب میں آٹھ سال کا تھا تو اس وقت میں نے یہ عزم کیا ایک دن یو ٹیوب اور ٹیلی ویزن پر میں ضرور آؤنگا اور یہ پیغام ضرور نشر کرونگا کہ: اسکولوں میں ریگنگ اور ایک دوسرے بچوں کو پریشان کرنے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔
پہلے تو اس نے اپنی ویب سائٹ سے اس مہم کا آغاز کیا، پھر آس پاس کے اسکولوں میں جاکر بچوں کو سمجھانے کا سلسلہ شروع کیا پھر ایک مختصر عرصہ کے بعد ایک فاونڈیشن قائم کیا جس کا نام ہے Jaylens Challenge Foundationاس فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے اس نے امریکہ کے ہر اسٹیٹ میں اسکولوں میں معذور بچوں کی ہراسانی کے واقعات کے خلاف ایک مہم چھیڑدی۔ اس نے ایک بریسلٹ بھی جاری کیا جس پر لکھا ہوتا ہے۔ اسکول میں اب کوئی پریشان نہیں کریگا۔وہ کئی سال تک محنت کرتا رہا، اس کی محنت رنگ لائی۔ اب اس کی آواز پورے امریکہ میں سنی جانے لگی۔ امریکہ کے دوسرے اسٹیٹ کے اسکولوں نے بھی اس کو بلانا شروع کیا تاکہ وہ ان کے اسکولوں کے بچوں کو ٹریننگ دے سکے۔ اب تک اپنے پروگرام کے ذریعہ ایک لاکھ سے زائد بچوں کووہ ٹریننگ دے چکا ہے کہ اسکول میں کسی بھی بچہ کو اس کی معذوری یا رنگ یا نسل یا کسی اور وجہ سے پریشان نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر ایک بچہ کو دوسرے بچہ کی عزت کرنی چاہیے۔
اس بچہ کا نام جیلین آرنلڈ ہے، جو اب تییس سال کا ہوچکا ہے اوراس نے پوری دنیا میں اپنے اس نیک عمل کی وجہ سے کافی شہرت پالی ہے۔ جیلین کو اپنے اس انوکھے مہم کے لئے کئی ایوارڈ بھی دیئے جاچکے ہیں۔ اس کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جیلین پہلا امریکی شہری ہے جس کو ڈائینا لیگیسی ایوارڈبرطانیہ کے شہزادوں نے اپنے ہاتھوں سے دیا ہے۔ وہ دنیا کے مشہور ٹی وی پروگرام”The HALO Effect میں بھی آچکا ہے۔ کئی ڈکومنٹری میں وہ شامل ہوچکا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی تقریریں ہوچکی ہیں۔ ہالی ووڈ کے کئی بڑے ستاروں کے ساتھ اس نے اس موضوع پر کئی جگہ خطاب کیا ہے اور اسٹیج شئیر کیا ہے۔ اس کے بریسلٹ کو ہالی ووڈ کے کئی مشہور ہستیوں نے اپنے ہاتھ پر باندھ کر اس کو سپورٹ کیا ہے۔
قرآن میں حکم ہے کہ لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منہم، تم میں سے کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے، شاید وہ ان سے بہتر ہوں اور یہی بات سچ کردکھائی جیلین نے، جس کو دوسرے بچے اس کی معذوری کی وجہ مذاق اڑاتے تھے، پریشان کرتے تھے، اور زودوکوب کرتے تھے، آج وہ اپنی مثبت سوچ اور مسلسل محنت کے باعث پوری دنیا میں معذور بچوں کی آواز بن چکا ہے۔ اس نے ایک کتاب بھی تیار کی ہے جس میں معذور بچوں کے متعلق ان کے ساتھ کیسے پیش آیا جائے اور کیسے ان کو اچھا ماحول فراہم کیا جائے پوری تفصیل کے ساتھ ایک بہترین گائیڈ لاینس پیش کی ہے۔ اور جسے دنیا کے کئی اسکولوں نے اپنے یہاں نافذ کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔