Home » جنگ اور مورخ کا قلم

جنگ اور مورخ کا قلم

by زبان خلق
0 comment

جرعات

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

روز بروز جنگ کے شعلوں میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔  ٹینکوں اور بلڈوزروں  کی دھمک سماعتوں کو لرزہ براندام کررہی ہے۔ کوئی گھڑی کوئی لمحہ  ایسا نہیں گزر رہا ہے جس میں کہیں گولی چلنے یا بم پھٹنے کی آوازیں نہ آرہی ہوں ۔  مظلوم عوام کا لہو گلیوں میں پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ عورتوں کا بین، بچوں کی چیخ و پکار معمول بن چکی ہیں۔ نہ کسی کا گھر محفوظ ہے نہ کوئی عبادت گاہ، اسپتال، اسکول محفوظ ہیں۔ ایک طرف دشمن کے مسلح دستے دہشت پھیلا رہے ہیں تو دوسری طرف موسم بارش اور سردی کی سفاکیوں کے ساتھ کھلے میدان میں خیمہ زن مظلوموں پر قہر برسانے پر تلا ہوا ہے۔ کھانے کے لئے پیٹ بھر اناج تو دور پینے کے لئے صاف پانی بھی ناپ تول کر مہیا ہو رہا ہے۔ کاروبار زندگی  پوری طرح ٹھپ پڑ چکا ہے۔ دشمن اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے باؤلا ہوا جا رہا ہے اور جب اس کاروائی میں اسے ناکامی ہاتھ آتی ہے تو وہ اس کا پورا غصہ عوام پر ظلم و ستم کی ہر حد پار کر کے اُتارتا ہے۔ نہ اسے زخمیوں پر ترس آتا ہے نہ معصوم بچوں کے بلکتے ہوئے چہرے اس کے دل کو نرم کر پاتے ہیں اور نہ عمر رسیدہ لوگوں کی آہ بکا اس پر کوئی اثر کرتی ہے۔ وہ چنگیز و ہلاکو کا پیرو مظلوموں کی چیخ و پکار کو موسیقی سمجھ کر اس پر رقصاں ہوجانے کو قابل فخر سمجھتا ہے۔ بچوں کا خون بہانے میں وہ فرعون کو بھی مات دینےپر تلا ہوا ہے۔ حالات اتنے دردناک اور لرزہ پیدا کردینے والے ہیں کہ سوشیل میڈیا میں اور اخباروں میں  انہیں دیکھ کر اور ان کے بارے میں پڑھ کر  دنیا بھر کے عوام میں غم و غصہ کی لہر پیدا ہونے لگی ہے۔ لیکن افسوس خود ان حالات میں گرفتار مظلوموں کے پاس پڑوس میں بیٹھے گدی نشینوں کو لگتا ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔ سوائے شروعات میں چند رسمی جملوں کے انہوں نے ان بدترین حالات پر شاید ہی کوئی ٹھوس اور کار آمد بات کہی ہو۔ پتہ نہیں یہ سب کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ خاک و خون میں تڑپتے سسکتے ہوئے مرد و عورت ، بچے بوڑھے افراد اور ان کے کٹی پھٹی لاشیں بھی ان سخت دل حاکموں کے دل پر کوئی اثر نہیں ڈال سکیں ۔

سنتے تھے کرسی اور حاکمیت کا جنون انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ وہ چاہ کر بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہہ سکتا۔ آج دیکھ بھی لیا  کہ یہ جاہ پرست عناصر منافقت کی تمام حدیں پار کر کے کس طرح صُمٌّ بُكمٌ عُمىٌ فَهُم لا يَر‌جِعونَ کی عملی تفسیر بنے بیٹھے ہیں۔ باطل کے پرستاروں کی غلامی کرنے والے، اپنے نام نہاد آقاؤں کو خوش کرنے کی خاطر اپنی عوام کو اور ان کے ہر دل عزیز قائدوں کو پابند سلاسل کر کے حوالہء زنداں کرنے والے، اُن مظلوموں کو تختہ دار پر کھنچوانے والے، اِن منافقین سے اور امید بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ اللہ بھلا کرے ان غیور حق پرستوں کا جو یکا و تنہا ہوکر بھی اپنے محاذوں میں ڈٹے ہوئے ہیں اور دشمن کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں۔ ممکن ہے وہ تمام کے تمام ایک نہ ایک دن اسی محاذ پر شہید کردئے جائیں اور وہ یہ جنگ ہار بھی جائیں لیکن رہتی دنیا تک لئے انہوں نے تاریخ کے صفحوں پر اپنا نام روشن حرفوں میں سبط کر دیا ہے۔ جب آنے والے دور کا مورخ ان جیالوں کے کارنامے لکھے گا تو وہیں یہ بھی لکھے گا کہ ان کے آس پاس موجود ان کے نام نہاد اپنوں نے کیسے ان نازک اوقات میں انہیں ان دیکھا کیا۔ ان علاقوں میں پھنسے عوام کو کیسے  سفاک دشمن کے رحم و کرم پر تنہا چھوڑ دیا کہ وہ  گھر بار لٹا کر، اہل خانہ کی قربانیاں دے کر ،ایک ایک دانے کو محتاج ہوکر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں اور دشمن ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے لئے عالی شان محلات تعمیر کر لے۔ ان نام نہاد اپنوں کا لہو ظلم و ستم کے اس دردناک صورتحال پر بھی اس لئے نہیں بھڑکا کہ کرسی اور اقتدار کی ہوس اور اس کے چھن جانے کا خوف  ان کے لہو کو منجمد کر چکا تھا۔ مورخ یہ بھی لکھے گا کہ جاہ پرستی اور ہوس اقتدار کی یہ بیماری صرف اس علاقے تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ  دنیا بھر میں قوم کے درمیان سرطان کی طرح پھیل چکی تھی۔ خادمین کا جھوٹا لبادہ پہنے بڑی بڑی سلطنتوں کے تخت پر قبضہ جمائے یہ اقتدار پرست طبقہ جہاں اپنے مفاد اور کرسی کی خاطر کچھ بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا تھا وہیں نام نہاد جمہوریت کے نام پرعوام کو الو بنانے والا ہوس اقتدار میں مبتلا ایک اور طبقہ کسی بھی حد تک جانے لئے آمادہ رہتا تھا۔ اسی نہج پر چھوٹے پیمانے میں ہی سہی  اقتدار کے تمام دائروں میں نام نہاد خادمین و غم خوارانِ قوم کا یہ کھیل جاری تھا۔ سچائی، حق و صداقت، انصاف جیسے الفاظ یوں تو بہت بولے جاتے تھے لیکن انہیں اپنانے والے خال خال ہی نظر آتے تھے۔ مورخ کا قلم اس بات کو  بھی  ضرور تحریر کر کے رہے گا کہ اس دور میں قوم کو نقصان  دشمن سے کم قوم کے اندر موجود فرعون نما حاکموں، جاہ پرستوں اور ان کےچاپلوسوں سے پہنچا اور امت کو برباد کرنے میں سب بڑا کردار انہوں نے ہی ادا کیا۔

You may also like

Leave a Comment