Home » عصبیت ، معاشرے کا سرطان

عصبیت ، معاشرے کا سرطان

by زبان خلق
1 comment

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

 

انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ وہ سماج میں پیدا ہوتا ہے سماج میں جیتا ہے اور سماج میں مر جاتا ہے۔ سماج سے ہٹ کر اُس کا وجود نامکمل ہے۔اُس کے پیدا ہونے سے لے کر مر کر مٹی ہونے تک کے اس سفر میں سماج کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ سماج یعنی معاشرے سے سانس سانس فیض اُٹھانے والا یہ انسان بدلے میں اس معاشرے کو کیا دیتا ہے، یہ ایک اہم تحقیقی سوال ہے۔ معاشرہ، اخوت ، باہمی رواداری ، آپسی پیار ومحبت کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ نفرت و حسد ، تکبر و غرور، بغض و عناد، فرقہ پرستی و تفرقہ بازی انانیت اور عصبیت ایک پر امن معاشرے کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک عصبیت ہے، یہ وہ دیمک اور سرطان ہے جو معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے ۔ اخوت و بھائی چارگی کی خوبصورت عمارتیں بد نما کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ پیار و محبت کے حسین چہرے مسخ ہو کر خوف اور ڈر کی علامت بن جاتے ہیں ۔ باہم رواداری کی مہکتی ہوئی فضائیں جہنم زار بن جاتی ہیں ۔
آخریہ عصبیت ہے کیا؟ اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کیا ہیں؟ فیروز اللغات میں عصبیت کے معنی طرفداری کے ہیں، صاحب المنجد کے نزدیک پٹی باندھنا، تعصب سے کام لینا، دھڑے بندی اور دلیل ظاہر ہونے کے بعد حق بات کو نہ ماننے کا نام عصبیت ہے۔
قران مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ‘‘اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے بنایا اور تمہیں مختلف قومیں اور خاندان بنایا، تاکہ تم محض ایک دوسرے کو پہچان سکو، اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سب سے بڑا پرہیزگار وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے، بلاشبہ اللہ تعالی خوب جاننے والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔’’ (الحجرات:13)
اللہ رب العزت نے اس آیت کے ذریعے ہر قسم کی عصبیت کی نفی کردی ہے۔ صرف اور صرف تقویٰ کو فضیلت کا معیار قرار دے کر مر د کو عورت پر، کالے کو گورے پر، خوبصورت کو بد صورت پر، مالدار کو غریب پر ، عامی کو عالم پر کسی بھی طرح کی فوقیت سے صاف انکار کردیا ہے۔ اسلام جو سلامتی کا دین ہے ، دنیا میں ایک پر امن معاشرے کے قیام کو اپنا نسب العین قرار دیتا ہے، ہر اس عمل کے خلاف سینہ سپر ہونے کی تلقین کرتا ہے جس سے عصبیت کی ہلکی سی بھی بو آتی ہو۔
ہمارا موجودہ معاشرہ اگر سچ پوچھیں تو ایک عصبیت زدہ معاشرہ ہے، اور یہی ہمارے زوال کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے۔ ہمارے معاشرے کے ہر فرد کے نزدیک فضیلت کا معیار، جس کے ذریعے رشتے ناتے طے ہوتے ہیں، دوستیاں قائم ہوتی ہیں، تقویٰ نہیں بلکہ رنگ و نسل ہے یا خاندان و برادری ، زبان و علاقائیت ہے یا مال و دولت۔ بڑے سے بڑا عالم و فاضل بھی ایک عامی کو، چاہے وہ عامی تقویٰ کے کتنے ہی اعلیٰ معیار پر کیوں نہ فائزہو، ایک عالم پر ترجیح نہیں دے گا اور اُس عامی کی باتوں کو چاہے وہ بر حق ہی کیوں نہ ہو، تاویل میں الجھا کر غلط ثابت کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔
ایک اور بات جو آج کل ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیل رہی ہے ، جسے عصبیت کی بدترین مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے وہ ایک دوسرے کے اجتماعات اور مجلسوں میں داخلے پر پابندی ہے۔ سرمایہ داروں کی محفل میں غرباء کی بے عزتی، عالموں کی مجلس میں عامیوں کی تذلیل عام سی بات ہوگئی ہے۔
سنن ابو داؤد میں حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے لئے لڑے اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مر جائے’’۔
اگر ہم اپنے معاشرے کے تئیں سنجیدہ ہیں، اپنے معاشرے اور سماج کو پر امن دیکھنا چاہتے ہیں ، ہر قسم کی معاشرتی اور اخلاقی زوال سے اپنے آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عصبیت سے نکل کر اخوت و بھائی چارگی کا دامن تھامنا ہوگا۔

You may also like

1 comment

رشید احمد غفرلہ دسمبر 13, 2023 - 1:53 شام

ھمارے معاشرے میں ” عصبیت” کے بارے میں صحیح جائزہ ۔

Reply

Leave a Comment