اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
کائنات کا سب سے بڑا حسن اُس میں پائے جانے والا توازن ہے۔بغیر اعتدال اور توازن کے اس خوبصورت زمین پرزندگی محال ہے۔ اگر گرمی کی مقدار موجود سے تھوڑی بھی بڑھا دی جائے تو زندگی پگھل کر بہہ جائے، اسی طرح سردی کی مقدارموجود سے تھوڑی بھی بڑھادی جائے تو زندگی جامد ہوجائے۔ گرمی اور سردی کا یہ اعتدال ہی زندگی کا ضامن ہے۔ انسان بھی فطرت کے وضع کردہ اس اصول پر کاربند رہ کر ہی دنیا میں اپنا وجود باقی رکھ سکتا ہے۔
اسلام ایک فطری دین ہے ۔ اعتدال اور توازن ہی اس کا طرہ امتیاز ہے ۔قرآن اعتدال کو مسلمانوں کی پہچان بتاتا ہے
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃوَّسَطًا.
‘‘اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔’’
احادیث میں بھی اعتدال کی بڑی تاکید یں آئی ہیں۔ لیکن افسوس ہم نے مصحف عظیم اور سنت رسول ﷺکے اس سبق کو پس پشت ڈال دیا اور افراط و تفریط کے دلدلوں میں دھنستے چلے گئے ۔ اعتدال کی راہوں کو خیر باد کہنے سے نہ صرف ہماری دنیا بگڑی بلکہ دین کو بھی ہماری اس نادانی سے سخت ترین نقصان پہنچا۔ہمارا ایک طبقہ مذہبی شدت پرستی میں مبتلا معاشرے میں آنے والی ہر تبدیلی کی مخالفت میں حد سے گزر رہا ہے تو دوسرا طبقہ مادر پدر آزاد ہر نئی چیز کو اپنا نے میں باؤلا ہورہا ہے۔ چاہے وہ لباس کے معاملے میں ہو یا آپسی میل جول کے معاملے میں ، کھانے پینے کے تعلق سے ہو یا کاروبار کے تعلق سے، خوشیوں اور غموں کے اظہار کو لے کر ہو یا غصہ اور نفرت ظاہر کرنے میں ، ہم ہر حال میں افراط و تفریط کے شکار نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے میانہ روی ، اعتدال اور توازن سے ہمارا دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم پہلے تو بغیر غور و فکر کے ہر نئی چیز اور تبدیلی کو اسلام دشمن ، حرام اور گناہ قرار دے دیتے ہیں پھر جب معاشرے کے لئے یہ ناگزیر ہوجاتا ہے تو تاویلیں گھڑنا شروع کردیتے ہیں۔ مغرب کے ساتھ تو ہمارا اس مسئلے میں خدا واسطے کا بیر ہے۔ مغرب سے برآمدکوئی بات یا کوئی چیز چاہے وہ کتنی ہی اچھی اور انسانی ترقی کے لئے کتنا ہی فائدہ مند کیوں نہ ہو محض اس کے مغربی تعلق ظاہر ہوتے ہیں ہمیں اس میں اسلام کے خلاف سازش کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اس ذہنیت کو فروغ دینے میں ہمارے فارغین مدرسہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ تقلیدی سوچ اور مخصوص نصاب کے ساتھ شدت سے جڑے رہنے کی وجہ سے اُن میں جو احساس کمتری پیدا ہوگئی ہے اس سے انتہائی مذہبیت اور مذہبی انتہائیت کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔ غور و فکر کا فقدان ، صرف اور صرف اپنے مسلک اور مکتبہ ء فکر کو حق سمجھنے کا رجحان ، قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح میں حد سے بڑی ہوئی روایت پرستی کی وجہ سے یہ اعتدال کی راہوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اس کا راست اثر پورے معاشرے میں ظاہر ہورہا ہے۔ شدت پرستی اور انتہائیت باطل کی پہچان ، زوال اور مغلوبیت کی علامات ہیں۔
یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی ہے کہ بغیر اعتدال اور توازن کے دنیا میں کوئی بھی قوم اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکتی اور یہی فطرت کا اصول بھی ہے۔ اگر ہم اس جہانِ شر و خیر میں اپنی بقا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر حال میں اعتدال اور توازن والی فکر ، ذہنیت اور اعمال اپنانے ہوں گے ۔ اللہ ہمیں سمجھ دے۔