اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
تکبر یعنی اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا انسانوں میں پایا جانے والا سب سے خطرناک اخلاقی مرض ہے ۔ اس میں مبتلا چاہے کوئی بھی ہو سماج اور معاشرے کے لئے ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے ، اپنے وجود ، اپنے عبادات اور اپنے علم پر گھمنڈاور تکبر کی وجہ سے ہی راندہ ء درگاہ ٹہرا ، اللہ رب العزت کے نزدیک تکبر سب سے زیادہ نا پسندیدہ فعل ہے، کلام مجید میں اس تعلق سے کئی آیات موجود ہیں۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحًا۔ اِنَّ للّٰہَ لَا یُحِبُّ کَلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ (سورہ لقمٰن، آیت نمبر۱۸)
اور تو لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اترا کر مت چل، بلاشبہ تکبر کرنے والے کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ (ترجمہ آسان قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)
اِنَّمَا یؤْمِنُ بِا یَاتِنَا الَّذِینَ اِذَا ذُِّکرُوْا بِھاخَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبھِّم ُوھمْ لَا یَسْتکَبرُوْنَ (سورہ السجدہ آیت نمبر۱۵)
ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ جب انہیں ان آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (ترجمہ آسان قرآن، مفتی تقی عثمانی صاحب)
ان دو آیات سے جہاں تکبر کی حرمت واضح ہوتی ہے وہیں مومنین کے تعلق سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مومنین لوگوں سے منہ نہیں موڑتے ، زمین پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ چلتے ہیں، ان کے آگے جب حق بات دلائل کے ساتھ رکھی جاتی ہے تو وہ اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ کہنے والا اُن سے چھوٹا ہے ، عامی ہے اور حقیر ہے اور ہر گز تکبر اختیار نہیں کرتے۔
آقائے دو جہاں سردار انبیاء ﷺ سے صحیح مسلم میں ایک حدیث یوں منقول ہے: یحییٰ بن حماد نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابان بن تغلب سے حدیث سنائی، انہوں نے فضیل بن عمرو فقیمی سے ، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺسے روایت کی، آپ نے فرمایا:‘‘جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔’’ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: ‘‘اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔’’ صحیح مسلم (حکم حدیث: صحیح۔ قسم حدیث: قولی۔ نسبت حدیث: مرفوع۔ حدیث نمبر:265)
اس حدیث سے دو باتیں واضح ہورہی ہیں پہلی یہ کہ ظاہرمیں اچھا لباس یعنی خوش پوشاکی تکبر کے زمرے میں نہیں آتی دوسر ی بات یہ کہ تکبر کا مطلب حق واضح ہوجانے کے باوجود اپنی بات پر اڑے رہنا ہے اور لوگوں کو اپنے سے حقیر جاننا ہے ۔
موجودہ دور میں یہ مرض ایک مخصوص طبقے میں عام ہوتا جارہا ہے ، جو بزعم خود معاشرہ پر خدائی فوجدار بننے کا متمنی ہے، جس کی وجہ سے سماج میں شر اور انتشار تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ صرف اپنے آپ کو علم سے وابستہ قرار دینا، اپنی ہر بات کو چاہے وہ کتنی ہی لایعنی کیوں نہ ہو حق بتلانا ،اگر کوئی ان کے طبقے سے باہر کا دلائل کے ساتھ ان کا رد پیش کرے تو اسے عامی کہہ کر اس کی سر عام ہجو اُڑانا ، اپنی مجلسوں میں اپنے بھگتوں کے آگے اُسے گمراہ بتا کر بد دعا دینا ، تکبر اور گھمنڈ کی بدترین مثال ہے ۔ علم اور آگہی کسی کی جاگیر نہیں ہے ، یہ اللہ رب العزت کی وہ نعمتیں ہیں جو وہ جسے چاہے عطاکر ے ، شیطان لعین اپنی تمام علم اور معرفت کے باوجود گمراہ قرار پایا اور ایک اُمی میرے ماں باپ آپﷺپر قربان معراج کے شرف سے نوازے گئے اور ‘ ‘بعد از خدائے بزرگ توئی قصہ مختصر ’’ کے درجے پر پہنچے۔
تکبر انسان کے عقل کو اندھا کر دیتاہے ۔ وہ سچ سننے ، دیکھنے اور سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے ریاض الصالحین میں اس پر کیا ہی خوب لکھا ہے ، فرماتے ہیں: کبر اور بڑائی خاصاً ذات الٰہی کے لئے ہے۔کسی مخلوق خصوصاً اشرف المخلوقات کو یہ ہرگز زیبا نہیں کہ وہ اس رواے الہٰی پر دست درازی کرے۔ یہی فعل ابلیس کی دائمی ملعونیت کا باعث بنا کبردراصل خود پسندی کی وہ شکل ہے جس میں آدمی دوسروں کو حقیر و بے چارہ سمجھتا ہے اور اپنے کو سر بلند و گردن فراز ۔مگر وہ شایداس قانون الہٰی سے واقف نہیں کہ ہر متکبر کا انجام وہی ہے جو شیطان کا ہے (ریاض الصالحین)۔
اللہ ہمیں سمجھ دے ، تکبر جیسی لعنتی برائی سے اپنے سایہء عافیت میں رکھے اور جو تکبر میں مبتلا ہوکر عامی کہہ کے دوسروں کی تحقیر کرتے ہیں انہیں عقل سلیم سے نوازے اور تکبر کے اس شیطانی شکنجے سے ان کی مکمل حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین