اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
انسانی زندگی میں فکر ِ معاش کا تصور روز اول سے پایا جاتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا ایک خاصہ ہے۔ اس جیتی جاگتی دنیا میں پایا جانے والا ہر انسان خود کے اور جو اس پر انحصار کرتے ہیں ان کے لئے غذا پوشاک اور چھت فراہم کرنے کو اپنے فرائض میں شمار کرتاہے ۔ اس مقصد کے حصول میں وہ ہمیشہ سے ہی افراط و تفریط کا شکار رہا ہے۔ کبھی وہ اس کے لئے اتنا بے قابو ہو جاتا ہے کہ دوسروں کے مال پر بھی زبردستی قابض ہوجاتا ہے اور کبھی وہ اس سے اتنا بے پرواہ ہوجاتا ہے کہ خو د کے ساتھ اپنے منحصرین کی بھی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ دونوں حالات ایک صالح معاشرے کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں ہمیشہ سے ایک ایسا طبقہ بھی پایاجاتا ہے جو اس بنیادی مقصد کے حصول میں بھی خود کو مجبور اور معذور پاتا ہے۔ اس کے پیچھے چاہے کچھ بھی عوامل ہوں لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ طبقہ انسانی ارتقا کے ہر دور میں پایا گیا ہے۔ کچھ لوگ اسے انسانی فہم و فراست اور کمال ہنرسے جوڑتے ہیں تو کچھ لوگ اسے دولت اور وسائل کے غیر منصفانہ تقسیم سے، کچھ لوگ اسے محنت کشوں اور ہنر مندوں کے استحصال سے جوڑتے ہیں تو کچھ لوگ اسے قدرت کے عطا و فیض اور جبر سے۔ بات کچھ بھی ہو لیکن معاشرے کی یہ غیر مساوی تقسیم درد مند دلوں کو ہمیشہ پریشان کرتی رہی اور یہ مفکر اپنے اپنے فہم و فراست سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگاتار مشغول رہے۔
اسلام ایک فطری دین ہے۔ انسانی فطرت کے ہر پہلو پر تفصیلی نظر رکھتے ہوئے، معاشرے کے ہر مسئلے کا کامیاب حل اگر کوئی پیش کرتا ہے تو وہ صرف دین اسلام ہے۔ فکر معاش اور حصول دولت کو قابل تحسین عمل بتا کر جہاں وہ انسانی معاشرے کو فعال رکھنے کی سعی کرتا ہے وہیں اس عمل کو قواعد و ضوابط کے دائرے میں لا کر ہر قسم کے افراط و تفریط کا شکار ہونے سے محفوظ کراتا ہے۔ جہاں سرمایہ داروں کو محنت کشوں کے حقوق مکمل اور بر وقت ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اُنہیں ذخیرہ اندوزی اور بے جا ہوس سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے وہیں محنت کشوں کو وفا داری اور عہد کی پاسداری پر ہمیشہ جمے رہنے کی تاکید کرتا ہے۔اسی طرح معاشرے میں دولت کی غیر مساوی تقسیم سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے زکواۃ کا نظام پیش کرتا ہے۔ زکواۃ کا نظام اگر صدق دل سے سمجھا جائے تو انسانی معاشرے کے لئے ایک ایسا عطیہ خداوندی ہے جس کے ذریعے معاشرے میں دولت کی غیر مساوی تقسیم سے پیدا ہونے والے تمام مسائل کا کامیاب حل پیش کیا گیا ہے۔
معاشرے کے تمام مجبور و معذور طبقات کی نشاندہی کر کے انہیں مستحقین زکواۃ قرار دے کر اسلام نے جس طریقے سے ان کے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مصحف عظیم میں خالق کائنات نے کھلے لفظوں میں آٹھ ایسے طبقات کاذکر کیا ہے جنہیں زکواۃ کی رقم دینی چاہئے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پرفقرا ء و مساکین جن میں سماج کے تمام پچھڑے ،کمزور ،جسمانی معذورافراد آتے ہیں، تیسرے نمبر پر عاملین یعنی وہ افراد جو اجتماعی نظام زکواۃ میں اس کے حصول اور تقسیم پر مامور کئے جاتے ہیں ، چوتھے نمبر پر مولفۃ القلوب یعنی وہ افراد جن کی اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے دل جوئی مقصود ہواور جن سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی مفاد وابستہ ہو، پانچویں نمبر پر فی الرقاب یعنی ہر قسم کی غلامی اور جبر سے نجات دلانے کے لئے، چھٹے نمبر پر الغارمین یعنی سماوی اور فساد کے ذریعے پیدا ہونے والے نقصانات کی بھر پائی کے لئے ، فلاحی شفا خانوں کا قیام بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے ، قیدیوں کے تاوان کے مد میں اور قرض داروں کے قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ، ساتویں نمبر پر فی سبیل اللہ یعنی جو لوگ دین کی سر بلندی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں جیسے مدارس ، اسکول کالج اور یونیورسٹی جیسے فلاحی ادارے اور ان کے طلبا ،ان کی فلاح و بہبودی کے لئے، آٹھویں نمبر پر ابن السبیل یعنی مسافروں کے مدد میں ،راستے، پل اور سرائے کی تعمیر وغیرہ کے ساتھ ۔زکواۃکی ادائیگی اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک فرض ہے ۔ اس کا تارک فاسق و فاجر اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے دور اول میں معاشرے کے اندر جو معاشی خوشحالی کا دور دورا ہوا وہ اسی نظام زکواۃ کے باعث تھا ۔ امت جوں جوں اس نظام سے دور ہوتی گئی معاشی تنگیاں اور پریشانیاں اس پر بڑھتی گئیں۔
آج ہمارا معاشرہ، جس معاشی بحران کا شکار ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ اپنے پاس اتنا لائق نظام ہونے کے باوجود ہماری یہ حالت قابل رحم ہی نہیں قابل افسوس بھی ہے۔ اجتماعی نظام زکواۃ اسلامی معاشرے کے معاشی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر یہ نظام قائم نہیں تو گویا ہمارا پورا معاشرہ معاشی طور پر مفلوج معاشرہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اجتماعی نظام زکواۃ قائم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی سیاسی قوت نہیں ہے اور وطن عزیز کے قانون میں بظاہر اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔ لیکن، اگر ہم کوشش کریں تو یقینا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل سکتا ہے۔ کم ازکم ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ایک خاندان اور قبیلے والے ، یا ایک محلے اور گاؤں والے ، یا ایک شہر اور ضلع والے اپنا زکواۃ اکھٹا کرلیں، اور پھر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس کو اپنے علاقے کے مستحقین زکواۃ تک اس انداز سے پہنچائیں کے وہ بہت ہی کم مدت میں خود زکواۃ ادا کرنے والے بن جائیں۔ اس کے لئے پہل کرنے کی ضرورت ہے، یقینا یہ ایک مشکل کام ہے لیکن اس کے ذریعے جو طویل مدتی فائدے ہماے معاشرے کو حاصل ہونگے اگر اس کو ذہن میں رکھیں تو ہر مشکل ہیچ نظر آئے گی۔