اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
دنیا میں زندگی کے تعلق سے متضاد نظریے پائے جاتے ہیں۔فلاسفہ اس کو کبھی ایک معمہ کہتے ہیں تو کبھی نہ سمجھ میں آنے والا سوال، کوئی اس کو بے مقصد بوجھ بتاتا ہے جس کو ہر حال میں ڈھونا ہے تو کوئی اس کو ایک حسین خواب، کوئی اس کو مایا بتاتا ہے تو کوئی اس کو صرف ایک مادہ، جدید سائنس کے نزدیک یہ ایک اتفاقی چیز ہے اور کچھ نہیں۔ دنیا میں پائے جانے والے مختلف مذاہب میں بھی زندگی کے حوالے سے کوئی ٹھوس نظریہ نہیں ہے، ھندو مذہب میں زندگی ایک چکرویو ہے جس میں انسان پھنسا ہوا ہے اور اس سے مکتی ضروری ہے، عیسائی مذہب میں زندگی ایک گناہ کا نتیجہ ہے جس سے نجات کے لئے عیسائی ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی زندگی کو لے کر کوئی واضح خیال نہیں ہے، زندگی کے تعلق سے اگر کہیں کوئی صحیح تصور دستیاب ہے تو وہ صرف اور صرف دین اسلام میں ہے۔
اسلام میں زندگی ایک نعمت ہے،خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی نعمت جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ انسان کو عطا کی گئی ایسی دولت جس کی بنیاد پر اس کی آخرت کے فیصلے ہوں گے۔ اگر اس نے اس دولت کی قدر کی اور خالق کی مرضی پر اس کو گذارا تو وہ انعام کا حقدار ہوگا اور اگر اس نے اس کی قدر نہیں کی اسے گذارنے میں اپنی من مانی کرتا رہا تو اس پر سخت پکڑ ہوگی۔ اس حوالے سے زندگی کوئی بے مقصد، گناہ کا نتیجہ، چکر ویو اور اتفاقی نہیں ایک بامقصد چیز ہے۔ اس بامقصد زندگی کو گزارنے کے کچھ آداب اور اصول ہیں جو خدائے بزرگ و برتر ابتدائے آفرینش سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کو بتاتا آیا ہے تاکہ اس کی یہ مخلوق اسی کے مطابق زندگی گزار کر آخرت میں انعام کی حق دار ٹہرے۔ آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی بعثت اور قران مجید اتارے جانے کے بعد جو انسانوں کی رہنمائی کے لئے رب کائنات کی جانب سے بھیجی گئی آخری کتاب ہے یہ سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ اب یہ آخری پیغمبر ﷺ کے پیرو کار اور قران کے ماننے والوں کا کام ہے وہ ہر دور میں اس وحی کو ہر انسان تک اس کی سمجھ میں آنے والی زبان میں پہنچائیں، خود بھی اپنی بامقصد زندگی کو وحی کامل کی روشنی میں آداب اور اصول کے مطابق گزاریں اور دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کریں۔ حاملین قرآن اور مبتعین پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے لئے یہ عمل فرض کفایہ کے درجے میں ہے۔
موجودہ صدی میں مولانا محمد یوسف اصلاحی ؒنے (اللہ ان کے درجات کو بلند کرے) ‘‘آداب زندگی’’ لکھ کر نہ صرف اس فرض کو بحسن خوبی ادا کیا بلکہ آنے والے ادوار کے لئے بھی ایک نمونہ مہیا کر دیا۔ مولانا کی یہ شہرہ آفاق کتاب جس کی سلاست اور روانی، سادگی اور برجستگی، فراہم کردہ مواد کی سند اور صداقت، مثالی حیثیت کی حامل ہے اور کئی اعتبار سے اپنی ایک منفرد پہچان خاص و عام میں بنا چکی ہے، نہ صرف ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لئے ایک مکمل زاد راہ کا درجہ رکھتی ہے بلکہ اپنے موضوع پر کئی زاویے سے حرف آخر بھی ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک ایک عام آدمی کی زندگی جتنے مراحل سے گزرتی ہے ان سب کا بڑی ہی سلیقگی اور نفاست کے ساتھ احاطہ کرتی اس کتاب میں مولانا محترم نے قاری پر دھاک جمانے کے لئے کہیں بھی نامانوس الفاظ، گرجتے لہجے، واعظانہ انداز بیان کا استعمال نہیں کیا ہے۔ آسان اور صاف لہجے میں ابہام و طوالت کے بغیر اور اتنا اختصار بھی نہیں کہ مطلب ہی فوت ہوجائے اپنی بات سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بیانیہ اتنا پُر سکون اور پُر تاثیر ہے کہ ہر بات سیدھے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔
‘‘خوف و ہراس کے آداب’’ کے تحت ‘‘آداب زندگی’’میں مولانا ؒکے جملے کتنے جامعیت لئے ہوئے ہیں اس کا اندازہ متوسط ذہنیت کا حامل قاری بھی باآسانی لگا سکتا ہے۔ مولانا رقم طراز ہیں۔۔۔
‘‘اعداء دین کی قتل و غارت گری، ظلم و بربریت اور فتنہ فساد کی ہیبت ہو یا قدرتی عذابوں کی تباہ کاریوں کا خوف ہو۔۔۔ ہر حال میں مومنانہ ؓبصیرت کے ساتھ اس کے اصل اسباب کی کھوج لگائے اور سطحی تدبیروں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے کتاب و سنت کی بتائی ہوئی حقیقی تدبیروں پر اپنی ساری قوتیں مرکوز کر دیجئے۔’’
‘‘اعدائے دین کی فتنہ انگیزی اور ظلم و ستم سے گھبرا کر بے ہمتی دکھانے اور بے رحموں سے رحم کی بھیک مانگنے کی ذلت سے کبھی اپنی ملّی زندگی کو داغدار نہ کیجئے بلکہ اُس کمزوری پر قابو پانے کے لئے کمرِہمت باندھیے جس کی وجہ سے آپ میں بُزدلی پیدا ہورہی ہے اور اعداء دین کو آپ پر ستم ڈھانے اور آپ کو ہڑپ کرنے کی جراء ت پیدا ہورہی ہے۔ نبی ﷺ نے اس کی دو وجہیں بتائی ہیں، (۱) دنیا کی محبت، (۲) موت سے نفرت، یہ عزم کیجئے کہ آپ نہ صرف اپنے سینے سے بلکہ ملّت کے سینے سے ان روگوں کو دور کر کے ہی دم لیں گے۔’’
‘‘حالات کیسے بھی لرزہ خیز ہوں، حق کی حمایت میں کبھی کوتاہی نہ کیجئے۔ حق کی حمایت میں جان دے دینا اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی بے غیرتی کی زندگی گزارے، سخت سے سخت آزمائش اور شدید سے شدید خوف کی حالت میں بھی حق کا دامن ہر گز نہ چھوڑیے۔ کوئی موت سے ڈرائے تو مسکرا دیجئے اور شہادت کا موقع آئے تو شوق و جذبے کے ساتھ استقبال کیجیے۔’’
درج بالا اقتباسات میں مولانا ؒ نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے اگر ملّت آج انہیں مضبوطی کے ساتھ تھام لے تو کیا کچھ بدلاؤ آسکتا ہے اس کا اندازہ ہر کوئی لگا سکتا ہے۔ جس خوبصورتی سے آسان اسلوب میں قرآن وسنت سے عطر کشید کر کے مولاناؒ نے ہمارے سامنے یہ نکات رکھے ہیں انہیں دیکھ کر آپ کی علمی اور فکری عبقریت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ چاہے بات،سلیقہ تہذیب کی ہو، حسن بندگی کی ہو، تزئین معاشرت کی ہو، دعوت دین کی ہو یا احساس عبدیت کی، ہر عنوان کے تحت مولاناؒ نے وہ گوہر پارے جمع کردئے ہیں کہ کوئی بھی اگر اپنی زندگی کا ہر لمحہ اورہر پہلو اس کے مطابق ڈھال لے تو اس کی اُخروی نجات یقینی ہے۔
مولاناؒ کی تحریروں کی ایک اور خاص بات یہ ہے آپ نے اختلافی موضوعات میں الجھنے سے ہمیشہ پرہیز کیا اور اگر کہیں ضرورتاً ایسا موقع آ بھی گیا تو اعتدال کی راہ کو ترجیح دی۔ تنازعات سے نہ صرف آپ کی تصنیفات بلکہ آپ کی ذات بھی ہمیشہ پاک رہی۔ ‘‘آداب زندگی’’ کے علاوہ مولانا ؒ کی کئی کتابیں منظر عام پر آکر خاص و عام میں مقبولیت کے درجے پر پہنچی ہیں۔ ماہنامہ ذکری جدید میں شائع ہونے والے مضامین کے علاوہ لگ بھگ ۴۵ سے کچھ زائد تصنیفات کے ساتھ آپ اسلامی لٹریچر میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔
فراہی مکتبہء فکر کا امتیاز اس کی قرآنی خدمات ہیں۔ قرآنی علوم و فنون، قرآن کی تفسیر، قرآنی فکر، قرآن کے اسرار و رموز اور قرآن کی ترویج کے حوالے سے جو خلوص اور دلچسپی فراہی مکتبہ فکر میں پائی جاتی ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی ؒ بھی اسی مکتبہء فکر سے منسلک تھے۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ کے شاگرد رشید مولانا اختر احسن اصلاحیؒ جنہیں علامہ سید سلیمان ندویؒ اپنے وقت کا ابن تیمیہ قرار دیتے ہیں کے آپ لائق شاگردوں میں سے ہیں۔ قرآن کے اسرار رموز آپ نے راست انہیں سے سیکھا ہے۔ آپ کے تحریروں میں قرآنی فکر اور اس کے علوم سے جو والہانہ لگاؤ دکھائی پڑتا ہے وہ اسی وابستگی کا نتیجہ ہے۔
یوں تو مولانا ؒ کی تمام تصنیفات کا بنیادی موضوع قرآن کریم ہے لیکن کچھ کتابیں آپ کی ایسی بھی ہیں جو صرف اور صرف قرآنی علوم سے بحث کرتی ہیں۔ تفسیر سورۃ یٰسین، تفسیر سورۃ الصٰف، درس قرآن اور قرآنی تعلیمات میں مولانا نے سادے اور سلیس لہجے میں قرآن کی تعلیمات کو عوام سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی عوام میں قرآن فہمی کے ذوق کو ابھارنے کے لئے مولاناؒ نے حسب ذیل مختصر رسائل لکھے، (۱) مطالعہ قرآن کیوں اور کس طرح؟ (۲) قرآن کو سمجھ کر پڑھیے، (۳) قرآن کیوں پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟۔
اپنی زندگی کا اسّی فیصد سے زیادہ حصہ مولاناؒ نے خلق خدا کو اُس کی کتاب سے جوڑنے میں صرف کیا اور اپنی آخری سانس تک اسی تگ و دو میں رہے کہ کسی بھی طرح انسانیت بالخصوص امت کتاب عظیم سے جڑجائے تاکہ دنیاوی کامرانی اور اخروی فلاح سے سرفراز ہو۔ کبھی کتابیں شائع کر کے، کبھی اپنے رسالہ ماہنامہ ذکری جو رامپور سے شائع کرتے رہے اور پھر دہلی سے ماہنامہ ذکریٰ جدیدکے نام سے شائع کرتے رہے میں مضامین لکھ کر، اور آڈیوز ویڈیوز کا زمانہ آیا تو اس میں کیسٹس کے ذریعے، ابلاغ کے جدید وسائل کا کامیابی سے استعمال کر کے یوٹیوب، سوشیل سائٹس اور ویب پورٹلز میں ویڈوز کے ذریعے آپ کے دروس قرآن ایک عالم کو سیراب کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔قرآنی دعوت کو جس جانفشانی اور خلوص سے آپ نے پھیلانے کی کامیاب کوشش کی اُس کی نظیر موجودہ دور میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ مکتبہء فراہی کا اصول ہے مولانا ؒ نے بھی قرآن کو قرآن سے اور احادیث نبویہ سے سمجھنے اورسمجھانے کے اصول کو آگے بڑھایا ہے۔ روایات اور اسرائیلیات سے صرف نظر کر کے قرآن کو قرآن کے حوالے سے پیش کر نے کی کامیاب سعی کی ہے۔ سلیس زبان میں روانی لئے ہوئے آپ کا لہجہ ایک عام فہم اور کم پڑھے لکھے قاری کے ذہن کو بھی اپنے گرفت میں لے کر اس پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آپ کی مسلسل کئی کئی ایڈیشن میں چھپنے والی کتابیں اور ہزاروں کی تعداد میں سُننے اور دیکھے جانے والے آڈیوز اور وڈیوز اس بات کے بین ثبوت ہیں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی ؒ جتنے ایک کتابی اور تحریری شخصیت تھے اُتنے ہی تحریکی شخصیت بھی تھے۔ جماعت اسلامی سے آپ کی وابستگی نوجوانی کے زمانے سے ہی رہی اور آخری سانس تک آپ اس تحریک سے جڑے رہے، ہر سرد و گرم میں اس سے منسلک رہے، دھتکارے گئے، نفرتیں جھیلیں،لیکن کبھی جماعت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ امت کا درد ہی تھا جس نے آپ کو جماعت سے جوڑے رکھا۔تحریک کے کام کو لے کر دنیا کے مختلف ممالک کا مسلسل دورہ کر تے رہے تاکہ وہاں کے لوگوں میں دین عام ہو اور قرآن فہمی کا ذوق پیدا ہو، اسلامی شعائر کے تعلق سے بیداری پیدا ہو۔
حُب جاہ اور حُب مال سے اوپر اٹھ کر، ہر قسم کے تنازعات سے دور رہ کر، شہرت اور عقیدت کی مرکزیت حاصل کر کے، قناعت پسندی کے ساتھ اہل و عیال کے ہمراہ ایک پرسکون اور عام سی زندگی گذارنا موجودہ دور میں ایک معجزہ سے کم نہیں، الحمداللہ مولانا محمد یوسف اصلاحی ؒ نے ایک ایسی ہی زندگی گزار کر داعی اجل کو لبیک کہا ہے۔ اللہ رب العزت ان کے اعمال کو ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنائے ، اور ہمیں ان کے صالحات کو اپنا کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
٭٭٭٭٭
1 comment
ماشا الله