Home » قرآن فہمی اور اردو زبان

قرآن فہمی اور اردو زبان

by زبان خلق
0 comment

ڈاکٹر حیات افتخار

سابق صدر شعبہ اردو ، قائد ملت کالج، چنئی

 

اردو زبان دنیا کی وہ واحدزبان ہے جس کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں اسلامی علوم اور قرآن کے تراجم و تفاسیر کا اتنا وافر ذخیرہ موجود ہے جو عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا۔ یہ ظاہر سی بات ہے کہ اردو ہماری مادری زبان ہونے کے علاوہ ہمارے اطراف واکناف میں اس کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس کا سیکھنا ، لکھنا ، پڑھنا اور سمجھنا بالکل آسان امر ہوگیا ہے۔ہم دوسری زبان سیکھنے اور اس پر عبور حاصل کرنے میں جتنا وقت اور محنت صرف کریں گے اسی کا عشرعشیر بھی اس زبان کے سیکھنے پر صرف کریں تو اس زبان میں بہ آسانی مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔
اردو زبان میں عربی ، فارسی ، ہندی اور دیگر زبانوں کے الفاظ کا اتنا ذخیرہ ہے جو ہمیں دوسری زبانوں سے بے نیاز کرسکتا ہے ۔اردو میں تقریباً تمام آوازوں کے لئے حروف موجود ہیں جس کی وجہ سے دیگر زبانوں کا سیکھنا کوئی مشکل امر نہیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو پر عربی زبان کے اثرات بہت زیادہ ہیں لہٰذا ہم عربی زبان بھی بذریعہ اردو زبان سیکھنا چاہیں تو کوئی دشواری محسوس نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اجنبیت کا وہ احساس پیدا ہوسکتا ہے جو کسی دوسری زبان کے ذریعہ سیکھنے میں حائل ہوسکتا ہے۔ بہت سارے عربی الفاظ اردو والوں کے لئے مانوسیت اور انسیت کا احساس دلاتے ہیں مثال کے طورپر سورۂ فاتحہ ہی کو لیجئے۔ اس میں حمد، رب، عالم، رحمان ، رحیم ، مالک، یوم ، صراطِ مستقیم، نعمت، مغضوب جیسے الفاظ ایک اردو دان بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اردو میں مستعمل بہت س الفاظ، محاورے ، علامات ، استعارات، تشبیہات اور تلمیحات قرآن سے مستعار ہیں۔ جیسے حیات و موت، مال ومتاع، صبرواستقلال،خیروشر،جزاء و سزاء،طوعاً وکرہاً،حکم، حاکم،حکیم،عظیم،احسان، دنیا،اولاد،شہید، شاہد،شہادت اور صبرجمیل وغیرہ۔ چنانچہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتی کہ قرآن فہمی کے لئے اردو شناسی جتنی معاون و مددگار ہوسکتی ہے اتنی کوئی اور زبان نہیں۔
اگر کسی وجہ سے عربی دانی کی سعادت نہ بھی حاصل ہو تو صرف اردو دانی کے سہارے قرآن فہمی کی منزل کو آسانی سے طے کرسکتے ہیں، عربی زبان کے حصول میں اپنی عمریں صرف کرنے والے علمائے کرام نے قرآن کے تراجم اور تفاسیر کے ذریعہ ہمارے لئے قرآنی علوم کو اردو میں اس حدتک منتقل کردیا ہے کہ ہم ان کے زیرباراحسان ہیں اور اس کا حق اسی طرح ادا کرسکتے ہیں کہ ان سے استفادہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کریں اور ان کی محنت کو ضائع نہ ہونے دیں۔ آج قرآنی علوم کے متعلق کتنی کتابیں اردو سے دوسری زبانوں میں منتقل ہورہی ہیں لیکن ہم ان سے خود اپنی زبان میں مستفید ہونے میں کوتا ہی برت رہے ہیں اس سے زیادہ بدقسمتی اور ناسپاسی کی بات کیا ہوگی۔
اردو میں قرآن فہمی کے لئے جو وافر موجود ہے اس کا اجمالی خاکہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہم اردو دانوں کو اندازہ ہوکہ برصغیر کے علمائے کرام نے اس میدان میں کیسے کیسے کارہائے نمایاں اور خدمات انجام دی ہیں اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے۔
ہمارے علمائے کرام نے اردو میں تراجم اور تفاسیر کا جو بیش قیمت سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کا اندازہ اس طویل فہرست سے کیا جاسکتا ہے۔ جو سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر میں شامل ہے۔ جسے محمد عالم مختارحق نے بڑی کاوش سے مرتبہ کیا ہے۔اس فہرست کے مطابق مکمل تراجم و تفاسیر کی تعداد 257 (۲۵۷) ہے اور غیرمکمل کی تعداد 366 (۳۶۶) ہے۔
اوّلین ترجمہ اور تفسیر:
اردو زبان میں ہمیں قرآن مجید کے مکمل اور نامکمل دونوں قسم کے ترجمے اور تفاسیر ملتی ہیں۔ اگر نامکمل کوبھی قابل اعتناء سمجھا جائے تو اس ضمن میں قرآن مجید کے اردو تراجم میں تاریخی ترتیب کے لحاظ سے شاہ مرادُ اللہ انصاری کی ‘‘تفسیرمرادیہ’’ کو پہلا ترجمہ کہا جاسکتا ہے۔ جو ۱۱۸۵ ؁ھ کی تصنیف ہے اور جس میں قرآن مجید کے آخری پارے کا ترجمہ اور تفسیر ملتی ہے۔(بحوالہ‘‘ہندوستان میں علوم اسلامیہ ’’ از سالم قدوائی ص۵۲)
اُردو میں قرآنِ مجید کے مکمل تراجم میں شاہ عبدالقادرؒ کی تفسیر اور ترجمۂ قرآن مجید ‘‘موضحِ القرآن’’ کو اوّلیت حاصل ہے۔ یہ سات جلدوں میں ہے۔ موضح القرآن تاریخی نام ہے ۔ جس سے سال تصنیف ۱۲۰۵؁ھ برآمد ہے۔
اُردو میں قرآن مجید کے پہلے مکمل ترجمے اور تفسیر کے مصنف شاہ عبدالقادرؒ ، محدثِ دہلوی شاہ ولی اللہؒ کے تیسرے فرزند تھے۔ آپ کے بڑے بھائی شاہ رفیع الدین نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ کیا جس کی وجہ سے بعض مورخین کو یہ مغالطہ ہوا کہ آپ کا ترجمہ پہلا ترجمہ ہے اور یہ غلط فہمی غالباً ان کے بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے ہوئی بقول سالم قدوائی ‘‘دراصل اُن کا ترجمہ ان کے شاگرد سیّد نجف علی نے جمع کیا ہے۔ یہ لفظی ترجمہ ہے ۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے۔’’(ہندوستان میں علوم اسلامیہ۔سالم قدوائی ص۵۱)
آپ دونوں کے والدِ بزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فارسی زبان میں ‘‘فتح الرحمٰن ’’ کے نام سے جو ترجمہ کیا تھا اس کو ان کے فرزندان محترم نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب میں اردو زبان میں ڈھالا ہے۔ لیکن شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ سلیس اور بامحاورہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مقبولیت حاصل کرگیا۔
شاہ عبدالقادرؒ جب تفسیر موضح القرآن لکھ چکے تو فارسی کا ایک شعر پڑھا کرتے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ قیامت کے دن جب ہر شخص اپنا نامۂ اعمال لئے ہوئے ہوگا۔ میں بغل میں قرآن کی تفسیر دبائے حاضر ہوں گا۔’’ (بحوالہ قرآن کریم اور عصرحاضر مضمون از عقیدت اللہ قاسمی)
اس کے بعد سید شاہ حقّانی کے ترجمۂ قرآن مجید کا ذکر آتا ہے۔ اس کا ذکر احسن مارہروی نے تاریخِ نثر اردو میں کیا ہے۔ سن تصنیف ۱۲۰۶؁ھ ہے۔ لیکن اشاعت کا کوئی ثبوت نہیں۔
ترجمۂ شریف خان دہلوی کا سنِ تصنیف ۱۲۱۶؁ھ ہے ۔ اس کا تذکرہ حکیم محمد احمدخان نے داستان تاریخِ اردو میں کیا ہے۔
ترجمۂ امانت اللہ کا سنِ تصنیف ۱۲۱۸؁ھ ہے۔ اس کا قلمی نسخہ ایشیا ٹک سوسائٹی میں ہے۔ اس کا ذکر مولوی عبدالحق نے رسالۂ اُردو جنوری ۱۹۳۷؁ء میں کیا ہے۔
ترجمۂ ڈپٹی نذیر احمد: آپ سر سیّد کے ان رفقاء میں سے تھے۔ جنھیں اُردو ادب کے عناصر خمسہ میں شمار کیا جاتاہے۔ ان کا ترجمہ زبان وبیان کے اعتبار سے بہت شستہ ، سلیس اور ادبی ہے۔ لیکن بعض علماء کو اس میں بعض جگہوں پر فکری اعتبار سے اعتراض ہے۔
ترجمۂ سرسیّد احمد خان: جو تفسیر القرآن کے نام سے مشہور ہے۔ سات جلدوں میں سولہ پاروں کا ترجمہ اور تفسیر ہے۔ اس کی اشاعت ۱۲۵۷؁ھ تا ۱۲۹۹؁ھ ہے۔ کیونکہ وہ سائنسی انداز کے حامی تھے ۔ اس لئے انھوں نے انسانی عقل کو بار بار دعوتِ فکر دی ہے۔
ترجمۂ شیخ الہند : یہ شیخ مولانا محمود الحسنؒ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ایک رائے کے مطابق یہ ترجمہ شاہ عبدالقادرؒ کی ترجمے کی زیادہ واضح اور تفصیلی شکل ہے۔
بیان القرآن : مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ترجمۂ قرآن اور اس کی تفسیر ہے۔ جو دوجلدوں میں پہلی مرتبہ ۱۹۲۵؁ء میں شائع ہوئی اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوکر مقبول ہوچکے ہیں۔
ترجمانُ القرآن : مولانا ابوالکلام آزاد نے تصنیف کی ہے۔ اردو کی تفسیروں میں علمی وادبی نقطۂ نظر سے اس کی خاصی اہمیت ہے۔ بقول مالک رام (ماہر اسلامیات وغالبیات) ‘‘مولانا کی تمام علمی وادبی تحریروں میں شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔’’ (ترجمان القرآن۔مقدمہ)
انھوں نے سورۂ فاتحہ کو اُمّ الکتاب قرار دے کر اس تفسیر میں بہت تفصیل سے کام لیا ہے۔ ویسے یہ تفسیر نامکمل ہے ۔ صرف اٹھارہ پاروں کی تفسیر کی گئی ہے۔اس کی دوجلدیں شائع ہوئیں۔ پہلی جلد ۱۹۳۲؁ء شائع ہوئی تھی۔
ترجمۂ خواجہ حسن نظامی: جس کی اشاعت عام فہم تفسیر القرآن کے عنوان سے ۱۹۳۸؁ء میں عمل میں آئی۔ وہ پہلے شاہ رفیع الدّین کے ترجمے کو متنِ قرآن کے نیچے نقل کرتے ہیں اور اس کے نیچے اپنا ترجمہ لکھتے ہیں۔
تفسیر ماجدی: مولانا عبدالماجد دریابادی کی تصنیف ہے۔ اس کی تاریخ اشاعت ۱۹۶۲؁ء ہے۔ یہ تفسیر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں دو ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی۔
مولانا عبدالماجد نے اس تفسیر میں قدیم وجدید مفسرین اور شارحین قرآن کی تفسیری کاوشوں سے استفادہ کرتے ہوئے جدید طرز پر قرآن پاک کا آسان، سلیس اور عام فہم ترجمہ کیا ہے اور بے نظیر تفسیر لکھ کر قرآن فہمی کی راہیں استوار کی ہیں۔
کنزالایمان: مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تصنیف ہے۔ جس کی تاریخ اشاعت ۱۹۶۲؁ء ہے۔ آپ نے اپنے مخصوص انداز اور اسلوب میں قرآن کی تشریح و تعبیر کی ہے۔
تفہیم القرآن : مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف ہے۔ جو مکمل چھ جلدوں میں ۱۹۷۲؁ء شائع ہوئی۔ اس کی پہلی جلد ۱۹۵۲؁ء میں شائع ہوئی تھی۔ خودمصنّف نے اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یہ تفسیر میں عوام کے لئے لکھ رہاہوں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برقؔ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ‘‘تفہیم القرآن بے پناہ محنت ، تحقیق اور تلاش وطلب کا ایک حسین شاہکار ہے۔ آیات کے اردو ترجمے میں بلا کی سلاست اور فصاحت ہے۔ ہر واقعہ کا تاریخی پس منظر دیا گیا ہے۔ غزوات کی ضرورت اور اہمیت پر مفصل بحث کی گئی ہے۔’’(بحوالہ معلوماتِ قرآنیہ۔حاجی محمد ادریس ۔ص ۴۳)
ان کے علاوہ مولانا عبدالحق حقّانی کی تفسیر فتح المنّان (۱۸۸۷) مولوی ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ، تفسیر ثنائی (۱۹۰۷؁ء) مولانا الحاج فیروزالدین کی تسہیل القرآن ، مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی قصص القرآن ، خان بہادر نواب قطب الدین دہلوی کی جامع التفاسیر ، عبدالسلام قدوائی ندوی کی روح القرآن فتح الدین محمد ازہرانصاری (حیدرآباد دکن) کی تفسیر‘‘روح الایمانی’’ فتح محمد تائب لکھنوی کی خلاصۃُ التفاسیر ، مولانا سید امیر ملیح آبادی کی تفسیر مظہری ، عبدالکریم پاریکھ کی تشریح القرآن، شمس پیرزادہ کی دعوت القرآن وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
عربی زبان کی بعض معرکتہ الاراء تفاسیر کو بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالا گیا۔ عربی زبان کی جن تفاسیر کا اُردو میں ترجمہ ہوا ہے۔ ان میں تفسیر ابنِ عباسؓ ، ابوجعفرجریرطبری کی تفسیر طبری، امام فخرالدین رازی کی تفسیر الکبیر ، حافظ عمادالدین ابوالفداء ، اسماعیل بن الخطیب کی ‘‘تفسیرابن کثیر’’ وغیرہ شامل ہیں۔
اُردو زبان میں قرآنِ مجید کے تراجم اور تفاسیر کے علاوہ قرآنی علوم سے متعلق کتابوں اور رسالوں کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں مولانا سیّدسلیمان ندوی کی ارض القرآن ، مولانا عبدالماجد دریابادی کی اسی نام سے ارض القرآن یا جغرافیۂ قرآنی، اعلامُ القرآن یعنی قرآنی شخصیتیں اور الحیوانات فی القرآن یعنی حیوانات قرآنی، سعید احمد اکبرآبادی کی فہم القرآن وغیرہ کا ذکر یہاں بے محل نہ ہوگا۔
بہر حال اردو میں قرآن مجید کے اوّلین ترجمے اور تفسیر سے لے کر آج بھی اس موضوع پر مسلسل کام ہورہا ہے۔ اور وقتاً فوقتاً ہمارے علمائے کرام اس سرمایے میں بیش بہا اضافہ کرتے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس کے ابتدائی مرحلے سے لے کر موجودہ دور تک اردو میں قرآن کی ترجمہ نگاری اور تفسیر نویسی کے فن نے جو فروغ حاصل کیا ہے وہ قابل رشک اور لائق صد افتخار ہے۔ آج بھی قرآنی علوم سے
شغف رکھنے والوں کے لئے اردو زبان اپنے اندر ایک خاص کشش اور خصوصی جاذبیت رکھتی ہے اور اس کو یہ فخر حاصل ہے کہ ہندوستانی کی بہت سی زبانوں میں تحریر کردہ قرآن مجید کے تراجم اور تفاسیر کا ماخذ اردو زبان ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

You may also like

Leave a Comment