پروفیسر محمد محفوظ الحسن
مٹی کی خوشبو بقول محمد یعقوب اسلم سوانحی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں محمد یعقوب اسلم نے ٹمل ناڈو کی ۳۰ شخصیات کا سوانحی خاکہ صفحہ قرطاس پر اس طرح پیش کیا ہے کہ مذکورہ تمام اشخاص سے واقفیت ہو جاتی ہے۔
ابتدا میں ــ‘‘ پہلی بات’’ کے عنوان سے خاکہ نگار نے اپنی مشغولیات ، مصروفیات اور ادبی دلچسپی و خدمات کا مختصر تعارف کر انے کے بعد تمہیدی طور پر یہ بتا دیا ہے کہ اس کتاب میں جن خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ نامی شخصیات کسی نہ کسی جہت سے قابل قدر رہے ہیں اور اُن کا تعلق ادب سے بھی ہے اور سیاست اور سماج سے بھی ، ان میں معروف شخصیات بھی ہیں اور غیر معروف اور گمنام بھی، اس میں مردوں کا خاکہ بھی ہے اور خوتین کا بھی، یہاں طبیب سے بھی ملاقات ہوتی ہے اور ماہر تعلیم ، سیاسی و سماجی خدمت گاروں سے بھی متعارف ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔ یعقوب اسلمؔ کو ان خاکوں میں رنگ بھرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ
(۱) مذہب ہو یا سیاست شعر و ادب ہو یا سماجی خدمات، ٹمل ناڈو کی سر زمین کو ہر اعتبار سے ناقابل اعتنا ء سمجھا گیا۔ اس میں ایک طرف یہاں کے لوگوں کی ذاتی غفلت اور احساس کمتری ہے تو دوسری طرف جن لوگوں نے ابلاغ و ترسیل کے وسائل استعمال کئے اور اپنے کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ان کا تذکرہ بھی کم ہی نظر آتا ہے۔
(۲) یہاں کی بر گزیدہ شخصیات جنہوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی قسم کا قابل تعریف کارنامہ انجام دیا ہے ، ان کے تعارفی خاکے دنیا کی نگاہوں کے سامنے پیش کر کے ان کو محفوظ کردیا جائے۔
(۳) ٹمل ناڈو کی سر زمین بہت ہی بار آور رہی ہے اور مردم خیز ہے ۔ شعر و ادب کی بہت سی صنفوں کو برتنے میں اولیت اور ان کو پروان چڑھانے میں پیش رفت کا اعزاز اس سرزمین کو حاصل ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کی خدمات کی قدر کی جائے اور ان کو بڑھاوا دیا جائے۔
اس سے پہلے کہ آگے بڑھا جائے خاکہ نگار کے پیش کردہ خیالات پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
جو شکایت اسلمؔ صاحب کو اہل علم و ادب سے ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ، ہر علاقہ کے لوگوں کو دوسرے علاقے کے لوگوں سے شکایت ہوتی ہے ۔ ویسے شاید وہ یہ بھول گئے کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے جو ایک بہاری تھے سب سے پہلے اردو زبان و ادب کی آبیاری میں مدارس کی خدمات کاذکر کرتے ہوئے اولین بنیاد کڈلور قرار دیاتھا۔ اس کے علاوہ بھی ٹمل ناڈو کے ادبا و شعراء کی اہمیت کا اعتراف وقتا فوقتا کیا جاتا رہا ہے۔ ہر علاقے میں کثیر تعداد میں ایسے خدمت گزار ہوتے ہیں لیکن تذکرہ ان کا ہی کیا جاتا ہے جو اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ دکن میں قلی قطبؔ شاہ سے سراجؔ دکنی تک کئی شعراء کو ہم جانتے نہیں محض دس بیس کیا اتنی ہی تعداد واقعی ان کی تھی ؟ اس طرح دہلی اور اس کے اطراف و جوانب میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ، لیکن اس علاقے میں محض چند ہی ایسے ہیں جن کے نام ہم جانتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ خودبھی اعتراف کر رہے ہیں کہ ذاتی غفلت اور احساس کمتری نے بھی انہیں روشنی میں آنے نہیں دیا۔ علاقائی ادب کا تفصیلی مطالعہ پیش کرنا اس علاقے کے لوگوں کا کام ہے۔ جب وہ خود آگے بڑھ کر اپنے علاقے کی خدمات سے لوگوں کو روشناس کرائینگے تو یقینی طور پر دوسرے علاقے کے لوگ ان کی خدمات سے واقف ہونگے اور جو ہر لحاظ سے قابل ذکر ہونگے ان کا تذکرہ یقینا ہوگا۔
ہاں یعقوب اسلمؔ کا یہ کارنامہ یقینا قابل تحسین ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے کے مختلف الجہات اشخاص سے دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ اور اس میں بیشتر یقینا ایسے ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کل ہند سطح پر کیا گیا ہے اور کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔ مثلاً سیاست، طب اور ادب سے جن کو بھی لگاؤ ہے وہ قائد ملت محمد اسماعیل ، سالک ؔنائطی، علیم صبا ؔنویدی، ڈاکٹر اکبر کوثر ، ڈاکٹر عزیز تمنائیؔ ، سجاد ؔ بخاری وغیرہ کی خدمات سے ناواقف نہیں۔
ان کی تیسری بات بلکل درست ہے کہ یہ زمین مردم خیز رہی ہے اور اس سر زمین نے شعر وادب کی مختلف اصناف میں گل بوٹے کھلائے ہیں، ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر صفی اﷲ نے ‘‘ایک اصولی اور عملی انسان ’’ کے عنوان سے محمد یعقوب اسلمؔ اور ان کی خدمات ادب کا مختصر مگر جامع تعارف کرایا ہے۔ اس مختصر تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ محمد یعقوب اسلمؔ کا قلم نثر و نظم دونوں پر سر پٹ دوڑا ہے۔ ادب اطفال سے ان کی دل چسپی قابل تعریف و تحسین تو ہے ہی ، افسانہ نگار، لغت نگار اور سوانح نگار کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ بچوں کے لئے ان کی تصنیف ‘‘معیاری کہانیاں ’’ اور ‘‘امر کہانیاں’’ ‘‘رسول عربی’’ اور ‘‘آپ جیسا کوئی نہیں’’ ان کی نعت گوئی، ‘‘دو ندیوں کے پار’’ ، ان کا شعری مجموعہ ‘‘ چہروں کی دیوار’’، ان کا افسانوی مجموعہ، اور ‘‘ ایک مفکر ، ایک مدرس، ایک رہنما’’ ان کی سوانح نگاری کا ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ ‘‘عکس در عکس’’ علیم صبا نویدی کی خدمات کا اعتراف نامہ اور ‘‘ ابن صفی اور ان کے جاسوسی ناول’’ ان کی تنقیدی اورتحقیقی صلاحیتوں کا اشاریہ ہیں۔ پروفیسر سید صفی اﷲ نے اپنی تحریر ان جملوں پر ختم کی ہے
‘‘یعقوب اسلمؔ ایک شاعر، افسانہ نگاریا صاحب طرز ادیب اور نقاد ہی نہیں بلکہ ایک اصولی اور عملی انسان بھی ہیں’’۔
پروفیسر موصوف کے اس ایک جملے میں یعقوب اسلم کی ادبی فتوحات ، ان کی مشغولیات و مصرو فیات ، ان کی خدمات کا اس طرح اعتراف کیا ہے گویا کہ دریا کو کوزے میں سمو دیا ہے۔
آئندہ سطور میں یعقوب اسلم کے خاکوں پر گفتگو کی جائے گی، اس سے پہلے ان خاکوں اور خاکہ نگاری کے تعلق سے خود یعقوب اسلم کا بیان بھی ملاحظہ کر لیں تو بہتر ہوگا۔
‘‘اس کتاب میں میں نے جن شخصیات کے تعارفی خاکے پیش کئے ہیں، ان کا تعلق صرف ادبی دنیا سے نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ تعلیم و تربیت کے شعبہ کے علاوہ مختلف تعمیری اور اصلاحی شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے اپنے میدان میں نمایاں تعمیری کارناموں کی ایک تفصیلی فہرست رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس قدر مشہور و معروف ہیں کہ ان کی حیات و خدمات پر کتابیں لکھی گئیں تو دوسری طرف کچھ ایسے گمنام اور غیر معروف ہیں کہ صاحب تصنیف ہونے اور اسی دور سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کا نام تک لوگوں کو معلوم نہیں اور یہاں کے کسی تذکرے میں ان کا مختصر تعارف بھی نہیں’’۔
‘‘اس کتاب میں صرف مردوں کا ہی نہیں عورتوں کا بھی تعارف کرایا گیا ہے ، ان میں سیاست دان بھی ہیں اور ماہرین تعلیم بھی ہیں، مثلاً کاکا محمد عمر مرحوم اور منڈی عبدالغنی مرحوم ، تو طبی میدان کی ایک نہایت مشہور و معروف ہستی ڈاکٹر اکبر کوثر کا ذکر بھی میں نے ضروری سمجھا ہے’’۔
‘‘اردو زبان میں خاکہ نگاری کی کئی صورتیں رائج ہیں ۔ شوکت تھانوی نے اپنی کتاب ‘‘شیش محل ’’ کے ذریعے مزاحیہ خاکہ نگاری کو رواج دیا تو ‘‘نقوش’’ کے شخصیات نمبر نے سنجیدہ اور تعارفی خاکہ نگاری کو۔ اس کتاب کی بعض تفصیلات پہلے نظر میں غیر محسوس ہوں گی ، لیکن ان دنوں جنوبی ہند میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا رواج بڑھ رہا ہے۔ لوگ مشہور شخصیات پر یم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ان کے مو ضو عات عام طور پر نمائندہ شعراء اور افسانہ نگار ہوتے ہیں۔ اور انہیں تفصیلات حاصل کرنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ معلومات کارآمد ثابت ہوں گے۔’’
‘‘تاثراتی خاکوں میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ صفحات کے صفحات لکھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں کے اکثر صفحات زیر خاکہ شخصیت کے علاوہ دوسری کئی شخصیتوں پر بھی منطبق ہو سکتے ہیں، لیکن سوانحی اور تعارفی خاکوں میں اس بات کا احتمال کم ہوتا ہے۔’’
‘‘کچھ لوگوں کی ذاتی محنت اور جدوجہد سے مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں تا کہ دوسروں میں بھی اس کی لگن پیدا ہو۔ ممکن ہے میرے اس نقطہ آغاز کو آگے بڑھانے کے لئے مجھ سے بہتر کام کرنے والے اور مجھ سے زیادہ قابل لوگ آئیں گیاور ٹمل ناڈو کی دوسری اہم شخصیات کو بھی اردو دنیا سے روشناس کرانے کا کام انجام دیں گے۔’’
یعقوب اسلم کی مندرجہ تحریر کی بنیادی نکات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) جن لوگوں کے خاکے تحریر کئے گئے ہیں ان کا تعلق محض ادبی دنیا سے نہیں ہے۔
(۲) اس میں سیاست دان بھی ہیں ، ماہر تعلیم بھی، مشہورو معروف بھی اور گمنام بھی، ماہر طب بھی ۔
(۳) یہ تعارفی خاکے صرف مردوں کے ہی نہیں خواتین کے بھی ہیں۔
(۴) چونکہ ٹمل ناڈو میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کا رواج بڑھ رہا ہے اس لئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خاکے تحریر کئے گئے ہیں اور تفصیلات بھی دی گئی ہیں تاکہ تحقیق کرنے والوں کو تفصیلات کی فراہمی میں دشواری نہ ہو۔
(۵) ذاتی محنت اور جدوجہد سے آگے بڑھنے والوں کی تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں میں بھی اس کی لگن پیدا ہو۔
(۶) یعقوب اسلم کے اس کام سے دوسروں کو بھی تحریک ملے تاکہ وہ آئندہ اہم شخصیات کو روشناس کرانے کا فریضہ ادا کریں ۔
(۷) مزاحیہ خاکہ نگاری کو شوکت تھانوی نے رواج دیا۔
(۸) سنجیدہ خاکہ نگاری کو نقوش کے شخصیات نمبر نے آگے بڑھایا۔
(۹) تاثراتی ، سوانحی اور تعارفی خاکہ نگاری میں فرق ہوتا ہے۔
ساتویں اور آٹھویں نکتے کے تعلق سے یہ عرض ہے کہ یہ دونوں نکتے تحقیق کا موضوع ہیں۔ ان پر اتنی سرسری گفتگو اس قطعیت کے ساتھ نہیں کی جاسکتی ۔ نویں نکتے کے تعلق سے یعقوب اسلم کی بات صحیح ہے کہ تاثراتی خاکوں میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر نام بدل دیا جائے تو ساری باتیں دوسروں پر بھی منطبق ہو سکتی ہیں۔تعارف اور سوانحی خاکوں میں یہ ممکن نہیں۔ ان میں صرف زیر خاکہ شخصیت کے بارے میں ہی معلومات فراہم کی جاتی ہے، اگر دوسرے اشخاص کا ذکر بھی ہوتا ہے تو وہ زیر خاکہ شخصیت کی سوانح اور تعارف میں رنگ آمیزی کے لئے ہوتا ہے۔ ایک سے چھ تک جو نکتے ہیں وہ بھی حقیقت پر مبنی ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام کو دیکھ کر دوسرے کو اس کام کو آگے بڑھانے یا کسی دوسرے موضوع پر کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے نئے نئے مضامین اور موضوعات فراہم کئے گئے ہیں۔
بقیہ نکتوں کے تعلق سے خاکوں کے حوالے سے جو گفتگو ہوگی اس سے یہ نکتے خود بخود واضح ہوجائیں گے۔ ‘‘ خاکہ نگار کا خاکہ’’ کے عنوان کے تحت محمد یعقوب اسلم نے خود اپنے بارے میں مختصراً بنیادی معلومات فراہم کردی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ ۱۸ جولائی ۱۹۴۵ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام عبدالغفور تھاجو تاجر تھے، ان کا وطن ضلع ویلور کا علاقہ آلنگائم ہے۔ چار بھائی اور ایک بہن ہے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرفیہ بنگلور میں ہوئی۔پھر جامعہ دارالسلام عمر آباد میں تعلیم حاصل کی، مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کی اور پنڈت ٹریننگ کی اسناد حاصل کیں۔اسلامیہ ہائی اسکول ، وانمباڑی میں ملازمت کی، دوران ملازمت مختلف امتحانات پاس کئے ، جن میں مدراس یونیورسٹی سے بی اے، اور علی گڈھ یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ ایم اے پاس کرنا بھی شامل ہے۔ ابتدا سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق رہا ہے۔ چند ساتھیوں کے مل کر ماہانہ فلمی پرچہ چراغ نکالتے رہے۔ مشاعروں میں شرکت کی اور وانمباڑی بزم نو کے پچیس سال تک سکریٹری رہے۔۱۹۶۹ء میں شادی ہوئی، دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔
پہلی کہانی ‘‘غنچہ’’ میں ۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی ، اردو گرامر، اردو خطوط اور مضامین ، محاورات و ضرب الامثال، نامی کتابیں ان کی خدمات میں شامل ہیں، ٹکسٹ بک کارپوریشن کی بورڈ میں شامل رہ کر گیارھویں اور بارھویں جماعت کے لئے کتابیں بھی ترتیب دی ہیں۔ دو سو سے زیادہ غزلیں ، افسانے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ‘‘ایک مدرس ، مفکر اور رہنما’’ اور‘‘ عکس در عکس’’ شخصیات پر مبنی ان کی کتابیں ہیں۔ ‘‘ ابن صفی اور ان کی ناول نگاری’’ بھی آپ کی تصنیفات میں شامل ہے ، جو شائع نہیں ہو سکی ہے۔ تروپتی یونیورسٹی میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیقی کام ہو چکا ہے۔
یہ وہ بنیادی معلومات ہیں جن کی بنیاد پر پوری عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ خاکہ نگار نے انکساری کے باوجود اپنے بارے میں تمام بنیادی معلومات مہیا کرادیں ہیں۔ اس کے علاوہ تیس اشخاص کے اور خاکے اس کتاب میں ہیں، ان خاکوں میں سے چند اہم شخصیات کے خاکوں پر گفتگو کرکے آپ سے ان کا تعارف کروں گا، تمام خاکوں کا اگر جائزہ لیا جائے گا تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی، جس کا یہ موقع نہیں۔
ایک اہم شخصیت ( جسے خاکہ نگار نے وانمباڑی کا سدا بہار پھول کہا ہے) پٹیل محمد عبدالرزاق افسرؔ کی ہے۔ ٹمل ناڈو کے ابتدائی اور اہم شعرا میں ایک ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۸۷۰ء میں ہوئی تھی، تخلیق کار تھے، مگر ان کی تخلیقات ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکی تھیں ۔ اس کی وجہ معاشی حالا ت اور مصروفیات تھیں۔ افسرؔ اپنی زندگی میں ہی اپنا کلام ایک بیاض کی شکل میں ترتیب دے رکھا تھا، جسے ان کے پوتے محمد خلیل اﷲ اصغرؔ نے ‘‘متاع افسرؔ’’ کے نام سے شائع کر کے شائقین شعر و ادب کو استفادہ کا موقعہ بخشا۔
افسرؔ تجارت کے سلسلے میں ایک عرصہ تک کلکتہ میں مقیم رہے اور وہیں قاضی عبدالحمید حمید ؔ کی شاگردی کا شرف حاصل کیا۔ ادب کے علاوہ افسر ؔ کی دلچسپی سیاست، مذہبی، دینی ، قومی و ملی کاموں سے بھی رہی ہے۔ مختلف مجالس اور انجمنوں کے رکن رہے ہیں۔ افسرؔ کو سیاحت و سفر سے بھی کافی دلچسپی تھی۔ افسرؔ کا کلام قدیم رنگ تغزل کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کا کلام دہلی اسکول کی تمام خصوصیت کا حامل ہے۔ زبان کی شفافی اور محاورہ کا لطف ملتا ہے ۔ زودگوہ اور قادر الکلام شاعر تھے۔ افسرؔ کی نثر سے بھی دلچسپی تھی ، اس کی مثال ان کی تصنیف ‘‘سوانح محمد علی ’’ ہے ، اس میں افسر ؔ نے محمد علی جوہر کی مکمل سوانح حیات ، ان کی تقریر وں کے مختصر اقباسات ، ان کی شاعری کا انتخاب ، اور ان کی وفات پر ہندوستان بھر کے شاعروں نے جو منظوم خراج عقیدت پیش کیا اور جو تاثرات مشاہیر عالم نے ان کے تعلق سے پیش کئے ہیں، ان سب کو اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔ ۱۱ آگست ۱۹۴۸ء میں افسرؔ کا انتقال ہوگیا۔ وانمباڑی کی مسجد قدیم کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ مصنف نے آخر میں افسر کی ایک مترنم غزل بھی بطور مثال پیش کی ہے ۔ اس غزل میں چھ اشعار ہیں، اور سب سے آخر میں ان کتابوں اور مصنفین کے نام درج کر دیے ہیں جن سے مصنف نے استفادہ کیا۔
مقبول آمبوری کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ نام ونمود ،شہرت ہر تخلیق کار کی کمزوری ہے، اور ناموری حاصل کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کے تعلق سے نازیبا حرکتوں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مگر جنوبی ہند اس قسم کی آلائش سے پاک ہے۔ مقبول آمبوری یہاں کے ایک ایسے فنکار ہیں جو بے نیازی کی حدتک نام و نمود سے دور رہے۔ اور ان کے شہر آمبور کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ علاقہ دباغت اور چرم کی صنعت کے لئے مشہور عالم ہے۔ یہاں ماہرین سیاست ، اور ادیب و شاعر دونوں نے جنم لیا ہے۔ فہیم و ؔ عظیمؔ آمبوری قدیم شعراء ہیں اور کاوش بدری و دانش فرازی جدید شعراء میں قابل ذکر ہیں ، ماہرین تعلیم میں ٹی عبداﷲ باشاہ ، ریاضی دان ین ایم یحییٰ اور اپاپلے عبدالرؤف صحافت کے نمایاں نام ہیں۔ اس کے بعد مقبول آمبوری کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ۱۸۸۹ء کی خطیب محمد اعظم مقبول آمبوری کی پیدائش ہوئی۔ والد کا نام جعفر حسین تھا ۔ بیجاپور سے ہجرت کر کے آمبور میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ بچپن عیش و عشرت میں گزرا، لیکن جوانی میں عسرت نے آگھیرا۔ مولانا محمد حسین محوی صدیقی سے رشتہ تلمذ استوار کیا۔ ان کا مجموعہ کلام ‘‘مشاہدات مقبول’’ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ جس پر پروفیسر حبیب خاں سروش داؤدی، خطیب منور حسین ، ڈاکٹر عزیز تمنائی نے تعارف ، مقدمہ اور تبصرہ لکھا ہے۔ قدیم انداز سخن کے حامل تھے لیکن نئی درد بھی رکھتے تھے ، کلام میں سلاست اور گہرائی و گیرائی ، تشبیہات و استعارات کا استعمال اور الفاظ کے انتخاب میں احتیاط ، تخیل کی بلند پروازی ان کے کلام کے امتیازی اوصاف ہیں۔ آخر میں ان کتابوں کے نام درج ہیں جن سے یہ معلومات مہیا کی گئی ہیں۔
سالک ؔ نائطی کو شعر و ادب کا خاموش خادم بتاتے ہوئے ان کا تعارف اس طرح کرایا ہے
‘‘پدرم سلطان بود’’ کا نعرہ کا لگانے والے ہر خاندان اور ہر گھرانے میں بے شمار پائے جاتے ہیں، لیکن ‘‘پسر نمونہ پد راست ’’ کے علمبردار بہت کم خانوادوں اور گھرانوں میں نظر آتے ہیں ، ایسا ہی ایک ممتاز گھرانہ ہے علامہ شاکر نائطی ؒ کا گھرانا جس کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ ایک آفتاب سے کم نہیں۔ علم و فضل ، شرافت و نجابت ، تصوف و طریقت کے علاوہ علامہ شاکر نائطیؒ کا گھرانا مہماں نوازی اور رواداری میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ایسے ہی با کمال گھرانے کے ایک باکمال فرد ہیں سالک نائطی جو ایک طرف علم و فضل ، شعر و ادب ، تصوف و طریقت میں اپنے والد محترم کے سچے جانشین ہیں تو دوسری طرف بلند اخلاقی خوش مزاجی ، رواداری اور ملنساری کا ایک چلتا پھرتا نمو نہ بھی ہیں۔’’
پورا نام ظہیر حسین سالک ہے ۔ اہل نوائط سے ہیں اسی لئے نائطی کو تخلص کا جزبنا کر سالک نائطی تخلص اختیار کیا۔ ۲۰ جنوری ۱۹۳۶ء کو منگل کے دن کرشنگری میں پیدا ہوئے جہاں ان کی ننھیال تھی۔ ان کے والد کا نام علامہ غضنفر حسین شاکر نائطی تھا۔ جامعہ دارالسلام، عمر آباد میں استاد تھے۔ سالک نائطی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، ۱۹۶۲ء میں نیو کالج ، مدراس سے اکنامکس میں گریجویشن کیا ۔ سالک کی شاعری کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ‘‘ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی کے عناصر بہت زیادہ ہیں ۔’’ ‘‘غزلیں کلاسکیت اور جدیدیت کا حسین امتزاج رکھتی ہیں۔’’ ‘‘نثر بھی بہت اچھی لکھتے ہیں۔’’ انہوں نے ‘‘عشق پیچاں ’’ کے نام سے دو ہزار سے بھی زیادہ اشعار پر مشتمل ایک نعتیہ مثنوی لکھی ہے۔ ‘‘ بڑی تعداد میں کلام موجود ہونے کے باوجود کبھی مجموعہ کلام کی اشاعت کی طرف توجہ نہیں دی۔ ’’ وجہ والد کے کلام کی عدم اشاعت ہے۔ سالک نائطی کے بارے میں یہ معلومات اور دیگر تفصیلات انہوں نے علیم صبا نویدی کی کتاب ، ٹمل ناڈو میں اردو، ٹمل ناڈو میں نعت گوئی، سونیر حلقہ دام خیال، حلقہء دام خیال، سالک نائطی اور آشیاں ، وانمباڑی، کے حوالے سے حاصل کی ہیں جس کا اظہار انہوں نے خود حوالہ جات کے تحت کتابوں کی تفصیل دے کر کیا ہے۔
علیم صبا نویدی کو شاعر ، ادیب اور محقق کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور بتایا ہے کہ وہ ہر دم متحرک رہتے ہیں اور ان کی با حرکت کسی مالی منفعت کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ اس کا مقصد زبان و ادب کی خدمت اور سر بلندی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگاری سے شروع کی یا شاعری سے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی پہلی کتاب افسانوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی تھی۔اس میں ان کے علاوہ حسن فیاض اور فضل جاوید کے افسانے بھی شامل تھے۔ کتاب کا نام ‘‘ بھنور ’’ تھا۔ پھر ۱۹۷۴ء میں ( کتاب میں ۱۹۲۴ء درج ہے جومیرے خیال میں غلط کمپوزہو گیا ہے) ‘‘طرح نو’’ کے نام سے ان کی غزلوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ اس کے بعد پھر ان کی مختلف تصنیفات پے در پے شائع ہونے لگیں۔پھر اُنہیں علاقائی ادب کے خدمت گزاروں کی خدمات کا اعتراف نامہ تیار کرنے کا خیال آیاتا کہ ان کے کارنامے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گوشہ گمنامی میں دفن ہونے سے بچ جائیں۔ سو انہوں نے ‘‘ جنوب کا شعر و ادب’’ ، ‘‘ٹمل ناڈو میں اردو’’ ، ‘‘ ٹمل ناڈو کے صاحب تصنیف علماء’’، ‘‘ ٹمل ناڈو کے مشاہیر ادب’’، خواتین ٹمل ناڈو کی ادبی خدمات’’، جیسی کتابوں کے ڈھیر لگادیئے۔ ان کتابوں میں انہوں نے آغاز سے لے کر آج تک ، ہر بڑے چھوٹے فن کار ، شاعر، ادیب ، افسانہ نگار، محقق، نقاد ………. کی بازیافت کی ہے اور بڑی مشکلوں سے ان کے حالات، نمونہء کلام اور کتابوں کے نام محفوظ کردئے ہیں۔ ٹمل ناڈو کی ادبیات کا کوئی بھی محقق ان کتابوں سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔
علیم صبا نویدی ۲۸ فروری ۱۹۴۲ء کی پیدائش شمالی آرکاٹ کے ایک قصبہ امور میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سید غوث پاشاہ حسینی القادری تھا۔ علیم صبا نویدی کی تعلیم نیو کالج مدراس اور علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی۔ ان کی پہلی شادی افسر جہاں سے ہوئی، جو کسی سبب سے زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکی۔دوسری شادی انہوں نے بنگلور کی ایک لڑکی سعیدہ سے کی، جن کے بطن سے ان کی ایک بیٹی جاویدہ حبیب ہیں جو ایک کالج میں پروفیسر ہیں اور ان کے شوہر کامیاب تاجر۔ دو تین سال قبل نویدی کی اہلیہ اﷲکی پیاری ہوگئیں۔ علیم صبا نویدی نے ‘‘ٹمل ناڈو اردو پبلیکشنز’’ نامی ایک تجارتی ادارہ قائم کیا۔ علیم صبا نویدی کی خدمات کا اعتراف مختلف صاحب علم و فن اشخاص نے کیا ہے۔ ہند و ستان کی مختلف صوبوں کی اکیڈمیوں نے انہیں اعزاز ت و انعامات سے نوازا ہے۔ ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں ان کی حیات و خدمات پر کئی حضرات مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر چکے ہیں۔
گزشتہ سطور میں جن چند حضرات کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے، مجھے انہیں خاکہ کہتے ہوئے جھجک محسوس ہورہی ہے۔ ان کو تعارفی اور سوانحی مضمون تو کہا جاسکتا ہے، خاکہ نہیں۔ کیونکہ خاکہ نگار ی میں جس طرح شخصیت کی رنگ آمیزی کی جاتی ہے اور ان کے خدوخال کے نقوش ابھارے جاتے ہیں، ان کی شخصیت کے تہوں کو کھنگال کر ان کی انفرادیت کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ ایسا کچھ مجھے ان تحریروں میں نظرنہیں آیا ۔ اگر نام، والد ین کا نام ، سنِ پیدائش اور جائے پیدائش ، شادی، اولاد اور وفات (مردوں کی حد تک) کا ذکر خاکہ نگاری ہے تو پھر یہ خاکے کہے جاسکتے ہیں۔ اور اگر محض ان کا ذکر ہی خاکہ نگاری نہیں، خاکہ نگاری کے تقاضے کچھ اور ہیں تو پھر انہیں خاکہ کہنا میرے خیال میں مناسب نہیں۔ ہاں انہیں معلوماتی ، تعارفی اور سوانحی مضمون البتہ کہا جا سکتا ہے۔ ان تحریروں کے خاکہ بننے میں ایک انچ نہیں کئی انچ کی کسر رہ گئی ہے۔ بھر یہ بات بھی قا بل ذکر ہے کہ محمد یعقوب اسلم وہ پہلے شخص ہر گز نہیں ہیں جنہوں نے معروف و غیرمعروف اشخاس کی خدمات (زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق) سے روشناس کرانے اور ان کوزندگی نوبخشنے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ ان کے علاوہ ان سے پہلے بھی لوگ یہ کام کر چکے ہیں جن کے حوالے انہوں نے اپنی کتاب میں دیے۔ پھر ان کے بعد بھی دیگر افراد اس خدمت میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کا ہر گز ہر گز یہ مطلب نہیں کہ محمد یعقوب اسلم نے کوئی گراں قدر خدمت انجام نہیں دی ہے، بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیگر افراد کے علاوہ محمد یعقوب اسلم بھی ایسے لوگوں میں ہیں جنہیں اردو شعر و ادب کے خدمت گزاروں کی خدمات کے تحفظ کا خیال رہا ہے۔ اور اس جذبے کے تحت انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیاہے۔ ان کی دیگر خدمات سے انکار کی گنجائش نہیں۔ مثلاً ادب اطفال میں ان کی خدمات کو نہ سرہانا بد دیانتی ہوگی۔ یعقوب اسلم کی خوبی یہ ہے کہ ان کی نثر شگفتہ اور رواں ہے۔ جو حوالہ جات انہوں نے دیے ہیں وہ موقع و محل کے لحاظ سے موزوں اور مناسب ہیں۔ انہوں نے تلاش و جستجو کو راہ دی ہے ان کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہے۔ انہوں نے حوالہ جات کے تعلق سے کتابوں کی فہرست دے کر دیانت داری اور ایمانداری کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ کتاب میں زیر گفتگو اشخاص کو جن میں سے اکثر یقیناًگم شدہ ، گم کردہ ہیں ، کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اور کچھ کو گوشہ گمنامی میں دفن ہونے سے بچانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کتاب سے ان کی تحقیقی رجحان اور تنقیدی شعور کا بھی باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ محمد یعقوب اسلم کی کوشش یقیناً قبل تحسین ہے اس کی داد دی جانی چاہیے۔ ان کی تحریر تحقیقی کام کرنے والوں کو یقیناً مزید تحقیق کے لئے اکسائیگی، کہ انہوں نے خام مواد مہیا بھی کر دیا ہے اور اشارے بھی دیدیے ہیں کہ کہاں کہاں سے مواد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بڑی بات ہے ۔ کتاب ختم کرتے کرتے یقیناً قاری ٹمل ناڈو کی مٹی کی خوشبو سے سر شار ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔