یہ سچ ہے کہ اچھی شاعری کے لئے مطالعہ ، مشاہدہ ،تجربہ اور مشق و مزاولت ہی سب کچھ ہوتا ہے۔اس سے کلام میں پختگی و ندرت پیدا ہوتی ہے۔ علم کی کمی شعر موزوں کرنے میں رخنہ نہیں ڈالتی۔یہ ضروری نہیں ہے کہ اردو کا ایک اسکالرایک اچھا صاحبِ قلم ہو۔ایک عام شاعر بھی دامنِ غزل کونت نئی وسعتیں عطاکر سکتا ہے۔وہی شعر اچھا اور دلکش ہوتا ہے جووجدان کے افق پر ستارے ٹانک دے جسے پڑھ کر قاری تادیرتاثر و تحیر کے سحر میں گرفتار رہے۔
شہرِ وانم باڑی کی سر زمین سے کئی ایسے اصحابِ علم و دانش ا‘بھرے ہیں، ان میں سے ایک ابھرتا ہوا نام منفرد لب و لہجے کے شاعر احمد نظیرکا بھی ہے جن کا عرصۂ شاعری تقریبًا ۰ ۳ سالوں پر محیط ہے۔آپ کا شمار ٹملناڈو کے چند گنے چنے
نمائندہ شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے عروسِ غزل کو نئے معنی خیز لفظوں کے تاب دار موتیوں سے آراستہ کیا ہے۔
وہ بھی کیسے خوش گوار دن تھے جو راقم الحروف اور احمد نظیر کے سنگ بیتے تھے۔ ہم دونوں اکثر مل بیٹھ کر کسی ایک مصرعے پر ایک ہی نشست میں بیسوں شعر کہہ دیتے۔ کبھی ہمارے چہیتے شاعر ساحرؔ تو کبھی فیض یا جوش ؔکے مصرعہ ٔ طرح پرپوری غزل کہہ لیتے تھے۔ اس طرح مسلسل مشقِ سخن سے ہماری شاعری نکھری اورہمارے فن کو جلا ملی۔ ہم دونوں نے ہمیشہ یہ چاہا کہ ہماری شاعری فرسودہ روایات کے شکنجے سے آزاد ہو، اسمیں انفرادیت کی چاشنی ہو، نئے لب و لہجے اور نئے افکار کی سگندھ ہو۔ ہم نے جب بھی شاعری کی تو یہ دیکھا کہ اس کا رنگ و آہنگ نیا ہو اور بات بھی ان کہی ہو۔
احمد نظیر کی شاعری پہلے پہل صرف مشاعروں تک محدود تھی۔ دھیرے دھیرے وہ اخباروں کے ِذریعے پڑھنے والوں کے سامنے آتے گئے اور اردو والے ان کی طرف متوجہ ہوتے گئے۔ آج احمد نظیر نے اپنی شاعری کی بدولت اہلِ فن کے دلوں میں گھر کر لیا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ موصوف کے فن کی قدر دانی ہو رہی ہے۔ وہ دن قریب ہیں جب آپ پوری آن بان اور شان سے اپنی شعری تصنیف لے کر اردو دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوں گے تو پوری طرح سے آپ کی تفہیم کی جائے گی اور یقینًا ایک دن ان کی شاعری اردو بستیوں میں مقبول ہوگی۔
احمد نظیر کے شعری سفر کا آ غاز ویسے غزلوں سے ہوا ہے اور غزل ہی شروع سے ان کی محبوب صنفِ سخن رہی ہے۔ یوں تو انہوں نے دو ایک نظمیں بھی بڑی عمدہ لکھی ہیں لیکن غزلوں میں ہی ان کے جوہرکھلے ہیں اور غزلیں کہنے میں ہی انہیں لطف ملتا ہے۔ نئے لفظ اور نئے خیالات کو پوری ہنر مندی کے ساتھ فن کے سانچے میں ڈھالتے خلوص و عقیدت کے اس پیکر کوہم بغور دیکھتے ہیں توہماری آنلھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ لبوں پر مسکان لئے ہر ایک سے تپاک سے ملنااور اپنی چاہتوں کے جلوے بکھیرنا کوئی ان سے سیکھے۔ یہ البیلا شاعر اپنی محبتوں کے سروں میں لکھی ہوئی اپنی سدا بہار شاعری کی خوشبوئیں اپنے یار دوستوں کی محفلوں میں بکھیرتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ
میں کیا ہوں اور کون ہوں یہ جان تو گیا
یہ بھی بہت ہے وہ مجھے پہچان تو گیا
شاعر کا قلم وقت کی نبض کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہوتا ہے ۔ ہر چیز وقت کی غلام ہوتی ہے۔اسی لئے ساحرؔ فرماتے ہیں
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
احمد نظیر کا قلم بھی وقت کی آہٹوں کو اس طرح محسوس کرتا ہے
آن کی آن میں پڑ جاتی ہیں ساری گرہیں
وقت لگتا ہے مگر گھتیاں سلجھانے میں
اور پھر یہ شعر
ہم کو خوشی ملے نہ ملے کوئی غم نہیں
یہ بھی بہت ہے سر سے برا وقت ٹل گیا
ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہر سو آہ و فغاں ہیں۔ بدحالی، محرومی اور مایوسی ہی مایوسی چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ تعصّب اور عصبیت کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ہماراجینا دو بھر سا لگتا ہے۔ احمد نظیر کا دل ایسے سلگتے مناظر کو دیکھ تڑپ اٹھتا ہے تو ان کی نوکِ قلم سے ایسے شعر نکلتے ہیں
اشک سے تر ہوا لباس اپنا مسکرانے کی ضد میں رو بیٹھے
خوشی اک بار ہوتی ہے تو غم سو بار ہوتا ہے
یہ دنیا ہے یہاں جینا بہت دشوار ہوتا ہے
آج کا انسان تو بس خوابوں کے سہارے جیتا ہے۔ خواب ہی تو اس کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہوتے ہے جو اس کے لئے تسکین و راحت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے شاعروں نے خواب پر بڑے ہی خوبصورت اور جان دار شعر دئے ہیں۔ ملاحظہ ہوں احمد نظیر کے شعر
خیالوں اور خوابوں میں جمالِ یار ہوتا ہے
اسی کا نام چاہت ہے،یہی تو پیارہوتا ہے
بکھر جاتے ہیں سارے خواب پل میں ٹوٹ کر یارو
کسی کا گھر بنا کارن اگر مسمار ہوتا ہے
کہاں کہاں ہم نے ان کو ڈھونڈا
ملیں گے شاید وہ خواب ہی میں
فی زمانہ ہمارے شاعروں کی غزلوں کا پلّہ اس لئے بھاری نہیں ہے کہ یہ اکثر فن سے کم واقف ہوتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ آج بھی ان کی شاعری عظیم ہو سکتی ہے اگر ہمارے شعراء فن کا احترام کریں اورایسے قرینے کی شاعری کریں جو دلوں میں گھر کر لے۔ ایسی شاعری جس میں انسانی محبت و انس کا پیغام ہو،جہاں بھی وہ سنائیں ان کو سب کا سلام ہو۔ احمد نظیر کہتے ہیں
کام ہم نے کیا جو اچھا لگا زندگی صرف کی وفا کے لئے
ہمیں یقین ہے کہ نظیر کی شاعری آگے چل کر بے نظیر ہوگی۔ کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنی شاعری کو نیا روپ ،نیا رنگ وآہنگ دینے کی کوششوں میں کامیاب رہے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ ایک دن ان کی شاعری اردو شاعری کی زندہ و تابندہ روایت کی امین بن جائے گی۔ دیکھئے آپ کے یہ شعر جو میری اس بات کی تصدیق کرتے ہیں
بیٹوں نے پرورش کا یہ کیسا صلہ دیا
کر ڈالا قتل باپ کا جاگیر کے لئے
جسم مٹی کے نام کرتا ہوں قرض ہے مجھ پہ آب و دانے کا
دوستی پائی ہم نے مشکل سے دشمنی تھی جو ہاتھوں ہاتھ ملی
چھوڑنی ہوگی ہم کو یہ دنیا بس اسی شرط پر حیات ملی
موصوف کے ایسے ہی شعر ہمیں پڑھنے کوملتے ہیں جن میں زمانے کی سفّاکی اور اپنے عہد کی سچّائیاں جا بجا ملتی ہیں۔
غالبؔ جیسے مشکل پسند شاعر کے مصرعوں پر بھی احمد نظیر نے نہایت ہی عمدہ غزلیں کہی ہیں۔ کچھ شعر یہاں درج کئے جاتے ہیں
دل نہ ٹوٹے خدا کرے کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا کرے کوئی
کوئی بھگتے ، خطا کرے کوئی ایسی دنیا میں کیا کرے کوئی
باتوں باتوں میں رات کٹ جائے کوئی بولے سنا کرے کوئی
اور پھر یہ شعر
عمر بھر مجھ سے جو خفا نہ ہوا میرا سایہ تھا وہ ،جدا نہ ہوا
ایسا لگتا ہے بات کل کی تھی ہم کو بچھڑے ہوئے زمانہ ہوا
ان کے علاوہ اقبال، فیض،ساحر اور احمد فراز جیسے کہنہ مشق شعراء کی غزلوں کی طرحوں پر بھی انہوں نے غضب کی شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری میں خیال و اسلوب کا شاندار ارتقاء ہوا ہے۔ بدن کی جمالیات پر ہمارے شعراء نے مختلف زاویوں سے نقشے کھینچے ہیں۔ کوئی صنفِ نازک کے حسن کی لوچ میں کھو گیا تو کوئی اپنی مہ جبین کی گرمئی رخسار سے جل گیا۔ کوئی اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیرہو گیا۔ غرض ہمارے شعرائے قدیم میں بھی چاہے وہ غالبؔ و میرؔ ہوں یا فرا قؔ و امیرؔ، سب کے ہاں ْبدنیت ْ نہایت آب و تاب سے ابھری ہے۔مصحفی نے جسم کے نہاں خانوں کی اس طرح سیر کی ہے۔ کہتے ہیں
کون آیا تھا نہانے، لطفِ بدن سے جس کے
لہروں سے سارا دریا آغوش ہو گیا ہے
بدن کی شعلگی کا احساس میرؔ نے کس طرح کیا ہے، ملاحظہ ہو
ہائے لطافت جسم کی اس کے، مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تنِ نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں
نظیرؔ کے ہاں پہلے حسن کا تقدّس دیکھئے کیسے اجاگر ہوتا ہے
تو ہے اودھ کی شام بنا رس کی صبح تو نزدیک اور دور سے ہے کتنی خوبرو
آپ کے حسن کا جواب نہیں جیسی صورت ہے ویسی سیرت ہے
زلفوں کو آپ اپنی بکھر جانے دیجئے آنگن ہے سو نا سونا سنور جانے دیجئے
گھنی زلفیں، رسیلے لب، حسیں آنکھیں شراب آور
فدا ہو جائیں ہم جس پر، وہ صورت اور ہوتی ہے
یہ سچ ہے کہ شاعری میں اگر انفرادیت کی چاشنی نہ ہو تو وہ شاعر کی بقا کی ضامن نہیں ہوتی۔ احمد نظیر کی شاعری اس لئے قابلِ قدر ہوتی ہے کہ اس میں سادگی کے ساتھ ‘پر کاری ہوتی ہے، ساتھ ہی غضب کی جدّت طرازی بھی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کے موضو عات کا تنوع بھی دلوں کو چھو لیتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ معیار و وقار کو برقرار رکھا ہے۔
صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو نظیر نے اپنے قلم سے لفظ و معنی کے ایسے پیکر تراشے ہیں جنھیں دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں نظیرؔ نے پیارے پیارے شعر دئے ہیں۔ نمونتًا کچھ شعر ملاحظہ ہوں
کوئی دیکھا نہیں جنھیں اب تک بیٹیاں ہیں وہی جناب اپنی
شوق خطروں سے کھیلنے کا تھا زندگی سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے
ہم سے آگے نکل گئی دنیا دو گھڑی ہم نظیرؔ جو بیٹھے
کم یاب ہے خوشبو پھولوں کی سانسوں میں بسا بیکار نہ کر
پھوڑ ڈالی گئیں مری آنکھیں یہ صلہ ہے نظر ملانے کا
مان بھی لیں کہ وہ تھا ذمہ دار تم نے کیا خواہشِ گناہ نہ کی
بیٹی بھی ماں جیسی ہے ویسی خوشبو، جیسا پھول
مشکل کا حل دل سے پوچھ دے گا اچھی رائے دل
نظیرؔ کی شاعری کو پڑھ کرہمارے اعصاب میں نشّہ سا چھا جاتا ہے۔ انہوں نے زمانے کی ستم ظریفیوں اور معاشرے میں پنپتی نا ہمواریوں کا نقشہ اپنی شاعری میں یوں کھینچا ہے
جدھر آنکھ اٹھتی ہے صحرا کی لو‘ ہے تماشائے ظلم و ستم چار سو ہے
سہہ لوں گا ہر ستم کوبِنا کچھ کہے مگر پہلے پرانے زخم کو بھر جانے دیجئے
کسی کو یاد کرے گی نہ یہ صدا دے گی یہ کائنات ہر اک شخص کو بھلا دے
یار اہلِ ستم ہو گئے پھول کانٹوں میں ضم ہو گئے
گیا امن دنیا سے ،بم بولتے ہیں جدھر دیکھو ظلم و ستم بولتے ہیں
زندگی یوں بھی بھروسے کے مطابق کم تھی
سیج پھولوں کی ہو، کانٹوں کی ہو سونا ہوگا
ترسے گا خوشبوؤں کیلئے ایک دن ضرور
پیروں سے اپنے لالہ و گل جو مسل گیا
ایسے غرض پرست جہاں سے نہ دل لگا
رہبر کو لوگ بھول گئے رہبری کے بعد
ساحرؔ نے سچ کہا تھا
غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر
یہ شئے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کیلئے
زندگی کے تلخ و ترش حقائق کو نظیرؔ نے اپنی غزلوں میں بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ نظیرؔ کے دل سے نکلتی ہوئی آواز پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں کو تڑپا دیتی ۔ان کی زندگی میں بھی خوشی غم ، دھوپ چھاؤں اور اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ انہوں نے اپنے دل کی بے چینیوں کو شعر کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ کہیں ہجر و وصال کی باتیں ہیں تو کہیں دوستوں کی بے مروتوں کے قصّے۔ ملاحظہ ہوں یہ شعر
مجھے گِرا کے مرا گھر نہ کیجئے مسمار
ستون بن کے کھڑا ہوں میں سائباں کیلئے
بغیر غم کے خوشی کا مزہ نہیں آتا
بچھڑ کے ملنا ضروری ہے مہرباں کے لئے
ہم وفا کرتے رہیں گے تم جوچاہو وہ کرو
دوستی ہو،دشمنی ہو،سب ہمیں منظور ہے
وعدے کے مطابق آبھی جا اچھا ہوں، مجھے بیمار نہ کر
احمد نظیر کی شاعری مجھے اس لئے عزیز ہے کہ اس میں باہمی اتحادو ہم آہنگی اور بقائے دوام کا درس ہوا کرتا ہے۔ انہوں نے پامال موضوعات سے یکسر انحراف کیا ہے۔ ان کا شعور ہمہ گیر ہے جس میں بلا کی سنجیدگی ہوا کرتی ہے۔ اب ان کے یہ اشعار پڑھیئے اور دیکھئے کہ ان کے لفظوں کی کہکشاں کس طرح آپ کے ذہن و دل کو منور کرتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں کئی اچھی اچھی باتیں شاعر نے ہمیں بتائی ہیں۔ یقینًا ان کے کمالِ فن کی داد دینی چاہئے
میری آوارگی پہ مت جاؤ خوبیاں بھی ہیں بے حساب اپنی
دل کو ذرا سنبھال کے رکھنا مرے حبیب نیچے گِرا جو کانچ کاگلدان تو گیا
سب کے آگے وہ صفِ دشمن میں ہے جس پہ ہم نے ہر خوشی قربان کی
ہم نے یہ کب کہا راہبر چاہیے ہے سفر پیار کا، ہمسفر چاہیے
احمد نظیر کی شاعری پڑھ کر بارہا ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ یہ ساحرؔ لدھیانوی سے بے حد متاثر ہیں۔ ساحر ؔہی کی طرح نظیر اپنی شاعری میں خوبصورت اور معنی خیز لفظوں کے موتی رولتے ہیں۔ یہاں ساحرؔ ہی کی زمین میں احمد نظیر کے یہ تازہ کار شعر دیکھئے
ٹوٹے دلوں سے ہوتی ہے رغبت کبھی کبھی
دہراتی ہے کہانیاں قسمت کبھی کبھی
تصویر تھی وہ ایسی کہ زاہد نے چوم لی
سچ ہے بدل ہی جاتی ہے نےّت کبھی کبھی
اور پھر یہ شعر
چلا جاؤں گا کم سے کم تم اپنی شکل دکھلا دو
کسی سائل کو خالی ہاتھ رخصت یوں نہیں کرتے
کھلونا جان کر تم نے ہمارے دل سے کھیلا ہے
پرائی چیز پر جانم حکومت یوں نہیں کرتے
نظیر ؔکی شاعری میں سہل الممتنع کی جو خصوصیات ہیں ، جو اثر آفرینی اور جاذبیت اس میں ہوتی ہے ۔اس کی مثالیں ہمارے ہم عصر شعراء میں کم ہی نظر آتی ہیں۔ یہی امتیازی کیفیت ہے جو اوروں کے مقابل انہیں ممتاز رکھتی ہے۔ ان کی شاعری کی مضمون آفرینی اور تازہ خیالی نے ان کے تغزل کو نکھارا ہے، سنوارا ہے۔ شاعر نے جہاں اپنی شاعری میں روایتی حسن کو برقرار رکھا ہے وہیں نئے رنگ و آہنگ اورابلاغ کے جدید وسیلوں سے بھی معقول کام لیا ہے۔
احمد نظیر کی شاعری میں عام شاعروں کی طرح عشقیہ کیفیات و تجربات کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے جس کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ عشق کی آگ میں جلنے اور پگھلنے سے ان کی طبیعت میں جو گداز پیدا ہوا ہے وہ ان کی شاعری میں پوری طرح نمایاں ہوا ہے۔ ہم نے ان کی شاعری میں شدید جذباتیت دیکھی ہے اور جمال پرستی پورے شباب پر ہے۔ کہیں حسن و جمال کے تذکرے ہیں تو کہیں عشق و محبت کی خوبصورت داستانیں۔ اس ضمن میں احمد نظیر کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں
رکھیں گے ان کی یاد کو دل سے لگا کے ہم
ہاتھوں سے اپنے ان کا گریبان تو گیا
گلستاں چھوڑ کے جب آپ چلے جاتے ہیں
موسمِ گل کی جگہ دورِ خزاں ہوتاہے
کس طرح دن گیا پتہ نہ چلا دو گھڑی اور تم رہو بیٹھے
دیدارِ یار کر لئے تصویر دیکھ کر
ملنے کی ان سے جب کوئی صورت نہیں رہی
عشق ہونا تھا ہوا ہم کیا کریں ہو تو ہو دنیا خفا ، ہم کیا کریں
جان کر اس بے وفا کو دل دیا بھا گئی اس کی ادا ہم کیا کریں
نظیرؔ صحیح معنوں میں ایک زود گو شاعراور ذی حِس فنکار ہیں۔ ان کے لفظوں کی نقش گری ذہنوں میں روشنیاں بکھیر دیتی ہے۔
شاعری ویسے پڑھنے کو بہت ساری مل جاتی ہے لیکن بہت کم شاعری ایسی ہے جو وسیع المعانی ہوتی ہے۔ اس خوبی سے نظیرؔ کی شاعری مزےّن ہے جو معنی و مفاہیم کی کئی تہیں کھولتی ہے۔ ان کے کچھ اور شعرملاحظہ ہوں
ہر پل تو مرا ساتھ نبھانے کے لئے آ
بن جا مری پرچھائیں نہ جانے کے لئے آ
کہتے ہیں جسے عشق نہیں مفت کا سودا
پانا ہو مجھے، خود کو گنوانے کے لئے آ
یہ تھے احمد نظیر کے شعر احمد فراز کی غزلوں کی طرح پر ۔ اب کچھ جاں نثار اخترکی غزل سے متاثرہو کر بھی انھوں نے شعر کہے ہیں ۔ ملاحظہ ہوں
آنکھوں نے جو آنکھوں سے کہا راز رہے گا
کچھ باتیں زمانے سے چھپانے کے لئے ہیں
خوابوں کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا
تصویریں فقط یاد دلانے کے لئے ہیں
ہماری یہ فطرت رہی ہے کہ جس کی شاعری ہمارے دل کو چھو لیتی ہے ہم اس کی پوری شعری کائنات کی سیر میں لگ جاتے ہیں۔ جو شعر ہم کو اپیل کرتے ہیں ان کا تجزیہ پوری دیانت اور خلوص کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم نے نظیر صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ہمارا مجموعی تاثر بھی یہی ہے کہ ان کی شاعری ایک دن انھیں حیاتِ جاوداں بخشے گی۔