اشفاق اسانغنی
بیگم کے انتقال کے بعد بہت اداس رہنے لگا تھا میں، خاموش خاموش اور تنہا تنہا، بچوں نے دلجوئی کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔تھوڑے دنوں کے بعد آفس جانے لگا مگر وہاں بھی میرے اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ایک دن میں گھر سے آفس کیلئے نکلا اور گلی کے موڑ پر میری نظر اس دکان پر پڑی تو غیر ارادتاً پیر بریک پر پڑ گیا۔
ناصر صاحب کی بیوہ تھی اپنے بچوں کیساتھ رہتی تھی اور گھر کے ایک پورشن کو دوکان میں تبدیل کر کے اپنے اور بچوں کیلئے حلال رزق کا انتظام کر لیا تھا جہاں وہ بچوں کے کھیلنے کھانے کے سامان کیساتھ سگریٹ صابن وغیرہ بھی فروخت کرتی تھی، بچے اسکول ٹیم کے بعد ماں کا ہاتھ بٹانے کیلئے آ جاتے تھے اور آج بھی وہ اپنی بیٹی کیساتھ کام میں مصروف تھی، میں گاڑی سے اترا اور دوکان پر پہنچ گیا،
ـ ‘‘کیا چاہیے صاحب، ’’ اس نے پوچھا۔
‘‘مجھے مجھے مجھے، ’’ میں ہکلانے لگا کیونکہ مجھے تو کچھ چاہیے ہی نہیں تھا۔
جانے اس نے کیا سمجھا کہ سگریٹ کا ایک پیکٹ میرے آگے رکھ دیا اور میں بغیر کچھ کہے قیمت ادا کرکے چلا آیا ۔
اور پھر ایسا ہونے لگا کہ روزانہ گلی کے موڑ پر میرے پاؤں بریک پر پڑنے لگے اور میں نے جو زندگی کے اتنے سال بغیر تمباکونوشی کے گزارے تھے اب اس کا عادی ہونے لگا۔
ادھر کچھ دنوں سے وہ دکان پر نظر نہیں آ رہی تھی تو میری بیچینی بڑھ گئی میں دل کو سمجھانے لگا، کیوں اس عمر میں خوار کرانے پر تلا ہوا ہے لوگ کیا کہیں گے، اپنی اور اس کی عمر تو دیکھ مگر دل تھوڑی ماننے والا تھا اور زیادہ بیچینی بڑھادی اس نے یہ کہہ کر کہ لوگوں کا خیال ہے تمہیں اپنے دل کا نہیں، کیسے آدمی ہو!!؟
آج میں ٹھان کر دوکان پہنچا کہ ضرور اپنے دلی جذبات کا اظہار اس سے کروں گا۔
مگر آج میری حالت پہلے دن سے زیادہ غیر ہونے لگی، ماتھے سے پسینہ ٹپکنے لگا، ہاتھ پیر کانپنے لگے، دل نے کہا ہمت کر ہمت کر مگر میرے منہ سے اتنا ہی نکل سکا، باجی آج کل آپ کی بیٹی دکھائی نہیں دے رہی ۔
اس نے کیا کہا وہ تو میں سن نہ سکا لیکن اس نے جس نظر سے مجھے دیکھا اس سے تو میں نے خود کو زمین میں دھنستا ہوا ہی محسوس کیا۔
آجکل گلی کے موڑ پر بھی میرے پاؤں بریک کی جگہ ایکسلیٹر پر ہی رہتے ہیں۔