اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
اسلام مذہب امن ہے ۔ دنیا میں امن و سلامتی اسلام کا بنیادی مقصد ہے ۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے جو قوانین و ضوابط اسلام ہمیں دیتا ہے اُن میں ایک اہم خبروں کی تحقیق ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پیشمانی اٹھاؤ۔’’ (سورۃ الحجرات ۶)
‘‘اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پیشمانی اٹھاؤ۔’’ (سورۃ الحجرات ۶)
‘‘ہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اُسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول ﷺکے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ’’ (سورۃ النساء ۸۳)
نیز فرمان نبویﷺ ہے : ‘‘کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔’’ (صحیح مسلم5 )
دنیا میں اکثر انتشار اور فساد افواہ اور غلط خبروں پر ہی برپا ہوتے ہیں ۔ ایک دور تھا جب خبروں کی تحقیق کے لئے وقت ایک بہت بڑا مسئلہ تھا ،لیکن اب وہ بات نہیں رہی ، ذرائع ابلاغ کی زبردست ترقی نے ساری انسانی آبادی کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ کوئی بھی بات چاہے وہ کہیں سے بھی آئی ہو اگر صحیح جستجو اور طلب ہو تو آسانی سے تحقیق کے دائرے میں لائی جاسکتی ہے اور سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کیا جاسکتا ہے۔
آج مغربی اقوام اگر اتنی بلندی کو چھو رہی ہیں تو اس کی ایک وجہ ان کی ہر بات میں تحقیق اور جستجو کا مزاج ہے ۔ وہ کوئی بھی بات بغیر کامل تحقیق کے قبول نہیں کرتے ۔ اپنی ہر معلوم ذرائع سے وہ مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں ،( یہ اور بات ہے کہ سچ معلوم ہونے کے باوجو د کسی سیاسی ضرورت یا مجبوری کے تحت کبھی کبھار انہیں افواہوں اور جھوٹی خبروں پر بظاہر یقین کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے ، لیکن در حقیقت اس میں ان کی ایک شاطرانہ چال اور عیاری ہوتی ہے جس تک لوگوں کی نظریں کم ہی پہنچ پاتی ہیں)اور جب مسئلہ ان کے وجود اور بقا کا آجاتا ہے تو حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لئے تحقیق اور جستجو میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ یہی بات ان کی آبادیوں میں امن اور سلامتی کی ضامن ہے۔
لیکن ہماری سہل پسندی اور سستی ہمیں تحقیق اور جستجو کی طرف کم ہی لے جاتی ہے۔ ہم ہر بات پر چاہے وہ کسی بھی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہو ، فورا اعتماد کرلیتے ہیں کیونکہ اس سے ہماری اُس جذبے کو تسکین ملتی ہے جس میں ساری دنیا ہماری دشمن اور گمراہ ہے ، صرف ہم ہی حق اور راہ راست پر ہیں ، اس لئے ہر دوسرا آدمی ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ حیرت کی بات یہاں یہ بھی ہے کہ بغیر تحقیق کے ایسی خبروں کو اچھالنے کے نتیجے میں جو پریشانیاں ، ذلتیں اور درد ہمیں جھیلنی پڑتی ہیں اس کا ذمہ بھی ہم اپنے اُن نام نہاد دشمنوں کے سر تھوپ کر اپنی پیٹھ آپ تھپ تھپا لیتے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مومن اور مسلمان ہماری پہلی ذمہ داری یہی ہے کہ ہم خبروں کی مکمل تحقیق کرنے سے قبل اسے آگے نہ بڑھائیں اورنہ اس پر کوئی نتیجہ قائم کریں ، جب تک تحقیق مکمل نہ ہوجائے ہر قسم کی بد گمانی سے خود بھی بچیں اور اپنے کسی بھی طرز عمل سے اسے ہو ا بھی نہ دیں۔ لیکن اس معاملے میں ہمارا طرز عمل اتنا بے و قوفانہ اور تباہ کن ہے کہ اللہ کی پناہ، ہر خبر چاہے وہ ہم تک دشمنوں اور منافقوں کے ذریعے ہی کیوں نہ پہنچی ہو،پہلی فرصت میں اُسے دوسروں تک پہنچانا بے حد ضروری سمجھتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے چاہ