اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
ملک عجیب منظر نامہ پیش کر رہا ہے۔ پتہ نہیں مستقبلِ قریب اور بعید میں حالات کس اور کروٹ لیں گے۔ ایک طرف ملک کی اکثریت اپنے آپ کو منوانے کی ضد میں ترقی کے ہر راستے پر چابکدستی کے ساتھ دوڑے چلے جارہی ہے اور دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی ہم ، احساس کمتری کا شکار ،تنزل کی گہری کھائیوں کی طرف تیزی سے بڑھنے پر مجبور نظر آرہے ہیں۔ ان حالات کے لئے دوسروں کے سر الزام رکھنے سے پہلے ، اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اور مادی ترقی میں سب سے زیادہ پچھڑے شمار ہونے والے ہم، آج ان میدانوں کو چھوڑ کر جن لایعنی حرکتوں میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اس پر تھوڑا بھی غور کیا جائے تو بے حد افسوس ہوتا ہے۔ جہالت اور غربت دو ایسے خطرناک ا مراض ہیں جن کے شکاراپنے وقت سے پہلے ہی فنا ہوجاتے ہیں اور یہ دونوں خطرناک ا مراض ہم میں بری طرح ایک وبا کی صورت میں پھیل چکے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے مسیحا کہلائے جانے والے علماء اور دانشور حضرات اس کا تدارک کرنے کے بجائے، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے دوسرے امراض کو ہی اصل سمجھ کر اس کے علاج میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
تعلیمی اور روزگار فراہم کرنے کی سرگرمیوں میں ہمارے قائدوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں اپنی قیادت کے دعوے کو مضبوط کرنے لئے جذباتی نعروں کی ضرورت ہے اور ہم بھی جانتے بوجھتے ایسے ہی نعروں پر مجتمع ہونا پسند کرتے ہیں۔ بصیرت آمیز فکر اور طویل مدتی منصوبوں کے لئے نہ ہمارے پاس شعور ہے نہ ہمارے علماء اور دانشوروں کے پاس اس کے لئے وقت۔ تھوڑے پر قانع ہو جانے کی ہماری عادت اور سوچ ،طویل مدتی منصوبوں کی طرف ہمیں متوجہ ہونے نہیں دیتی۔ اگر کہیں سے اس طرز فکر کی کوئی آواز اٹھتی بھی ہے تو نقار خانے میں طوطے کی آواز کی طرح تھوڑے ہی وقفے میں گم ہوجاتی ہے۔ نہ ہم اس آواز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہ متوجہ ہونے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، الٹا ان پر مادیت اور دنیا پرستی میں مبتلا ہونے کے نعرے کستے ہیں، انہیں توکل کا پاٹھ پڑھانے لگ جاتے ہیں، اس کی وجہ سے جو لوگ ان مسئلوں کو لے کر کھڑا ہونے کا سوچتے ہیں وہ، مایوسی کی چادر اوڑھے اپنی راہ نکل جاتے ہیں۔
ہماری دلچسپی وقتی فائدوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کائنات کو جو خدا کی بنائی ہوئی اک حیرت انگیز چیز ہے، جس پر غور خوص کرنے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی دعوت اس کا خالق اپنے کلام میں جگہ جگہ دیتا ہے ، اسی کائنات کو مچھر کے پر سے زیادہ بے وقعت بتانے والے علماء و نام نہاد دانشوروں نے صبر اور قناعت کے حد سے زیادہ گھونٹ پلا کر ہمیں ایسا مد ہوش کر دیا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اُٹھانا تو دور خود اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر بھی ہم سوائے آنسو بہانے اور ماتم کرنے کے کچھ کہنے سننے اور کرنے کی تڑپ نہیں رکھتے۔
جب جاگو تبھی سویرا، ابھی بھی کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے، وقت کا دھارا ہمیں آواز دے رہا ہے، اس سے پہلے کہ جو بچا ہے وہ بھی کھو جائے ہمیں عمل کے میدان میں آنا ہوگا۔ ہر گلی ہر محلے میں ، ہر گاؤں اور ہر شہر میں ،ضلع اور صوبہ کے سطح پر ہمیں تعلیمی بیداری اور روزگار فراہمی کے مہم چلانے ہونگے ، اس کے لئے ہر فرد اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھ کر کام کرے، اپنے اطراف پائے جانے والے جہالت اور غربت کے ا مراض کو دور کرنے کے لئے جو ہوسکتا ہے وہ کرے ،اپنے قائدوں اور پہلے سے قائم اداروں کی طرف مت دیکھیں، وہ لوگ جو کر رہے ہیں انہیں کرنے دیں، خود سے ایک لائحہ عمل بنا کر ممکن ہو تو دو چار ہم خیال افراد کو جوڑ لیں اور قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر وہ کام کریں جس سے یہ موذی مرض ہمارے معاشرے سے ختم ہوجائیں۔ نقادوں اور بھپتی کسنے والوں کی بالکل پرواہ نہ کریں۔ انقلاب افراد برپا کرتے ہیں۔ قائد ین تو بس اس کے ثمرات سے فیض اٹھانے کے لئے بعد میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب ایسا ہوگا ، آپ میں کا ہر فرد اپنی گلی اپنے محلہ اپنے گاؤں اپنے شہر اپنے ضلع اپنے صوبے کی فکر لے کر اٹھے گا تو پھر ایک ایسا انقلاب آئے گا جس سے جہالت اور غربت پھیلانے والے موذی شیاطین کو فرار کی راہیں بھی نہیں ملیں گی اور وہ نیست و ناوبود ہوجائیں گے۔یوں ہم پر ایک ایسا سویرا طلوع ہوگا جس کی تابناکی سے نہ صرف ہمارا ملک روشن ہوگا بلکہ عالم میں بھی اس کی چمک مثالی قرار پائے گی۔