اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
انسانی معاشرے میں اختلافات کا پایا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ انسانی معلوم تاریخ سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جس میں انسانی معاشرے میں اختلافات سرے سے نہ پائے گئے ہوں۔ چاہے وہ مثالی سمجھے جانے والے ا دوار رہیں ہو ں یا تہذیب یافتہ ادوار، آپسی اختلافات سے معاشرہ کبھی آزاد نہیں ہوا۔ یہ انسانی معاشرے میں پائے جانے والا سب سے بڑا سقم ہے۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ شاہد ہے کہ جب لوگ اختلافات سے اوپر اُٹھ کر آپس میں چند بنیادی باتیں طے کر کے ان پر کامل اتحاد کے ساتھ اپنے معاشرے کی تشکیل کر تے ہیں وہ معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ اسلام کا دور اول یعنی دور پیغمبر ﷺ اور دور شیخین ؓ کواس کے مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ کلمہ کے بنیاد پر قائم اس معاشرے میں امن وا مان کا جو مظاہرہ ہوا وہ ہر دور کے لئے ایک نمونہ ہے۔ اور اس کے بعد جیسے جیسے یہ معاشرہ اس بنیاد کو حاشیے میں رکھ کر آپسی اختلافات کو اولیت دینے لگا، فساد اور بگاڑ کُھل کر سامنے آگئے، تلواریں بے نیام ہوگئیں، وہی لوگ جو دشمنان اسلام کے آگے کاندھوں سے کاندھا ملائے سینہ سپر کھڑے تھے خود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے، یوں ساری دنیا کے انسانوں کو اسلام کے سایہ ء عافیت میں لانے کا خواب دھندلاتا چلا گیا اور ہمیشہ کے لئے کھو گیا ۔
وہ دین جو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی خدا کی وحدانیت کو بنیاد بنا کرآپس میں ایک ہونے کی دعوت دیتا ہے، خود اس کے ماننے والوں کے ہاتھوں جس طرح خانوں میں بٹتا گیااور جس طرح ہر گروہ اپنے آپ کو ہی اصل بتا کر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا تے ہوئے ہر دوسرے کے خون کو خود پہ مباح قراردیتا رہا، یہ ایک خون رُلا دینے والی داستاں ہے ۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اپنی اس تاریخ سے سبق لئے بغیر اسی راستے پر گامزن ہیں ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک تباہی اور بربادی والا راستہ ہے۔
کلمہ ہمارا بنیاد ہے ، شایدہی کسی کو اس بات پر اختلاف ہو ۔ ہر وہ شخص جو مسلمان ہو نے کا دعویدار ہو ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقہ، گروہ ، جماعت یا مسلک سے ہو کیا اس کلمہ کا انکار کر کے مسلمان رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس کلمہ کے بنیاد پر ایک نہیں ہوسکتے۔ جب کافر ، مشرک اور ملحد، اپنے ہزار اختلاف کے باوجود اسلام دشمنی کے بنیاد پر متحد ہو سکتے ہیں تو حیف ہے ہم پر ، ہم اپنے اتنے بڑے مظبوط بنیاد پر بھی یکتائی کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ۔
کیامشرق کیا مغرب، آج ہم ہر طرف سے گھیرے جاچکے ہیں۔ ہمارا ہر اول دستہ یعنی ہمارے حکمران اور سیاسی رہنما باطل کے آگے اپنی شکست تسلیم کر کے ، اُس کے شرائط پر، اپنے آپ کو ،اُس کے حوالے کر چکے ہیں ۔ ہمارے نام نہاد علماء اور سرمایہ دار آپس میں گٹھ جوڑ کر کے اپنے مفاد اور وقتی فائدوں کے لئے ہر طرح سے ہمارا استحصال کر رہے ہیں۔ انہیں اسلام اور مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں، بظاہر وہ خود کو اسلام اور مسلمانوں کے پاسباں باور کراتے پھر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہی اس کے جڑیں کاٹ رہے ہیں ، اس کی بنیادوں کو کھوکلا کر رہے ہیں۔ اُنہیں اگر سچ میں کسی بات کی فکر ہے تو بس اپنے مسلک اوراپنے اکابرین کے عزت کی، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے نہ ان کے پاس کوئی منصو بہ ہے اور نہ وہ اس تعلق سے سنجیدہ ہیں۔
اب جو بھی کرنا ہے وہ ہمیں خود کرنا ہے۔ سب سے پہلے کلمہ کی بنیاد پر ایک ہونے کی کوشش کریں۔ مسلک ،جماعت اور فرقہ کے خول سے باہر نکل کر ہر کلمہ گو مسلمان کو اپنا سمجھیں۔ اختلافات اپنی جگہ ، اختلافات سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا ، بس اتنا کریں کہ اختلافات کو اپنی ذات تک محدود کر لیں۔ اس کی تبلیغ نہ کریں۔ جو بھی نام نہاد عالم ، مفتی اور دانشور اختلافات کو ہوا دیتا نظر آئے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ قرآن اور حدیث سے براہ راست اکتساب کی کوشش کریں۔
اگر ہم میں کا ہر فرد ان بنیادی باتوں پر عمل پیرا ہوجائے تو یقیں جانئیے ،اتحاد اور اتفاق کے دروازے ہم پر وا ہوتے چلے جائینگے اور اس کے برکات سے نہ صرف ہم اپنا کھویا ہوا وقارحاصل کر لیں گے بلکہ ہمیں ساری انسانی دنیا کو اسلام کے سایہء عافیت میں لانے کا خواب بھی مل جائیگا ، اور ان شاء اللہ پھراس کی تعبیر پانے میں بھی ہمیں دیر نہیں لگے گی ۔