Home » آدم اور حوّا کی کشمکش

آدم اور حوّا کی کشمکش

by Asangani Mushtaq Rafeeqi
0 comment

رئیس التحریر: مشتاق احمد

 

ہم جِس دور سے گذر رہے ہیں، کوئی مانے یا مانے،اِس دور کو سنوارنے میں بِل گیٹس اور ذُگربرگ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو جس آزادی کا نوجوان مرد اور عورتیں صدیوں سے انتظار کر رہے تھے، وہ دور اب ہمارے گھر دستک دے رہا ہے۔صدیوں سے بند ،بلند کوٹھیوں میں قید ، اِن نوجوان نسلوں کو اب ایک آزاد دنیا مل گئی ہے، جس میں کوئی سرحد کی قید نہیں۔ اب باآسانی چنئی کا ایک نوجوان سیکڑوں میل دُور بیٹھے امریکہ کے دوشیزاؤں سے دوستی کرسکتا ہے، اُن کے ساتھ رات بھر چیٹنگ کرسکتا ہے۔ اِس پر ماں باپ بھی روک نہیں لگا سکتے اور انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ بچّہ کیا کر رہا تھا رات بھر۔ ماں سمجھتی ہے بچہ رات بھر محنت کر رہا ہے۔ ہمارے اسکول و کالج کے بچے بچّیوں کا حال بھی اب ہاتھ سے بہت آگے نکل چُکا ہے۔

اِس دور کے مثبت فائدے بھی ہیں۔ بڑے بڑے بزنس، بڑی بڑی ڈیلنگس کمپوٹر یا موبائل کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ انسان کھربوں روپے اب اپنے ویلٹ میں جمع کرسکتا ہے، نکال سکتا ہے، دوسروں کو ٹرانسفر کرسکتا ہے۔یہ کیو آر کا زمانہ ہے۔آپ کی تنخواہیں مہینے کی پہلی تاریخ کو جھٹ سے مل جاتی ہیں۔گھر بیٹھے آپ لاکھوں ورک فرم ہوم میں کما سکتے ہیں۔پہلے زر و زیورات کا چوری ہونے کا ڈر تھا اب فون یا سسٹم کا ہیک ہونے کا ڈر ہے۔

اپنے بینک کے ایپ سے پیسے غائب ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے دبئی، مسقط، مکّہ مدینہ، جانا وہاں کام کرنا،زیارت و حج کرنا بڑا مشکل کام تھا۔برسوں انتظار کرنا پڑتا تھا ویزا حاصل کرنے کے لئے انٹرویو دینے کے لئے۔ ایجنٹ حضرات بڑی بڑی رقمیں لے کر بھاگ جاتے تھے۔بچّہ کیا کر رہا ہے،دبئی میں کام کرتا ہے، سعودی میں کام کرتا ہے، ایک فخر کی بات تھی۔دوست واحباب بھی طعنے دیتے تھے کہ بچّے کے دُور بھیجنے کا آپ کا دل کیسا آگیا۔ مہینے میں ایک چٹھی آتی تھی، پوسٹ مین بھی سعودی کا لیٹر دے کر ماں سے ٹپس لے جاتا تھا۔ گھر سونا سونا لگتا تھا، شادی شدہ بیوی بیوہ لگتی تھی۔مہینے میں ایک دو بار لینڈ لائن سے بات ہوتی تھی۔ اب عالم یہ ہے کہ سب کچھ آسان ہوگیا ہے، اگر دبئی کی نوکری پسند نہیں تو دوسرے خلیجی ملک یا سعودیہ جھٹ سے دوسرے کام پر جاسکتے ہیں۔ اب روز واٹس ایپ پر بیٹا ویڈیو کالنگ کرتے رہتا ہے۔ نئی نویلی دلہن بھی خوش، ماں کے پاس بھی ڈھیر ساری دینار و ڈالر جمع ہوجاتے ہیں۔اب مدینہ مکّہ جانا تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگیا ہے۔آپ اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں کئی حج کرسکتے ہیں اور کئی عمرے بھی۔ جب دُور کا یہ حال ہے تو اپنے گھر کا حال اور بھی نازک اور حیران کُن ہے کہ شاید ہی کوئی اب اِس نئی دنیا سے بچ سکے۔

اب انسان کو سیل فون کی شکل میں ایک بڑی اور وسیع دنیا مل گئی ہے، جس کا تصور آج سے پچاس اسّی سال پہلے کا انسان جانتا بھی نہ تھا،جس کے بغیر آج کا انسان ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔جس کے کارنامے آپ اِس سے پہلے ابنِ صفی کے ناولوں میں پڑھتے تھے۔ جن خیالات و اظہارات کو اپنے دل میں لئے انسان دبائے رہ سکتا تھا آج اُس کے اظہار کرنے کا وقت آگیا ہے۔اب یہی سیل فون آپ کو جنّت دلا سکتا ہے اور یہی آپ کو دوزخ میں ڈال سکتا ہے۔

آپ کی دنیا بنانے اور بگاڑنے میں یہی آلہ کافی ہے۔ اب انسان کو کسی عالم یا شیطان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ڈھیر ساری لاکھوں مذہبی کتابیں، خوبصورت طباعت کی ساتھ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ کسی بھی مذہب کی کتابیں اب آپ کے فنگر ٹِپس پر۔ کوئی بھی اپنے موبائل میں ڈاون لوڈ کرسکتا ہے،پڑھ سکتا ہے۔ بیانات سُننا ہو تو یو ٹوب پر کھربوں عالموں کے بیانات اپلوڈ کردئے گئے ہیں۔آپ کہیں بھی سفر میں ہوں، گھر پر فرصت میں ہوں تو کسی بھی عالم کے بیانات کو سُن سکتے ہیں۔بلکہ اب تو ہر ایک عالم کا اپنا ویب سائٹس ہے، ایپ ہے، خوبصورت آوازوں کے قرآت کے ایپس ہیں۔سب کو سُن سکتے ہیں۔

ذرا آج آپ ہماری نسلوں کو دیکھئے۔اب ہمارے نوجوانوں کے پاس وقت ہی کہاں ملتا ہے۔ صبح سے شام ورک فرم ہوم کرو اور دل بیزار ہوجائے تو ہوٹل چلے جاو، ٹائم پاس ہوجاتا ہے۔ فرصت ملے تو واٹس ایپ میں مشغول ہوگئے۔ اور چُھٹّیاں زیادہ مل جائے تو اُوٹی، ممبئی، دہلی ،چلے جاؤ،وہ بھی کار میں یا فلائٹ میں یا ٹرین میں۔ اِن سب اسفار کے پیشگی بُکننگ کرنی ہو تو پلے اسٹور چلے جاؤ، ہزاروں ٹراویل ایپس دستیاب ہیں۔ جب چاہے ٹکٹیں بُک کر والو۔ آپ کے پاس کار نہیں ہے کوئی بات نہیں اولا اوبر ٹیکسی کے ایپ ڈان لوڈ کرلو، گھر بیٹھے ٹیکسی آجائے گی۔

آج کے نوجوان نسل کے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔صبح سے رات میں بستر پر لیٹنے تک اپنی نظر موبائل سے نہیں ہٹتی۔ ایک دکان کھولے بیٹھا نوجوان ہے گاہک بھاؤ پوچھ رہے ہیں، یہ نوجوان موبائل کے کسی اور ایپ میں مشغول۔ شام ہوتے ہی شکایت یہ ہے کہ گاہک ہی نہیں آتے۔ کچھ دنوں بعد دکان بند ہوجاتی ہے۔ کل ایک ہوٹل کُھلتا ہے،بریانی کی شاندار دکان کُھلتی ہے۔شاندار افتتاح ہوتی ہے۔ بڑے بڑے منسٹر، بڑے بڑے مالدار شخصیت دُکان اوپننگ کا رِبّن کاٹتے ہیں۔ مہینہ دو مہینہ بھی نہیں ہوتا ہے، یہ دکانیں اپنے آپ بند ہوجاتی ہیں۔ہمارے ہاں اِس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔حال ہی میں صرف ایک ایکسرے مشین لگانے کے لئے بجلی کا کھمبا الگ سے بنوایا گیا، لاکھوں روپے خرچ کر کے دکان کو ڈیکوریٹ کیا گیا۔مگر یہ سب کر کرا کر آج پچھلے آٹھ دس مہینوں سے دکان بند پڑی ہے۔ ایک اور صاحب نے صرف جوتے بیچنے کے لئے لاکھوں روپے دکان پر خرچ کر ڈالے، اے سی مشین لگوائی گئی۔ شہر کے مشہور ہستی کو دکان کی اوپننگ کو بلایا گیا۔ مگر آج یہ دکان ویران پڑی ہے۔ فضول خرچ کرنے والوں کی ہمارے پاس لمبی لسٹ پڑی ہے۔گھر کے سامنے کی دیوار کا ڈیکوریشن اچھی طرح سے نہیں بنوایا ہے تو اس کو توڑو پھوڑو پھر لاکھوں روپے خرچ کرکے نیا بنوالو۔

ہمارے ہاں کے گھر کا ماحول بھی اب خطرے کی گھنٹی بجارہاہے۔یوٹوب کے کھانے، یوٹوب کے سیرئل، وقت ملا تو واٹس ایپ میں گروپ چیٹنگ، گروپ ویڈیو کالنگ۔اب ہماری عورتیں بھی کسی اور سے کم نہیں۔ خود ایکٹوا چلا لیتی ہیں۔ خود سودا سلف لے آتی ہیں۔ خود کپڑے سلانے کی دکان کھول لیتی ہیں۔اسکول کے بچیوں کے ڈرس بھی سِلواکر بیچتی ہیں۔ بچے بچیاں بھی ماما پاپا انکل کی بھاشا بول لیتے ہیں۔انگریزی فر فر بول لیتے ہیں۔ گیتا بائبل کے بول بھی انہیں یاد رہتی ہے۔عورتیں خود کھانے پکانے کے آرڈر لے لیتی ہیں، یہاں تک کہ بچّیوں کی شادی کے رشتے کی دکان بھی کھول لیتی ہیں۔

گھر کا عالم یہ ہے کہ مرد کو اب زیادہ دماغ لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر چیز کی قیمتوں کا ریکارڈ اب ہمارے ہمشیروں کے پاس رہتا ہے۔ کونسی دکان میں کیا ملتا ہے اُس کی کتنی قیمت ہے، کونسے ہوٹل میں کونسی چیز ٹیسٹی ہوتی ہے۔ یہ سب اِن کو پتا رہتا ہے۔ مرد اگر بھولے سے بھی کسی چیز کی قیمت زیادہ بتا دے تو گھر میں وآگ لگ جاتی ہے، تماشا بن جاتا ہے۔ لگتا ہے مرد حضرت زیادہ قیمت ادا کر یہ چیز لے آئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب مرد بھی عورت کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ کوئی بھی کام عورت کو پوچھے بغیر مرد کبھی نہیں کرتا۔پہلے مرغی کو پوچھ کر مصالحہ پیستے تھے آج زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔

الحمد لللہ اب گھروں کا ماحول سکون سے گذر جاتا ہے۔ نہ جھگڑا نہیں، نہ شکایت نہیں۔ اچھا سا موبائل مل جائے تو چودھویں کا چاند مل جائے۔ سارا دن واٹس ایپ، یوٹوب پر سرفنگ کرتے رہو۔ کام والی کپڑے باسن دھو لیتی ہے۔ اب گھروں میں ناشتوں کی جھنجھٹ ہی نہیں۔بنے بنائی اٹلی ڈوسے کے بیسوں دکانیں ہر گلی کے نکّڑ میں کھلی ہوئی ہیں وہ چوبیس گھنٹے آپ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ہائی وے پر ایک سے ایک ہائی ٹیک کے شاندار ہوٹلیں کھلیں ہوئی ہیں۔ سنڈیے ساٹر ڈے تو آرام سے وہیں گذر جاتا ہے۔ اب زندگی سے مزے گذر جاتی ہے۔

You may also like

Leave a Comment