وانم باڑی /29/نومبر(عبداللہ باشاہ)
شہر وانم باڑی سے شائع ہونے والا پندرہ روزہ پرچہ زبان خلق کی ویب سائیٹ کارسم اجراء ۸۲/نومبر کی شام بعد نماز مغرب مدیر اعلیٰ زبان خلق اسانغنی مشتاق رفیقی کے مکان بشیر آبادمیں عمل میں آیا۔ یاد رہے اس ادبی پرچے میں مختلف موضوعات پراصلاحی مضامین اورادبی صفحے پر افسانچے و غزلیات شائع ہوتے ہیں، اردو زبان وادب کو فروغ دینے کی خاطر گزشتہ ۹ سالوں سے یہ پرچہ مفت میں تقسیم ہورہاہے۔انجمن فروغ اردو کے بانی ڈاکٹر جی امتیاز باشاہ نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا۔ مدیراعلیٰ اسانغنی مشتاق رفیقی نے ویب سائیٹ کے تعلق سے مختصر سا تعارف بیان کیا۔”زبان خلق“ کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے بتایاکہ یہ پرچہ عوام میں روشن خیالی کو رواج دینا،حق بیانی عام کرنا، ہر قسم کی شدت پرستی کوکھل کر مخالفت کرنا، اختلافی مسائل کو مکالمے کے ذریعے مابین اتحادقائم کرنا، حق و صداقت کی تبلیغ کرنا، ملکی سطح پر مذہبی، سیاسی اور ذات پات کے تعصبات سے الگ رہ کر قومی اتحاد کو فروغ دینے کی کوشش کرناہمارے بنیادی مقاصد ہیں۔نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، سینئر صحافی اکبر زاہد، پی ایس عبدالباری مدیرملت نشان منزل، سید رضوان الحق عمری،گورنمنٹ قاضی ضلع ترپاتورسید عبدالرحمن صاحب نے مختصر تاثرات پیش کئے۔معروف سیاست دان ناصر خان صاحب، بشیر احمد، فاروق احمد،ٹی محمد خالد، عبدالکریم عارف، اصلپے امتیاز، ٹی کے مشتاق احمد،اعجاز احمد اسلم، سالار نعمت اللہ،اے پی اشفاق احمد، مودی الطاف احمد،ایم ایل نثاراحمدمحفل میں شریک رہے۔قارئین درجہ ذیل ویب سائیٹ اڈریس پر پرچہ آن لائن ملاحظہ کر سکتے ہیں (zaban-e-khalq.com)۔قلم کا رحضرات اپنے تاثرات اور مختصر مضامین zabanaykhalq@gmail.com پر روانہ کرسکتے ہیں۔آخر میں مولوی عبدالرحمن صاحب کی دعا اور مشتاق رفیقی کے ہدیہ ئ تشکر سے نشست برخاست ہوئی۔
نومبر 2023
انجمن خواتین اردو (تمل ناڈو) کے زیر اہتمام یوم اقبال – اردو ڈے نومبر 2023, کی رپورٹ
الحمد للہ انجمن خواتین اردو (تمل ناڈو) کے زیر اہتمام،12 نومبر 2023 منعقدہ یوم اقبال،اردو ڈے کا اجلاس کامیابی سے ہمکنار رہا۔
جلسے کی ابتدا قران پاک کی تلاوت سے ہوء۔انجمن کی سکریٹری ڈاکٹر غوثیہ سعیدہ نے مہمانوں کا استقبال کیا۔انجمن خواتین اردو کی بانی وصدر پروفیسر ڈاکٹر پروین فاطمہ سابق صدر شعبہء اردو، کوئین میریس کالج نے صدارتی کلمات پیش کی۔ انجمن خواتین اردو کے قیام کی مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اردو زبان کی ترویج واشاعت میں خواتین نہایت اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ نئی نسل کو اردو زبان سے آشنا کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارے دین،ہماری تہذیب اور تاریخ کے انمول خزانے اردو زبان میں موجود ہیں مزید انہوں نے کلام اقبال کی عظمت اور وقعت پر روشنی ڈالی۔
مہمان خصوصی محترمہ ڈاکٹر نسیم سعید صاحبہ سینئر گائنوکالجسٹ،پولس ہاسپٹل،چینئی نے خواتین کی تعلیم وتربیت کی اہمیت پر پر مغز تقریر کی اور اردو شعر وادب کے فروغ واشاعت پر کام کرنے کی جانب ترغیب اور توجہ دلائے۔
محترمہ فاطمہ مظفر صاحبہ پریسیڈنث IUML (ویمنس ونگ) اور کونسلر، ایگمور چینئی نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر روشنی ڈالی کہ خواتین اردو کی بقاوترویج کے لئے راہیں تلاش کریں اور ان راہوں پر گامزن ہونے کی سعی کریں۔ علامہ اقبال کی شخصیت کے انوکھے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوے ان کی شخصیت اور شاعری کی اہمیت کو واضح کیا۔ مزید انجمن خواتین اردو کی کارکردگیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اردو کی ترقی و بقا کیلئے ہمیں مل جل کر دامے، درمے، قدمے، سخنے انجمن کا تعاون کرنا ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے سر زمیں فلسطین کے دل دہلا دینے والے حالات کا بھی بیان کیا جسے سن کر سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
معزز مہمانان کی تقاریر کے بعد اردو کی طالبات جن میں ننھی بچیوں سے لے کر مدراس یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرس شامل تھیں انہوں نے علامہ اقبال کا کلام سنایا جسے سن کر حاضرین محفل خوب محظوظ ہوئے۔اس محفل میں خواتین کی کثیر تعداد شامل تھی۔
انجمن کی متحرک ارکان میں ڈاکٹر رشید النساء صاحبہ ڈاکٹر غوثیہ سعیدہ صاحبہ،محترمہ امتہ السعیدہ صاحبہ، محترمہ طاہرہ کمیل صاحبہ ڈاکٹر نکہت ناز، ثمینہ رضوان، ثمین فاضلہ فاطمہ کے علاوہ دیگر قلمکار وشاعرات و اساتذات نے اس محفل میں شرکت کی جن میں محترمہ ڈاکٹر صبا مصطفے صاحبہ، محترمہ سعدیہ خلیل صاحبہ، محترمہ کشور صفی صاحبہ،محترمہ چاند بیگم صاحبہ، استاذہ محترمہ ممتاز بیگم صاحبہ۔ محترمہ شمس النساء یاسمین صاحبہ، استاذہ امتہ البتول صاحبہ، استاذہ نور النساء صاحبہ،استاذہ ثریا بیگم صاحبہ۔استاذہ انجم أرا،استاذہ ساجدہ بیگم صاحبہ،استازہ رضیہ سلطانہ، محترمہ محمودہ بیگم، محترمہ کے۔خورشید بیگم،ڈاکٹر فیض النساء، شائمہ مسعود، یگانہ، معصومہ حیدر،عائشہ صدیقہ، نازیہ، شیخ تارہ وغیرہم شامل تھیں۔عائشہ صدیقہ کے ہدیہ تشکر کے ساتھ یہ خوبصورت محفل اختتام کو پہنچی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسانغنی مشتاق رفیقی
٭ آپ (لوگوں) نے ملک میں بہت ساری حکومتیں دیکھی ہیں، ہماری حکومت کی اولین پالیسی ہے کہ وہ محروم لوگوں کو ترجیح دے۔ بی جے پی کا منتر سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے۔۔۔ وزیراعظم نریندر مودی تلنگانہ میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے
صاحب جی! ذرا سنبھل کر!! ایک ہی جملہ کتنی بار دھراؤ گے!!
یہ جو پبلک ہے سب جانتی ہے یہ جو پبلک ہے
٭ بی جے پی کی قیادت کے ساتھ، مدھیہ پردیش ‘بیمارو’ سے ‘بے مثال’ ریاست میں بدل گیا اور ہم اس سفر کو جاری رکھیں گے۔ صحت کے شعبے میں ہم نے 20,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، آدیواسیوں کے لیے 3000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری اور ہر شعبے میں، بی جے پی مدھیہ پردیش کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔۔۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کا انتخابی منشور جاری کرنے کے بعد، مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا
پر عوامی سروے سے جو آنکڑے آ رہے ہیں وہ تو کچھ اور ہی کہانی بتا رہے ہیں منتری جی! خیر جو بھی ہے وہ دسمبر تین کو واضح ہوجائے گا! مگر ایک بات طے ہوگئی کہ سندھیا جی پکے بھاجپائی بن چکے ہیں!!!
٭کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ملک کے سیاسی ماحول کو بدل کر رکھ دیا ہے، اس کا اثر چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور راجستھان کے آنے والے انتخابات میں نظر آئے گا۔۔۔ کانگریس لیڈر جیرام رمیش
رمیش جی! ایک دو قلعے فتح کر لینے سے کچھ نہیں ہونے والا، 2024 جیت کر دکھاؤ تو جانیں!!
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
٭ جدہ میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں 57 ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل کی مذمت کے ساتھ ساتھ فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کی مذمت کی تو ایران نے اسرائیلی افواج کو دہشتگرد گروپ قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔۔۔ بی بی سی اردو
کچھ نہیں ہونے والا،اقتدار پرستوں کے ان مطالبات اور گیڈر بھپکیوں سے اسرائیل کے کان پر جوں بھی نہیں رینگے گی
یہ دکھ نہیں کہ زمانہ خلاف ہے میرے
یہ رنج ہے کہ مرا یار بھی منافق ہے
٭ مغربی دہلی میں چوروں نے سی سی ٹی وی کیمرے پر کالا پینٹ لگا کر اے ٹی ایم کو گیس کٹر سے کاٹ کر 5 لاکھ سے زیادہ کی رقم لوٹ لی۔۔۔ آئی اے این ایس
ایک دور تھا جب چوروں کا منہ سیاہ کر کے ان کا سرمونڈھ دیا جاتا تھا اب یہی چور کیمرے پر سیاہی پوت کر اے ٹی ام کاٹ کر چوری کر تے ہیں، یعنی آج کل ہر معاملے میں گنگا الٹی بہنے لگی ہے، ہیہات!!
٭ بی جے پی کے نو منتخب صدر کرناٹک بی وائی وجیندر(کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یورپا کے بیٹے) نے کہا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح آئندہ لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی جیت کو یقینی بنانا ہے۔۔۔ آئی اے این ایس
اس کا یہ بالکل بھی مطلب نہیں کہ بھاجپا پریوار واد کو بڑھاوا دے رہی ہے! بات بس اتنی سی ہے کہ راجہ کا بیٹا راجہ نہیں تو اور کیا بنے گا!!
٭ اگست دوہزار اکیس سے پاکستان میں مقیم تیس ہزار سے زائد افغانی جنہوں نے مغربی حکومتوں، نیٹو، بین الاقوامی اداروں اور افغان حکومت کے لیے کام کیا تھا کا شکوہ ہے کہ انہیں متعلقہ ممالک کی طرف سے خاطر خواہ معاونت نہیں مل رہی۔۔۔ اردو ڈی ڈبلیو
یعنی
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
٭ ذات پات کا سروے بہار اسمبلی میں رکھے جانے کے دوران جس طرح بی جے پی نے بحث میں حصہ لیا وہ مایوس کن تھا۔ صرف وہی لوگ جو ملک کے جمہوری ڈھانچے میں یقین نہیں رکھتے اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔۔۔ بہار کے وزیر شراون کمار
یہاں بات جمہوری ڈھانچے پر یقین کی نہیں اپنے ووٹ بینک میں دراڑ پڑ جانے کے خوف کی ہے، سمجھا کریں!
٭ کانگریس حکومت کے تحت چھتیس گڑھ میں بائیں بازو کی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو اسے 3-4 سال میں ختم کردیا جائے گا۔۔۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ
اور دائیں بازو کی انتہا پسندی میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اور رہی عوام کے تکالیف و مشکلات! وہ تو اسی کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔
٭غزہ میں مارے جانے والوں کی تعداد 11000 سے تجاوز کر گئی: وزارت صحت۔ مرنے والوں میں 4506 بچے اور 3000 سے زائد خواتین شامل۔ البراق اسکول پر تازہ اسرائیلی حملے میں کم از کم 20 مزید ہلاکتیں۔۔۔ بی بی سی اردو
ہائے افسوس! اتنا ظلم!! پھر بھی دنیا کے ایوانوں میں خاموشی!!!
ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے
٭ بارش نے قومی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کو نمایاں طور پر کم کرکے دہلی کے باشندوں کے لیے راحت فراہم کی ہے اور اس وجہ سے دہلی حکومت نے طاق-جفت اسکیم کے نفاذ کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ آئی اے این ایس
اسے کہتے ہیں قدرت کا کرشمہ، انسان کی لاکھ کوششوں پر قدرت کی ایک پھوار بھاری ہے، اس میں سمجھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں!
٭گھریلو ایل پی جی سلنڈر 450 روپے، گیہوں کی خریداری 2700 روپے فی کوئنٹل،مدھیہ پردیش انتخابات میں بی جے پی کے انتخابی وعدے۔۔۔ پی ٹی آئی
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
٭امریکی وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے اسرائیل۔حماس تنازع کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے چار روزہ دورے میں کشیدگی کو پھیلنے سے روکنے، فلسطینی شہریوں کے تحفظ اور غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی میں اضافے کے لیے علاقائی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔۔۔ یو ایس اے اردو
پہلے جنگ کی آگ بھڑکائی اور اب شہریوں کے تحفظ اور انسانی امداد کے نام پر ناکارہ غلاموں سے ملاقاتیں ہورہی ہیں، واہ منافقت کی بھی حد ہوگئی!!
٭سپریم کورٹ نے پنجاب کے گورنر پر ریاستی مقننہ کی طرف سے منظور کیے گئے بلوں کی منظوری روکنے پر سخت نکتہ چینی کی۔۔۔ آئی اے این ایس
جب تک صاحب کا ہاتھ سر پر ہے بھگوان بھی نکتہ چینی کر دے کوئی پرواہ نہیں، اور ویسے بھی
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
٭فضائی آلودگی جو ہندوستان میں سالانہ 1.6 ملین سے زیادہ اموات کی ذمہ دار ہے کے ساتھ جنگ، صحت عامہ اور ماحولیات کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ صرف پالیسیاں نہیں رویے تبدیل کریں۔۔۔ موسمیاتی ماہرین کاروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے
فضائی آلودگی پر موسمیاتی ماہرین کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں ٹھیک ہے لیکن فسطائی آلودگی جو اس سے بھی ذیادہ خطرناک ہے، اس پر کاروائی کا مطالبہ کون کرے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسانغنی مشتاق رفیقی
جُرعات
ارض فلسطین پر اسرائیل کی وحشت ناک بمباری شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ اب بہت تیزی سے زمینی کاروائی بھی شروع ہوچکی ہے۔ درحقیقیت یہ ایک طرفہ جنگ ہے جس میں ایک طرف جدید ہتھیاروں سے لیس ایٹمی ملک ہے، جسے امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی کھلی حمایت حاصل ہے جو ہر قسم کے قانون سے بالا تر ہو کر اپنی سیاسی عزائم کی تکمیل کے لئے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے پر آمادہ ہےاور دوسری طرف کئی دہائیوں سے اپنے ہی وطن کے ایک چھوٹے سے قطعے میں مبحوس نہتے انسانوں کا جتھہ ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، پتھروں اور زنگ آلود ہتھیاروں کے بل پر اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے ہزاروں ٹن بم برسا کر ایک ہنستے بولتے شہر کو زمیں دوز کر دیا گیا ہے۔ یہ بموں کی برسات فوجی ٹھکانوں پر نہیں بلکہ عام انسانوں کی رہائش گاہوں پر ان کے اسکولوں پر ان کے ہسپتالوں پر ہوئی جو ایک بد ترین جنگی جرم ہے۔ اس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان کے نیچے آگئے، ہزاروں بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان مرد، ملبوں میں دب کر شہید ہوگئے اور کئی زندہ درگور ہوگئے۔ حاملہ عورتیں سڑکوں پر وضع حمل کے لئے مجبور ہوگئیں اور ان کے نومولود بچے ننگے فرش پر بنیادی طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے آنکھ کھولنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں سوگئے۔ انسانی لہو کے چھینٹوں سے سڑکوں اور دیواروں کی رنگت بدل گئی۔ انسانوں کے ایک گروہ پر صرف اس لئے کہ وہ اپنی زمین پر آزادی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں بدترین ظلم و ستم اور غارت گری کے ایسے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ شیطان بھی شاید ششدر رہ گیا ہوگا، لیکن افسوس اس دردناک سفاکی کو دنیا بھر کے صاحبان اقتدار خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں۔ انسانی خون کی ایسی ارزانی ہے کہ وہ لوگ بھی جو ان مظلوموں سے علاقائی، نسلی اور مذہبی تعلق رکھتے ہیں مصلحت کے نام پر اپنی کرسی اور عیش و عشرت کی خاطر شترمرغ کی طرح منافقت کی ریت میں منہ ڈالے بیٹھے ہیں۔پتہ نہیں اس جنگ کا انجام کیا ہو گا ، لیکن جو بھی ہو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ نام نہاد ترقی اور انسانیت و امن کے آسمانوں کو چھونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود دنیا میں آج بھی اسی کی چلتی ہے جس کے پاس طاقت ہے یا جسے طاقتور کی حمایت حاصل ہے۔ طاقتور کا ہر گناہ ہر ظلم اس کی حکمت عملی اور نہتے کی ہر سچائی مظلومیت، بد ترین جرم ہے۔ طاقتور کو چاہے اس پر غلیل سے ایک پتھر ہی کیوں نہ پھینکا جائے فاسفورس بم جیسے خطرناک ہتھیار برسا کر بھی دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اس نہتے کو جس نے غلیل سے پتھر پھینکا اپنے اس جرم کی پاداش میں اس کے شہر کو مسمار کر کے اس کے اپنوں کا قتل عام کر کے اس پر اس کی ہی زمین تنگ کر کے اس کا ایسا حال کیا جائے گا کہ اس کی سات پشتوں تک کوئی پتھر تو دور ہاتھ سے کنکر چھونے کی بھی ہمت نہ کرے۔
ظلم چاہے کتنا بھی بڑھ جائے آخر ایک دن انصاف کے آگے سر نگوں ہوکر رہے گا اور ظالم چاہے اپنی جیت پر کتنا بھی گھمنڈ کر لے اسکا انجام برا ہی ہوگا اور اسے اپنے کرموں کا حساب دینا ہی ہوگا۔ قدرت جب خاموش تماشائی بن جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مظلوم کی آہ و بکا بیکار جارہی ہے۔ خدا کی رسی کا ڈھیلا ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنے اصل کی طرف کھینچی جانے والی ہے۔ رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو اس کے انجام میں روشن سویرا پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لئے حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ فلسطین میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے تناظر میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھنا ہے کہ ان کے غم میں نڈھال ہوکر سینہ کوبی کرنے والے ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے والے اور مسجدوں میں رو رو کر ان کے لئے دعا کرنے والے ہم،ہمارا اپنے ماحول میں اپنے لوگوں کےساتھ اپنے شب و روز میں رویہ کیسا ہے۔ ہم اپنے اعمال اور کرتوتوں سے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں یا اسرائیل کے ساتھ ۔
جہاں تک ہمارا اپنا حال ہے ہر جگہ بظاہر ہم کتنے ہی مسلکوں فرقوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آتے ہوں لیکن حقیقت میں ہم میں دو ہی گروہ ہوتا ہے۔ پہلا گروہ ہمارے درمیان موجود اقتدار کے دائروں جیسے مسجدوں، درگاہوں، خانقاہوں، مدرسوں، اسکول و کالج، فلاحی ،سیاسی اور اصلاحی جماعتوں پر قابض سرمایہ داروں کا ہے جو عرف عام میں عمائدین کہلاتے ہیں اور دوسرا عوام کا۔ ہم میں کا پہلا گروہ چاہے کوئی کتنی بھی تاویل پیش کر لے اس کا طرز عمل آج اسرائیل والا ہی ہے۔ موجودہ حالات میں یہی گروہ فلسطین پر سب سے زیادہ آنسو بہانے اور اس کی حمایت میں صف اول میں ہونے کا دعویدار ہے۔ ہر دو ایک دن میں جلسے جلوس اور احتجاج منعقد کرا کر عوام کے جذبات کا استحصال کرنا یہ خوب جانتا ہے اور اس طرح عوام کے درمیان یہ اپنی نیک نامی کا بھرم رکھنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن در حقیقت اپنی عملی زندگی میں یہ اسرائیل ہی کے طرز پر اپنے مفاد اور مطلب کے لئے نت نئے قانون وضع کرکےجس طرح فلسطین میں اس کے حقیقی باشندے اجنبی بنا دئے گئے اسی طرح عوام اور خاص کر انہیں جو اس پر سوال کھڑے کرتے ہیں اپنے اقتدار کے دائروں میں آنے سے روک دیتا ہے اور پھر ان کے خلاف غلط پروپگنڈا کر کے معاشرے میں الگ تھلگ کرا دیتا ہے۔ جس طرح اسرائیل اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے تاریخ اور تاریخی حقائق کو مسخ کر نے سے بھی نہیں چوکتا اسی طرح یہ اپنی انا، ضد اور کرسی کے گھمنڈ میں تاریخی حقائق کو توڑنے موڑنے اور ایسا بیانیہ تیار کرنے سے بھی نہیں چوکتا جن میں کچھ تاریخی شخصیتوں کو صرف اس لئے نظر انداز کردیاجاتا ہے کہ ان کا تعلق اس پر سوال کھڑے کرنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ صہیونیت کے خلاف گھنٹوں بولنے والے یہ عمائدین اسرائیل کے طرز پر اقتدار اور اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے سے نہیں چوکتے۔ جس طرح اسرائیل اپنے کالے کرتوتوں اور ظلم کو امن اور انصاف کے خوشنما الفاظوں میں پیش کرتاہے اسی طرح یہ اپنے شنیع افعال اور مفاد پرستانہ کارناموں کو طریقہ کار کا اختلاف اور دوراندیشانہ مصلحت کے غلافوں میں پیش کرتےہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فلسطین پراسرائیل جس بھیانک ظلم و ستم کو جاری رکھے ہوئے ہے اس کی کوئی بھی توجیہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اسرائیل کو اس قتل عام کا ایک نہ ایک دن حساب دینا ہی ہوگا اور وہ دن بہت ہی قریب ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے دنیا میں حکومتیں کفر و الحاد کے ساتھ تادیر چل سکتی ہیں لیکن ظلم کے ساتھ ان کی عمرکبھی طویل نہیں ہوتی۔ اس پس منظر میں یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اپنے معاشرے میں بھی ایک گروہ بالکل اسرائیل ہی کے طرز پر اقتدار اور چودھراہٹ قائم رکھنے کی خاطر ہر قسم کے زبانی اور فعلی ظلم و ستم کو جائز رکھے ہوئے ہے اور خود کو معصوم ثابت کرنے کے لئے عوام کے آگے فلسطین کی حمایت کا ڈھونگ رچاتا رہتا ہے۔ ایسے میں ان منافقین سے بچنا اور اپنے معاشرے کو ان کے کرتوتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا پہلا فرض بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
سخت مشکل میں ہوں خطرے میں جان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
آگے پیچھے بھنور ، سر پہ طوفان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
آپؐ شمس الضحیٰ ، آپؐ بدالدجیٰ، آپؐ ہی کے لئے سارا عالم بنا
آپؐ کاہر عمل کیا ہے قرآن ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
فکر و فن کی ہے سب آگہی آپؐ سے، علم و حکمت کی ہے روشنی آپؐ سے
آپ ؐ کے نور ہی کا یہ فیضان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
آپؐ کے دم سے عرفان مجھ کو ملا ، ایک ہے سب کا رب ، یہ پتہ چل گیا
آپؐ ہی سے ہے، جو میری پہچان ہے،یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
میں پشیمان اپنے گناہوں پہ ہوں ، آپؐ سے التجا کس زباں سے کروں
آپؐ جود و سخا ، میرا ایمان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
خود بھی شدت پرستی سے رسوا ہوا، دین کو بھی کہیں کا نہ رہنے دیا
اس خطا پر مرا دل پشیمان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
میں رفیقی ہوں ادنا غلام آپؐ کا ، کچھ نہیں چاہئے مجھ کو اس کے سوا
آپؐ پر جان دے دوں یہ ارمان ہے، یا نبیؐ میرے حق میں دعا کیجئے
کے۔ احسان احمد، وانم باڑی
الحمدللہ وانم باڑی میں 68 سے زیادہ مساجد موجود ہیں جن میں آج بھی چھ قدیم مساجد ایسی ہیں جن کی عمارات پر کتبے موجود ہیں ان کتبوں میں ان مساجد کی سنِ تعمیر کے علاوہ ان مساجد کی تعمیر کے تعلق سے دوسری معلومات بھی موجود ہیں یہ کتبے عموماً مسجد کے محراب کے اوپر کندہ ہیں ان چھ کتبوں میں پانچ کتبے ایسے ہیں جس میں قطعاتِ تاریخ فارسی میں لکھے گئے ہیں اور ایک کتبہ میں قطعہئ تاریخ اردو میں لکھا گیا ہے۔ ان مساجد کے نام یہ ہیں:
۱۔ مسجد پرانی گلی (نیلیکھیت)
۲۔ مسجد وجندرم
۳۔ مسجد تٹی پٹرہ (مسلمپور)
۴۔ مسجد قلعہظط
۵۔ مسجد نئی گلی (نیلیکھیت)
۶۔ مسجد اعظم (بڑی پیٹ)
۱۔ مسجد پرانی گلی (نیلیکھیت) کا کتبہ:
بہر خدا بنا ہوا یہ بقعہئ ہدا تا صدق دل سے سجدہئ حق اس میں ہو ادا
سال بِنا کی فکر میں تھا نا کہاں بذا ہاتف سے آئی بول کہ یہ خانہئ خدا
۶۷۲۱ھ
اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌلِلْعٰلَمِینَ
۵۷۲۱ھ
مقبول و احسن مسجد نینا محمد قاسم است
۵۷۲۱ھ
ترجمہ: خدا کے واسطے (عبادت کے لئے) یہ ٹکڑا (زمین کا) ہدایت کی بنیاد بنا تاکہ سچے دل سے اس میں سجدہئ حق ادا کیا جاسکے۔ بنیاد کی سال کی فکر میں تھا کہ اچانک نِدا ہاتف کی آئی کہ بول یہ خانہئ خداہے۔مقبول اور احسن مسجد نینا محمد قاسم کی۔ نوٹ: ہاتف وہ فرشتہ ہے جسکی آواز سنائی دے مگر خود پردے میں رہے۔
دوسرا مصرعہ عربی میں ہے اور باقی کے پانچوں مصرعے فارسی میں ہیں۔ عربی کا یہ مصرعہ اصل میں قرآن کی آیت ہے جو قرآنِ مجید میں چار جگہوں پر آتی ہے۔ سورۃ الانعام آیت نمبر 90، سورۃ یوسف آیت نمبر 104، سورۃ صٓ آیت نمبر 87اور سورۃ التکویر آیت نمبر 27۔ چوتھے مصرعے کے الفاظ ”خانہئ خدا“ سے 1276ھ کی تاریخ نکلتی ہے اور آخر کے دو مصرعوں سے 1275ھ کی تاریخ نکلتی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر 1275ھ اور 1276ھ یعنی 1858ء اور 1859ء میں ہوئی ہے۔ اس کتبہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر جناب نینا محمد قاسم صاحب نے کی تھی۔
۲۔ مسجد وجندرم کا کتبہ:
بنا کر دیک تاجر ذی کرم چواین مسجد خوشنما بیمثال
فلکؔ سال اتمام تعمیر او بگفتا – چہ طاعتگہ ذوالجلال
۴۱۳۱ھ
ترجمہ: ایک مہربان تاجر نے اس خوبصورت اور بے مثال مسجد کی بنیاد رکھی (تعمیر کی)۔ اس کے مکمل ہونے کی تاریخ فلکؔ نے کہی ”خدا وند کریم کی عبادت کی کیا خوب جگہ ہے“۔
اس مسجد کی قدیم تعمیر 1314ھ یعنی 1896ء میں اور جدید تعمیر 1438ھ یعنی 2016ء میں ہوئی ہے۔ یہ قطعہئ تاریخ جس شاعر نے لکھا ہے ان کا تخلص فلک تھا اور اس مسجد کی تعمیر کسی تاجر نے کی تھی۔ حال میں جب اس مسجد کی تعمیرِ نو ہوئی تو اس کے پرانے کتبہ ہی کو کندہ کیا گیا۔
۳۔ مسجد تٹی پٹرہ (مسلمپور) کا کتبہ:
شکر خدا ایں زماں بیتِ خدا شد بِنا یافت زانوارِحق رونق و تزئیں کمال
ہاتفِ غیبم چنیں از سرِ اخلاص گفت سجدہ گہِ مومناں بارگہِ ذوالجلال
۴۱۳۱ھ
ترجمہ: اللہ کا شکر ہے کہ اس زمانے میں اللہ کے گھر (مسجد) کی بنیاد پڑی۔ انوارِ حق (خدا کے فضل و کرم سے) اس کی رونق اور خوبصورتی کمال کو پہونچی۔ ہاتفِ غیب از روئے اخلاص مجھے کہا ”خداوند کی بارگاہ مومنوں کی سجدہ گاہ ہے“۔
اس مسجد کی تعمیر 1314ھ یعنی 1896ء میں ہوئی ہے۔ یہ اشعار جناب اسمٰعیل سیٹھ مغمومؔ صاحب کے لکھے ہوئے ہیں جو ان کے مجموعہئ کلام ”کلیات مغمومؔ“ میں بھی شامل ہیں۔ جناب مدیکار محمد غوث صاحب کی فرمائش پر جناب خطیب قادر بادشاہ صاحب بادشاہؔ نے بھی اس مسجد کی تعمیر پر مندرجہ ذیل قطعہئ تاریخ لکھا ہے جو ان کی کتاب ”گلزار بادشاہ“ میں شامل ہے۔
زہے خوشنما گشت تعمیر مسجد بگوید ہر اہل نظر اللہ اللہ
چنین گفت تاریخ اتمام ہاتف عبادت گہ نیک تر اللہ اللہ
۴۱۳۱ھ
ترجمہ: کیا خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے ہر اہلِ نظر نے کہا اللہ اللہ۔ ہاتف نے اسکے مکمل ہونے کی تاریخ اس طرح کہی ”اللہ اللہ کیا خوب تر عبادت گاہ ہے“
۴۔ مسجد قلعہ کا کتبہ:
خوشا تعمیر این فرخندہ مسجد بفضل حق گرفتہ حُسن اتمام
سَن ازروئے ادب ہاتف بگفتا معظم سجدہ گاہ اہل اسلام
۷۱۳۱ھ
ہذا بیتُ اللہ العُلا اللہ اللہ چہ مسجد خوب است
۶۱۳۱ھ ۶۱۳۱ھ
ترجمہ: اس بہتر مسجد کی تعمیر خدا کے فضل سے بہتر طریقہ سے مکمل ہوئی۔ ہاتف نے بلحاظِ ادب اسکی تعمیر کا سن کہا ”اہلِ اسلام کی معظم سجد گاہ ہے“۔ یہ اللہ کا گھر اعلیٰ ہے۔ اللہ اللہ کیا خوب (پیاری) مسجد ہے
اس کتبہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس عمارت کی تعمیر 1316ہجری اور 1317ہجری میں ہوئی جو کہ 1898عیسوی اور 1899عیسوی ہے۔ یہ اشعار وانم باڑی کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر جناب خطیب قادر بادشاہ صاحب بادشاہؔ نے حاجی عبدالصمد صاحب کی فرمائش پر لکھے تھے جو ان کی کتاب ”گلزار بادشاہ“ میں بھی شامل ہیں مسجد قلعہ کے قبرستان میں جناب حاجی عبدالصمد صاحب کے والد جناب حاجی سعید حسین صاحب کی قبر پر موجود کتبہ میں ان کی سنِ وفات 1297 ھ یعنی 1879ء لکھی ہوئی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسجد قلعہ کی جو عمارت آج ہم دیکھتے ہیں اس سے پہلے بھی کوئی عمارت موجود تھی جسے شہید کرکے اس عمارت کو تعمیر کیا گیا ہے۔
۵۔ مسجد نئی گلی (نیلیکھیت) کا کتبہ:
شکر للہ نئی گلی میں نئی خوب مسجد بنی ہے عالیشان
سال تعمیرمُلہم دل نے کہدیا – خانہئ خدائے جہان
۰۳۳۱ھ
اس کتبہ میں قطعہئ تاریخ اردو میں لکھا ہوا ہے۔ مُلہم کے معنی ہیں ”الہام کیا گیا“۔ اس مسجد کی تعمیر 1330ھ یعنی 1911ء میں ہوئی ہے۔
۶۔ مسجد اعظم (بڑی پیٹ) کا کتبہ:
این جماعت مسجدِ نامی برائے مومنین شد بنایش از بہی خواہانِ مستحسن نژاد
بہر تکمیلش سروش غیب ہجری سال گفت احسن و اطہر بنیاد خانہ رب العباد
۶۶۳۱ھ
ترجمہ: اس جماعت نے مومنین کے لئے اس نامی مسجد کی بنیاد رکھی اور وہ لوگ (بنیاد رکھنے والے) بہتری چاہنے والے اور قابلِ تعریف فرقہ (جماعت)سے تعلق رکھتے تھے۔اسکی (مسجد کی) تکمیل پر پیغام دینے والے فرشتے نے ہجری سال میں کہا ”عبادت کئے جانے والے رب (خدا) کا یہ بہتر اور پاک گھر ہے“۔ نوٹ: سروش وہ فرشتہ ہے جو غیب میں رہتے ہوئے پیغام رسانی کرے۔
اس مسجد کی تعمیر 1366ھ یعنی 1946ء میں ہوئی ہے۔
وانم باڑی میں اور بھی کئی مساجد موجود ہیں جو سو سال سے بھی زیادہ پرانی ہیں مثلاً جامع مسجد (نیلیکھیت)، مسجد قدیم (مسلمپور)، مسجد سادات (مسلمپور)، مسجد پدور، مسجد قادرپیٹ، مسجد عزیز خان بہادر (بڑی پیٹ)، مسجد اہل حدیث (بڑی پیٹ)، مسجد قدیم (جعفر آباد)، مسجد جدید (جعفر آباد)، مسجد مٹپالہ (جعفر آباد) وغیرہ۔ تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا ان مساجد کی پرانی عمارتوں میں کوئی کتبے موجود تھے؟ جس سے ان مساجد کی سنِ تعمیر اور دیگر تفصیلات معلوم کی جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔